۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی 

حوزہ/ یوم بعثت ایک بہترین موقع ہے اپنا محاسبہ کرنے کے لئے اس لئے کہ یہ وہ دن ہے جو انصاف و عدل کی تحریک کے آغاز کا دن ہے ، حریت و آزادی کے مزہ سے دنیا کو آشنا کرانے کا دن ہے تہذیب نفس و تطہیر باطن کی طرف رجوع کا دن ہے اور ہمارے پاس ایک سنہرا موقع ہے کہ ہم خود بھی غور کریں کہ بعثت نے ہمیں کیا دیا اور ہم دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیں کہ بعثت سے دنیا کو کیا حاصل ہو سکتا ہے

مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | یوم بعثت ایک بہترین موقع ہے اپنا محاسبہ کرنے کے لئے یہ دن انصاف و عدل کی تحریک کا سر آغاز ہے ، حریت و آزادی کی مٹھاس اور لذت سے دنیا کو آشنا کرانے کا دن ہے تہذیب نفس و تطہیر باطن کی طرف رجوع کا دن ہے۔

آج ہماری تہذیب حملوں کی زد پر ہے ہماری ثقافت پر چو طرفہ حملے ہو رہے ہیں ، سافٹ وار میں کب کس رخ سے ہم پر حملہ ہو جائے پتہ نہیں ایک طرف نئی تہذیب کی رنگینیاں اور جوان نسل کو در پیش چیلنجز ہیں تو دوسری طرف اسلامی تہذیب کی معنویت اور قافلہ بشریت کے لئے بعثت پیغمبر ص سے حاصل ہونے والی رہگشا تعلیمات ، ہمیں دیکھنا ہوگا جو کچھ بعثت نے ہمیں دیا ہے ہم کس طرح اسے محفوظ رکھ پاتے ہیں، تعلیمات بعثت کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم جانیں بعثت نے ہمیں کیا دیا ؟ اسکے اثرات کیا ہیں بشریت کو بعثت سے کیا ملا ؟

بعثت نے ہمیں کیا دیا ؟

بعثت قافلہ انسانی کا وہ پڑاو ہے جس کے اثرات اس وقت تک رہیں گے جب تک یہ کائنات جاری و ساری ہے ، اس دور میں جب انسانیت آخری ہچکیاں لے رہی تھی بعثت ہی کے ذریعہ پروردگار نے اس قافلہ بشریت کو اپنا رسول ص بھیج کر ہلاک ہونے سے بچایا وہ لوگ جو اوہام و خرافات کا کفن پہنے متحرک لاشوں کی طرح جی رہے تھے ، وہ لوگ جو جہالت کی تاریکی میں مسلسل اپنی قبر کھودے جا رہے تھے وہ لوگ جو تعصب کی آگ میں جل بھن کر راکھ ہو چلے تھے ان کو دوبارہ زندگی عطا کرنے کے لئے مالک میں ۲۷ رجب المرجب اپنے حبیب کو ایک مشن دے کر مبعوث کیا ، یہ محض ایک نبی کو مبعوث کرنا نہیں تھا ایک رسول ص کو بھیجنا نہیں تھا بلکہ جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی بشریت کو حیات نو عطا کرنا تھا ، جس کے نتائج کو آپ مسلمانوں کی تاریخ میں خدمات پر نظر ڈال محسوس کر سکتے ہیں ، خود محوری کے کولہو میں بیل کی طرح گھومتی بشریت کو بعثت کے ذریعہ مالک نے خدا محوری تک کیسے پہنچایا خود یہ اپنے آپ میں مستقل موضوع ہے ، لیکن ہمیں فی الحال اس کی طرف نہیں جانا ہے ، فی الحال اس بات کو بیان کرنا ہے کہ جو تہذیب اسلام نے سکھائی تھی جو کلچر اسلام نے ہمیں دیا تھا جو رہن سن کا طریقہ بعثت کے ذریعہ ہم تک پہنچا تھا آج ہم اس کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ؟ کس طرح وہ بعثت جس نے پوری انسانیت کو بچایا تھا آج اس کے تعلیمات مغربی تہذیب کے نشانے کی زد پر ہیں ؟

کیا ہم نبی رحمت ص کی امت ہیں؟

کیا ہم کہہ سکتے ہیں ہم اسی نبی کی امت سے متعلق ہیں جس نے تاریک دور جہالت میں علم کی شمع جلا کر قافلہ انسانیت کو اس بلندی پر گامزن کیا کہ انہیں مسلمانوں کے درمیان سے بڑے بڑے حکماء اطباء و مصلحین و فلاسفہ نکلے جو کبھی لکھنے پڑنے سے بیر رکھتے تھے ، انہیں لوگوں کے درمیان جو شکم پرستی و شہوت پرستی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے ایسے بڑے بڑے پارسا نکلے

جو معنویت و روحانیت کی مینارے ہیں ، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ دور پھر ہمارے سامنے جاہلیت کے دور کا سماں پیش کر رہا ہے ، کل جاہلیت کا دور دورہ تھا آج مارڈن جاہلیت کا دیو ہے جو ہر ایک قدر و ویلو کو نگلتا چلا جا رہا ہے ؟ ایسے میں بعثت کے زریں اصولوں کے علاوہ ہمیں کون بچا سکتا ہے ؟ اس لئے ضرورت ہے کہ ہم بعثت کے پیغام کو سمجھیں قرآن کی پکار کو سنیں اور سیرت پیغمبر ص کی طرف واپس پلٹیں اور سمجھ لیں کہ مغربی تہذیب ہماری روح کو تار تار کر رہی ہے ہمیں اندر سے کھوکھلا کئے جا رہی ہے جب ہمارے پاس اسلامی تہذیب و معنویت و روحانیت کا پربار ذخیرہ موجود ہے تو کیوں ہم مغرب کی تقلید کر رہے ہیں کیوں مسلسل نئی تہذیب کے نام پر اپنے بچوں کے ذہنوں کو مغربی مردہ خانوں میں تبدیل کئے جا رہے ہیں۔

آج ہمیں اپنی طرز زندگی اپنے رویوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی ۔

مغربی تہذیب کی تباہی اور لمحہ فکریہ :

مغربی تہذیب کی چمک دمک اسکے اندر پائی جانے والی تڑک بھڑک اس کی ظاہری کشش اس کی دلفریبیوں نے ہمیں اس طرح دھر دبوچا ہے کہ چاہ کر بھی ہم اپنے بچوں کو اس مایا جال سے نہیں نکال پا رہے ہیں ؟ سوچیں اس کی وجہ کیا ہے ؟

ہم روز بروز اپنی تہذیب کا لباس اتار کر مغربی تہذیب کی قبا پہنے مغربی رنگ میں رنگتے نظر آ رہے ہیں ، ہمارے اپنے عقائد اپنے نظریات اب خرافات و اہام کا ڈھیر بن چکے ہیں ، ہم میں سے بعض جو تھوڑ ا بہت اپنی ذاتی شناخت پر زور دیتے ہیں اپنے تشخص کی بات کرتے ہیں اپنی پہچان کے ساتھ جینے پر زور دیتے ہیں وہ تو ضرور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ سب کچھ مغربی نظام تعلیم کی ووجہ سے ہو رہا ہے لیکن یہ خیر اندیش و درد مند لوگ یہ نہیں سوچ پا رہے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی نظام تعلیم کیوں نہیں ہے ، ہم اپنے فرسودہ نظام تعلیم سے کس طرح بچے کے ذہن کو تبدیل کر سکتے ہیں ، جو بچہ صبح سے شام تک اسکول میں مغربی تہذیب کے نقوش اپنے ذہن و دل و دماغ پر بناتا رہا ہے وہ کس طرح شام کو دو گھنٹے کی قرآنی کلاس میں جا کر اسلامی تہذیب کے نقوش کو اپنے ذہن میں اتار سکتا ہے ؟ ہم کیوں نہیں سوچنے کہ ہم نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کیا کیا ہے ؟ ہم اسکول و کالج کا رونا تو روتے ہیں لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہم نے بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ یعنی ماں کی آغوش کے لئے کیا کیا ہے ؟ گھر کے ماحول کو ہم نے کتنا اسلامی رکھا ہے ؟ بچہ اسکول میں تو بعد میں داخل ہوتا ہے پہلے وہ ماں کی آغوش سے سیکھتا ہے پھر گھر سے پھر اپنے اطراف و اکناف کے ماحول دوستوں اور رشتہ داروں سے ہم سوچیں کہ ان سب مراحل میں ہم کتنا اسلامی تہذیب کو پیش کرتے ہیں کس قدر اسلامی تہذیب کا خیال رکھتے ہیں ، کیا ہمارے یہاں رشتوں کا تقدس باقی ہے محرم و نامحرم کا فرق ہم فرق سمجھتے ہیں یا اسے دقیانوسیت کا نام دے کر مغربی تہذیب کے برہنہ سمندر میں چھلانگ لگا دیتے ہیں ؟ ۔

ہم نے مغربی تہذیب کے مقابل اپنی تہذیب کی ہمہ گیریت کے لئے کیا کیا ؟

آج ہالیوڈ و بالیوڈ کی جانب سے جو کچھ ذہنوں کو کیپچر کرنے کے لئے ہو رہا ہے اسکا توڑ کیا ہے ہمارے پاس ؟ ہم نے کتنا اسلامی آٗیڈیلز کے سلسلہ سے کام کیا ہے ؟ ہم نے کتنا اپنے بچوں کو جناب مالک اشتر ، عمار یاسر ، ابوذر جیسی ہستیوں سے آشنا کیا ہے ؟ کیا بھی ہے تو ہمارا طریقہ کتنا جاذب تھا پھر سوچیں ہمارے پاس حقیقی شخصتییں ہیں لیکن ہم ان حقیقی شخصیتوں کی زندگی کو ایک اچھے پیرایے میں پیش کرنے میں ناکام ہیں نہ ہمارے پاس مجالس و محافل کے علاوہ کوئی راستہ ہے نہ ہی ہمارے یہاں کتاب خوانی کا شوق ہے تو ظاہر ہے اساطیری و افسانوی واقعات کو جدید ٹکنالوجی کے بل پر ہالیوڈ و بالی وڈ کے ذریعہ روپہلے پردے پر اتار کر کچھ لوگ مان چاہے انداز میں ذہنوں کو موڑ کر اپنے حساب سے بچوں کا ڈائرکشن سیٹ کر دیں تو تعجب کیا ہے ؟

قابل غور بات :

آج ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے یہ روز بروز معاشرے میں بے حیائی کیوں بڑھ رہی ہے ؟ یہ دن بہ دن بے غیرتی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ ہر دن کے سورج کے ساتھ نئے خرافات کا سورج کیوں نمودار ہو رہا ہے ؟ ہم دین کے نام پر کیا دے رہے ہیں مغربی تہذیب کے ریشے روز بروز کیوں کر پھیلتے جا رہے ہیں ؟ جب ہم ان محرکات پر غور کریں تو پائیں گے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اور مغربی تہذیب کا بدمست ہاتھی جس طرح جھومتا ہوا ہماری تہذیبی وراثت کے کھلیان کو برباد کر رہا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں ؟ ہم نے ہی آبیل مجھے مار کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے دیو کواپنے گھر دعوت دی ہے اب جب وہ تباہی مچا رہا ہے تو بھی ہم میں سے کچھ ہی کو نظر آ رہا ہے باقی کو تو وہ بھی نہیں دکھ رہا ہے بلکہ افسوس تو یہ ہے کہ کچھ تو یہی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اب زمانہ بدل گیا ہے ، کل کپڑے پہننے کا انداز کچھ تھا آج کچھ ہے ، ایسے میں ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ دو چار بے چارے جو اپنی شناخت کی بات کرتے ہیں اپنے تشخص کی بات کرتے ہیں اپنی تہذیب کی بات کرتے ہیں وہ کر بھی کیا سکتے ہیں جب ایک طرف سے پورا ایک سیلاب ہے ایک ریلہ ہے اور دوسری طرف اسے روکنے کے لئے کوئی بندوبست نہیں تو ہونا کیا ہے ہر طرف تباہی ہی کے تو مناظر ہوں گے ، اب یہی تو ہوگا کہ قرآن گھر میں کسی بلند جگہ رکھا ہوگا وہ بھی جزدان میں بند اور ہم کسی ہالیووڈ کی فلم سے سیکھ رہے ہوں گے کہ ہمیں کس طرح کی بود و باش اختیار کرنا ہے ، نھج البلاغہ کہیں شلیف میں سجی ہوگی اور ہم بگ باس کے ذریعہ سیکھ رہے ہوں گے کہ زندگی کو انجوائے کیسے کیا جائے اور کیسے اپنے جذبات کا اظہار کر کے خود کو پرسکون کیا جائے ؟

بعثت کے تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت :

اگر واقعی ہم ان چند ایک گنے چنے لوگوں میں ہیں جنہیں اپنی ثقافت کی تاراجی کا افسوس ہے جو اپنی تہذیب کی بربادی پر غمزدہ ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے زریں اصولوں کو ایک بار پھر اٹھائیں اور کوشش کریں کہ انہیں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں انہیں کے سایے میں آگے بڑھیں اور یہ تب ہو سکتا ہے جب ہم کتاب خدا کو تنہائی سے نکال کر دیکھیں کہ قرآن ہم سے کیا کہہ رہا ہے ؟ اس کی پکار کیا ہے ؟ بعثت پیغمبر ص کی مناسبت سے بہتر اور کونسی تاریخ ہوگی جس میں ہم تھوڑا سا وقت نکال کر اس بات پر غور کریں کہ کل اکیلے نبی نے کیسے اس معاشرہ کا مزاج بد ل دیا تھا جو خود کو تباہ کرنے کے درہے تھا اور مسلسل جہالت کی کدالوں سے اپنی ہی قبر کھودے جا رہا تھا اگر نبی رحمت ص کی زندگی کا مطالعہ کریں گے قرآن کے رہنما اصولوں کو اپنی زندگی میں جگہ دیں گے تو کم از کم اپنے آپ کو تو بچا سکتے ہیں اس مغربی تہذیب کے دیو سے جو سب کچھ تباہ کر دینے کے درپے ہے ۔

یوم بعثت ایک بہترین موقع ہے اپنا محاسبہ کرنے کے لئے اس لئے کہ یہ وہ دن ہے جو انصاف و عدل کی تحریک کے آغاز کا دن ہے ، حریت و آزادی کے مزہ سے دنیا کو آشنا کرانے کا دن ہے تہذیب نفس و تطہیر باطن کی طرف رجوع کا دن ہے اور ہمارے پاس ایک سنہرا موقع ہے کہ ہم خود بھی غور کریں کہ بعثت نے ہمیں کیا دیا اور ہم دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیں کہ بعثت سے دنیا کو کیا حاصل ہو سکتا ہے آج مغربی تہذیب کی چو طرفہ یلغار سے بچنا ہے تو اس کا واحد راستہ بعثت پیغمبر ص کے تعلیمات کو عام کرنا ہے اسی کے ذریعہ ہم مغربی کلچر اور مارڈن جاہلیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .