بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا. سورۃ النساء: آیت ۴۱
ترجمہ: اس وقت کیا ہوگا جب ہم ہر امت کو اس کے گواہ کے ساتھ بلائیں گے اور پیغمبر، آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر بلائیں گے۔
موضوع:
قیامت کے دن گواہی کا نظام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اعمال پر گواہ کی حیثیت۔
پس منظر:
یہ آیت قیامت کے دن کا ذکر کرتی ہے، جب ہر قوم کو حساب کتاب کے لئے جمع کیا جائے گا اور اس قوم کے گواہ کو ان کے اعمال پر گواہی دینے کے لئے پیش کیا جائے گا۔ اس دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سب پر گواہ بنا کر لایا جائے گا۔ یہ آیت امت مسلمہ کو ان کی ذمہ داریوں کی یاددہانی کراتی ہے کہ رسول اللہ کی تعلیمات پر عمل کرنا قیامت کے دن سرخرو ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔
تفسیر:
یعنی ہر زمانے کے رسول اپنی امت پر اللہ کی عدالت گاہ میں گواہ ہوں گے کہ پیغام الٰہی کو ان لوگوں تک پہنچا دیا۔ ان لوگوں نے اس پر عمل کیا ہو یا عصیان کیا ہو، دونوں صورتوں میں گواہی دیں گے۔
اس آیت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ قیامت کے دن اعمال پر گواہی دینا ایک بڑی ذمہ داری ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی ہمارے اعمال کے حق و باطل کی پہچان میں اہم ہوگی۔
اہم نکات:
۱. قیامت کے دن ہر قوم کا ایک گواہ ہوگا جو ان کے اعمال کی گواہی دے گا۔
۲. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت کے اعمال کے گواہ کے طور پر لایا جائے گا۔
۳. گواہی کا یہ نظام ہر شخص کے اعمال کے حق و باطل کو ظاہر کرے گا۔
۴. یہ آیت امت مسلمہ کو خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنے اعمال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
نتیجہ:
اس آیت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی ہمارے اعمال پر ہوگی۔ یہ ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تاکید کرتی ہے تاکہ قیامت کے دن ہم رسول اللہ کی گواہی سے سرخرو ہوں۔
┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء