۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید محمد جون عابدی

حوزہ/ انڈین کانسٹیٹیوشن میں آرٹیکل 25 کے مطابق پبلک آڈر، موریلیٹی اور ہیلتھ اور دوسرے امور کا لحاظ کرتے ہوئے ہر شخص کو آزادی ضمیر اور آزادی کے ساتھ کسی بھی مذہب کو قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام مولانا سید محمد جون عابدی نے ہندوستان میں موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال 28 دسمبر کو کرٹانک کے اڈوپی میں حجاب اور اسکارف پہنے ہوئے کچھ مسلمان لڑکیوں کو کلاس میں جانے یعنی علم حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔ جبکہ انکے فائینل ایگزامز میں کچھ ہی ہفتے بچے ہیں۔

سید جون عابدی نے کہا کہ آج کل اس مسئلہ کو لیکر ملک میں بحث چھڑی ہوئی ہے اورعوام، پالیٹیشینس، مذہبی رہنما اور سوشل اکٹویسٹس سب ہی اس سلسلہ میں اپنی رائے دے رہے ہیں۔ اس پر سیاست بھی ہورہی اور نفرت بھی پھیلائی جارہی ہے، کیا انکا یہ عمل ملک کے کانسٹی ٹیوشن کے مخالف نہیں ہے؟کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ حجاب بین کی آڑ میں، ذہنوں کو ان اپلائیمنٹ، پاورٹی، لا ان آرڈر، فارمر ایشوز ، وومن سیفٹی وغیرہ جیسے رئیل ایشوز سے بھٹکا کر آرٹفیشل ایشوز کی طرف لے جایا جارہاہے؟!!!۔

مولانا نے واضح طور پر کہا کہ حجاب ایک اسلامی قانون ہے اس سے کمپرومائیز کرنا ناممکن ہے۔

جون عابدی نے مزید کہا کہ ہمارے ملک کا قانون مسلمان خواتین کے حجاب پورا اختیار دیتا ہے، انڈین کانسٹیٹیوشن میں آرٹیکل 25 کے مطابق پبلک آڈر، موریلیٹی اور ہیلتھ اور دوسرے امور کا لحاظ کرتے ہوئے ہر شخص کو آزادی ضمیر اور آزادی کے ساتھ کسی بھی مذہب کو قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق ہے، تو اس طرح حجاب جیسے اسلامی قانون پر عمل کرنا ہر مسلمان خاتون کا حق ہے، لیکن کرناٹک حکومت نے حجاب کو بین کرنے لئے کہا: سیکشن 133 کے مطابق طالبات کو وہی ڈریس پہننا ہوگا۔ جو اسکول اتھارٹی معین کریگی۔ اور جس لباس سے ایکولٹی، انٹگریٹی اور لا اینڈ آرڈر ڈسٹرب نہ ہوتے ہوں۔

مولانا نے کہا کہ ان لڑکیوں نے یونیفارم کے ساتھ سر پر اسکارف اس لئے پہنا تھا کیونکہ اسکول میں میل ٹیجٓٹیچرز بھی ہوتے ہیںَ اور غیر مرد سے اپنے بالوں اور بدن کو چھپانا اسلام میں واجب ہے، تو ان لڑکیوں نے اس طرح:

1۔ نہ صرف انڈین کسٹیٹیوشن پر عمل کرتے ہوئے اپنے حق کا استعمال کیا بلکہ

2۔ ایکولٹی، انٹگریٹی اور لا اینڈ آرڈر کو بھی مین ٹین رکھا۔

جبکہ اسکول اتھارٹی اسے برابری، یکجہتی اور لا انڈ آرڈر میں ڈسٹربنس بتاتے ہیں۔

جون عابدی نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اسکول اتھارٹی کہتی ہے سارے بچے ایکول دکھنے چاہئے۔ تو یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ایک سکھ اسٹوڈنٹ یونیفارم میں اسکول جائے اوراس کے سر پر پگڑی ہو تو کیا اسے بھی اکولٹی، یکجہتی اور لا انڈ آرڈر میں ڈسٹربنس مانیں گے؟ ہرگز نہیں کیونکہ اسے یونی فارم کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ تو ان بچیوں حجاب کا حق کیوں نہیں؟ لڑکیوں کا اسکارف لا اینڈ آرڈر کو خراب کرتا ہے یہ کوئی معقول بات نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلہ کے بعد مسلمان خواتین میں بیداری دیکھنے کو ملی اور ملک کے مختلف علاقوں میں ان لڑکیوں کی حمایت میں ہورہی ہے اور اس ظلم کے خلاف مسلمان اور غیر مسلمان زندہ ضمیر مرد وخواتین آواز بلند کررہے ہیں، اگرچہ 31 جنوری 2021 کو ایک اسٹوڈنٹ نے کرناٹکا ہائی کورٹ میں اس کے خلاف پیٹیشن دائر کی ہے۔ اور کہا ہے کہ حجاب ہمارا حق ہے۔ اسے اشیور کیا جائے۔ اس کا فیصلہ ابھی تک پنڈنگ ہے، اس کے علاوہ آئین ہند کا آرٹیکل 21 کہتا ہے کہ کسی شخص پر زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے اس کو زندگی اور اپنی پرسنل آزادی کا حق ہے۔

اسی قانون کے تحت :

ہر خاتون کو عزت و وقار اور عظمت کے ساتھ رہنے کا حق ہے.

تو اس طرح بچیوں کو کلاس میں جانے روکنا:

1۔ ان کو تعلیم سے محروم کرنا ہے جو ان کا حق ہے۔

2۔ انکے ساتھ ڈسکریمینیشن اور بھید بھاؤ کرنا ہے جو قانونا جرم ہے۔

3۔ اور قانون کا غیر معقول استعمال انکے حق ظلم ہے۔

مولانا سید جون عابدی نے حجاب کے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ کی جانب بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایجوکیشن کو فریضہ اور ڈیوٹی مانتا ہے۔ جو حق سے بڑھکر ہے، دوسری طرف سے حجاب بھی اسلام میں واجب ہے، تو اسلام نہ علم حاصل کرنے کے سلسلہ میں کمپرومائیز کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی حجاب کے بارے میں، اب بات واضح ہے کہ خواتین حجاب کریں گی اورعلم بھی حاصل کریں گے۔ یہ قانون بھی ہے اور ہمارا حق بھی۔

کنکلیوجن:

1۔ کرناٹک ایک اسکول میں مسلمان باحجاب لڑکیوں کو کلاس مین جانے سے روک دیا جاتا ہے۔

2۔ ہندوستانی آئین کے مطابق ہر انسان کو اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے کی اجازت ہے۔

3۔ ملک کے آئین کے مطابق کسی پر بھی زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے۔

4۔ اس بات کے تحت حجاب مسلمان لڑکیوں کا حق ہے۔

5۔ حجاب بین کے لئے کرناٹک اسٹیٹ لا 133، کا استعمال قانونی طور پر غیر معقول ہے۔

6۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے علم ڈیوٹی ہے اور حجاب بھی واجب ہے اور کسی بھی صورت ان دونوں سے کمپرومائیز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .