بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا. النِّسَآء(۵۸)
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اللہ تمہیں بہترین نصیحت کرتا ہے بیشک اللہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی۔
موضوع:
امانت داری اور عدل و انصاف
پس منظر:
یہ آیت سورۃ النساء کی ہے، جو اجتماعی اور انفرادی زندگی میں انصاف اور امانت داری کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب اسلام ایک مکمل معاشرتی نظام کی بنیاد رکھ رہا تھا، اور مسلمانوں کو عدل و انصاف اور دیانت کے اصولوں پر عمل کرنے کی ہدایت کی جا رہی تھی۔
تفسیر:
۱. امانتوں کی ادائیگی: اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں تک پہنچائی جائیں۔ اس میں مالی، اخلاقی اور اجتماعی امانتیں شامل ہیں۔ مثلاً: حکومتی عہدے اور اختیارات بھی ایک امانت ہیں جو اہل اور دیانت دار افراد کو دیے جائیں۔
۲. عدل و انصاف کا حکم: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ عدل کا تقاضا ہے کہ کسی کے ساتھ ذاتی تعلق یا دشمنی انصاف پر اثر انداز نہ ہو۔
3. اللہ کی نصیحت: اللہ تعالیٰ اپنی ہدایات کو بہترین نصیحت قرار دیتا ہے، کیونکہ یہ ہدایات انسانی معاشرے کے امن و سکون اور فلاح کی ضمانت ہیں۔
4. اللہ کی صفات: اللہ سمیع (سب کچھ سننے والا) اور بصیر (سب کچھ دیکھنے والا) ہے، یعنی وہ انسان کے تمام اعمال اور نیتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔
اہم نکات:
۱. امانت داری ایک دینی، اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے۔
۲. عدل و انصاف اسلامی معاشرتی نظام کی بنیاد ہے۔
۳. اللہ کی ہدایات انسان کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے لیے ہیں۔
۴. کسی بھی فیصلے یا ذمہ داری میں انصاف کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔
نتیجہ:
یہ آیت ایک مثالی اسلامی معاشرتی نظام کا خاکہ پیش کرتی ہے، جس میں امانت داری اور عدل و انصاف کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ اگر یہ اصول اپنائے جائیں تو معاشرے میں امن، اعتماد اور ترقی کو فروغ ملے گا۔