مختلف اور قدیم مذاہب میں حجاب سے متعلق بعض معلومات اور حقائق

حوزہ / خواتین کے لیے حجاب اور پردہ صرف دینِ اسلام سے مخصوص نہیں بلکہ یہودیت، عیسائیت اور زرتشتی سمیت دیگر قدیم ادیان میں بھی موجود رہا ہے۔ تاریخی منابع اور مذہبی متون مختلف معاشروں اور ثقافتوں میں حجاب کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، یہ سوال کہ آیا حجاب فقط دینِ اسلام سے مخصوص ہے یا دیگر ادیان میں بھی اس کی بنیاد موجود ہے، ایک اہم تاریخی اور اعتقادی سوال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی معاشروں کی تاریخ میں لباس اور پردہ ہمیشہ ثقافتی اور فطری اقدار کا حصہ رہے ہیں۔

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حجاب اور لباس کا اصل تصور "خواہ مردوں میں ہو یا عورتوں میں" ایک فطری اور تقریباً عالمی قدر ہے۔ اسی لیے تقریباً تمام انسانی معاشروں میں برہنگی کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور انسان لباس اور پردے کا اہتمام کرتا ہے۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ پردے کی حد اور کیفیت کیا ہو، نہ کہ اس کی اصل ضرورت میں۔

قدیم آثار اور ادیان میں حجاب کے شواہد

یونانی تہذیب: بعض تاریخی منابع کے مطابق، ایتھنز (یونان) کے مرد عورتوں کو آزاد نہیں چھوڑتے تھے۔ عورتیں صرف مذہبی تقریبات یا خاص مواقع پر مکمل پردے اور نگرانی میں شریک ہو سکتی تھیں، بصورت دیگر وہ اپنے مخصوص گھریلو حصے (حرم سرا) میں رہتی تھیں جہاں کسی مرد کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ (ترجمه تاریخ تمدن(ویل دورانٹ)، ص 893-894)

یہودیت: بعض رپورٹس کے مطابق، یہودیت میں خواتین کے پردے پر سختی سے عمل ہوتا تھا۔ اگر کوئی عورت بغیر سر ڈھانپے باہر جاتی یا بلند آواز میں بات کرتی کہ دوسرے اسے سن سکیں تو شوہر کو حق حاصل ہوتا کہ وہ بغیر مہر دیے اسے طلاق دے دے۔ (ترجمه تاریخ تمدن، ص ۲۰۴۵؛ مجموعه آثار، ج ‏۱۹، ص ۳۸۵)

زرتشتی مذہب: بعض منابع کے مطابق، زرتشت کے زمانے اور اس سے پہلے و بعد میں ایرانی خواتین مکمل حجاب رکھتی تھیں۔ البتہ ویل ڈیورانٹ کے مطابق، زرتشتی معاشرے میں خواتین کو عزت و آزادی حاصل تھی مگر اس کے باوجود معاشرے میں حجاب کی سختی رائج تھی، یہاں تک کہ شوہر دار عورت کو اس کے باپ یا بھائی کے لیے بھی نامحرم شمار کیا جاتا تھا۔ ((ترجمه تاریخ تمدن(ویل دورانٹ)، ص 305)

مسیحیت میں حجاب: مسیحی خواتین کے لباس کے انداز سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسیحیت میں حجاب ایک عام اور رائج عمل تھا۔

مشہور مورخ "ویل دورانٹ" لکھتے ہیں:

"خواتین کو مذہبی محافل میں شامل ہونے کی اجازت تھی اور انھیں ثانوی کرداروں میں اہمیت اور مقام بھی حاصل تھا لیکن کلیسا نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ عاجزانہ اور فرمانبرداری کے ساتھ زندگی گزاریں تاکہ مشرکین کے لیے باعثِ شرم بن سکیں۔ ان کا عبادت میں بغیر حجاب شرکت کرنا ممنوع تھا کیونکہ ان کے جسم خصوصاً ان کے لمبے بالوں کو فتنہ انگیز سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ فرشتے بھی ممکن تھا نماز کی ادائیگی کے دوران ان کے بال دیکھ کر عبادت سے باز رہیں۔" (ترجمه تاریخ تمدن، ص ۱۶۳۱، فصل بیست و هشتم، گسترش کلیسا)

وہ مزید لکھتے ہیں:

"معزز خواتین لمبا کاٹن کا لباس پہنتی تھیں، جس کے اوپر ایک اور لمبا لباس ہوتا جس کے کنارے پر فر کی سرحد ہوتی اور وہ پاؤں تک آتا۔ اس کے اوپر وہ ایک نیم تنه پہنتی تھیں جو خلوت میں ڈھیلا ہوتا اور اجنبیوں کے سامنے بندوں کے ذریعے بدن سے چپکا ہوتا تھا۔" (ایضاً: ص ۲۵۰۷)

قرآنی نقطۂ نظر سے آغازِ خلقت میں حجاب

قرآن کریم حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کے واقعے میں حجاب کا آغاز یوں بیان کرتا ہے:

"فَدَلاَّهُما بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما وَ طَفِقا یخْصِفانِ عَلَیهِما مِنْ وَرَقِ الْجَنَّة..."

"پس (شیطان) نے انہیں دھوکے سے بہکا دیا اور جب دونوں نے اس درخت کا پھل چکھا تو ان کی شرم گاہیں ان پر ظاہر ہو گئیں اور وہ جنت کے پتوں سے انہیں چھپانے لگے۔" (اعراف: ۲۲)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ستر پوشی کا جذبہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔

نتیجہ:

اسلام نے حجاب کو جس حکمت اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر ادیان میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں تھی۔ تاریخی اور مذہبی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ پردہ ہمیشہ انسانی فطرت اور مذہبی تعلیمات کا حصہ رہا ہے، خواہ اس کی صورت مختلف رہی ہو۔

مآخذ: اسلام کوئسٹ

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha