بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا۔
ترجمہ: کیا ملک دنیا میں ان کا بھی کوئی حصہ ّہے کہ لوگوں کو بھوسی برابر بھی نہیں دینا چاہتے ہیں۔
موضوع:
یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو دنیاوی ملکیت یا اقتدار کے خواہاں ہیں لیکن بخل و کنجوسی کی وجہ سے دوسروں کو حق نہیں دیتے اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
پس منظر:
یہ آیت ان یہودیوں کی ایک خاص روش کو بیان کرتی ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے نزدیک منتخب قوم سمجھتے تھے اور سوچتے تھے کہ انہیں دنیا میں سب کچھ ملنے کا حق ہے۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آخرت میں بھی انہیں خصوصی مقام ملے گا۔ یہ لوگ دولت اور طاقت کی ہوس میں مبتلا تھے اور اس کے باوجود دوسروں کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں دیتے تھے۔
تفسیر:
اللہ اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو خود کو طاقتور سمجھتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس اقتدار یا اختیار ہے، مگر وہ اپنی اس طاقت کے باوجود دوسروں کے حقوق ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ آیت میں لفظ "نقیرًا" استعمال ہوا ہے جو کھجور کی گٹھلی پر موجود بہت ہی چھوٹے نشان کو ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ لوگوں کو اتنا بھی نہیں دینا چاہتے جتنا کھجور کی گٹھلی پر نقطہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد ان کا شدید بخل ہے۔
اہم نکات:
1. دوسروں کے حقوق کا احترام: اگرچہ کسی کے پاس دولت یا طاقت ہو، لیکن اس کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرے اور ان کا حصہ دے۔
2. بخل کی مذمت: اللہ تعالیٰ بخل کو پسند نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ مال و دولت میں سے دوسروں کے ساتھ بھی کچھ حصہ بانٹا جائے۔
3. اللہ کی حاکمیت: اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اصل مالکیت اللہ کی ہے اور کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں کہ وہ دوسروں کے حقوق کو دبائے۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ دنیاوی دولت اور اختیار کو اللہ کی نعمت سمجھنا چاہیے اور اس کا استعمال دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اقتدار یا دولت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بخیل بن جائے اور دوسروں کا حق مارے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء