بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَنْ تَضِلُّوا السَّبِيلَ. النِّسَآء (۴۴)
ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصہّ دے دیا گیا ہے کہ وہ گمراہی کا سودا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ سے بہک جاؤ۔
موضوع:
یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہیں اللہ نے کتاب کا کچھ علم دیا، لیکن انہوں نے اس علم کو حق سے دوری اور گمراہی کے لئے استعمال کیا۔ ان لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس منظر:
یہ آیت بنی اسرائیل اور اہلِ کتاب کی مخصوص جماعتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو حق کو پہچاننے کے باوجود اسے چھپاتے یا بدل دیتے تھے۔ ان کی نیت اپنے فائدے کے لیے لوگوں کو گمراہ کرنا تھی، حالانکہ انہیں ہدایت کی راہ دکھائی گئی تھی۔
تفسیر:
1. اہلِ کتاب کی گمراہی: آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بعض اہلِ کتاب نے اپنے علم کو ہدایت کے بجائے گمراہی کے راستے پر لگایا۔
2. حق کے مقابلے میں سوداگری: انہوں نے دین اور حق کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو ترجیح دی اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا۔
3. دیگر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش: ان کا مقصد دوسروں کو بھی ہدایت کے راستے سے ہٹا کر گمراہی میں مبتلا کرنا تھا، جو ایک سنگین جرم ہے۔
اہم نکات:
علم کا غلط استعمال: اللہ کے دیے گئے علم کا غلط استعمال اور اسے دنیاوی مفادات کے لیے استعمال کرنا قابلِ مذمت عمل ہے۔
گمراہی کا سودا: یہ رویہ انسان کی روحانی تباہی کا سبب بنتا ہے، کیونکہ گمراہی کا انتخاب اسے اللہ کی رحمت سے دور کردیتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے انتباہ: یہ آیت مسلمانوں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی پیروی سے بچیں جو انہیں ہدایت سے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ علم اور ہدایت کی قدر کرنی چاہیے اور کسی صورت میں بھی اسے گمراہی اور فریب کے راستے پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ یہ ہمیں خبردار کرتی ہے کہ حق اور ہدایت کا راستہ اختیار کریں اور گمراہ کرنے والوں سے ہوشیار رہیں۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء