۷ مهر ۱۴۰۳ |۲۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 28, 2024
حج

حوزہ/ آج اربعین حسینی کے موقع پرکربلا و نجف میں زائرین کا اتنا بڑا مجع ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع کہا جا تا ہے جس کے سامنے حج کا مجمع بہت چھوٹا سا لگتا ہے۔اور انتظامات و سہولیات کے اعتبار سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ،بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر،املو،مبارکپور ،ضلع اعظم گڑھ(اترپردیش) ہندوستان

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلام میں جس قدر مہمانوں کی عزت افزائی،قدر دانی اور میزبانی کی تاکید اور ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ حد درجہ قابل توجہ اور لائق عمل ہیں ۔کیا یہ حدیث مہمان کے احترام کے لئے کافی نہیں ہے کہ ’’اکرام کرو مہمان کا اگرچہ کافر کیوں نہ ہو‘‘(جامع الاخبار)۔

افسوس صد افسوس اس سال حج ۲۰۲۴ ء کچھ ایسے غمناک واقعات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس پر پوری دنیا میں اظہار رنج و افسوس کیا جا رہا ہے۔البتہ حج اور مکمل عیش و عشرت کا تصور کرنا تو سراسر غلط اور عبث ہے ۔ امسال ہندوستانی عازمین حج کو کچھ ایسے حادثہ پیش آئے جیسے ایک بلڈنگ میں لفٹ کا گرنا اور چند عازمین حج کا جاں بحق ہو جانا حالانکہ اس میں بھی سعودی بد انتظامی شامل مانی جائے گی اگرچہ حج کمیٹی آف انڈیا بھی بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ ویڈیو کلپ اور وائس میسج کی شکل میں کچھ شکایات جن کا تعلق سعودی حکومت اور حج کمیٹی آف انڈیا سے ہے بغرض اصلاح و تصحیح ذیل میں درج ہیں۔

اس سال سب سے بڑا دل دہلا دینے والا واقعہ منیٰ کا ہے جس میں ابتدائی رپورٹ کے مطابق 577حجاج کرام شدت کی دھوپ میں تپتی ہوئی زمین پر کھلے آسمان کے نیچے سخت گرمی کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہو گئے۔جبکہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جاں بحق حاجیوں کی تعداد 1؍ہزار 81 ہوگئی۔ان میں گرمی سے مرنے والا کوئی ہندوستانی حاجی نہیں ہے ۔پھر بھی وہ چاہے کہیں کے رہنے والے ہوں ،مصری ہوں یا اردنی ہوں یا کہیں کے ہوں ،تھے تو اللہ کے مہمان ،تھے تو حجاج کرام ،تھے تو ہمارے اسلامی بھائی بہن ،تھے تو اللہ کے بندے،تھے تو انسان ؟واضح رہے کہ منیٰ میں اس طرح کے حادثات ہر سال ہی کچھ چھوٹے یا بڑے پیمانہ پر ہوتے ہی رہتے ہیں۔پھر بھی سعودی حکومت کوئی سبق نہیں سیکھتی۔

اس موقع پر مکہ مکرمہ میں موجود ایک خادم الحجاج الحاج نے بتا یا کہ الحمد للہ ہمارے قافلہ میں سب حاجی خیریت اور حفاظت سے ہیں۔ہمارا قافلہ جو لکھنؤ سے ایک ساتھ ایک فلائٹ میں روانہ ہوا تھا ہم ایک ساتھ مدینہ وارد ہوئے،ایک ساتھ ایک ہفتہ مدینہ منورہ میں ایک ہوٹل میں مقیم رہے مگر مکہ مکرمہ جانے کے بعد سب الگ الگ عزیزیہ علاقہ کی الگ الگ بلڈنگوں میں منتشر ہو گئے جس کی وجہ سے ہمیں گروپ کو تشکیل دینے میں بہت دقت جھیلنی پڑی۔پھر بھی ہم اپنی انتھک کوششوں میں کامیاب رہے۔حجاج کرام کے بہت سے مسائل کو حل کئے جیسا کی کچھ لوگوں کو حج کے بعدبعض وجوہات کی بنا پر وطن واپسی کی جلدی تھی تو ان کی فلائٹ میں بکنگ وغیرہ کا انتظام کرایا ۔ ایک دو حاجی منیٰ میں کھو گئے تھے جن کو جلد ہی ڈھونڈھ لیا ،اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی،ایک حاجی مکہ میں بیمار ہو گئے ان کو ہاسپیٹل میں ایڈمٹ کرایا ۔ہاسپیٹل میں وہ ابھی با حیات ہیں اصل میں وہ پہلے سے ہی ضعیف اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔کڈنی خراب ہو گئی ہے۔لیور خراب ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ د عاء کیجئے اللہ ان کو اور سب مریضوں کو صحت و شفا عطا کرے ۔آمین۔

انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’حج کے شرائظ میں سے صرف مال و دولت کی فراوانی یعنی صاحب استطاعت ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک اہم شرط صحتمند اور تندرست ہونا بھی ضروری ہے اگر یہ نہیں ہے تو حج واجب ہی نہیں ہے۔لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے کسی ضعیف و بزرگ و ناتواں یا مریض رشتہ دار کو حج کے لئے نہ بھیجیں یا کم از کم اکیلا حج کے لئے نہ بھیجیں بلکہ ان کی دیکھ ریکھ کرنے والا کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ ضرور ساتھ میں موجود ہوں‘‘۔

قرآن مجید کے مطابق کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے منیٰ و مکہ میں بد انتظامی کے سبب شدت گرمی سے جو حا جی مرے ہیں ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟

حج بیت اللہ اور اربعین کربلا میں باعتبار کیفیت و کمیت و مدیریت ایک مختصر موازنہ

حج بیت اللہ اور اربعین کربلا میں باعتبار کیفیت و کمیت و مدیریت ایک مختصر موازنہ
امسال مناسک حج کے دوران ۵۵۰عازمین حج جاں بحق۔

حج ۲۰۲۴ء ناقص انتظامات

https://youtu.be/6TE9U1cIfHg?si=aGaQoTLTMYX9S9L-

حج کے دوران ہونے والی بد انتظامیوں کی شکایات

حج ۲۰۲۴ءواٹس ایپ گروپ ممبئی میں بتاریخ ۲۰؍مئی سید محمد زیدی نے اپنے ایل پوسٹ میں لکھا ہے:’’۔۔۔سعودی یہ ذرابھی مہمان نواز نہیں اور بہت مغرور ہیں۔ایران و عراق اور سعودی میں یہی فرق ہے‘‘۔

سعودیوں نے حج و عمرہ کو صرف اپنے ملکی مفاد کے لئے ایک بڑے پیمانہ پر عالمی تجارتی منڈی بنا رکھا ہے جس میں دین،شریعت اور امت کی بھلائی اور مہمان نوازی کا تصور کرنا ہی غلط ہے۔کعبہ سعودیوں کے لئے صرف کمائی کا ذریعہ ہے جبکہ کربلااسلام نوازی و انسانی ہمدردی کا محور و مرکز ہے۔

’’ایک دفعہ زمینِ کعبہ نے اپنی برتری پر ناز کیا کہ مجھ جیسا کون ہے میں کعبہ کا مسکن ہوں تو فوراً وحی الہی ہوئی :

خاموش! اے کعبہ کی زمین۔

کربلا کی زمین کے مقابلہ میں تیری فضیلت کو وہ نسبت ہے جو پانی کے ایک قطرہ کو سمندر سے ہوا کرتی ہے۔ بقسم اگر میں اس زمین کربلا اور اسکے ساکن کو خلق نہ کرتا تو تجھے پیدا نہ کرتا اور نہ تیرا کعبہ پیدا ہوتا‘‘۔(تفسیر انوارالنجف۔ جلد٤)

اب ذرا عراق و ایران میں کے مناظر بھی ملاحظہ فرمائیے دیکھئے کیا بہتریں حسن انتظام ہے ۔عراق میں اربعین حسینی کے موقع پر نجف تا کربلا پیدل مارچ میں تقریباً 3کروڑ زائرین شرکت کرتے ہیں مگر کبھی کسی طرح کی کسی بد نظمی کی شکایت سننے میں نہیں آتی۔ہرچیز کا بہترین انتظام اور وہ بھی مفت ۔

ویڈیو دیکھنے کے لئے لینک پر کلک کریں:

عراق میں اربعین حسینی کے موقع پرپیدل مارچ کا روح پرور نظارہ

ویڈیو دیکھنے کے لئے لینک پر کلک کریں:

ایران تہران میں نماز جمعہ کے تاریخی مناظر

دنیا کے لئے درس عبرت ہے کہ فرزند رسولؐ ،دلبند علی ؑ حضرت امام حسین علیہ السلام جن کو ظالم یزیدیوں نے عین ایام حج میں کعبہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور کربلا کے بے آب و گیاہ میدان میں ان کو گھیر کر احباب و انصار اور اعزا و اقارب سمیت نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا تھا آج اس کا روضہ مبارکہ رشک کعبہ اور مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔آج اربعین حسینی کے موقع پرکربلا و نجف میں زائرین کا اتنا بڑا مجع ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع کہا جا تا ہے جس کے سامنے حج کا مجمع بہت چھوٹا سا لگتا ہے۔اور انتظامات و سہولیات کے اعتبار سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔

اور مجھے یاد ہے کسی ایرانی رہنما کا سعودیوں کی بد انتظامی کے حوالے سے کئی سال قبل کا یہ قول کہ ’’تم سال میں ایک مرتبہ ۲۵؍ لاکھ حاجیوں کا مجمع نہیں سنبھال سکتے ،ہمیں دیکھو ہر ہفتہ تہران کی نماز جمعہ میں ۲۵؍لاکھ نمازیوں کو کتنی عزت کے ساتھ حفاظت کرتے ہیں‘‘۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .