۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا سید مشاہد عالم رضوی

حوزہ/ پردہ میں رہکر کسان مزدور عورتیں مائیں بہنیں اور بیٹیاں گھر کے باہر بھی نہایت سلیقہ سے اپنے کا م کرتی آئی ہیں ساڑی گھونگھٹ کام کاج اور ترقیوں میں کبھی رکاوٹ نہیں رہے اسی طرح مسلم پردہ دار عورتیں کبھی ترقی میں پیچھے نہیں رہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے مشہور مفکر اور تجزیہ نگار حجۃ الاسلام مولانا سید مشاہد عالم رضوی نے گذشتہ چند دنوں سے مدارس میں پردے کی ممنوعیت کو لے کر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ معاشرہ میں اسلامی شناخت کے لیے جہاں مردوں کو اسلام میں خوبصورت منظم ومرتب داڑھی رکھنے کا حکم ہے وہیں اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنے پورے بدن کو ڈھاکنے اور پردہ کرنے کا حکم ہے ـیہ وہ حکیمانہ حکم ہے جو ایک مسلمان کی سماجی شناخت اور مسلم معاشرے کی قوت واستحکام کا امین ہے۔اورـکمزورعقیدہ مسلمانوں سے قطع نظر ـ یہ انکی شخصیت شائستگی اور اعلی تہزیب کی جہاں علامت ہے وہیں حجاب بہت سے اخلاقی مفاسد سے باضابطہ روکنے کا طریقہ ہے اور صحتمند سماج کی بنا ڈالتا ہے۔

مشاہد عالم رضوی نے مزید کہا کہ ایک اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین کا حجاب اور مردوں کےچہرے پر دیدہ زیب داڑھی اجنبی ماحول اور عالم غربت ومسافرت میں ایسی ظاہری نشانیاں ہیں جوایک مسلمان کو دوسرے سے قریب لانے کا ذریعہ اوراجنبیت دور کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہیں جسے شاید خود مسلم معاشرے کی اکثریت بھی نہیں سمجھتی ۔

مولانا نے حجاب کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حجاب عورت کی عفت وپاکدامنی اور نسوانی قدروں کی پاسداری کرتا ہے خواتین کو شہوت پرستوں اور بد نظروں سےدوررکھتا ہے اور صنف نازک کی البیلی رعنائیوں کی بقاء ودوام کو استحکام عطا کرتا ہے جسے دنیا کی مہزب قومیں اور ہمارے ملک کی غیر مسلم اقوام وملل بھی خوب سمجھنےلگی ہےاسی لئے شایدباحجاب طالبات کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے اور پردہ سے چھیڑ خوانی شروع ہوگی ۔

اس تجزیہ نگار عالم نے پردے کو ایک فطری ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پردہ تو ایسا حسین خوبصورت تحفہ ہے جسے ہرخطہ اور سماج کی عورت اپنے پاکیزہ احساسات وجذبات کی تہ میں خوب خوب محسوس کرتی ہے اور اگر درمیان میں خارجی عوامل نہ حائل ہوں تو اکثریت کسی نہ کسی طرح پردہ دار نظر آئے مثال کے طور پرہمارے ملک ہندوستان کی ہندو سماج کی عورتیں گھونگھٹ ڈالتی ہیں جو پردہ کی ایک اور شکل وصورت ہے جو ملک کے مفاد پرست عناصر کوبتاتا ہے کہ عظیم ہندوستانی سماج میں پردے کی روایت بہت پرانی ہے جسمیں ہندو مسلم کی قید نہیں پائی جاتی اس سے تو اسمارٹنس میں اضافہ ہوتا ہے دقیانوسیت نہیں ماڈرن کلچر کی علامت ہے جسے مہزب سمجھے جانے والے شہوت پرست پڑھے لکھے جہلا جان بوجھ کر پسماندگی بتا تے نہیں تھکتے اور سیاست باز اسے موضوع بحث بناکر اپناسیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اس لئے پبلک کو جاگتے رہنا چاہیے

پردہ رکاوٹ؟

سید مشاہد عالم رضوی نے پردے کو ترقی کی راہ میں مانع نہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پردہ میں رہکر کسان مزدور عورتیں مائیں بہنیں اور بیٹیاں گھر کے باہر بھی نہایت سلیقہ سے اپنے کا م کرتی آئی ہیں ساڑی گھونگھٹ کام کاج اور ترقیوں میں کبھی رکاوٹ نہیں رہے اسی طرح مسلم پردہ دار عورتیں کبھی ترقی میں پیچھے نہیں رہیں دنیا کے منظر نامے پر نظر ڈال ئے تو عصر حاضر کی پردہ دار خواتین سائنس ٹکنولوجی میڈیکل وزندگی کے دیگر اہم شعبوں میں آگے آگے دیکھائی دیں گی ۔

اسکولوں کی بنیاد:

مولانا مشاہد عالم رضوی نے کہا کیوں لوگوں کو نہیں بتایا جاتا کہ اسکول میں پڑھائی کی اصل بنیاد نصاب تعلیم اور طلباء کی محنت اور لگن اورلائق اساتذہ کی ٹیم ہوتی ہے باقی جیزیں حاشیہ پر ہیں اور تعلیمی کامیابی وترقی تنہاایک ڈریس پر نربھر نہیں ہے جس کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جی ہاں نظم اور ڈسپلن لازمی ہے اور لباس میں یکسانیت نظم کی علامت ہے لیکن یہ بات غلط ہے کہ لباس کو بہانہ بنا کر کسی اسکول یا کالج میں طلباء وطالبات کو حراساں کیا جائے اور ڈسپلن کے نام پرانارکی پھیلائی جائےجبکہ انارکی پھیلانےے والوں کو توچھوٹ ہو کہ وہ ایک اکیلی مسلم پردہ دار لڑکی کو حراساں کریں اور ایک خاص طبقہ کو اسی بہانہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے وہ بھی عین ایلکشن کے زمانہ میں؟

مولانا نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیایہ مفاد پرست عناصر کو آذوقہ فراہم کرنےکی سیاست نہیں ہے ؟بڑی حیرت کی بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم ان سب باتوں پر بات چیت تک نہیں کرتے اور اپنی لچھے دار چناوی تقریروں میں مسلمانوں کی عورتوں سے بڑے ہمدردانہ انداز میں خطاب کرتے ہیں ان کےبڑے ہمدرد بننے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور جہاں انھیں ان عورتوں کے دکھ درد میں بنیادی حقوق کے لئے کھڑے ہو نا اور ان کا ساتھ دینا چاہئے وہاں یہ صاحب غائب رہتے ہیں مسلم خواتین سے ہمدردی کا یہ ملک کے کسانوں کے دروازے پر جاکر ہمدردی کی یہ مثال دلچسپ ہے، اسی کو ایک بام دو ہوا کہتے ہیں ، عورتوں کے لئے آوز اٹھانے والے اور ان کے حق کی بات کو عوامی بنانے والے دوہرا کردار پیش کرکے کیا عظیم ہندوستانی سماج کی توہین نہیں کررہے ہیں کیا اس سےگہری سازش کی بو نہیں آتی۔

مشاہد عالم رضوی نے مزید کہا کہ ہندوستانی معاشرہ کی تہذیبی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے اسکولوں میں ایسا ڈریس ڈیزائن ہوسکتا ہےجوہماری ہندوستانی تہذیب کی نمائندہ گی بھی کرے اور عریانیت سے الگ بھی ہو کیا اسکرٹ ہی میں بس ترقی چھپی ہوئی ہے مغربی کلچر کو آنکھ بند کرکے اپنانا کس قدر قابل حیرت بات ہے۔ذرایہ چشم دید واقعہ بھی سن لیجیے ہم نے تو جاڑے میں بھی لکھنؤ جیسے مہزب شہر میں ٹھنڈک کھاتے ہوئے ایسی طالبات کو اسکول جاتے دیکھا ہے جن کے پیروں میں معمولی موزہ اور جوتے کے علاوہ کچھ نہیں تھا، پھر اوپر سےیہ بھی دعویٰ ہے کہ اسکول علم ودانائی کے مرکز ہیں ارے جاڑے اور گرمی کے کپڑے تک کافرق بھی انہی نہیں معلوم؟

مسئلہ حجاب کا نہیں

مشاہد عالم رضوی نے پردے کو ایک بنیادی حق بتاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے ان بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جو انہیں ملک کا آئین دیتا ہے ایک ایک کرکے مختلف مسلم مخالف نعروں سے ملک بھر کو گرمانا مسلمانوں کو ہندؤں کا دشمن اور ہندؤں کو مسلمانوں کا دشمن بناکر پیش کرنا کچھ چنندہ نیتاوں ہی کا کام ہے جو کوئی ترقی کا ایجنڈا نہیں بلکہ ہندوستان کو داخلی اور خارجی ترقی کے دھارے سے پیچھے دھکیلنا ہے۔

اس پر بات ہونا چاہئے

سید مشاہد عالم نےتعلیمی راہ میں دشواریوں کے موضوع پر بات کرنے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہ کہ تعلیم کے معیار کو بڑھایا جاسکتا ہے فیس کو کم کرکے سماج کے پسماندہ طبقے کو بھی ایجوکیشن کے دھارے میں لایا جاسکتا ہے جہاں ابھی تک تعلیم کا انتظام نہیں وہاں اس کا انتظام کیا جاسکتا ہے قومی اور صوبائی بجٹ سے اچھے اسکول کالج یونیورسٹی اور حفظان صحت کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔۔۔اس پر سیاست کیوں نہیں ہوتی؟ یعنی کام پر۔۔۔۔اور ووٹ کے بھیکاریوں سے یہ سب سوال کیوں نہیں ہوتے؟؟

انہوں نے ملک کے اصلی اور بنیادی مسائل کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتہ ہونا چاہیئے کہ ملک کےاصلی مسائل یہ سب ہیں، حد ہے شہروں کی ابھی تک سڑکیں تک درست نہیں کرسکے یہ ڈینگیں ہانکنے والے وزیر چین جیسا بڑی آبادی والا ملک بغل میں سب کچھ بنا رہا ہے اور ہمارے ملک کے حکمران ان سے سب کچھ خریدنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں جبکہ ہمارے جوانوں میں کوئی کمی نہیں، سچ ہےطیش میں آکر فیصلہ کرنے والے کی عقل بھی مار جاتی ہے اور وقتی مفاد کے چکرمیں ملک کے مفاد پربھی نظر نہیں رہتی لگتا ہے کہ بعض لوگوں پر کسی بھی قیمت حکومت کرنے کا بھوت سوار ہے جو ایک افسوس ناک ذہنیت ہے ۔۔۔

مشاہد عالم نے کہا کہ مسلمان ہوں یا دگیرقومیں سب کے لئے یکساں ترقی کے مواقع کی فراہمی درکار ہے اوریکساں طور پر علم و ایجوکیشن کی راہ پر سب کو چلنا ہی پڑے گا تاکہ وہ قوت فیصلہ پیداکریں اور میڈیا کے پروپیگنڈےسے متاثر ہونے سے پہلے اتنی سمجھ رکھیں اورخود سمجھ سکیں کہ ملک کے مفاد کےلئے کون سی حکومت بہتر ہوگی۔

زعماء ملت اسلامیہ سے بلا تفریق گزارش:

مولانا مشاہد عالم نے پردے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کو اس وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے امت اسلامیہ کے قائدین کو مخاطب کیا اور کہا کہ کیاقائدین وزعماء ملت کی بیداری کا وقت ابھی نہیں آیا؟! یہ قومی مسائل پر تبادلہ خیال وغور وفکرکا وقت ہے اور پوری مضبوطی وخود اعتمادی کے ساتھ حکومت کے سامنے اپنی تجاویز رکھنے کا وقت ہےووٹ کے بدلے کام اس بات پر آنے والےہر نیتا سے وعدہ لینے کا وقت ہےکیا مسلمان قائدین اللہ ورسول کے لئے قومی مفاد میں کچھ ہلکی پھلکی قربانی نہیں دے سکتے ہیں؟ اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے اوریہی اتحادحقوق کی بازیابی کے لیے بڑی طاقت بن سکتا ہے پردہ کبھی داڑھی یہ سب استحصال واستثمار کا بہانہ ہے اور حکومت کی گدی پر بیٹھنے کا نہایت آسان طریقہ ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .