تحریر :مولانا محمد رضا (ایلیا ؔ)
حوزہ نیوز ایجنسی| عربی زبان میں قربانی کو ”اضحیہ“ کہتے ہیں (المعجم الفارسی الکبیر ، ج 3، ص2085، لفظ قربانی کے ذیل میں) لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس میں قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو عیدالاضحی (بقرعید کے روز) بارہویں یاتیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یانحر کرتے ہیں ۔(الحدائق الناضرہ، ج17، ص199 ۔ جواہر الکلام ، ج 19 ، ص219) ۔
قرآنی استعمال میں جب قربانی کی بات آتی ہے تواس کے معنی بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں ۔قربانی سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے ،اسی طرح حج کے زمانہ ، منیٰ اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کیلئے جوجانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں ۔
قربانی کی تاریخ یہ ہے کہ خداوند عالم نے آدمؑ کے بیٹوں کے واقعہ میں قربانی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس واقعہ میںہمیں بہت سے عبرت آموز ، سبق آموز نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں ” پیغمبر (س) آپ ان کو آدمؑ کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے؟ خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے “ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۲۷) ۔
خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس واقعہ کو صحیح طور پر نقل کریں ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدمؑ کے بیٹوں نے خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کی۔اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رو نما ہوا ہے اورحضرت آدمؑ کے بیٹوں کی قربانی کوئی افسانہ نہیں ہے ۔حضرت آدمؑ کے بیٹوں کے قربانی کرنے کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے ۔ اس وجہ سے خداوند عالم نے اس آیت اور دوسری آیات میں اس کو بیان کیا ہے ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد ان دونوں قربانیوں میں سے ایک قربانی قبول ہوئی اور دوسری قبول نہیں ہوئی ۔ اگر چہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا ہے لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی وہ حضرت ہابیلؑ تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے۔ (مجمع البیان ، طبرسی ، ج3 و4 ، ص 283۔ )
خداوند عالم نے قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قابیل بے تقوی تھا ، جیسا کہ حضرت ہابیلؑ کی قربانی کے قبول کی وجہ ان کا تقوی تھا ۔قربانی کے قبول ہونے اور مردود ہونے کے بعد عالم بشریت میں سب سے پہلی جنگ واقع ہوئی اور قابیل نے اپنے بھائی کو دھمکی دی کہ میں تمہیں قتل کردوں گا ، آخر کار اسی بے تقوائی اور نفسانی وسوسوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا۔
’’پھر اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا“ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۳۰) ۔
اگر چہ قربانی پیش کرنا حضرت آدمؑ کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، کیونکہ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے ،مثال کے طور پر یہ آیات جن کو گذشتہ امتوں میں اعمال کے طور پر انجام دیا جاتا تھا ، قرآن کریم نے سورہ حج کی 34 ویں اور 67 ویں آیت میں ذکر کیا ہے:
”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت34) :
” ہر امت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں “ ۔(سورہ حج، آیت 67)
پر وردگار عالم نے قرآن مجید کے سورۂ حج میں ارشاد فرمایا:
’’ہر گز خدا تک نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی اس کا خون ، بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ اور پرہیزگاری پہنچتی ہے ‘‘قربانی کی سنت ادا کر نے والامسلمان جب تک اپنی ہوس کے گلے پر چھری نہ چلائے اور نفس کی خواہشات کے آلو دہ خون کو اپنی رگوں سے نہ نکالے اس وقت تک تقویٰ کی منزل کو نہیں پہنچ سکتا اور اگر مسلمان قر بانی کر نے کے بعد بھی خدا وند عالم کا تقرب حا صل نہ کر سکے تو وہ قربانی کے اصل مقا صد کو نہیں پا سکتے۔