حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا نجیب الحسن زیدی ممبئی کی ایک مانی جانی شخصیت ہیں جو تعارف کے محتاج نہیں۔ قلم سے لے کر زبان تک ہر طرح کے جہاد میں آگے آگے رہتے ہیں۔ مولانا سے حجاب کے موقع پر ایک گفتگو ہوئی جس کو ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے۔
سوال: سال میں ایک دن، یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کے پیش نظر کن باتوں کی طرف توجہ ضروری ہے
مولانا نجیب الحسن : یہ جو کسی ایک دن کو کسی ایک مناسبت سے مخصوص کیا گیا ہے کسی چیز کی اہمیت و عظمت کو بتانے کے لئے ہے ورنہ ہمارے یہاں کسی ایک دن کا تصور بھی خواتین کے سلسلہ سے بغیر حجاب کے ممکن نہیں ہے ۔ بہر کیف اس دن ہمیں خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے کلچر ہماری تہذیب کا اہم ستون حجاب ہے۔ سو کوشش یہ کرنا چاہیئے کہ کم از کم اس حجاب سے منسوب دن میں ہم غور کریں ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا دشمن کس طرح کی مکاری اختیار کر کے ہماری ثقافت کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کی مثال سامنے ہے۔
اگر ایران میں اسلامی شناخت کو مٹانے کے لئے مغربی ممالک کی جانب سے ملینز ڈالرز کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے تو اسلامی دنیا میں بھی اسلامی تہذیب کے تارو پور اکھاڑ پھینکنے کے لئے مسلسل مغرب و لیبرل طرز فکر منصوبہ بندی کر رہا ہے ، چونکہ مغرب کے مقابل اگر کہیں دم دار انداز میں کوئی مقابلہ آرائی کر سکتا ہے تو یہ اسلامی کلچر ہے ۔
سماج کی تشکیل میں کلچر و تہذیب کا کلیدی رول ہے
سوال:آپ نے کلچر و تہذیب کی طرف اشارہ کیا ایک اچھے سماج کی تشکیل میں کلچر کا کیا کردار ہو سکتا ہے ؟
مولانا نجیب الحسن : کسی بھی سماج کی تشکیل میں آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ کلچر ایک بنیادی حیثیت کا حامل ہے ، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی نظر میں بھی معاشرے کے اہم ستونوں میں ایک کلچر ہے بلکہ معاشرے کے وجود میں کلچر سے بڑھ کر اور کوئی عنصر نہیں اس لئے کہ کلچر ہی معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے ، کلچر سے ہی ایک سماج پہچانا جاتا ہے ، کلچر ہی ایک سوسائٹی کا ترجمان ہوتا ہے ، امام خمینی رح نے کہیں کہا تھا ’’ اگر کسی ملک میں بگاڑ آ جائے اور ہمیں اس کی اصلاح کرنا ہو تو بغیر کلچر کی اصلاح کے ہم اس بگاڑ کو نہیں سدھار سکتے ، یعنی ایک ملک کی اصلاح بغیر اس کے کلچر کے ممکن نہیں ہے۔
سوال:معاشرے کی تشکیل کے اہم عنصر کو آپ نے کلچر کے طور پر بیان کیا۔ کیا حجاب ہمارا کلچر نہیں؟
مولانا نجیب الحسن : کیوں نہیں یہ اہم قابل غور مسئلہ ہے حجاب دینی مسئلہ بھی ہماری ثقافت سے بھی اس کا تعلق ہے عام طور پر مصلحین کو اس بات کی فکر تو رہتی ہے کہ ہماری بستیاں بگڑ رہی ہیں ، قریوں اور علاقوں میں معاشرتی بیماریاں ہیں محلوں میں فساد جنم لے رہا ہے اور اس کے لئے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر اصلاح کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ ہمارا کلچر ہماری تہذیب وہ چشمہ ہے جس سے ساری اچھائیاں و برائیاں جنم لیتی ہیں ، حیا ، عفت ، شرافت ، امانت داری ، ایک دوسرے کا دکھ سکھ میں ساتھ دینا یہ سب کلچر سے ہے ، اب ممکن ہے کسی جگہ مسلمان بہت ہوں شیعہ بہت ہوں لیکن ان کا کلچر وہ نہ ہو جو ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے دین اسلام ہو لیکن کلچر مغربی ہو ، تو آپ لاکھ وہاں پر کسی ایک بات کو لیکر چیختے رہیں کچھ نہیں ہونے والا ہے ،حجاب کی بات وہاں قابل قبول ہوگی جہاں آ پ کے کلچر میں حجاب ہوگا دین میں تو حجاب ہے لیکن دین کی بات کو انسان ہر جگہ کہاں مانتا ہے ، آج بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمارا کلچر الگ ہے ہمارا مذہب الگ ہے ، ہماری تہذیب حقیقت میں یوں تو اسلامی ہے لیکن جدید جاہلیت نے ہمیں اپنا لباس پہنایا ہوا ہے ،کتنی ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں پر دیکھنے میں آتا ہے کہ مسلمان بچیاں پردہ کرتی ہیں اس لئے کہ وہاں پردہ رائج ہیں لیکن جب یہی بچیاں ایک ایسی جگہ پہنچتی ہیں جہاں پردے کو مصیبت جانا جاتا ہے تو ان کا حجاب ختم ہو جاتا ہے ، اسے آپ کلچر کہیں، دنیا کی ہوا کہیں یا فیشن کہیں یہ دیکھا دیکھی والا معاملہ بڑا خطرناک ہے اسکو حل کرنا ہے تو اسلامی ثقافت کو اسلامی تہذیب کو اختیار کرنا ہوگا اپنے کلچر پر توجہ دینا ہوگی۔
سوال: آجکل ہمارے ملک ہندوستان میں حجاب کے سلسلہ سے پھر ایک بار بحث گرم ہے راجستھان کے کچھ علاقوں میں باقاعدہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی کے مسلم طالبات احتجاج کر رہی ہیں اور انہوں نے یہ تک کہا ہے اگر حجاب پر پابندی لگی تو ہم اسکول چھوڑ دیں گے کیا؟ حجاب اتنا اہم ہے کہ انسان جاہل رہے اور اسکول چھوڑ دے ؟
مولانا نجیب الحسن : ہندوستان ایک مشترکہ تہذیب کا حامل ملک ہے ایسا چمن ہے جس میں ہر رنگ کا پھول آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی خوشبو ہے ۔ہمارے ملک کا قانون ہمیں اپنے مذہب کے اصولوں پر چلنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ طالبات جو احتجاج کر رہی ہیں قابل مبارکباد ہیں کہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں جہاں تک اسکول نہ جانے کی بات ہے تو اس کا مطلب جاہل رہنا نہیں ہے۔ اسکول ایک بہترین جگہ ہے تعلیم و تعلم کے لئے، لیکن تعلیم میں اگر مذہبی منافرت کا رنگ بھر دیا جائے تو وہ زہر بن جاتی ہے لہذا ان کا فیصلہ بجا ہے اپنے تشخص کو مٹا کر تعلیم کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔
سوال: بعض لوگ دل کے پردے کی بات کہتے ہوئے کہتے ہیں صورت سے زیادہ اہم انسان کی سیرت ہے، جسم ڈھانپ لینے سے پردہ نہیں ہوتا حقیقت میں دل پاکیزہ ہونا چاہیئے اس سلسلہ سے آپ کیا کہیں گے ؟
مولانا نجیب الحسن : دیکھیں کچھ لوگ نعرہ بازی بہت اچھی کرتے ہیں عملی زندگی میں ان کے پاس نعرہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا یہ بھی ایک کھوکھلا نعرہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بعض جدت پسند کہلانے والے افراد حجاب کو آنکھوں اور دل کا پردہ کہتے ہیں لیکن آپ خود سوچیں کیا یہ اتنے پاکیزہ ہیں کہ کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں خودنمائی کی خواہش ان میں نہ ہو۔ اگر دل کا پردہ ہے تو لباس بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جسم انسان ڈھانپ لے ۔فرض کریں میرے دل میں ہو ایک بالٹی پانی باہر سے لاوں تو میں بالٹی بھی ویسی لیکر جاونگا کہ جس میں چھید نہ ہو اگر انسان با حیا ہے تو خود وہ لباس ایسا پہنے گا جو حیا کا ترجمان ہوگا جو جسم کا پردہ نہ کرسکے وہ آنکھوں اور دل کا پردہ کیا کرے،یہ بلا وجہ کی بات ہے۔