تحریر: مزمل حسین علیمی آسامی
حوزہ نیوز ایجنسی| ہم چوں کہ عالم ہیں اسلئے اصلاح امت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ؟یہ ایک ایسا سوال ہے، جسے ہم نے شاید ہی کبھی اپنی ذات سے کیا ہو۔ یہ سوال خود سے کرنا ہے، ہر ایک کو کرنا ہے اور یوں کرنا ہے۔ میں کون ہوں، کیا ہوں، کہاں سے آیا ہوں اورمجھے کہاں جانا ہے اور ملت کے فروغ و استحکام کے کیا کرنا ہے؟
دنیا نے ان تمام لوگوں کو بھلا دیا ہے، جو اس دنیا کے لیے اہم نہیں تھے، جو محض دنیا آئے، کمائے، کھائے پئے اور دنیا سے چلے گئے، جن کے آنے اور جانے سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا ۔
اور اسی دنیا میں بعض ایسی شخصیات کی بھی تشریف آوری ہوئی ہے، جو رہتی دنیا تک یاد کی جائیں گی اور ایسی عظیم ہستیوں کی آمد سے دنیا فخر محسوس کرتی ہے کہ اس کے درمیان عظیم ہستیاں بھی جلوہ فراز ہیں۔ ان ہستیوں سے انسانیت کی تعمیر ہوتی دکھائی دیتی ہے -
دنیا کی تاریخ میں ان ہستیوں کے اسما آج بھی نمایاں اور زندہ جاوید ہیں، جنہوں نے اس دنیا کی خدمات انجام دیتے ہوے دنیا سے رخصت ہوگئے۔، یہ لوگ باشعور اور ہوشیار تھے جنہیں مقصدِ حیات معلوم ہوگیا تھا کہ قدرت نے انہیں کس مقصد لیے پیدا کیا۔
رب تعالیٰ نے آپ کو تمام مخلوقات میں اعلیٰ و اشرف بنایا، اور دیگر مخلوقات کو آپ کے سہولیات کے لیے آپ کے تابعدار بنایا۔
زندگی رب تعالیٰ کی جانب سے ایک نازک اور لمحاتی تحفہ ہے،زندگی یہ ایک ایسا تحفہ ہے، جو ایک لمحہ میں بدل سکتا ہے، یہ تحفہ آپ کو فقط ایک بار ملا ہے، دوبارہ نہیں ملےگا۔، اس لیے ہر لمحہ کی قدر کریں اور مالک حقیقی کی رضا میں اپنی زندگی کو صرف کریں۔
آپ کو سوچنا چاہیے کہ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے تب آپ اس دنیا کو کیا کچھ دے کر جائیں گے ؟ دولت و ثروت، طاقت و قوت اور شہرت و عزت- یہ سب عرضی ہیں جو وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں۔ اس لیے مقصدِ حیات کو سمجھیں اور خدمات خلق میں اپنا حصّہ ضرور لیں۔
اپنی حیثیت و بساط کے مطابق ہمیشہ لوگوں کی بہتری اور اصلاح کے لیے کوشاں رہیں، یہی تعلیمات اسلام و رضاے الہی ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس شخص کو آباد کرے جو میری بات کو سنے اور دوسروں تک پہنچائے۔ آج ہی سے بلکہ ابھی اپنی زندگی کو غنیمت اور اس کی قدر کرتے ہوئے آپ جد وجہد کرنا شروع کر دیں، یاد رہے اس دنیا میں اپنا اثر ضرور چھوڑیں ورنہ آپ بھی بھلا دیے جائینگے۔