۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
News ID: 400182
28 جون 2024 - 11:37
مولانا سید منظور نقوی امروہوی

حوزہ/ ہر انسان کو دنیوی معاملات میں کہیں نہ کہیں اور کسی کچہری میں گواہ پیش کرنے کی ضرورت لاحق ہو تو سب سے پہلے انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ وہ شخص کسی ایسے انسان کو اپنا گواہ بنا کر لے جائے گا جو قابلِ اعتماد ہو۔

تحریر: مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی

حوزہ نیوز ایجنسی| ہر انسان کو دنیوی معاملات میں کہیں نہ کہیں اور کسی کچہری میں گواہ پیش کرنے کی ضرورت لاحق ہو تو سب سے پہلے انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ وہ شخص کسی ایسے انسان کو اپنا گواہ بنا کر لے جائے گا جو قابلِ اعتماد ہو۔

عقل بھی یہی فیصلہ کرتی ہے کہ وہ ایسا گواہ لیکر جائے گا جس پر اعتماد ہو۔ گورنمنٹ کے کسی کیس میں نہ پھنسا ہوا ہو، بلکہ آفیسروں کے نزدیک صاحب عزت ہو اور جو بات اسے بطور حلف سچ کہتا ہو ایسے ہی انسان کی گواہی کامیابی کا سبب ہو گی، اب اگر بر خلاف اس کے کوئی انسان اپنے معاملات کا گواہ ایسے شخص کو بنا کر لائے جو ہمیشہ گورنمنٹ کی نظروں کا شکار ہو۔ دس پانچ مرتبہ جیل کا منہ دیکھ چکا ہو۔ گورنمنٹ کو جس کی گواہی پر اعتماد نہ ہو تو کہہ دیا جائے گا کہ کوئی دوسرا گواہ ہو تو پیش کرو اگر کوئی قابل اعتماد گواہ نہ پیش کر سکا تو یقیناً خرابی کا سبب ہوگا۔

اسی طرح اگر رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو خدائی معاملہ میں گواہوں کی ضرورت پیش آئے تو اس کا گواہ کس شان و شوکت کا ہونا چاہیے؟ کیا رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو خدائی معاملات میں ایسے گواہ کی گواہی کام آسکتی ہے جس نے مدتوں تک کفرو شرک میں زندگی بسر کی ہو؟ اگر کبھی رسول خدا (ص) ایسا گواہ پیش کریں گے تو میں یہ کہتا ہوں کہ رسالت ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ گواہی اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ چشم دید واقعات کو پیش کرے سنی ہوئی بات پر گواہی درست نہیں ہے، اگر کوئی شخص گواہی میں یہ کہے کہ میں نے سنا ہے تو پھر حاکم کا حکم یہ ہوگا کہ جس سے تم نے سنا ہے اس کو پیش کرو لہذا رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو ایک ایسے گواہ کی ضرورت تھی جو چشم دید واقعات کی گواہی دے کہ میں نے عرش پر نبی کو تسبیح و تقدیس الٰہی کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے صلب آدم میں رحم جناب حوا میں صلب شیث و نوح میں صلب ابراہیم و اسمعیل میں صلب عبد المطلب میں تسبیح و تقدیس الٰہی کرتے دیکھا ہے، اس لئے میں امام خلق، منصوص من اللہ ہو کر گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک، اسلام اس کا پسندیدہ دین، محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اس کے رسول اور نزول قرآن بر حق ہے۔ رسول (ص) جو آیات الٰہی تمہارے رو برو پڑھتے ہیں ان کو میں نے لوح محفوظ پر پڑھا ہے۔

پس یہی وجہ تھی کہ اس کے دو جزء بنائے ایک شاہد دوسرے کو مشہود بنایا۔ ایک گواہ خود خداوند عالم بنا۔ دوسرا عالم کتاب شاہد منہ بن کر آیا، اب جو اس کے بعد گواہی دے گا وہ زبان امامت سے سن کر دے گا پس معلوم ہوا کہ دونوں گواہوں کی حیثیت برابر ہونی چاہیے اگر برابر نہ ہوگی تو سقیم لازم آئے گا ایسی صورت میں اعلیٰ مرتبہ گواہ کی گواہی کی کوئی وقعت نہ ہوگی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .