۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 377243
11 فروری 2022 - 13:33
حجاب

حوزہ/ اسلامی اصطلاح میں حجاب اس لباس کو کہتے ہیں جو خواتین اپنے پورے لباس کو ڈھکنے کے لئے لیے استعمال کرتی ہیں لہذاحجاب کا مطلب ہے پورے بدن کو ڈھک لینے والا لباس پہننا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے پورے بدن کو ڈھک کر باہر نکلے۔

تحریر: سید حمید الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی قرآن مجید میں دس سے زیادہ مقامات پر حجاب اور نامحرم کو کو دیکھنے کی حرمت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، قرآن مجید کے سورہ احزاب کی 59 ویں آیت میں میں ارشاد ہوتا ہے:

« يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا »

(اے پیغمبر،اپنی بیویوں ؛بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی اوڑھنیوں کو ڈال لیں یا ان کے لئے مناسب ہے تاکہ وہ پہچانی نہ جائیں جائیں اور انہیں جائے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

حجاب کیا ہے؟

حجاب کے لغوی معنی:

لغت میں حجاب کا مطلب ہے ہے روکاوٹ' پردہ اور پہناوا یہ لفظ زیادہ ترپر دے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن ہر طرح کے کے کے لباس کو کو پردہ نہیں کہا جاتا۔

اسلامی اصطلاح میں حجاب اس لباس کو کہتے ہیں جو خواتین اپنے پورے لباس کو ڈھکنے کے لئے لیے استعمال کرتی ہیں لہذاحجاب کا مطلب ہے پورے بدن کو ڈھک لینے والا لباس پہننا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے پورے بدن کو ڈھک کر باہر نکلے وہ ایک لطیف و نازک پھول کی طرح ہوتی ہے اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کی کی خاردارنظروں سے محفوظ رہے

حجاب کا مقصد اور اس کا فلسفہ:

احکام اسلامی کا اصل مقصد خداوندعالم کی قربت کاحصول ہے، یہ قربت الہی تزکیہ نفس اور تقوی سے حاصل ہوتی ہے ارشاد ہوتا ہے:

إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاکُمْ (حجرات؛13)

تم میں سب سے زیادہ محترم وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے .

قرآن کریم میں حجاب کے قانون کا مقصد تزکیه‌نفس، طهارت، عفت و پاکدامنی ہے، ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ وَ یَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِکَ أَزْکى لَهُمْ؛ اے رسول مومنین سے کہ دو اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے پاکیزگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

سورہ نور میں حجاب کی تفصیل:

سورہ نور میں تفصیل کے ساتھ حجاب کی ضرورت اور نامحرم کو دیکھنے کی حرمت کا تذکرہ ہوا ہے.

آنکھوں کا حجاب:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ (نور؛30)

اے رسول مومنین سے کہ دو اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں

قُلْ لِلْمُؤْمِناتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ(نور؛31)

اے رسول به مؤمن عورتوں سے کہ دو اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں.

گفتگو میں حجاب:

فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِهِ مَرَضٌ(احزاب؛32)

عورتیں نرم و نازک لہجے میں کسی سے بات نہ کریں تاکہ ایسے افراد کی ہوس کا نشانہ نہ پنیں جن کے دل میں بیماری پائی جاتی ہے۔

چال چلن میں حجاب:

وَ لا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ ما یُخْفِینَ مِنْ زِینَتِهِنَّ(نور؛31)

اور زمین پر اس طرح نہ چلے چلے کہ ان کی کی پوشیدہ باتوں کا اظہار ہو.

قرآن مجید میں بیان کیے گئے حجاب کے قوانین سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ حجاب اسلامی سے مراد عورتوں کا نامحرم مردوں کے سامنے ایسے لباس کے ساتھ آنا ضروری ہے جو ان کے جسم کے کے مختلف نشیب و فراز کو کو مردوں کی کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھتا ہو۔

ان کے چال چلن میں کسی طرح کی ایسی کوئی حرکت نہ ہو جس سے کسی کے بھی دل میں کسی طرح کے گناہ کی کیفیت پیداہو۔

ڈریس کوڈ:

حقیقت میں حجاب مسلمان خواتین کے لئے ایک ڈریس کوڈ ہے، جس طرح ہر اسکول کالج آفسیز اور دیگر شعبہ ھای زندگی کے ڈریس کوڈ ہوتے ہیں اسی طرح اسلام نے مسلمان خواتین کے باہر نکلنے اور نامحرموں سے روبرو ہونے کے لئے ایک ڈدیس کوڈ لازم کیا ہے ایک مسلمان خاتون کو اس کے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ورنہ گھر کی چاردیواری میں قید ہوکر خواتین میدان عمل میں پیچھے رہ جائیں گی اور پھر اسلام پر عورتوں کی پسماندگی کا الزام لگے گا جب کہ اسلام عورتوں کو نسوانی حرمت کے پاس و لحاظ کے ساتھ سماج کے مختلف شعبہ ھای زندگی میں فعال دیکھنا چاہتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .