۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
تقویم حوزہ: ۱۰ محرم الحرام ۱۴۴۲

حوزہ/تقویم حوزہ: ۱۰ محرم الحرام ۱۴۴۲،​​​​​​​شہادت سید الکونین مولانا اباعبدالله الحسین سلام الله علیه و علی آبائه و ابنائه و اصحابه و لعنة الله علی قاتلیه، 61ه-ق

حوزہ نیوز ایجنسیl
 تقویم حوزہ:
آج:
عیسوی: Sunday - 30 August 2020
قمری: الأحد،(یکشنبہ،اتوار) 10 محرم 1442

آج کا دن منسوب ہے:
مولیٰ الموحدین امیر المومنین حضرت علی بن ابیطالب علیهما السّلام
(عصمة الله الكبري حضرت فاطمة زهرا سلام الله عليها)

آج کے اذکار:
- یا ذَالْجَلالِ وَالْاِكْرام (100 مرتبه)
- ایاک نعبد و ایاک نستعین (1000 مرتبه)
- یا فتاح (489 مرتبه) فتح و نصرت کے لیے

اہم واقعات: 
شہادت سید الکونین مولانا اباعبدالله الحسین سلام الله علیه و علی آبائه و ابنائه و اصحابه و لعنة الله علی قاتلیه، 61ه-ق
ظہور امام زمان علیه السلام اسی دن متحقق ہوگا۔ ان شاءالله
مختار ثقفی کے ہاتھوں حصین بن نمیر واصل جہنم ہوا۔
وفات ام سلمه ،ام المومنین زوجۂ رسول خدا علیها السلام  "۶۲ یا ۶۳ ه.ق"۔
ابراهیم بن مالک اشتر کے ہاتھوں ابن زیاد واصل جہنم ہوا "۶۷ ه.ق"۔
شام غریباں حضرت زینب علیه السلام اور اهل بیت علیه السلام۔
➖➖➖➖➖
’’مخزن البکا‘‘ میں واقعہ شہادت اس طرح مرقوم ہے کہ بروایت ’’منتخب‘‘ خولی نے امام مظلوم ؑ کی پشت پرزور سے ایک نیزہ کا وار کیا کہ بروایت ابومخنف امام مظلوم ؑ تین گھنٹے منہ کے بل زمین پرپڑے رہے فَبَقِیَ ثَلَاثَ سَاعَاتٍ مَکْبُوْبًا عَلَی الْاَرْضِ امام مظلوم ؑ آخری وقت تک استغاثہ کرتے رہے لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا، تب ملائکہ نے درگاہِ قاضی الحاجات میں عرض کیا اے پروردگار تیرے محبوب کا نواسہ کیسی مظلومیت سے قتل کیا جارہاہے کہ اس کی فریاد بھی کوئی نہیں سنتا اور تو دیکھتاہے اوراس کا بدلہ نہیں لیتا؟ پس ارشادِ قدرت ہو ا کہ عرش کے دائیں جانب نگاہ ڈالو؟ چنانچہ انہوں نے دیکھا ایک نورانی چہرے والاجوان نماز میں مشغول ہے ارشاد ہوا یہ قائم آل محمد ہے اوریہی اس مظلوم ؑ کے خون کا بدلہ لے گا۔

عمر بن سعد نے اعلان کیا کہ جلدی سے اس مظلوم ؑ کا سرتن سے جدا کرو؟ یہ وہ وقت تھا کہ امام ؑ سجدہ پروردگار میں پیشانی جھکاکررازونیاز کی مناجات میں محو تھے، ایک شخص بہ نیت قتل آگے بڑھا توامام ؑ نے فرمایا تو میراقاتل نہیں ہے لہذا آتش جہنم میں اپنے جسم کو نہ جلا اوردور ہوجا، چنانچہ وہ شخص فوراً تائب ہوا اوردشمنانِ دین سے لڑ کر وہیں شہید ہوگیا اس کا ذکر گزرچکا ہے ۔
عمر ابن سعد نے پاس کھڑے ہوئے ایک شخص کو حکم دیا کہ امام ؑ کا سرتن سے جدا کر؟ توخولی ملعون آگے بڑھا امام مظلوم ؑ نے گوشہ چشم سے اس کی طرف دیکھا تو وہ کانپنے لگا اورواپس آگیا شمر نے پوچھا کیوں کانپتا ہے؟ اس نے جواب دیا فرزند پیغمبر کے قتل میں ہاتھ نہ ڈالوں گا، پس عمربن سعد کے حکم سے چالیس جوان کعبہ دین کو ڈھانے کیلئے آگے بڑھے، پہلے ایک شخص آگے بڑھا جونہی امام ؑ نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی وہ کانپتاہوا واپس آیا، شمر نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا مجھے حسین ؑکی آنکھوں سے جناب رسالتمآب کی شکل نظر آرہی تھی لہذا میں جرأت نہیں کرسکتا؟
حمید بن مسلم کہتاہے میں نے دیکھا اس وقت جناب زینب علیا درخیمہ پر موجود تھیں اورعمر بن سعد کو کہہ رہی تھیں اے عمر تودیکھ رہاہے اورمیرا بھائی مارا جا رہا ہے؟ بیشک مصائب کربلامیں یہ مصیبت انتہائی سخت ہے کہ علی ؑ کی بیٹی کو بھائی کے قاتل سے بات کرنی پڑی! بی بی کو یہی خیال تھا کہ شاید کسی کے دل پررحم آجائے اورحسین ؑ کے قتل سے باز آجائیں؟ لیکن کسی نے بی بی کی فریاد نہ سنی اوروہ خیمہ کے درپرناچار دیکھتی اورروتی تھی، پس شبث بن ربعی تلوار لے کرآگے بڑھا لیکن امام ؑ کے قریب آیا اورامام ؑ نے نظر کی تووہ خوفزدہ ہوکرپیچھے بھاگا، پس سنان بن انس نے تلوارلی اورمظلوم کربلاکی طرف عرش خدا کو ہلانے کیلئے اورسادانیوں کوبے وارث کرنے کیلئے نہایت سنگدلی سے آگے بڑھا جب امام مظلوم ؑ کے قریب آیا توامام ؑ نے دونوں آنکھیں کھولیں اوراس پر نظر کی پس فوراً ہی اس کے اعضامیں کپکپی طاری ہوگئی اورتلوارہاتھ سے چھوٹ کرگرپڑی اوربھاگ کھڑاہوا، پس عمر بن سعد سے کہا تجھ پر خداکی لعنت اورغضب ہو اے عمر کہ تو محمد کی دشمنی کا موجب ہوا ہے؟ عمر نے کہاکیا ہواہے کیوں نہیں قتل کرتے ہو؟ سنان نے جواب دیا تیرے اوپرلعنت ہو جب امام ؑ نے میری طرف آنکھیں کھول کردیکھا تو مجھے علی ؑکی صورت نظر آئی، پس شمر بن ذی جوشن ملعون نے تلوار ہاتھ میں لی اورستون دین گرانے کیلئے۔۔۔ سادانیوں کوبے وارث کرنے کیلئے۔۔۔ قیامت تک شیعوں کو رلانے کیلئے اورمظلوم کربلا کی نازک گردن پرکند خنجر چلانے کیلئے آگے بڑھا، مظلوم کربلا کے جسم میں اب ایک رمق جان ہی باقی تھی پیاس کی شدت سے زبان خشک ہونٹوں پرپھیر رہے تھے اورتسبیح خدا میں مشغول تھے، جب یہ ملعون قریب پہنچا تو امام مظلوم ؑ نے نگاہ حسرت سے دیکھا اورپانی کا ایک گھونٹ طلب فرمایا؟ اس شقی نے جواب دیا کہ تمہارا گمان ہے کہ تمہاراباپ ساقی کوثر ہے لہذا تھوڑی دیر باقی ہے جاکران کے ہاتھوں کوثرپی لینا؟ امام ؑ نے فرمایامجھے پہچانتاتو ہے؟ اس شقی نے جواب دیا جان پہچان کرتجھے قتل کرتا ہوں، پس اپنے ناپاک قدم سے امام مظلوم ؑ کے زخم دکھائے اورامام ؑ نے جو آنکھیں بند کرلی تھیں گویااس ملعون نے دوبارہ جگایا، پس اس کمینے کی ٹھوکر سے آپ ؑ منہ کے بل تھے پھر پشت کے بل ہوگئے، تو اس حرامزادے نے اپنانجس پائوں خزینہ ربانیہ پر رکھنے کی جرأت کی اورریش اقدس کو ہاتھ میں پکڑا اورتلوار پھیر نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ امام مظلوم ؑ نے ہنس کر فرمایاتیرے اوپروائے ہو توکون ہے؟  لَقَدِ ارْتَقَیْتَ مُرْتَقًا عَظِیْمًا   توایک بلند مقام پرسوارہوگیا ہے؟ اس نے جواب دیا میں شمر ہوں، امام ؑ نے فرمایا مجھے بھی پہچانا ہے کہ کون ہوں؟ تجھے تیرے حسب ونسب سمیت پہچانتاہوں، امام ؑ نے فرمایا پھر کیوں میرے قتل کے درپے ہے؟ تواس نے جواب دیا یزید کی طرف سے انعام ملے گا، امام ؑ نے فرمایامیرے ناناکی شفاعت بہتر ہے یا یزید کا انعام ؟ تواس نے جواب دیا یزید کے انعام کی ایک دمڑی تیرے باباکی شفاعت سے بہتر جانتا ہوں، امام ؑ نے پوچھا آج کونسادن ہے؟ اس نے کہاجمعہ کا روز ہے، امام ؑ نے فرمایاآج لوگ اس وقت خطبہ جمعہ میں میرے باباپر درودپڑھ رہے ہوں گے اورتو مجھے قتل کررہاہے؟ اے شمر رسول خدا  میرے سینے پر اپنا منہ رکھتے تھے اورتو قدم رکھ رہاہے؟ نیزوہ میری گردن پربوسہ دیتے تھے اورتو خنجر رکھ رہا ہے؟  یقین جان میرے دائیں طرف حضرت زکریا کی روح موجود ہے اوربائیں طرف حضرت یحییٰ کی روح موجود ہے، اب زبان زیادہ خشک ہوچکی تھی لہذا اتمامِ حجت کے طورپرصرف اس قدر فرمایا   اِسْقِنِیْ شَرْبَۃً مِنَ الْمَاء  مجھے ایک گھونٹ پانی پلادو؟ لیکن اس ملعون نے انکار کردیا، پس آپ ؑ نے فرمایااپنے سینے سے ذراکپڑا تو ہٹا، چنانچہ اس نے کپڑا ہٹایا تو آپ ؑ نے فرمایا   صَدَقَ جَدِّی سچ کہا میرے نانانے،  اس شقی نے پوچھا بتایئے تیرے نانانے کیا فرمایا تھا؟ تو امام ؑ نے جواب دیاکہ ایک دن میرے نانانے میرے باباعلی ؑ کو فرمایاتھا کہ تیرے اس فرزند کو ایک مبروص قتل کرے گا جوکتے اورخنزیر کے مشابہ ہوگا، یہ سنتے ہی وہ ملعون غضبناک ہوا اورحلق نازنین پرتلوار چلانے لگا لیکن تلوار کام نہیں کرتی تھی، پس امام ؑ نے فرمایایہ وہ مقام ہے جس کو میرے نانا باربار بوسے دیا کرتے تھے لہذا تلوارکی مجال نہیں کہ آگے بڑھ سکے۔
پس بروایت ابومخنف اس شقی نے جواب دیا چونکہ تیرے نانانے مجھے کتے سے تشبیہ دی ہے لہذا  مَا اَذْبَحُکَ اِلَّا مِنْ قَفَاکَ یعنی میں تجھے پس گردن سے ہی ذبح کروں گا، پس اس نے امام ؑ کو منہ کے بل لٹایا اب امام ؑ کی وصال کی منزل نزدیک آگئی توامام مظلوم ؑ نے بارگاہِ پروردگارمیں عرض کیا اے اللہ میں نے اپنے عہد کی وفاکرلی ہے اب تواپنے عہد کی وفاکر، پس ندا غیب سے آئی اے حسین ؑ میں بھی اپنا عہد پوراکروں گا اورتیرے شیعوں کو جنت میں داخل کروں گا کہ توراضی ہوگا، امام ؑ نے عرض کیا پس اب مجھے موت کی پرواہ نہیں ہے، پس اس بے حیانے پس گردن سے ذبح کر نا شروع کیا اورتیرہ ضربتوں سے سرکو تن سے الگ کردیا، ایک ضرب سامنے کی طرف سے اوربارہ ضربیں پس پشت سے توکل تیرہ ضربتوں سے امام عالیمقام ؑ کا سرجداکردیا گیا اورنوک نیزہ پر سوارکرکے عمربن سعد کی طرف روانہ ہوا۔
بروایت ابو مخنف لشکر اشقیا ٔ میں صدائے تکبیر بلند ہوئی جب کہ زمین میں لرزہ پیدا ہوا۔۔ آسمان سیاہ ہوا۔۔ آفتاب بے نورہوا اوراس قدر تاریکی چھاگئی کہ ستارے نظر آنے لگے اورآسمان سے خون برسنے لگااورآسمان سے منادی نے آوازدی:
قُتِلَ الْاِمَامُ بْنُ الْاِمَامِ اَخُوالْاِمَامِ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ
ملائکہ نے صدا دی اے خشکی وتری کے بسنے والو غم کے لباس پہنو کیونکہ نبی کا لخت جگر ذبح کر دیاگیا ہے، پس ملائکہ آسمان سے اُترے اورامام مظلوم ؑ کی تربت کو پَروں پرمل کرآسمان کی طرف گئے اورکوئی فرشتہ نہ بچا مگریہ کہ وہ کربلامیں وارد ہوا اوربروایت ’’لہوف‘‘ اتنی سخت سیاہ اندھیری چلی کہ کوئی چیزنظر نہ آسکتی تھی اورآثار عذاب نمودارتھے، پس جبرائیل بصورت انسانی کربلامیں آئے اورہائے ہائے کرکے روتے تھے اورفرماتے تھے لوگو حضرت رسول خدا رو رہے ہیں۔
’’فرسان الہیجا‘‘ میں اس طرح ہے کہ پہلے شبث بن ربعی آیا۔۔پھر سنان بن انس۔۔ پھرخولی بن یزید قتل امام ؑ کیلئے آئے اورامام ؑ کی آنکھو ں سے شکل رسول دیکھ کر مرعوب ہو کر اور لرزہ براندام ہو کر واپس گئے اورآخر میں شمر بن ذی الجوشن  آیا اور اس نے امام ؑ مظلوم کوشہید کیااسوقت زمین میں زلزلہ آیا، مشر ق ومغرب پرتاریکی چھاگئی۔۔ لوگوں کے جسموں پرکپکپی طاری ہوئی۔۔ آسمان سے خون برسا۔۔سورج کوگہن لگا۔۔ زرداورسرخ اندھیری چلی اوراس قدر گردوغبار نمودارہوا کہ لوگوں کوعذاب خداوندی کا یقین ہوچکا تھا، ملک وملکوت میں اس وقت شوروماتم تھا، پرندوں نے آشیانے ترک کئے۔۔ جانوروں نے صحرامیں صف ماتم بچھائی اوردریاوں میں موج حسرت ہویدا ہوئی، مچھلیا ں تڑپ کرباہر آئیں فرشتوں نے ماتم کیااورقوم جنات نے آہ وفغاں بلندکی۔
کتب تاریخ میں اختلافِ عظیم ہے کہ امام مظلوم ؑ کا قاتل کون ہے؟ بعض خولی لکھتے ہیں اوربعض سنان بن انس کا نام پیش کرتے ہیں اوربعض شمر کہتے ہیں اورصحیح یہ ہے کہ یہ سب کے سب امام مظلوم ؑ کے قاتل ہیں، بلکہ ان کے علاوہ اورلوگ بھی امام ؑ کے قتل میں شریک ہیں مثلاابوالجنوب۔۔ صالح بن وہب۔۔ شبث بن ربعی۔۔ حصین بن نمیر اورزرعہ بن شریک وغیرہ خدااِن پر ہزارہزار لعنت کرے۔
میں نے ایک کتاب میں دیکھاہے کہ شمرملعون نے امام ؑ کا سرتن اطہر سے جدا کرکے زور سے زمین پرپھینکا کہ زمین سے غبارظاہرہوا اورپھر دوبارہ اورسہ بارہ پھینکا اور اس کے بعد پھرنوکِ نیزہ پربلند کرلیا۔۔۔۔۔ اوریہ کہ ایک شخص نے یہ روایت مجلس میں بیان کی توایک شخص ناراض ہوا کہ ذاکر نے غلط بیانی کی ہے، چنانچہ عالم خواب میں امام حسین ؑکودیکھا اورعرض کیا مولالوگ آپ ؑ کے مصائب میں غلط بیانی کرتے ہیں چنانچہ فلاں ذاکرنے یہ بیان کیا ہے کہ شمر نے آپ ؑ کے سرکو تین دفعہ زور سے زمین پرپھینکا تھا؟ آپ ؑ یہ سن کررودئیے اورفرمایا اے عبد خدا!  توصرف اسی پرتعجب کررہاہے حالانکہ میرے اوپر اس سے بھی زیادہ ظلم ہوئے ہیں۔
جب امام مظلوم ؑ کی شہادت ہوچکی توظالموں نے اسی پراکتفا نہ کیا بلکہ لاش کو لوٹنے کے لئے دوڑے۔۔۔۔۔ چنانچہ اسحق حضرمی نے امام ؑ کے تن اطہر سے وہ قمیص اُتارلی جوامام نے پرانے لباس کے طور پرعریانی کے خوف سے زیب تن فرمائی تھی اوراس کو کئی جگہوں سے پارہ پارہ بھی کیا تھا تاکہ کوئی اس میں خواہش نہ کرنے پائے اورعلاوہ ازیں تیروتلوار ونیزہ کے پڑنے سے ایک سوسے زیادہ شگاف بھی اس میں ہوچکے تھے، جب اس ملعون نے اس قمیص کو پہنا تو فوراًبرص میںمبتلاہوا اور اسی عذاب سے دنیا سے چل بسا، نہ معلوم شاید اسی مظلومیت کو ظاہر کرنے کے لئے بتول معظمہ بروز محشر پایہ عرش مجید کو پکڑکر امام مظلوم ؑ کی قمیص کو پیش کرکے دادخواہی کیلئے فریاد کریں گی اورکہیں گی ھٰذَا وَلَدِیْ وَھٰذَا قَمِیْصُ وَلَدِیْ ایک ہاتھ میں حسین ؑکا سرہوگا اور دوسرے ہاتھ میں قمیص ہوگی اورکہیں گی یہ میرا فرزند ہے اوریہ میرے فرزند کی قمیص ہے؟  تہ بندابحر بن کعب نے اُتارا جس کے پہننے کے بعد اس کے پائوں شل ہوگئے اورچلنے پھرنے سے معذورہوگیا۔۔۔ آپ ؑ کا عمامہ اخنس بن مرثد حضرمی نے اٹھایا اوراس کے پہننے کے بعد وہ دیوانہ ہوکرمرگیا۔۔۔ بجدل بن سلیم نے انگشتری کے طمع میں انگلی شہید کرڈالی۔۔۔ اسودبن خالد نے نعلین مبارک پائوں سے اتار لی۔۔۔ قیس بن اشعث نے پشمینہ اتار لیا۔۔۔ زرّہ عمر بن سعد نے لے لی۔۔۔ تلوار اسود بن حنظلہ دارمی نے لوٹی؟ پس بغیر لباس کے آپ ؑ کے جسم اطہر کو خاک وخون میں غلطان چھوڑکر بغیر دفن کے چلے گئے (قمقام ص۳۹۵  ،  مخزن البکا)
’’مخزن البکا‘‘ میں ہے کہ جب امام مظلوم ؑ کا سربریدہ عمر بن سعدکے پیش کیا گیا توانعام کی خاطر کئی ملاعین آگے بڑھے؟ کوئی کہتا تھا میں نے حلق پر تیر مارا تھا۔۔۔ کوئی کہتا تھا میںنے پیشانی پر پتھر مارا تھا۔۔۔ کوئی کہتا تھا میںنے پہلو پر نیزہ مارا تھا؟ بہر کیف ہرشخص اپنے اپنے مظالم بیان کرتا تھااور شمر کہتا تھا کہ میںنے سر کو تن سے جدا کیا ہے؟  وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مَنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .