تحریر:حافظ سید ذہین علی نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کے سات براعظموں سے آئے ہوئے توحید پرست مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع حج ۔
سر زمین وحی مکہ مکرمہ توحید کا قلعہ خانہ خدا جو دنیا بھر کے خدا پرستوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔
بیت اللہ خانہ کعبہ کے سامنے سے رقم ہونے والی یہ تحریر لفظ با لفظ پڑھ کر اللہ کے گھر سے اپنی محبت کا اظہار فرمائیں دعا گو ہوں خدا تعالیٰ قارئین کرام کو جلد از جلد اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے ۔۔۔
عشق خدا سے سرشار توحید الہی کے پرستارو آئیے ملکر سر زمین وحی کا تحریری سفر کر کے اپنے ایمان میں اضافہ کریں۔
مکۃ المکرمہ ایک قدیم شہر ہے، حضرت آدم ؑ دنیا کے پہلے انسان بھی ہیں اور پہلے پیغمبر بھی۔ آپ ہی کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی سب سے پہلی انسانی تعمیر ہوئی۔ پھر آپؑ نے اس کا طواف کیا۔
بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اب سے تقریباً 5 ہزار سال قبل اس مقدس گھر کی تعمیر اپنے بیٹے حضرت اسمعٰیل ؑ کے ساتھ فرمائی تھی جس کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ بقرہ میں اس طرح سے آیا ہے۔
اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ اے پروردگار تو ہم سے (یہ تعمیر) قبول فرما تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے اس مقدس تعمیر کے بعد اس مقام کو کئی ایک نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جیسے بیت اللہ، بیت العتیق، بیت الحرام، خانۂ کعبہ، الحرم وغیرہ وغیرہ تاہم بعثت نبوی تک اسے بیت العتیق کہا جاتا رہا ہے۔
اس کی تعمیر کی غرض و غایت یہی بتائی جاتی ہے کہ یہ خدا پرستوں کا مرکز بنے اور رہتی دنیا تک امن کا مرکز بنا رہے فرمایا گیا ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی۔ آیہ مبارکہ میں اسے ثواب حاصل کرنے کی جگہ سے تعبیر کیا ہے جب کہ اس کے دوسرے معنی مثابہ سے یہ بھی بنتے ہیں کہ بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ۔ یعنی جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت کر لیتا ہے، اس کی ایک مرتبہ چلے جانے سے تسکین نہیں ہوتی۔ تین تین چار چار بار چلا جاتا ہے اور یہ ایسا شوق ہے کہ اس کی تسکین پھر بھی نہیں ہوتی اور بے قراریوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اسی آیہ مبارکہ میں آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔ آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعمیر کا منشاء عبادت رکھا ہے۔ یعنی آنے والا اس گھر کا طواف کرے واضح رہے کہ طواف یعنی خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے کو ایک طواف کہا جاتا ہے اور اس طواف کے بعد دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ یہ طواف والی عبادت صرف اسی مقام کے ساتھ مخصوص اور مشروط ہے کسی بھی اور مقام پر یہ عبادت نہیں کی جا سکتی شہر مکہ کے مختصر تعارف کے بعد آئیے اس اہم فریضہ کے بارے ایک نگاہ کریں جس کی ادائیگی کے لیے ہر سال دنیا سے لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع اکٹھا ہو کر ہر طرح کے رنگ و نسل ، زبانی کا فرق یہاں تک کے ہر طرح کی تفریق سے بالا ہو کر خدا کے رنگ میں رنگے ہوئے لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتا نظر آتا ہے ۔۔
معنی حج
حج کا لغوی معنی ہے ارادہ کرنا، زیارت کرنا، غالب آنا وغیرہ۔ لیکن اسلام میں حج ایک عبادت ہے جو خانہ کعبہ کے طواف اور مکہ مکرمہ شہر کے متعدد مقدس مقامات پر حاضر ہو کر کچھ آداب و اعمال بجا لانے کا نام ہے۔ حج اسلام کے اہم ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ یہ ہر مسلما ن کیلئے زندگی میں ایک بار فرض ہے ۔
حج کا معنی خاص۔۔
اپنے نفس کی غلامی اپنی مرضی سے نکل کر خدا کی مرضی و اسکی اطاعت میں آنے کا نام حج ہے ۔
اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں میری نظر خانہ کعبہ پر ہے کیفیتت ناقابل بیان شمع توحید کے پروانے دنیا کے سات براعظموں سے آ کر خدا کے گرد طواف کرتے ہوئے لبیک اللہم لبیک کی صدائیں لگا رہے روح پرور و رقت آمیز مناظر ایمان میں اضافہ کر رہے ، یہاں کسی رنگ نسل علاقہ ، زبان کی قید نہیں سب ایک رب کو پکارتے نظر آتے لبیک اللہم لبیک ۔۔۔
یہاں اس جملے کی عملی تفسیر ہوتی نظر آ رہی ہے
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا ، یہ معاملہ کوئی اور ہے
خدا کا گھر ، بنانے والے جناب ابرہیم ع بچانے والے جناب محمد مصطفی اور انکی آل جو کے آل اِبراھیم ہیں انکی قربانیوں سے آج تک خانہ خدا قائم و دائم ہے ۔
بیت اللہ کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجئے ۔۔
مقام ابراہیم
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔ مقام ابراہیم خانہ کعبہ سے تقریبا سوا 13 میٹر مشرق کی جانب قائم ہے۔ مقام ابراہیم کا ذکر قرآنِ حکیم کی سورۂ البقرہ کی آیت 125 میں بھی موجود ہے۔
1967ء سے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔
ابراھیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشانات اسلام کی ابتدا تک اس چٹان پر موجود تھے۔
مقام ابراھیم سے وہ پتھر مراد ہے جس پر ابراھیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشانات ہیں ۔
ملتزم
کعبہ اور حجر اسود کے درمیان بیت اللہ کی دیوار کا حصہ ملتزم ہے۔ بیت اللہ کے وہ مقامات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، ان میں ملتزم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ملتزم لزم سے ہے جس کے معنی ہے لازم رہنا ' چمٹے رہنا۔ ملتزم کو اس لیے ملتزم کہتے ہیں کہ لوگ اس سے لپٹ لپٹ اور چمٹ چمٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔
مقام حطیم
"حجرِ اسماعيل" یا "حطیم" مسجد حرام کے مطاف میں خانہ کعبہ کے شمال میں واقع نصف دائرے کی شکل(ڈی شکل ) کی ایک دیوار ہے۔ اس کے حوالے سے متعدد تاریخی روایات ہیں اور علماء کرام اور محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ خانہ کعبہ سے علیحدہ نہیں بلکہ اسی کا ایک حصّہ ہے۔
حرمین شریفین کے امور کے محقق محیی الدین الہاشمی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو اس حوالے سے بتایا کہ حجرِ اسماعیل یا حطیم بیت اللہ کا ایک حصّہ ہے۔ اس کے اندر سے طواف کے لیے گزرنا درست عمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے سے طواف کرنا چاہیے۔ کئی احادیث نبویہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس کے احاطے کے اندر نماز پڑھنا فضیلت میں خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے جیسا ہے۔
رکن یمانی
رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔ یہ بیت اللہ کا وہ کونا ہےجو ملک یمن کی جانب واقع ہے۔ اسی لئے اس کو رکن یمانی کہتے
آپ ص نے رکن یمانی اور حجر اسود دونوں کو جنت کا دروازہ قرار دیا ہے ۔
حجر اسود
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازہً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنے جاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جا سکتا ہے۔
حجر اسود کے داہنی طرف رکن عراقی، رکن عراقی کے بعدر کن شامی اور رکن شامی کے بعد والاکونا رکن یمانی کہلاتا ہے۔
آب زم زم
خانہ کعبہ سے صرف 20 میٹر دور زمزم کا کنواں کرہ ارض پر پانی کا سب سے پرانا چشمہ قرار دیا جاتا ہے جس کی عمر پانچ ہزار سال سے زاید ہوچکی ہے۔ جیسا کہ تاریخی روایات میں بیان کیا جاتا ہے کہ زم زم کا چشمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیا رگڑنے کی جگہ سے پھوٹا۔
آج تک کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ کوئی چشمہ ساٹھ ستر سال سے زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہتا مگر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو آج سے پانچ ہزار سال قبل اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیوہ ھاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیں۔
صفاء مروہ
صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کے نام ہیں جو مکہ میں خانۂ کعبہ کے پاس واقع ہیں ان دو پہاڑیوں کے درمیان حج اور عمرہ کے موقع پر حاجی سات چکر لگاتے ہیں اسے سعی کہتے ہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان ہی اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ پانی کی تلاش میں سعی (بھاگ دوڑ) کرتی رہی تھیں اور انہی کی یاد تازہ کرنے کے لیے حاجی ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں
میزاب رحمت
مکہ مکرمہ میں ’میزاب رحمت‘ خانہ کعبہ کی چھت پر شمالی جانب نصب ہے. اس سے بارش کا پانی یا چھت کو دھونے پر جمع ہونے والا پانی حجر اسماعیل کی جانب والے حصے میں گرتا ہے.
حجر اسماعیل شروع میں خانہ کعبہ کا ہی حصہ تھا.
اخبار 24 کے مطابق تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ خانہ کعبہ میں سب سے پہلے میزاب رحمت لگانے والے قریشی تھے.
قریش نے خانہ کعبہ تعمیر کرتے وقت اس کی چھت ڈالی تھی اور 258 سینٹی میٹر کا پرنالہ (میزاب رحمت) لگایا تھا. یہ خانہ کعبہ کی دیوار میں لگایا گیا تھا
مناسک حج کے اہم ارکان
مقام عرفات
مقام عرفہ یا عرفات، مکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں جبل رحمت کے دامن میں واقع ہے۔ جہاں وقوف عرفات جیسا حج کا بنیادی رکن ادا کیا جاتا ہے۔ یہ میدان مکے سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ عرفات سال کے 354 دن غیر آباد رہتا ہے اور صرف ایک دن کے 8 سے 10 گھنٹوں کے لیے (9 ذی الحج) ایک عظیم الشان شہر بنتا ہے
مزدلفہ یا مشعر الحرام
مزدلفہ (عربی: مزدلفة) حج سے متعلقہ ایک کھلی جگہ ہے۔ یہ منی کے جنوب مشرق میں منی اور عرفات کے درمیان میں واقع ہے۔ ہر سال مسلمان حج کے موقع پر 9 ذوالحجہ کو مغرب کے بعد عرفات سے یہاں آتے ہیں اور رات کھلے آسمان کے نیچے بسر کرتے ہیں۔ یہاں سے ہی شیطانوں یا جمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں بھی چنی جاتی ہیں۔
مِنیٰ
مِنیٰ حج کے موقع پر آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر تمام حجاج منیٰ میں قیام کرتے ہیں
منیٰ حدود حرم کا حصہ ہے مکہ مکرمہ کے مقدس شہر کے مشرق میں 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریبا 20 مربع کیلومیٹر ہے۔
منیٰ کے معنی بہنا ہے چونکہ عید الاضحی کے دنوں میں قربانیاں کی جاتی ہیں اور ان کا خون بہتا ہے اس لیے اس جگہ کو منیٰ کہا جاتا ہے
ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب اس جگہ کو منیٰ کہتے ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں تو حجاج یہاں آٹھ (8) دس(10) گیارہ(11)بارہ (12)اور بعض تیرہ 13ذی الحجہ کو جمع ہوتے ہیں اس مناسبت سے اسے منیٰ کہتے ہیں
مِنٰی میں ہر سال حج کے دوران خیمے لگائے جاتے ہیں جہاں حجاج کرام قیام کرتے ہیں۔ اسے خیموں کے شہر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے
رمی جمرات تین شیطانوں کو کنکریاں مارنا وغیرہ حج کے ارکان میں شامل ہے
قابل ذکر بات احرام تلبیہ کہنے کے بعد بہت پابندیاں لاگو ہوتی ہیں جنکے بارے تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے
قابل توجہ نکتہ:
حج فزیکل عبادت ہے اسمیں زیادہ تر اعمال میں پڑھنا نوافل وغیرہ نہ ہونے کے برابر اعمال افعالیہ ہیں جیسے میدان عرفات میں رکنا ، مزدلفہ پر مختصر وقوف اسی طرح منی قربانی کنکریاں مارنا در اصل حج بغیر چوں چراں کے حکم خدا پر عمل کرنے کا نام ہے دوسرے لفظوں میں اپنی مرضی سے نکل کر خدا کی مرضی میں آنے کا نام حج ہے ۔۔۔
دوران حج ایک ہی رنگ کفن نما لباس خدا کا رنگ دکھتا جیسے قرآن میں صبغت اللہ کہا گیا اور خدا کے رنگ سے بہتر کونسا رنگ ہوگا اسکی ظاہری تفسیر کی جا سکتی اگرچہ خدا کے رنگ کا مطلب اسکا مکمل مطیع و فرمانبردار ہونا ہے ۔۔
خدا اپنے بندے توبہ کی قبول کرتا، دعائیں مستجاب کرتا یہ کیسے ممکن ہے جو خود دعا کا حکم دے اور پھر قبول نہ کرے اور کریم کی صفت ہے وہ اپنے در سے کسی کو خالی نہیں بھیجتا تو خدا جو سب سے بڑا کریم ہے وہ کیسے اپنے گھر آنے والوں کو خالی بھیجے گا ۔وحدہ لاشریک سے جڑنے کا بہترین ذریعہ حج بیت اللہ ہے ۔
حج ایک اہم انسان ساز عبادت ہے
حج کا سفر در اصل بہت عظیم ہجرت ہے، ایک الٰہی سفر ہے اور اصلاح نیز جہاد اکبر کا وسیع میدان ہے۔
اعمال حج؛ حقیقت میں ایک ایسی عبادت ہے جس میں جناب ابراہیم اور ان کے بیٹے جناب اسماعیل اور ان کی زوجہ حضرت ہاجرہ کی قربانیوں اور مجاہدت کی یاد تازہ ہوتی ہے ، اور اگر ہم اسرار حج کے بارے میں اس نکتہ سے غافل ہو جائیں تو بہت سے اعمال ایک معمہ بن کر رہ جائیں گے ، جی ہاں! اس معمہ کو حل کرنے کی کنجی انھیں عمیق مطالب پر توجہ دینا ہے۔
جس وقت ہم سر زمین منیٰ کی قربان گاہ میں جاتے ہیں تو تعجب کرتے ہیں، یہ اس قدر قربانی کس لئے؟ کیا حیوانات کی قربانی عبادت ہوسکتی ہے؟!
لیکن جس وقت قربانی کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے نور نظر ،پارہ جگر اور اپنے ہر دل عزیز بیٹے کو راہ خدا میں قربان کردیا، جو ایک سنت ابراہیمی بن گیا اور منی میں اس یاد میں قربانی ہونے لگی تو اس کام کا فلسفہ سمجھ میں اجا تا ہے۔
قربانی کرنا خدا کی راہ میں تمام چیزوں سے گزرنے کا راز ہے، قربانی کرنا یعنی اس بات کا ظاہر کرنا ہے کہ اس کا دل غیر خدا سے خالی ہے، حج کے اعمال سے اسی وقت ضروری مقدار میں تربیتی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب ذبح اسماعیل اور قربانی کے وقت اس باپ کے احساسات کو مد نظر رکھا جائے، اور وہی احساسات ان کے اندر جلوہ گر ہوجائیں۔
جس وقت ہم ”جمرات“ کی طرف جاتے ہیں ( یعنی وہ تین مخصوص پتھر جن پر حجاج کو کنکری مارنا ہوتی ہیں، اور ہر بار سات کنکر مارنا ہوتی ہیں) تو ہمارے سامنے یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس مجسم
پر سنگ باری کا کیا مقصد ہے؟ اور اس سے کیا مشکل حل ہوسکتی ہے؟ لیکن جس وقت ہم یاد کرتے ہیں کہ یہ سب بت شکن قہر مان جناب ابراہیم علیہ السلام کی یاد ہے ، آپ کی راہ میں تین بار شیطان آیا تا کہ آپ کو اس عظیم ”جہاد اکبر“سے رو ک دے یا شک و شبہ میں مبتلا کردے لیکن ہر بار توحید کے علمبر دار نے شیطان کو پتھر مار کر دور بھگا دیا،لہٰذا اگر اس واقعہ کو یاد کریں تو پھر ”رمی جمرات“ کا مقصد سمجھ میں آجاتا ہے۔
رمی جمرات کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب جہاد اکبر کے موقع پر شیطانی وسوسوں سے روبرو ہوتے ہیں اور جب تک ان کو سنگسار نہ کریں گے اور اپنے سے دور نہ بھگائیں گے تواس پر غالب نہیں ہوسکتے۔
اگر تمہیں اس بات کی امید ہے کہ خداوندعالم نے جس طرح جناب ابراہیم علیہ السلام پر درود و سلام بھیجا اور ان کی یاد کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا ہے اگر تم بھی یہ چاہتے ہو کہ وہ تم پر نظر رحمت کرے تو پھر راہ ابراہیم پر قدم بڑھاؤ۔
یا جس وقت ”صفا“ اور ”مروہ“ پر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حجاج گروہ در گروہ ایک چھوٹی پہاڑی سے دوسری چھوٹی پہاڑی پر جاتے ہیں، اور پھر وہاں سے اسی پہاڑی پر واپس آجاتے ہیں ، اور پھر اسی طرح اس عمل کی تکرار کرتے ہیں، کبھی آہستہ چلتے ہیں تو کبھی دوڑتے ہیں، واقعاً تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیا ہے؟! اور اس کا مقصد کیا ہے؟!
لیکن جب ایک نظر اس با ایمان خاتون حضرت ہاجرہ کے واقعہ پر ڈالتے ہیں جو اپنے شیر خوار فرزند اسماعیل کی جان کے لئے اس بے آب و گیاہ بیابان میں اس پہاڑی سے اس پہاڑی پر جاتی ہیں، اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں کہ خداوندعالم نے حضرت ہاجرہ کی سعی و کوشش کو کس طرح منزل مقصود تک پہنچایا اور اور ان کے نو مولود بچہ کے پیروں کے نیچے چشمہٴ زمزم جاری کیا، تو اچانک زمانہ پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے اور پردے ہٹ جاتے ہیں اور ہم اپنے کو جناب ہاجرہ کے پاس دیکھتے ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ سعی و کوشش میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ راہ خدا میں سعی و کوشش کے بغیر منزل نہیں مل سکتی!
(قارئین کرام!) ہماری مذکورہ گفتگو کے ذریعہ آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ ”حج“ کو ان اسرار و رموز کے ذریعہ تعلیم دیا جائے اور جناب ابراہیم، ان کی زوجہ اور ان کے فرزند اسماعیل کی یاد کو قدم قدم پر مجسم بنایا جائے تاکہ اس کے فلسفہ کو سمجھ سکیں، اور حجاج کے دل و جان میں حج کی اخلاقی تاثیر جلوہ گر ہو ، کیونکہ ان آثار کے بغیر حج کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
مناسک حج کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر
حج کے یہ عظیم الشان مناسک در اصل چار پہلو رکھتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے اہم اور مفید تر ہے:
۱۔ حج کا اخلاقی پہلو: حج کا سب سے مہم ترین فلسفہ یہی اخلاقی انقلاب ہے جو حج کرنے والے میں رونما ہوتا ہے، جس وقت انسان احرام باندھتا ہے تو ظاہری امتیازات، رنگ برنگ کے لباس اور زر و زیور جیسی تمام مادیات سے باہر نکال دیتا ہے، لذائذ کا حرام ہونا اور اصلاح نفس میں مشغول ہونا (جو کہ مُحرِم کا ایک فریضہ ہے) انسان کو مادیات سے دور کردیتا ہے اور نور و پاکیزگی اور روحانیت کے عالم میں پہنچا دیتا ہے اور عام حالات میں خیالی امتیازات اور ظاہری افتخارات کے بوجھ کو اچانک ختم کر دیتا ہے جس سے انسان کو راحت اور سکون حا صل ہوتاہے۔
اس کے بعد حج کے دوسرے اعمال یکے بعد دیگرے انجام پاتے ہیں، جن سے انسان ،خدا سے لمحہ بہ لمحہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اور خدا سے رابطہ مستحکم تر ہوتا جاتا ہے، یہ اعمال انسان کو گزشتہ گناہوں کی تاریکی سے نکال کر نور وپاکیزگی کی وادی میں پہنچا دیتے ہیں۔
حج کے تمام اعمال میں قدم قدم پر بت شکن حضرت ابراہیم ع، حضرت اسماعیل ذبیح اللہ (ع) اور ان کی مادر گرامی جناب ہاجرہ س کی یاد تازہ ہوتی ہے جس سے ان کا ایثار اور قربانی انسان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوجاتی ہے ، اور اس بات پر بھی توجہ کہ رہے سر زمین مکہ عام طور پر اور مسجد الحرام و خانہ کعبہ خاص طور پر پیغمبر اسلام (ص) ائمہ علیہم السلام اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے جہاد کی یاد تازہ کردیتے ہیں، چنانچہ یہ اخلاقی انقلاب عمیق تر ہوجاتا ہے گویا انسان مسجد الحرام اور سر زمین مکہ کے ہر طرف اپنے خیالات میں پیغمبر اکرم (ص)حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کے نورانی چہروں کی زیارت کرتا ہے اور ان کی دل نشین آواز کو سنتا ہے۔
جی ہاں! یہ تمام چیزیں مل کر انسان کے دل میں ایک روحی اور اخلاقی انقلاب پیدا کردیتی ہیں گویا انسانی زندگی کی ناگفتہ بہ حالت کے صفحہ کو بند کردیا جاتا ہے اور اس کی بہترین زندگی کا نیا صفحہ کھل جاتا ہے۔
یہ بات بلا وجہ اسلامی روایات میں بیان نہیں ہوا ہے کہ حج کرنے والا اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ابھی شکم مادر سے پیدا ہوا ہو۔
جی ہاں! حج مسلمانوں کے لئے ایک نئی پیدائش ہے جس سے انسان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔
البتہ یہ تمام آثار و برکات ان لوگوں کے لئے نہیں ہیں جن کا حج صرف ظاہری پہلو رکھتا ہے جو حج کی حقیقت سے دور ہبں، اور نہ ہی ان لوگوں کے لئے جو حج کو ایک سیر و تفریح سمجھتے ہیں یا ریاکاری اور سامان کی خرید و فرو خت کے لئے جاتے ہیں ، اور جنھیں حج کی حقیقت کا علم نہیں ہے ایسے لوگوں کا حج میں وہی حصہ ہے جو انھوں نے حاصل کرلیا ہے!
2۔ حج کا سیاسی پہلو: ایک عظیم الشان فقیہ کے قول کے مطابق: حج در عین حال کہ خالص ترین اور عمیق ترین عبادت ہے، اس کے ساتھ اسلامی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترین وسیلہ ہے۔
روحِ عبادت ،خدا پر توجہ کرنا،روحِ سیاست یعنی خلق خدا پر توجہ کرنا ہے اور یہ دونوں چیزیں حج کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہیں!
حج مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کا بہترین سبب ہے۔
حج نسل پرستی اور علاقائی طبقات کے فرق کو ختم کرنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔
حج اسلامی ممالک میں ظلم و ستم کے خاتمہ کا وسیلہ ہے۔
حج اسلامی ممالک کی سیاسی خبروں کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کا وسیلہ ہے، خلاصہ یہ کہ حج؛ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور استعمار کی زنجیروں کو کاٹنے اور مسلمانوں کو آزادی دلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ حج کے موسم میں ظالم و جابر حکومتیں اس موقع پر حجاج کی ملاقاتوں پر نظر رکھتی تھیں تاکہ آزادی کی تحریک کو وہیں کچل دیا جائے کیونکہ حج کا موقع مسلمانوں کی آزادی کے لئے بہترین دریچہ تھا تاکہ مسلمان جمع ہوکر مختلف سیاسی مسائل کو حل کریں اور ظالم نہیں چاہتے تھے اس عالمی اجتماع کے ذریعے اسلام کو مزید تقویت ملے ۔۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام جس وقت فرائض اور عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہیں تو حج کے بارے میں فرماتے ہیں: خدا وندعالم نے حج کو آئین اسلام کی تقویت کے لئے واجب قرار دیا ہے۔
بلا وجہ نہیں ہے کہ ایک غیر مسلم سیاست داں اپنی پُر معنی گفتگو میں کہتا ہے: وائے ہو مسلمانوں کے حال پر اگر حج کے معنی کو نہ سمجھیں اور وائے ہو اسلام کے دشمنوں پر کہ اگر حج کے معنی کوسمجھ لیں
یہاں تک اسلامی روایات میں حج کو ضعیف او رکمزور لوگوں کا جہاد قرار دیا گیا ہے اور ایک ایسا جہاد جس میں کمزور ضعیف مرد اور ضعیف عورتیں بھی حاضر ہوکر اسلامی شان و شوکت میں اضافہ کرسکتی ہیں، اور خانہ کعبہ میں نماز گزراوں میں شامل ہوکر تکبیر اور وحدت کے نعروں سے اسلامی دشمنوں کو خوف زدہ کرسکتے ہیں۔
3۔ ثقافتی پہلو: مسلمانوں کا ایام حج میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے ثقافتی رابطہ اور فکر و نظر کے انتقال کے لئے بہترین اور موثر ترین عامل ہوسکتا ہے۔
خصوصاً اس چیز کے پیش نظر کہ حج کا عظیم الشان اجتماع دنیا بھر کے مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی ہے (کیونکہ حج کے لئے جانے والوں کے درمیان کوئی مصنوعی عامل موثر نہیں ہے، اور تمام قبائل، تمام زبانوں کے افراد حج کے لئے جمع ہوتے ہیں, جیسا کہ اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حج کے فوائد میں سے ایک فائد ہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث اور اخبار عالم اسلام میں نشر ہوں۔
ہشام بن حکم حضرت امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں کہتے ہیں: میں نے امام علیہ السلام سے فلسفہٴ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوندعالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا ہے اور دین و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے، ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے حج واجب قرار دیا تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں، ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث و آثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کرلیں ان کو کبھی فراموش نہ کریں اور دوسروں تک پہونچائیں)
اسی وجہ سے ظالم و جابر سلاطین ؛مسلمانوں کو ان چیزوں کے نشر کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، وہ خود اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مشکلوں کو دور کرتے تھے اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور بزرگ علمائے دین سے ملاقات کرکے قوانین اسلامی اور سنت پیغمبر پر پردہ ڈالتے تھے۔
اس کے علا وہ حج عالمی پیمانہ پر ایک عظیم الشان کانفرنس کا نام ہے جس میں دنیا بھر کے تمام مسلمان مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے افکار اور ابتکارات کو دوسرے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اصولی طور پر ہماری سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی سرحدوں نے مسلمانوں کی ثقافت میں جدائی ڈال دی ہے، ہر ملک کا مسلمان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے، جس سے اسلامی معاشرہ کی وحدت نیست و نابود ہوگئی ہے، لیکن حج کے ایام میں اس اتحاد اور اسلامی ثقافت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔
4۔ حج کا اقتصادی پہلو: بعض لوگوں کے نظریہ کے برخلاف ؛ حج کا موسم اسلامی ممالک کی اقتصادی بنیاد کو مستحکم بنانے کے لئے نہ صرف ”حقیقتِ حج“ سے کوئی منافات نہیں رکھتا بلکہ اسلامی روایات کے مطابق؛ حج کا ایک فلسفہ ہے۔
اس میں کیا حرج ہے کہ اس عظیم الشان اجتماع میں اسلامی مشترک بازار کی بنیاد ڈالیں اور تجارتی اسباب و وسائل کے سلسلہ میں ایسا قدم اٹھائیں جس سے دشمن کی جیب میں پیسہ نہ جائے اور نہ ہی مسلمانوں کا اقتصاد دشمن کے ہاتھوں میں رہے، یہ دنیا پرستی نہیں ہے بلکہ عین عبادت اور جہاد ہے۔
ہشام بن حکم کی اسی روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے حج کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے صاف صاف اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی تجارت کو فروغ دینا اور اقتصادی تعلقات میں سہولت قائم کرنا ؛حج کے اغراض و مقاصدمیں سے ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے آیہٴ شریفہ <لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اٴَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ کے ذیل میں بیان ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: اس آیت سے مراد کسب روزی ہے، ”فاذا احل الرجل من احرامہ و قضی فلیشتر ولیبع فی الموسم۔ ”جس وقت انسان احرام سے فارغ ہوجاتا ہے اور مناسکِ حج کو انجام دے لیتا ہے تو اسی موسم حج میں خرید و فروخت کرے (اور یہ چیز نہ صرف حرام نہیں ہے بلکہ اس میں ثواب بھی ہے)
اور حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول فلسفہٴ حج کے بارے میں ایک تفصیلی حدیث کے ذیل میں یہی معنی بیان ہوئے ہیں جس کے آخر میں ارشاد ہوا ہے: ”لِیَشْھَدُوا مَنَافِعَ لَھُم“
آیہٴ شریفہ”لیشھدوا منافع لھم“ معنوی منافع کو بھی شامل ہوتی ہے اور مادی منافع کو بھی، لیکن ایک لحاظ سے دونوں معنوی منافع ہیں۔
مختصر یہ کہ اگر اس عظیم الشان عبادت سے صحیح اور کامل طور پر استفادہ کیا جائے ، اور خانہ خدا کے زائرین ان دنوں میں جبکہ وہ اس مقدس سر زمین پر بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ حاضر ہیں اور ان کے دل آمادہ ہیں تو اسلامی معاشرہ کی مختلف مشکلات دور کرنے کے لئے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی کانفرنس کے ذریعہ فائدہ اٹھائیں، یہ عبادت ہر پہلو سے مشکل کشا ہوسکتی ہے، اور شاید اسی وجہ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”لایزال الدین قائما ما قامت الکعبة۔ جب تک خانہٴ کعبہ باقی ہے اس وقت تک اسلام بھی باقی رہے گا
اور اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: خانہ خدا کو نہ بھلاؤ کہ اگر تم نے اسے بھلا دیا تو ہلاک ہوجاؤ گے، خدا کے لئے تمہیں خانہ خدا کے بارے میں تلقین کرتا ہوں اس کو خالی نہ چھوڑ نا، اور اگر تم نے چھوڑ دیا تو مہلت الٰہی تم سے اٹھالی جائے گی
اور اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسلامی روایات میں ایک فصل اس عنوان سے بیان کی گئی کہ اگر ایک سال ایسا آجائے کہ مسلمان حج کے لئے نہ جا ئیں تو اسلامی حکومت پر واجب ہے کہ مسلمانوں کو مکہ معظمہ جانے پر مجبور کرے۔
مذکورہ بالا تحریر ہمارے دلوں میں عشق الٰہی کے جنون میں اضافے کا باعث ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہیکہ احکام الٰہی کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اداء کیا جائے تاکے حقیقی معنوں میں سر خم تسلیم ہو کے مفہوم عبادت کی معراج ہو سکے نہ صرف ایام حج مناسک حج بلکہ آئندہ زندگی میں مکمل طور پر اطاعت الٰہی کیمطابق زندگی گزارنے کا عزم کریں ۔
کیونکہ حج خواہشات نفسانی سے نکل کر مرضی خدا کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے ۔
میدان عرفات سے مظلومین جہاں بالخصوص فلسطین اور دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً پاکستان کی استقامت کے لیے خصوصی دعائیں پر اختتام کرتا ہوں ۔۔
15 جون 2024
9 ذی الحجہ 1445ھجری
میدان عرفات