۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ ایک طرف توحیدی تہذیب ہے جو عورت کے بنیادی حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے اسکے تقدس کی قائل ہے اور دوسری طرف وہ مغربی شیطانی تہذیب ہے جو اس وقت تک عورت کی بات کرنے کو تیار نہیں جب تک اسے برہنہ نہ کر دے۔

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی l یوں تو انسان نے جب سے صفحہ ہستی پر قدم رکھا ہے ،مختلف آپسی تضاد کی بنیاد پر مختلف معرکے سجتے رہے ہیں کبھی خاندانی عصبیت نے دو انسانی دھڑوں کو ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں برسر پیکار ہونے پر مجبور کیا ، کبھی ملک ، رنگ نسل اور زبان نے کبھی اقتدار کی ہوس نے تو کبھی دنیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کی چاہت نے ،ادھر چند برسوں میں جنگ کا انداز بدل گیا ہے اب جنگ کا میدان بیشتر ایک دوسرے ملک کی سرحدیں نہیں ہے بلکہ میدان کارزار فکر و نظر ہے ، جس نے اپنی فکری سرحدوں کی حفاظت کی وہی سکندر ہے چونکہ جیت اسی کی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بر سر اقتدار رہنے کے باوجود ایک خاص نظریے کے حامل لوگ اس فکر کے خلا ف منصوبے بند طریقے سے نبرد آزما ہیں جس کے ماننے والے دیگر جگہوں کی بہ نسبت وطن عزیز میں پسماندگی کا شکار ہیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ ایک خاص نظریہ کے حامل لوگ زعفرانی پرچم تلے اس فکر کے مقابل آ کھڑے ہوئے ہیں جو فکر توحیدی ہے جسکا تعلق انسان کی فطرت سے ہے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ توحیدی فکر کے سامنے ایک الحادی فکر ہے جو اس وقت ہندوستان میں آمنے سامنے ہے یہ تقابل یوں تو مختلف مفاہیم و نظریوں کے درمیان ہے لیکن اس وقت مقابلہ حیا اور بے حیائی کے درمیان ٹہرا ہے یہی وجہ ہے کہ سردست ایک بڑا حساس و نازک مسئلہ ہے حجاب کا ہے ، ایک طرف بجا طور پر مسلمان خواتین ہیں و کسی قیمت پر اپنے مذہبی تشخص سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتیں تو دوسری طرف حکمراں جماعت سے وابستہ کالجز کے سربراہ و اہلکار ہیں جو ایک یونیفارم کا بہانا بنا کر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ ہی اپنی ڈیڑھ ایک کی مسجد الگ بنانے پر تلے رہتے ہیں ایسے میں کچھ ایسے مسلمان لیڈر و بر سر اقتدار جماعت کے حلیف اور بزعم خود روشن خیال افراد بھی ہیں جو اس مسئلے پر بغیر یہ جانے ہوئے اپنی رائے رکھ رہے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہے ؟ اور اس مسئلہ کو حساس بنانے کے پیچھے کیا سیاست ہے ؟ ان میں سے بعض وہ ہیں جن کے باے میں پوری قوم جانتی ہے کہ انکا اسلام و قرآ ن سے دور دور تک کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ہم ان کی جانب سے کئے گئے اظہار خیال کو لائق اعتنا نہیں جانتے لیکن غلط فہمی کے ازالے کے لئے بہت مختصر طور پر کسی اور موقع پر ممکنہ حد تک اس بات کی وضاحت کریں گے کہ صدر اسلام میں جن شخصیتوں کے کردار کو نمونہ بنا کر حجاب کو بعد کی چیز بتایا جا رہا ہے ان کی حقیقی تاریخ کیا ہے اور انہیں اسلام میں کیا اعتبار حاصل ہے فی الحال پیش نظر تحریر میں ایک دوسرے زاویے سے چند اہم نکات کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے تاکہ واضح کہ حجاب کے موجودہ تنازعہ میں جو لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اول فول بک رہے ہیں وہ خود کتنے پانی میں ہیں اور مغربی تہذیب کی حقیقت کیا ہے ؟

مغربی تہذیب کا بھوت اور نام نہاد روشن خیال لوگ :

حجاب کے موجودہ تنازعہ کی آڑ میں کچھ لا مذہب و نام نہاد روشن خیال افراد کو بھی دین پر وار کرنے کا موقع مل گیا وہ مغربی تہذیب سے اس تہذیب کا تقابل کر رہے ہیں جو توحیدی تہذیب ہے یہ جدید و مارڈن تہذیب کے متوالے بھول گئے ایک دن وہ تھا جب اسی متمدن تہذیب کے حامل لوگوں کے یہاں عورت کو اتنا گرا ہوا سمجھا جاتا تھا کہ اسے مذہبی کتابوں تک کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی اس دور میں سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ توراۃ کو جلا دیا جائے ۔

[1]لیکن جب بات یہاں پہنچتی کہ عورت کے ایک عورت توراۃ پڑھے یا اسے جلا دیا جائے تو توراۃ کو جلا دینا گوارا تھا لیکن عورت کے ہاتھوں مذہبی کتاب آئے یہ گوارا نہ تھا ،اس دور میں جب آج کے متمدن لوگ اس بات پر گفتگو کر رہے تھے کہ عورت کو حق بھی دیا جائے یا نہیں ، اس دور میں جب عورت کی تعلیم ایک مسئلہ تھی اسلام نے مرد و عورت کو ایک مرتبہ دیا [2]،دونوں کی تعلیم کی بات کی[3] جب عورت اپنے شوہر کے انتقال کے بعد ستی ہونے پر مجبور تھی اس وقت یہ توحیدی تہذیب ہی تھی جس نے فرسودہ خیالات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عورت کے ذاتی تشخص کی بات کی اور اسے خیر و نیکی کا محور قرار دیا

[4]۔

جو دین کل عورت کے تشخص اور اس کے شناخت کی بات کر رہا تھا آج بھی کر رہا ہے لیکن افسوس ہے کہ کچھ لوگ حقائق کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے اگر یہ غور کریں تو پائیں گے یہ اظہار آزادی اور عورت کے حقوق کی بازیابی کے کھوکھلے نعرے لگانے والے عورت کے لئے کسی بھرم اور اعتبار کے قائل نہیں ہے یہ تو اسے مارکیٹ کی رونق کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن بعض لوگ مغرب کی دوغلی پالیسی سے غافل ہو کر نام نہاد روشن خیالی اور آزادی کا تاج سر پر سجا کر یہ دکھا نا چاہتے ہیں کہ وہ خود کس قدر عورت کے حقوق کے محافظ ہیں ۔ اب یہ صاحبان فکر و نظر پر ہے کہ وہ دیکھیں ایک طرف توحیدی تہذیب ہے جو عورت کے بنیادی حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے اسکے تقدس کی قائل ہے اور دوسری طرف وہ مغربی شیطانی تہذیب ہے جو اس وقت تک عورت کی بات کرنے کو تیار نہیں جب تک اسے برہنہ نہ کر دے ۔

نام نہاد روشن خیال لوگ اور الحادی و مغربی تہذیب کا بھیانک چہرہ :

بعض نام نہاد روشن خیال مغربی تہذیب کی چکا چوند کی بات تو کرتے ہیں لیکن ذرا دیکھیں تو سہی وہاں عورت کی کیا حالت ہے آپ صرف برطانیہ کو لے لیں تو آپ کو نظر آئے مغربی تہذیب کا پرفریب نظارہ پیش کرنے والا یہ ملک کہاں کھڑا ـہے’’ یہ وہ ملک ہے جہاں ہر سال ایک کروڑ۲۵ ؍لاکھ خواتین گھریلولو تشدد کا شکار ہوتیں ہیں۔ ۸۰؍ ہزار کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ویمن ایڈ فیڈریشن برطانیہ کے مطابق ہر ایک سو شادیوں میںسے ایک خاتون کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مہذب ترین شہر لندن میں ۸۰؍ ہزار سے زائد خواتین طوائف کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ یورپ کے بعض ملکوں میں شادیوں میں ۹۰ فیصد کمی آئی ہے پیدا ہونے والے ۷۰ فیصد ناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ہر ایک منٹ پر کسی نہ کسی امریکی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے ‘‘۔[5]

حقوق نسواں کی بات کرنے والے لوگوں کو خواتین کے بارے میں فکر مندی کیوں ؟

آج عورت کی آزادی کو لیکر جو بڑے بڑے ٹاک شو ز میں گفتگو ہو رہی ہے اور مغربی طرز زندگی کی مثالیں دی جا رہی ہیں تو ذرا گہرائی سے ان مثالوں کے اندر بھی جھانک کر دیکھیں ، کونسی روحانیت ہے جو ان روشن خیال لوگوں کو کہہ رہی ہے کہ ان کے بارے میں میں بولوگے تو روحانی سکون ملے گا ان کے حق میں بولوگے تو تمہیں کچھ حاصل ہوگا ؟ آخر کیا انہیں مل رہا ہے خواتین کے بارے میں بات کے ذریعہ سے اسے ہمیں دیکھنے کے ضرورت ہے قطعی طور پر ایسا نہیں ہے کہ انہیں کوئی صنف نسواں سے کوئی لگاو ہو کہ وہ اپنے تشخص کے ساتھ جئییے اپنے حقوق کی بات کرے ، اسکا حق ضائع نہ ہو اگر ایسا ہوتا تو محض حجاب کی بات نہیں ہے ہر شعبہ زندگی میں عورت کو با وقار سمجھا جاتا اسے محترم جانا جاتا ،اسکی عزت کی جاتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں چاہے وہاں کے فلاسفہ ہوں ، اہل ذوق ہوں ، ماہرین فن اور اہل علم ہوں ، سب کے سب کا محور عورت کا حسن و جمال ہے ،کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی گفتگو کا مرکز عورت کے تقدس کو بنایا ہے اسکے وجود کی وسعتوں اسکی صلاحیتوں کو بنایا ہے۔

آج آپ مغرب میں کوئی جریدہ خریدیں کوئی میگزین لیں ہرحتی گھر میں استعمال کی چیزیں لیں ہر ایک پروڈیکٹ کے اوپر ایک نیم عریاں مسکراتی خاتون کی تصویر نظر آئے گا کیا شاہراہوں پر سڑکوں پر بڑے بڑے مالوں میں بڑی بڑی اسکرینوں پر تھرکتی ہوئی عورتوں کی تصاویر ہی سے انہیں انکا حق دلایا جا سکے گا گا ، ملبوسات سے لیکر زیور و جواہرات اور نئی نئی لگژری گاڑیوں کی تشہیر تک میں کیا عورت کے حسن و جمال کے پہلو کو سامنے لا کر ہی ان کے حق کی بات ہوگی ، کیا عورت کا پورا وجود اسی میں محدود ہے کہ وہ جاذب نظر ہے اسے مالک نے حسن سے نوازا ہے ؟ آج ہم مشرقی تہذیب و تمدن کے گہوارے میں بیٹھ کر کونسی تہذیب کو اختیار کرنے کی بات کر رہے ہیں کون سے لٹریچر کی بات کر رہے ہیں اس لٹریچر کی جس نے شہوت پرستی و عریا نیت کو اپنا تشخص بنا لیا ہے ۔ جس نے عورت کو کمائی اور آمدنی کی انڈسٹری بنا دیا ہے ۔ اپنے جسم کی نمائش کرنے والی عورتوں کو جس تہذیب نے سر آنکھوں بٹھا رکھا ہے اور سیدھی سادھی خواتین جو امور خانہ داری میں لگی رہتی ہیں انہیں بے وقوف سمجھا جاتا ہے ۔

کیا یہ تہذیب ہمارے لئے لائق تقلید ہے جس میں ماں باپ کے لئے گھر میں کوئی جگہ نہ ہو ، جہاں گھر چھوٹے ہو جائیں اور ماں باپ کو اولڈ ہاووس میں چھوڑ کر بچے سوچیں کہ سر کا بوجھ اتر گیا ٹکیا یہ ایسی تہذیب ہے جس کے بارے میں ہم بات تک کرنے کے روادار ہوں ؟

افسوس ہے کہ کہ الحادی تہذیب کے علمبرداروں نے اس بار اس سرزمین کو منتخب کیا ہے جو کبھی عرفان و تصوف کے مشاہیر و عمائدین کے لئے عظیم پناہ گاہ کے طور پر جانی جاتی تھی ، جہاں معنویت کا ایک خاص مقام تھا جسے مشرق میں روحانیت سے لگاو رکھنے والے باشندوں کے طور پر جانا جاتا تھا ، وہ سرزمین جہاں اگر ہندو رہے تو انکی خواتین بھی با پردہ رہیں چاہے وہ سر پر آنچل ڈال کر یا گھونگھٹ کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو ،اگر اس سرزمین پر عیسائی و یہودی رہے تو انہوں نے اپنے انداز میں حجاب کیا افسوس اسی سرزمین پر جہاں مشرقی تہذیب میں تمام مذہبوں کی خوشبو محسوس کی جاتی تھی ایک خاص رنگ کو ابھار نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کچھ لوگ اپنے اسلاف کی تاریخ کو بھلا کر ان لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے جو صرف مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانا چاہتے ہیں تاکہ اکثریتی فرقے کو اپنے حق میں کر سکیں ، جب کہ جو مین کھلاڑی ہیں وہ بساط سیاست پر نفرتوں کے ہاتھی گھوڑے سجائے بیٹھے ہیں کہ انہیں اپنا مقصود حاصل ہو لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ہمیشہ کی طرح انہیں اس محاذ پر بھی شکست ہی نصیب ہونے والی ہے کیونکہ توحیدی تہذیب کا تعلق انسانی فطرت سے اور انسانی فطرت کے مقابل جو بھی آیا اسے منھ کی کھانی پڑی ہے اور اس بار میں ایسا ہی ہوگا ۔

بہت جلد توحیدی و الحادی تہذیب کے مابین زعفرانی معرکہ میں واضح ہو جائے گاس ا کہ نظریات کی جنگ مشرکین مکہ جب اس وقت نہ جیت سکے جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ و علیہ وسلم و انکے ماننے والوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تھا اور کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل تک پر قدغن تھا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقتصادی محاصرے سے لیکر ہر طرح کے منفی پروپیگنڈے کی جنگ کا نتیجہ کیا ہوا ، توحیدی فکر کا وارث فتح مکہ کے موقع پر مسکراتا ہوا داخل ہوا اور کچھ ہی سالوں میں اس تو حیدی فکر کا دائرہ مکہ کی سرحدوں سے نکل کر ایران و عراق و مصر و شام تک پہنچ گیا جسے مکہ میں ہی ختم کر دینے کے لئے مشرکین مکہ نے کیا کچھ جتن نہ کئے ،آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ فاران کی چوٹیوں سے بلند ہونے والی ندائے توحیدی پوری دنیا میں سنی جا رہی ہے ، اور اسکے مقابل منصوبے بنانے والے کل ہی کی طرح آج بھی تماشایی ہیں ، شک نہیں ہے کہ آنے والے کچھ ہی دنوں میں مطلع کارزار جب صاف ہوگا تو ہر ایک کو معلوم پڑ جائے گا کہ بے حیائی کے مقابل ہمیشہ ہی حیا و عفت کو کامیابی ملتی ہے کبھی بھی حیاو غیرت کو بے حیائی و بے غیرتی کی تشہیر سے زیر نہیں کیا جا سکتا ۔


حواشی :

[1] ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : نبی رحمت ، سید ابو الحسن ندوی ۔

[2] ۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ، نحل ۹۷

[3] ۔ طَلَبُ اَلْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ

بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام , جلد۶۷ , صفحه۶۸

[4] ۔رُوِيَ عَنِ اِبْنِ فَضَّالٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ عَمَّنْ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ يَقُولُ: «أَكْثَرُ اَلْخَيْرِ فِي اَلنِّسَاءِ

: من لا يحضره الفقيه , جلد۳ , صفحه۳۸۵

عنوان باب : الجزء الثالث كِتَابُ اَلنِّكَاحِ بَابُ كَثْرَةِ اَلْخَيْرِ فِي اَلنِّسَاءِ

[5] ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : https://rapecrisis.org.uk/get-informed/about-sexual-violence/statistics-sexual-violence/

https://www.unwomen.org/en/what-we-do/ending-violence-against-women/facts-and-figures

https://www.cdc.gov/injury/features/sexual-violence/index.html

https://www.amnestyusa.org/pdf/custodyissues.pdf

https://mazameen.com/women/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AD%D8%AC%D8%A7%D8%A8-%DA%88%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C.html

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .