حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، جامعۃ الزہرا (س) کی استاد محترمہ ریحان حقانی نے حجاب سے متعلق سوالات و شبہات کے سلسلہ میں "صدرِ اسلام کی تاریخ میں خواتین کا پردہ" کے عنوان پر منعقدہ ایک خصوصی ریڈیو پروگرام میں کہا: اگر ہم حجاب کے مسئلہ کو پوری طرح اور واضح طور پر بیان کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں معاشرے میں ثقافتی اور لباس پہننے کی کیا صورتحال تھی۔ پھر یہ دیکھیں گے کہ آیا ہمارا حجاب اس دور کے حجاب جیسا ہونا چاہیے یا نہیں۔
انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ آزادی کا مطلب مختلف انداز سے رہنا سمجھتے ہیں اور فکر کرتے ہیں کہ آزادی کا مطلب پابندیوں اور برہنگی سے آزادی کا نام ہے، حالانکہ آزادی کا یہ مفہوم انسانی عقل و شعور کے بھی خلاف ہے۔
محترمہ ریحان حقانی نے مزید کہا: میں نے حجاب کے سلسلہ میں ان تمام الفاظ اور عنوانات کا استخراج کیا ہے جو دورِ جاہلیت اور صدر اسلام کے متون میں ہر قسم کے حجاب اور پردے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: زمانۂ جاہلیت میں جب اسلام سرزمین حجاز اور عرب میں داخل ہوا تو اس وقت کے لوگوں میں بھی بے حجابی اور برہنگی کا کلچر عام نہیں تھا اور تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت حجاز میں عورتیں امیر سے غریب تک مختلف سطح پر معاشرہ میں موجود تھیں اور اس وقت بھی معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے حجاب انتہائی اہمیت رکھتا تھا اور ان کی ثقافت ایسی نہیں تھی کہ وہ بے پردہ اور برہنہ ہوں یا وہ کوئی مناسب لباس نہ پہنتی ہوں۔
حوزہ علمیہ کی اس استاد نے مزید کہا: پس تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاب اور پردہ زمانۂ جاہلیت میں بھی موجود تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں اسلام سے صدیوں قبل تاریخ کے حامل ملنے والے پتھروں کے نوشتہ جات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی پردے کا وجود تھا۔ اس کے علاوہ جب ہم عربوں کے دورۂ جاہلیت کے متون و نصوص اور ادب کا مشہدہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا ادب اور لٹریچر ایسے مواد سے بھرا ہوا ہے کہ اگر اس وقت کوئی پردہ کو اہمیت نہی دیتا تو وہ اسے برا جانتے تھے اور اس پر تنقید کیا کرتے تھے۔
جامعۃ الزہرا (س) کی استاد نے آخر میں کہا: پردہ کرنے والا شخص اپنی عقل اور فطرت کے مطابق برتاؤ کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں کہ اسلام بھی حجاب کا حکم دیتے وقت یہی کہتا ہے کہ خواتین کے حجاب اور پردے کا معاشرے میں احترام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے اسلامی معاشرہ میں حکومت اسلامی ہے اور ہمارے قوانین بھی مذہبی تعلیمات سے ماخوذ ہیں لہٰذا ان قوانین کی پابندی ایک سالم اور متشرع یا قانون پسند شخص کے اس کے مذہبی اور اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے کو ظاہر کرتی ہے۔