۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 362448
4 ستمبر 2020 - 12:16
تقویم حوزہ: ۱۵ محرم الحرام ۱۴۴۲

حوزہ/تقویم حوزہ: ۱۵ محرم الحرام ۱۴۴۲، شہداء(ع)کے سر، شام کی جانب روانہ کیے گئے،61ه-ق

حوزہ نیوز ایجنسیl
 تقویم حوزہ:
آج:
عیسوی:  Friday - 04 September 2020
قمری: الجمعة، 15 محرم 1442

آج کا دن منسوب ہے:
صاحب العصر و الزمان حضرت حجة بن الحسن العسكري عليهما السّلام

آج کے اذکار:
- اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ (100 مرتبه)
- یا ذاالجلال و الاکرام (1000 مرتبه)
- یا نور (256 مرتبه) عزیز ہونے کے لیے

اہم واقعات: 
شہداء(ع) کے سر، شام کی جانب روانہ کیے گئے،61ه-ق

➖➖➖➖➖
پندرھویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  -- وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ
عقل کا تقا ضا ہے کہ ہر ناقص کامل کے آگے جھکے اور ہر ادنیٰ اعلیٰ کی اطاعت کرے۔۔ پس اس لحاظ سے خالق اکبر کے سامنے جھکنا تو عقل کا بدیہی فیصلہ ہے ترتیب خلق میں ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح ادنیٰ اپنے اعلیٰ کی نوکری و خدمت میں بلاچون و چرا مصروف ہے؟ سلسلہ جمادات۔۔ نباتات۔۔ حیوانات اور انسان میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ کا ادنیٰ سے خدمت لینا اس کا فطری و خلقی حق ہے۔
جمادات سے نباتا ت اعلیٰ ہیں کیونکہ جمادات میں جمود ہے اور ساتھ ہی ان میں مادّہ ترقی بھی نہیں اور نباتات میں برخلاف اس کے جوہر نموّ اور مادّہ ترقی موجود ہے۔۔ پس بے جوہر سے جوہر دار اور بے کمال سے صاحب کمال افضل ہے لہذا روحِ نباتی رکھنے والے موجودات جو نباتا ت کہلاتے ہیں بے روح اور مردہ موجودات سے افضل ہیں جن کو جماد کہا جاتا ہے کیوں کہ زندہ مردہ سے بہتر ہے۔
حیوانات۔۔ نباتا ت سے افضل ہیں کیونکہ حیوانات میں دو روح موجود ہیں جو اس کیلئے جوہر کمال ہیں، ایک روح نباتی جو نباتات میں موجود ہے اور دوسرا روح حیوانی جو اس کی حس و حرکت کا موجب ہے اور دوسرے روح کے اعتبار سے نباتات میں کیفیت مردنی موجود ہے پس حیوانات۔۔ نباتات سے بہتر ہیں کیونکہ دو جوہر رکھنے والا ایک جو ہر والے سے افضل و بہتر ہے۔
انسان۔۔ حیوانات سے بہتر ہے کیونکہ اس میں روح نباتی اور روح حیوانی کے علاوہ روح انسانی موجود ہے جو نفس ناطقہ کہلاتا ہے اور انسان میں نشوونما اور حس وحرکت کے علاوہ قوتِ گویائی اور دولت عقل موجود ہے جس سے باقی موجودات خالی ہیں۔۔ پس یہ انسان گزشتہ تینوں (جمادات، نباتات، حیوانات) سے افضل ہے اور پہلے تینوں ناقص اور اس چوتھے نمبر والے کامل کے مقابلہ مفضول ہیں کیونکہ بے کمال سے صاحب کمال بہتر ہوتا ہے۔
پس فطری حق کے لحاظ سے جماد ناقص اور نبات کامل۔۔ لہذا جماد خادم اور نبات اس کا مخدوم ہے اور مخدوم کو حق حاصل ہے کہ خادم پر حکومت کرے۔۔ لہذا زمین میں کوئی نباتی بیج بویا جائے تو زمین چونکہ فطرتاً خادم ہے وہ انکار نہیں کرسکتی اور نہ یہ عذر کر سکتی ہے کہ فلاں بیج کی خدمت کروں گی اور فلاں کی خدمت نہ کروں گی بلکہ اس کیلئے تلخ و شریں۔۔ اچھے برے سب نباتات حاکم ہیں، وہ جس طرح آدم ؑ کی خدمت کرے گی اسی طرح آگ کی خدمت کرنا بھی اس کا فرض ہے اور جس طرح کماد کی جڑوں کو غذا پہنچاتی ہے اسی طرح مرچ کی جڑوں کو بھی غذا پہنچانا اس کا فرض ہے اور وہ اپنے اس فریضہ سے کبھی کوتاہی نہیں کرتی۔
اسی طرح حیوان اور نبات میں سے حیوان مخدوم اور نبات خادم ہے لہذا حیوان کو نبات پر حق حکومت حاصل ہے اور جماد پر بھی اس کو بدرجہ اَولیٰ حکومت کا حق ہے لہذا حیوان کیلئے نبات و جماد دونوں خادم ہیں۔۔ پس جو حیوان جس انگوری کو کھائے کسی نباتی فرد کیلئے مجال انکار نہیں کہ میں اس خدمت کو بجا نہیں لاتا اسی طرح زمین بھی حیوان کے پائوں تلے رہنے اور حیوان کے اوپر چلنے پھرنے سے نہیں کتراتی بلکہ وہ حیوان کی خدمت اپنا فطری حق سمجھتی ہے۔
اسی ترتیب سے انسان چونکہ ان تمام سے کامل تر ہے لہذا وہ ان تینوں کا مخدوم ہے اس لئے یہ تینوں اس کے خادم ہیں، پس وہ جماد پر حاکم۔۔ نبات پر حاکم اور حیوان پر بھی حاکم ہے۔۔۔اسی لئے جس جماد سے جس حیوان سے اور جس نبات سے انسان جو خدمت چاہے لے سکتا ہے اور تسخیر موجودات میں جو آجکل کے انسان نے حیرت انگیز ترقی کی ہے اس سے انسان کا حق حکومت نہایت واضح ہو جاتا ہے ، انسان کو حق حاصل ہے کہ کسی بھی حیوان پر سواری کرے یا کسی سے باربرداری کا کام لے اور کسی کو دودھ کیلئے استعمال کرے اور کسی کو ذبح کر کے کھا جائے۔۔ ان حیوانات میں سے کسی کو مجالِ انکار نہیں اور حیوان کو ذبح کرنے سے اس کو بھی درد ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی زندگی کو چاہتا ہے کیونکہ وہ خدا کی زمین پر خدا کا رزق کھاتا تھا لیکن چونکہ وہ ادنیٰ تھا لہذا اعلیٰ کی خدمت سے جی چرانا اس کے لیے ناجائز تھا، پس وہ ہر قسم کی زیادتی برداشت کر لیا کرتا ہے اور بار گاہِ ربوبیت میں وہ انسان کے خلاف دعویٰ بھی دائر نہیں کر سکتا کیونکہ انسان کو اس پر حکومت کرنے کا فطری حق حاصل ہے جس طرح حیوان کو نبات پر اور نبات کو جماد پر حاصل تھا۔
اسی طرح شیر دار حیوان اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر انسان کو اپنا دودھ دیا کرتا ہے حالانکہ اپنے بچے اس کو بھی عزیز ہیں لیکن وہ سمجھتا ہے کہ اعلیٰ کی نوکر ی میں ادنیٰ پر ضروری ہے کہ اپنے بچے بھی قربان کر دے حتی کہ اپنی جان تک بھی قربان کر دے اگر اعلیٰ کو ضرورت ہو۔۔۔۔ اور اس قربانی سے ادنیٰ فنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے موجودہ حال سے ترقی کر جاتا ہے، زمین کو جو حصہ درخت کیلئے قربانی پیش کرتا ہے وہ اجزائے زمین درحقیقت فنا نہیں بلکہ نبات کا جزو بنتے ہیں، اسی طرح جو نبات حیوان کی خوراک بنتے ہیں وہ مردہ نہیں ہوجاتے بلکہ حیوان کا خون و گوشت بن کر ترقی کر جاتے ہیں۔
اسی طرح جو حیوان انسان کی خوراک بنتے ہیں وہ فنا نہیں ہوتے بلکہ اپنے سے اعلیٰ کا حصہ جسم بن جاتے ہیں اگرچہ ظاہری صورت میں لوگ ان کو مردہ کہتے ہیں؟  پس در حقیقت وہ حیوانیت سے ترقی کرکے انسان کی جزو ہو جاتے ہیں۔
اس قاعدہ سے معلوم ہو ا کہ جو انسان توحید کی بقا کیلئے اپنی جان قربان کردیں وہ درحقیقت مردہ نہیں بلکہ اپنے موجودہ حال سے انہیں ترقی نصیب ہوتی ہے اور وہ کلمہ توحید کی جزو ہو جاتے ہیں۔۔۔ ظاہراً اگر چہ انہیں مردہ کہا جاتا ہے لیکن باطنی طور پر وہ شہید اور زندہ ہوتے ہیں جس طرح کہ قرآن مجید ان کی زندگی کا گواہ ہے۔
بہر کیف انسان اپنے ماتحت کے تینوں ناقص موجودات کا مخدوم ہے اور اس کا حق ہے کہ ان سے خدمت حاصل کرے، لیکن اس کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس عقل سے فیصلہ کی رو سے میں اپنے ما تحت کا مخدوم ہوں اور ان پر حق حکومت رکھتا ہوں اسی عقلی فیصلے کی رو سے میرا فطری فریضہ ہے کہ اپنے مافوق خالق کا ئنات اور اس کے فرستادہ نبی و امام کی اطاعت کروں اور ان کا حق حکومت اپنے اوپر تسلیم کروں، ورنہ فطرت اور عقل کا فیصلہ ہے کہ جو حاکم اپنے مافوق کی غلامی نہ کرے وہ اپنے ماتحت پر حق حکومت سے محروم کیا جاتا ہے۔۔ مثلاً جو تھانہ دار کپتان کی اطاعت نہ کرے وہ تھانہ میں سپاہیوں پر حکومت کرنے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے یعنی وہ نوکر ی و ملازمت سے برطرف ہو جاتاہے اور جو ضلعی حاکم صوبہ کے حاکم کا مطیع نہ ہو وہ ضلع پر حکومت کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔
سلسلہ موجودات میں جو زمین نباتات، حیوانات اور انسان کی خدمت نہ کرے وہ نیلامی کے قابل ہوتی ہے اور کوئی مالک اس کو اپنی ملکیت میں رکھنا گوارا نہیں کرتا اور جو زمین اپنے مافوق کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے قابل ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ قیمتی ہوا کرتی ہے، اسی طرح جونبات حیوان وانسان کے کام کے نہیں ہوتے وہ اپنے ماتحت زمین سے خدمت لینے کے حق سے محروم کردیئے جاتے ہیں اوران کو زمینوں سے کا ٹ کرباہر پھینک دیا جاتا ہے اورجو نبات حیوان وانسان کے لئے زیادہ سے زیادہ کا رآمد ہوتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں اوراسی طرح جوحیوان انسان کی خدمت نہ کرسکے مثلاً سواری کے لئے خرید ا تھا اوراب وہ سواری کے قابل نہ ہو یا بار برداری کے لئے تھا اوراب باربرداری کاکام نہ دے سکے وعلیٰ ہذاالقیاس۔۔ تو ایسے حیوانات کو اپنی ملکیت سے ہٹا کر نیلام یا ذبح کیا جاتا ہے اورماتحت سے خدمت لینے کے حق سے اس کو محروم کردیا جاتا ہے اورجو حیوان انسان کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرے وہ زیادہ قیمتی اورپیارا ہوا کرتا ہے۔
 پس اسی دستور فطری کی روسے جو انسان اپنے سے اعلیٰ کی نوکری اوراطاعت کرے گا وہ عزت دار ہوگا اورجس قدرزیادہ اطاعت کرے گا اسی قدر زیادہ عزت پائے گا اوربخلاف اس کے جوانسان اپنے اعلیٰ کی اطاعت سے سرتابی کرے گا وہ ماتحت پر حکومت کرنے کے حق سے محروم کردیا جائے گا بلکہ حکومت الٰہیہ کے قانون کے مطابق وہ کاٹ دینے کے قابل ہوگا اوردنیا سے مٹادینے کا سزاوار ہوگا۔
اپنے سے اعلیٰ کی اطاعت کافطری حق یہ ہے کہ اپنا سب کچھ اعلیٰ کی خوشنودی کے لئے قربان کردیا جائے اوراس کا عملی نمونہ اگر دیکھنا ہو تو میدانِ کربلا کی طرف نظر کیجئے۔۔۔۔۔۔ اگر بیٹوںکی ضرورت ہو تو علی اکبر ؑ جیسے جوان بیٹے کی قربانی سے دریغ نہیں کیا، اگر شیر خوارکی ضرورت ہوئی تو علی اصغر ؑ کے گلوئے نازنین کو تیر کے سامنے پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا اوراگر جسم وجان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ایک ہزار نوسواکاون (۱۹۵۱) زخم تن پر کھائے اوراُف تک نہ کی، نامعلوم یہ وقت امام مظلوم ؑکی ہمشیرہ جناب زینب عالیہ ؑ نے کیسے دیکھا ہو گا؟ اسی لئے تو بنا بر حکایت بی بی نے پوچھا   أنْتَ الْحُسَیْن کیا تو ہی حسین ؑ ہے؟
امام حسین ؑکو اس عظیم قربانی کا جو دنیا میں ثمر ملا وہ تین چیزیں ہیں: اَلْاِمَامَۃُ فِیْ وُلْدِہٖ وَ الشِّفَائُ فِیْ تُرْبَتِہٖ وَ اِسْتِجَابَۃُ الدُّعَا تَحْتَ قُبَّتِہ؛ امامت تاقیامت آپ ؑ کی نسل میں قرار دی گئی؛ شفا آپ ؑ کی تربت میں رکھ دی گئی؛ز   آپ ؑ کی روضے کے گنبد کے نیچے دعا مقبول ہوتی ہے۔
امام حسین ؑ نے اپنا سب کچھ بقائے اسلام اور دین خداوندی پر نثار کر دیا اور خداوند کریم نے بھی ان کو اس قدر دیا جو اور کسی کو نہیں دیا۔۔۔۔ امام حسین ؑ نے راہِ خدا میں ایسے جوان دیئے جن پر جوانی کو ناز تھا، بعض ذاکرین کا کلمہ مجھے بہت پیارالکتا ہے کہ جوانی جوانی نہیں رہی جب سے امام حسین ؑ کا جوان علی اکبر ؑ خاکِ کربلا پر سویا۔
میں کہتا ہوں کہ تقریباً ۱۳سوبرس سے عزادارانِ امام حسین ؑ تلواروں چاقوئوں، زنجیروں اور سنگلیوں کا ماتم کرتے ہیں اوراپنے جسم کو زخمی کرڈالتے ہیں اورہر سال شیعہ جوان بارگاہِ شہزادہ علی اکبر ؑ میں اپنے خون کا ہدیہ پیش کرتے ہیں میرا یہ عقیدہ ہے کہ صرف ایک محرم کا شیعہ نوجوانوں کے ماتم کا خون اگر اکٹھا کیا جائے تو ایک دریا پُر ہو کربہہ نکلے اور۱۳سوسال کا خون اگر کٹھا کیا جاتا تو شاید ایک موج مارتا ہوا سمندر بنتا؟ لیکن خدا کی قسم شیعہ نوجوانواں کے خون کا موج مارتا ہوا سمندر امام حسین ؑ کے نوجوان شہزادے کے ناحق خون کے ایک قطرہ کے برابر نہیں ہوسکتا۔۔۔ جب امیر مختار کے سامنے عمر بن سعد اوراس کے بیٹے حفص کو پیش کیا گیا اورکہنے والوں نے کہاکہ عمر بن سعد امام حسین ؑ کے بدلہ میں اوراس کا بیٹا حفص امام کے شہزادے علی اکبر ؑ کے بدلہ میں ہوگا تو مختارثقفی رودیا اور کہا:
چہ نسبت خاک را بعالمِ پاک
مقصد یہ تھا اگر تمام دشمنانِ دین کو تہ ِ تیغ کردیا جائے تب بھی علی اکبر ؑ کا بدلہ نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ ایک عمرسعد امام حسین ؑ کا بدلہ ہو؟ یہ امام حسین ؑ کا وہ نوجوان تھا جس کا حسن شہر ۂ آفاق تھا اورخود حضرت امام حسین ؑ اس نوجوان شہزادہ کے حسن کے معترف ہیں کہ آپؑ نے علی اکبر ؑ کو بوقت رخصت حضرت رسالتمآبؐ سے تشبیہ دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ ان تمام خوبیوں کا مالک تھا جورسول خدا میں تھیں سوائے نبوت کے۔
شہزادہ کے حسن کے متعلق آقا شیخ ذبیح محلاتی نے فرسان الہیجامیں بیان کیا ہے کہ جب شہزادہ ابوالفضل ؑ اورشہزادہ علی اکبر ؑ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گھر سے باہر تشریف لاتے تھے تو مدینہ کے زن ومرداُن کے حسن کا تماشہ دیکھتے تھے اورایک دوسرے کو پکار پکار کرکہتے تھے کہ وہ دیکھوعباس ؑ وعلی اکبر ؑ آرہے ہیں۔۔۔ شہزادہ علی اکبر ؑ وہ حسین تھا جس کو ہر ماں حسین سمجھتی تھی، پھر ایسا خوبصورت شہزادہ ماں کو کیونکر پیارا نہ ہوگا؟
بلکہ میں کہا کرتا ہوں نیک نصیب ہے وہ ماں جس کے سامنے اس کا جوان بیٹا گھر کی رونق وزینت موجود ہو۔۔ پس ایسی مائیں سسرال میں رہ کر ہرتکلیف ودکھ کا مقابلہ کرسکتی ہیں جن کی نظر میں جوان فرزند چلتا پھر تا موجود ہو اورسچ ہے کہ عورت کے دل پر ہزارہا درد و ان گنت طوفان ہو ں تو بھی جب اس کے سامنے اپنا جوان فرزندآجائے تو دل کے ارمان اوردرد ختم ہوجاتے ہیں۔
ہائے کیسی نیک نصیب تھی وہ ماں جس کو علی اکبر ؑ جیسا نوجوان بیٹا سامنے آکر کہتا ہوگا اماں جان میرا سلام قبول ہو۔۔ جس ماں کے گھر کی رونق علی اکبر ؑ جیسا فرزند ہو اس ماں کو اورکیا غم لاحق ہوسکتا ہے؟
چنانچہ کہنے والے کہتے ہیں تمام بیبیاں علی اکبر ؑ کی وجہ سے جناب لیلیٰ کی عزت کرتی تھیں۔۔ پس اندازہ کیجئے کیسی باہمت تھی یہ ماں جس نے اپنا متاعِ حیات اورسرمایہ زندگی علی اکبر ؑ جیسا نوجوان فرزندقربانی کے لئے پیش کیا؟ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خاندانِ عصمت کی شہزادیاں معرفت کے کس زینہ پر فائز تھیں؟
یہ تھی معرفت امام ۔۔۔۔ خداجانے امام حسین ؑ نے اپنے نوجوان فرزندکی لاش کس طرح اُٹھائی ہوگی؟ اوردکھیاری ماں نے کس طرح اپنے بیٹے کی نورانی شکل کو خاک وخون میں غلطان دیکھا ہوگا؟ اورتاریخ گواہ ہے کسی شہید کے لئے پردہ داروں نے خیموں سے باہر قدم نہیں رکھا لیکن علی اکبر ؑ کے گھوڑے سے گرنے کی خبر سن کر غالباً سب سادانیا ں خیموں سے نکل کھڑی ہوئیں۔۔ حتی کہ زینب عالیہ ؑ لاش پر بھائی سے پہلے پہنچیں اورامام نے ان کو خیمہ تک واپس کیا۔
اندازہ کیجئے اس قدر زبردست صدمہ تھا کہ حضرت زینب خاتون ؑ سے جب نہ رہا گیا تو باقی بیبیاں کیسے خیموں میں آرام کرسکتی تھیں؟ خصوصاً اس ماں کو کب آرام آتا ہوگا جس کی زندگی کا سہارا علی اکبر ؑ تھا اورجس بی بی کا آلِ رسول سے رشتہ علی اکبر ؑ کی موت کی وجہ سے ختم ہورہاتھا۔۔۔۔ ہائے حسین ؑ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .