۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 385156
28 اکتوبر 2022 - 01:01
محمد جواد حبیب کرگلی

حوزہ/ کیوں انسان جانوروں سے بدترہے ؟اسکی وجہ یہ ہے کہ ہدایت کے تمام امکانات کے با وجود بھی انسان حقیقت سے غافل رہے ۔ اس لئے وہ جانورں سے بھی بدتر ہیں ۔اس بنا پر قرآن نے بے خبراور غافل لوگوں کو حیوانوں میں اور بے شعوروں میں شمار کیا ہے۔جب انسان کا ہم و غم شکم یا زیرشکم ہوجائے تو وہ جانوروں کی طرح حرکت کرنا شروع کردیتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: محمد جواد حبیب کرگلی

انسان اور عقیدہ :

اس دنیا میں انسان وہ موجود ہے جودوسرے مخلوقات سے الگ ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ بغیرفکر، عقیدہ ، آئیڈیالوجی اور ایمان کے زندگی بسر نہیں کر تاہے یعنی اس دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو بغیر آئیڈیالوجی کے زندگی بسر کرے لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کا آئیڈیالوجی اور عقیدہ غلط ہو جس کے بنا پر وہ عمل بھی خراب ہوسکتا ہے اس ناطے ضروری ہے کہ انسان کو پہچاننا جائے کہ وہ کس طرح کا مخلوق ہے ؟ ہم انسان کو اچھی طرح سمجھیں کہ وہ کیسا موجود ہے ؟ اس میں اور دوسرے جانورں میں فرق کس چیز میں ہے؟ کیوں انسان کسی مکتب فکر (School of thought) کے عقاید اور آئیڈیالوجی کو تسلیم کرتا ہے؟ اورکیوں حیوان کسی مکتب فکر (School of thought)کو تسلیم نہیں کرتا ہے ؟ انسان اور دوسرے حیوانوں میں فرق کس چیزمیں ہے؟ اس کو سمجھنے کےلئے لازم ہے کہ ہم انسان کو مختلف زاویوں سے سمجھے اس کے بارے میں جستجو کرے اس لئے کسی محقق نے کہا تھا "کہ کسی چیز کو سمجھنا کا مطلب یہ ہےکہ اس چیز کو دوسرے چیزوں کی بنسبت سمجھے"۔ یعنی ہم انسان کو دوسرے مخلوقات کے بنسبت سمجھیں اور معلوم کریں کہ انسان اور دوسروں میں کیا فرق ہے۔

انسان اور مخلوقات میں فرق:

جب اس کائیات کے موجودات کا مطالعہ کرتے ہیں تو موجودات کو مختلف مراحل میں پاتے ہیں کچھ موجودات کا شمار"جمادات"(solids) میں ہوتا ہے کچھ کا شمار "نباتات"(Plants) میں ہوتا ہے اسی طرح کچھ موجودات "حیوانات"( Animals) میں اور کچھ "انسانوں"( Human beings) میں شمار کیا جاتا ہے۔دوسری عبارت میں کہا جائے تو کچھ جاندار(Animate) موجودات ہیں اور بے جان(inanimate) موجودات ہیں ۔ان سب موجودات میں انسان اور حیوان میں کچھ چیزوں میں مشترکات پائے جاتے ہیں اور اسی طرح انسان اور فرشتہ میں کچھ مشترکات پائے جاتے ہیں اس ناطے مولائے کائنات امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "خداوند نے اپنی مخلوقات کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے ایک فرشتہ ہے دوسرا حیوان ہے اور تیسرا انسان ہے فرشتہ میں عقل ہے اور شہوت نہیں ہے اسی طرح حیوان میں شہوت ہے عقل نہیں ہے اسی طرح انسان میں عقل اور شہوت دونوں ہے" ۔اس بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اس لئےکہ انسان عقل کو استعمال کرکے اور شہوت پر کنٹرول حاصل کرکے اعلی مقامات پر بھی فائز ہوسکتا ہے اور اسی طرح عقل سے دوری اختیار کرکے اور شہوت پرستی میں مبتلاہو کر بدترین حالات کا شکار بھی ہوسکتا ہے ۔

یہ بات تو واضح ہے کی انسان بعض مخلوقات سے بہترہے۔قرآن مجید میں خداوند فرماتا ہے:و لقد كرّمنا بني آدم و حملنا هم في البرّ و البحر و رزقنا هم من الطّيّبات و فضّلناهم علي كثير ممّن خلقنا تفضيلاً؛ بیشک ہم نے اولاد آدم کو فضیلت دی اور ان کو خشکی اور سمندر کی سواریاں دیں اور ان کو طیب چیزوں سے رزق دیا، اور ان کو ہم نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔ اس بنا پرانسان تمام موجودات کے سرکا تاج ہے چونکہ اس میں ہدایت و ضلالت،تنزلی اور ترقی، تکامل اور تعقل کی صلاحیت اور زمین و آسمان ،ستارہ وسیارہ کو مسخر کرنے کی توانی بھی موجودہے اتنی توانی اور صلاحیت کسی اور جانوروں میں نہیں ہے ۔

انسان اور حیوان میں فرق:

یہ بات مسلم ہے کہ انسان کو جمادات، نبادات میں کسی سے کوئی مقایسہ نہیں کیا جاسکتا ہے اسی لئے ہم اس بارے میں گفتگو بھی نہیں کرینگے۔ لیکن انسان اور حیوان میں کچھ چیزیں مشترکات ہیں۔ جیسے علم اور شعور(The dimension of insight or consciousness)،شہوت ولذت ، عشق و محبت ، دوستی و دوشمنی ،خوشی و غم،رجحانات اور گرایش(the dimension of inclination or tendencies) ،افعال اوراعمال (the dimension of efforts or acts)کھناوپینا،سونا وجاگنا،چلناوپھرنااور حرکت کرنا وغیرہ ۔یہ وہ چیزیں ہیں جن میں انسان اور حیوان مشترک نظرآتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ان میں یہ فرق بھی ہے کہ حیوان کا علم محدود ہے یعنی اسکا علم ذاتی(personal)،جزئی(partial) ،علاقائی(Regional) اورزمان حال(Present) سے مخصوص ہے اور اسی طرح راہ علم(way of knowledge ) بھی محدود ہے حیوان صرف اور صرف حواس ظاہری سے علم حاصل کرتا ہے لیکن انسان کا علم فردی ،جزی ، علاقائی ،ماحول اور زمان حال سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انسان کا علم عمومی ، کلی ہے یعنی انسان خود بھی سیکھتا ہے دوسروں کو سکھاتا ہے انسان کے پاس عقل ہے جو جزئی (particular)اور کلی(universal) دونوں علم کو درک کرتی ہے جزئی علم سے مراد وہ علم ہے جسکا مفہوم بھی ایک ہو اور مصداق بھی ایک ہو جیسے خانہ کعبہ اسکا ایک مفہوم ہے اور اسکا خارج میں مصداق بھی ایک ہے لیکن کلی علم (universal)وہ علم ہے جس کا مفہوم بہت مصادیق پر صادق آتا ہو۔جیسے انسان ،یہ وہ کلمہ ہے جسکے خارج میں بہت سے مصادیق ہے یعنی حسن ، جعفر، علی ، جواد ، اکبر وٖغیرہ سب کے لئے انسان کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔

انسان کا علم زمان حال سے مخصوص نہیں بلکہ اسکا علم ماضی ، حال اور مستقبل سب کے بارے میں ہوتا ہے انسان کا علم علاقائی یا ماحول سے بھی فراتر ہوتا ہے۔اس لئے کہ انسان کے پاس عقل ہےجس کی نبا پر وہ اس کام کو بھی کرتا ہے جو حیوان کرتا ہے اس کام کو بھی انجام دیتا ہے جو حیوان انجام نہیں دیتا ہے۔

حصول علم کے راستے :

علم حاصل کرنے کے مختلف راہیں جیسے ۱۔حواس ظاہر: آنکھ، کان ، ناک ، زبان اور ہاتھ یعنی انسان اور حیوان آنکھ سے دیکھکر ،کان سے سن کر، ناک سے سونکر اور زبان سے چکھکر اور ہاتھ سے لمس کرکے علم حاصل کرتے ہیں اس مقام پر کہا جاتا ہے"من فقدحسا فقد علما"جو ایک حس کو کھودیتا ہے وہ ایک علم سے محروم ہوجاتا ہے۔

۲۔ حواس باطنی: جیسے عقل ، خیال، توہم،انسان ان راہوں سے بھی علم حاصل کرتا ہے

۳۔ راستہ وحی :۴۔ راستہ اشراق ہے۔

انسان کی فضیلت :

انسان کی فضیلت اور برتری دوسرے موجودات پراسکی " انسانیت"(Humanity) اور"معنویت"( spirituality) کی بنا پر ہے بعض دانشمند کہتے ہیں :انسان نہ صرف معنوی اعتبار سے بلکہ جسمانی اور مادی اعتبار سےبھی حیوانوں سے افضل ہے اور خداوند نے انسان کو حیوانوں سے افضل و برتر خلق فرمایا ہے اس لئے انسان سے توقعات بھی زیادہ ہے۔ خداوند فرماتا ہے : و من كان في هذه أعمي فهو في الاخرة أعمي و اضلّ سبيلاً؛ وہ لوگ جو اس دنیا میں اندھا ہیں و ہ آخرت میں بھی اندھا محشور ہونگے اور گمراہ بھی ہیں ۔ یعنی جو اس دنیا میں حق اور حقیقت کو درک نہیں کرتے ہیں اور گمراہی میں زندگی بسر کرتے ہیں ہدایت اور خدا کی نشانیوں سے دوری اختیار کرتے ہیں وہ آخرت میں بھی گمراہ محشور ہونگے ۔درحالیکہ خدا وند نے کائنات کو خلق کرکے اس میں اپنی نشانیوں کو رکھا اور قرآن اور آسمانی کتابوں کے نزول سے ہدایت کا سروسامان بھی کیا بھربھی انسان ہدایت حاصل نہ کرے تو وہ جانوروں سے بھی بدتر شمار کیا جاتا ہے۔

خداوند خود فرماتا ہے : إنّا هديناه السبيل إمّا شاكراً و إمّا كفوراً؛ ہم نےہدایت کے راستے کی نشاندہی کردی ہے چاہئے وہ میرے شکر گزار بندہ بنے یا میرے نافرمان بندے بنے ۔علم اور معرفت حاصل کرکے خدا سے نزدیک ہوں اور خدا کا فرمان بردار بندے بن جائے ، یا جہل و نادانی ، غرور و تکبر ،شہوت اور لجاجت کے راہ کو انتخاب کرکے خود کو جانورں سے بھی بدتر ہوجائے۔

اب وہ انسان جو اپنی صلاحیتوں سے فایدہ نہیں اٹھاتا ہے وہ جانور وں سےبدتر ہوتا ہے خداوند دوسری آیت میں فرماتا ہے :"ولقد ذرأنا لجهنم كثيراً من الجنّ والانس لهم قلوب لا يفقهون بها و لهم أعين لا يبصرون بها و لهم آذان لا يسمعون بها أولئك كالانعام بل هم أضلّ اولئك هم الغافلون"۔ اور بیشک ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے ایسے جن اور انسان پیدا کیے جن کے دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں (مگر) وہ ان سے دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ہیں (مگر) وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ ہیں وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

کیوں انسان جانوروں سے بدترہے ؟اسکی وجہ یہ ہے کہ ہدایت کے تمام امکانات کے با وجود بھی انسان حقیقت سے غافل رہے ۔ اس لئے وہ جانورں سے بھی بدتر ہیں ۔اس بنا پر قرآن نے بے خبراور غافل لوگوں کو حیوانوں میں اور بے شعوروں میں شمار کیا ہے۔جب انسان کا ہم و غم شکم یا زیرشکم ہوجائے تو وہ جانوروں کی طرح حرکت کرنا شروع کردیتا ہے ایسے لوگوں کے لئے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : كالبهمية المربوطة همّها علفها أو المرسلة شغلها تقممها؛ کچھ انسان حیوانوں کی طرح صرف کھانے کی پروا کرتے ہیں یا ان جانوروں کے مانند ہے جوچراگاہ میں جھوڑ دیا گیا ہے جو جہاں سے بھی کھانے کو ملے کھالیتے ہیں ۔ خداوند ہم سب کو ایسے کاموں سے محفوظ رکھے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .