بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا. النِّسَآء(۶۳)
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل کا حال خدا خوب جانتا ہے لہذا آپ ان سے کنارہ کش رہیں انہیں نصیحت کریں اور ان کے دل پر اثر کرنے والی محل موقع کے مطابق بات کریں۔
موضوع:
منافقین کے رویے اور ان سے نبی اکرمؐ کا برتاؤ
پس منظر:
یہ آیت سورۂ نساء میں منافقین کے بارے میں نازل ہوئی، جو ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے تھے لیکن دل سے ایمان نہیں لائے تھے۔ ان کا رویہ مسلمانوں کی جماعت کے لیے نقصان دہ تھا، اور وہ داخلی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل کی نیتوں سے خوب واقف ہے اور نبی اکرمؐ کو ان کے ساتھ حکمت سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔
تفسیر:
1. علمِ الٰہی: اللہ تعالیٰ ہر انسان کے دل کی کیفیت اور نیت کو جانتا ہے۔ یہاں منافقین کے دل کی بد نیتی اور ان کے فریب کو بیان کیا گیا ہے۔
2. حکمتِ عمل: نبی اکرمؐ کو حکم دیا گیا کہ ان منافقین سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ ان کے جھوٹے رویے میں نہ آئیں لیکن انہیں نصیحت کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔
3. قولِ بلیغ: نصیحت میں ایسا اسلوب اختیار کریں جو ان کے دلوں پر اثر کرے، انہیں ان کی غلطیوں کا احساس دلائے، اور ان کی اصلاح کا ذریعہ بنے۔
اہم نکات:
1. اللہ کا علم: اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے، اس لیے کسی کے ظاہر پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
2. نبوی حکمت: اختلاف اور فتنہ پیدا کرنے والے افراد کے ساتھ نرمی اور بصیرت سے معاملہ کرنا چاہیے۔
3. اصلاح کی کوشش: نصیحت کا انداز ایسا ہونا چاہیے جو مخاطب کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرے اور اسے تبدیل ہونے پر آمادہ کرے۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ اصلاح اور تبلیغ کے لیے نرمی اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ اختلاف پیدا کرنے والوں سے دور رہ کر ان کے دلوں پر اثر کرنے والے الفاظ استعمال کیے جائیں تاکہ اصلاح کا راستہ کھلا رہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء