۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 400548
11 جولائی 2024 - 13:41
خانواده در کربلا

حوزہ/ حسینؑ دائرہ صبر و رضا، اہل وفا، غازہٗ رخسار یقین، محافظ دین مبین، سجود کی آبرو، مسجود کی آرزو، شہزادہٗ گلگوں قبا، سید الشہداء، امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کے جاں نثاروں کی قربانی کا سانحہ تاریخ اسلام اور تاریخ انسانی میں ہمیشہ خون آلود حرفوں میں لکھا گیا اور اشک بار آنکھوں سے پڑھا گیا اور خون جگر سے سماعت کیا گیا۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

تم کیا بتاؤ گے مجھے رتبہ حسینؑ کا

میں خود ہوں دل سے چاہنے والا حسینؑ کا

حسینؑ دائرہ صبر و رضا، اہل وفا، غازہٗ رخسار یقین، محافظ دین مبین، سجود کی آبرو، مسجود کی آرزو، شہزادہٗ گلگوں قبا، سید الشہداء، امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کے جاں نثاروں کی قربانی کا سانحہ تاریخ اسلام اور تاریخ انسانی میں ہمیشہ خون آلود حرفوں میں لکھا گیا اور اشک بار آنکھوں سے پڑھا گیا اور خون جگر سے سماعت کیا گیا۔

محرم الحرام کے غم انگیز اور جرآت خیز لمحوں میں 61 ہجری کی دسویں محرم کے تصور سے لہو رنگ یادوں کے المناک دریچے کھل جاتے ہیں۔ کربلا کا میدان، فرات کا کنارہ اہل کوفہ کی بیوفائی، رسالت کا تراجم گلشن، زہراؑ کے پھولوں کی پامالی، چمکتی ہوئی تلواریں، بجلیاں برساتے نیزے، جگر گداز سسکیاں، تڑپتی لاشیں، لہو کی آبشاریں، سیدانیوں کی عفت و عظمت نشاں سے بلند ہوتے آگ کے شعلے، دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی، گرمی کی تپش، پیاس کی شدت، ماؤں بیٹوں کی الفت، بھائی بہن کی قربانی، رنج و غم، غیظ و غضب، جوش و محبت، افسوس و حسرت، استعجاب و حیرت، دسویں محرم کا تصور لہو رلاتا ہے۔ ایثار و قربانی کا یہ بھی ایک عجیب داستان ہے جو صرف اور صرف سید الشہداء کا حصہ ہے۔

ایک سے ایک عظیم قربانی، حرؑ جیسے حق پرست و صاحب کردار کی قربانی، غازی عباس علمبردار سردار وفا کی قربانی، اسلام کو جگا کر خود سو جانے والے معصوم و ننھے مجاہد علی اصغرؑ کی قربانی، شبیہ مصطفٰی ﷺ کی قربانی

سرکار دو جہاں کے نواسے ہیں دوستو

پہچان لیجیے ذرا رتبہ حسینؑ کا

حسینؑ گلشن رحمت کی دلنواز کلی، نور علیؑ، شیر جلی، حق کا ولی، شہید اعظم، فخر آدم، پناہ عالم، ماہ عرب، خون رسولؐ، جگر بتولؑ، اصل اصول، عقل عقول، صورت حیدؑر، سیرت رسولؐ، نازش زینبؑ، راکب دوش رسولؐ، حسن ولایت، چراغ کرامت کے چاند کا ہالہ، دوس رسالت پر کھیلنے والا، خود کو قربان کر دیا، اسلام، انسانیت، نبوت، دینٍ رسول اکرمؐ کو تاقیامت تک محفوظ کر دیا اور 1385 سال قبل ایک تحریک کو جنم دیا جو اب تک اپنے آب و تاب سے زندہ جاوید ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جہاں یا حسین، لبیک یا حسین کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ یہ خراج عقیدت 900 سال قبل حضرت خواجہ معین الدین چشتی رح نے تحریر کر دی:

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین

دین است حسین، دین پناہ است حسین

سرداد نہ داد دست در دست یزید

حقا کے بنائے لا الہ است حسین

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا میں وہ شہید ہوں جسے رلا رلا کر مارا گیا ہے، کوئی بھی مومن مجھے یاد نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کی آنکھوں سے اشک غم جاری ہوتے ہیں۔

امام حسینؑ کی تحریک دائمی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آپؑ کی ابدی تحریک کا آغاز 61 ہجری میں ہوا تھا اور 1385 سال سے مسلسل آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ اتنا لمبا عرصہ اور مدت گزر جانے کے باوجود آج تک فراموش نہیں کی جا سکی اور امام حسین علیہ السلام کی اس تحریک کو موت نہیں آئی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس تحریک میں تازگی پیدا ہو رہی ہے۔ باطل قوتیں، دشمن اسلام و انسانیت اسے فرسودہ افکار و شازشیں اور قدامت سے جاودانی تحریک میں جنبش بھی پیدا نہیں کر سکا۔ کیا شاعر نے خوب کہا ہے:

کذب الموت فالحسین محلد

کلما اخلق الزمان تجدد

ترجمہ: موت غلط ثابت ہو گئی اور حسینؑ دائمی ہوگئے، زمانہ جتنا پرانا ہوتا گیا امام حسینؑ اتنے ہے نئے ہوتے گئے۔

14 صدی سے زمانہ نے مشاہدہ کیا کہ امام حسینؑ کی تحریک اپنی قوت، واقعات اور مصائب کی قوت، جوانمردی، ثابت قدمی اور اس عظیم واقعے میں موجود بعد دیگر اسباب و عناصر کی وجہ سے بذات خود جاودانی ہوگئی ہے۔ حالانکہ بنو امیہ اور بنو عباسیہ اپنی حکومت، دشمنی، ظلم، ستم، بغض، اور طرح طرح کی بربریت بازار گرم رکھا لیکن تحریک کو کمزور کر نہ سکے۔ بےشک حضرت امام حسین علیہ السلام کی اس ابدی اور جاودانی تحریک کے کچھ اسباب اور ظاہری علل بھی یقیناٌ ہیں جنھوں نے اس زندہ تحریک کو اس کیفیت میں آج تک اور قیامت تک کے لئے "زندہ جاوید" بنا دیا ہے۔ اس متبرک تحریک کے زندہ جاوید ہونے کے بعض اسباب قارئین کرام و عزاداران کربلا کے لئے وضاحت کے ساتھ تحریر کیا جا رہا ہے اور وہ ہیں: ہدف، قیادت و شخصیت، روضہ اقدس کی زیارت، شعر و شعراء، جوانوں کی شرکت، شہادت اور قربانی کا استقبال، امام حسینؑ کے اہل بیت علیہم السلام، اور مجالس سید الشہداء وغیرہ۔

1- ہدف:

تمام مومنین و مومنات اپنے ذہن عالیہ میں نشیں کریں کہ جب بھی کسی تحریک کا ہدف اور انسان کی جانب سے پانے والے ہر عمل کا مقصد خالق کائنات کی ذات ہو تو وہ تحریک نشوونما پاتی ہے اور ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔ اس کے سامنے کوئی ایسی چیز ٹھہر نہیں سکتی جو اس کا راستہ روک سکے۔ جیسا کہ امیر المومنینؑ نے ارشاد فرمایا ہے "ماکان للہ ینمو" جو چیزیں خداوند متعال کے لئے ہوتی ہے اس میں نشوونما پائی جاتی ہے۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 89) اور اگر ہدف پروردگار عالم کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہو تو وہ تحریک اپنے انجام، نتیجے تک نہیں پہنچتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ کئی تحریکیں چلائی گئیں لیکن وہ رو بہ زوال ہوگئیں، اس کے اثرات ختم اور اس کی تعلیمات فراموشی و نسیاں کا شکار ہوگئیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا ہدف رب ذوالجلال کی ذات تھی۔ آپؑ نے مدینے سے روانہ ہونے کے قبل اپنی تحریک کے ہدف کا اعلان کر دیا تھا۔ "میں نے نہ خود خواہی اور خود پسندی کی وجہ سے خروج کیا اور نہ ہی میرا قیام ظالمانہ و مفسدانہ ہے بلکہ میں صرف اور صرف اپنے نانا رسول خدا ﷺ کی امت کی اصلاح کے لیے باہر نکلا ہوں، میرا ارادہ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔

دین اسلام ابدی اور قرآن حکیم دائمی ہے کیونکہ رب العالمین نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ لہٰذا، امام حسینؑ کی تحریک ہمیشہ باقی رہنے والی اور دائمی ہے۔ دین اسلام اور قرآن کریم کی طرح قیامت تک محفوظ رہنے والی، لوگوں کو متاثر اور فروغ پانے والی ہے۔

2- قیادت و شخصیت:

دنیا میں کوئی بھی تحریک یا انقلاب برپا ہوتی ہے تو اس کی روح اس کی قیادت میں ہوتی ہے۔ اگر قائد و رہبر اپنی شجاعت، جوانمردی، عقل، فیہم اور ناقابل شکست ہونے کی صلاحیت، پاکیزگی، اعلٰی اخلاق، توکل، معرفت الٰہی اور پاکیزہ نسب میں معروف ہو تو اس کی تحریک بھی انہی صفات کی حامل ہوگی۔ سید الشہداء ابن شیر خداؑ اپنے اندر ان تمام صفات حمیدہ کو سموئے ہوئے ہیں۔ یہ تمام صفات آپؑ کی عصمت سے جلوہ افروز ہیں۔

3- قبر مطہر کی زیارت:

کسی بھی قبر کی زیارت صاحب قبر کی فضیلت، عظمت و کمالات کی اظہر و مظہر ہے اور اس کے ابدی ہونے کی علامت ہے۔ معصومین علیہم السلام نے اکثر و بیشتر احادیث میں امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کے لیے بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ زیارات روضہ مبارک بھی ایک خاص وجہ ہے کہ واقعہ کربلا اور یہاں سے وجود میں آئی تحریک ابدی اور دائمی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کا ہر حصہ سوشل میڈیا پر دیکھتا ہے کہ ماہ محرم الحرام خصوصی طور پر اربعین میں، نجف اشرف سے لیکر حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ اقدس، کربلا معلیٰ تک جس کی دوری تقریباٌ 85 کلومیٹر ہے، 3-4 کڑور زوار پیدل واک کر زیارت کرنے، خراج تحسین پیش کرنے جاتے ہیں۔ اس طرح کا جم غفیر زائرین دیکھ کر جذبہ و شوق پیدا ہوتا ہے کہ کاش! میں بھی زیارت کے لئے جاتا، زوار بنتا! امام حسینؑ کی تحریک کو جاویداں بننے میں زیارت کی وجہ سے کوئی انکار کر نہیں سکتا۔

4- شعر اور شعراء:

یونانی فلسفی، ارسطو کا ماننا ہے کہ ادب کے اصناف میں شاعری سب سے اعلٰی مقام رکھتا ہے اور شاعری کے ایک ناقد کا کہنا ہے کہ شاعری میں اللہ کی آواز ہوتی ہے اور دل و دماغ پر بہت تیز اور گہرا اثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی واقعے، حادثے، تحریک و انقلاب کو یادگار بنانے اور اثرانداز یعنی مثبت نتائج کے لیے شعراء کا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ اشعار لوگوں کے دلوں اور ان کے ذوق پر ایک خاص اثر پیدا کرتے ہیں اور لوگ کربلا کے واقعات اور اس کے تخیل کے حوالے سے ان اشعار کے کلمات سے بہت زیادہ اور جلد متاثر ہوتے ہیں۔ آئمہ معصومینؑ کے حضور شاعروں نے واقعہ کربلا کو اصل واقعات اور اپنے تخیل دونوں طریقوں سے اپنے اشعار کے ذریعے بیان کیا ہے۔ دعبل خزاعی نے امام رضا علیہ السلام کے حضور اپنے معروف قصیدے میں یوں بیان کیا ہے "اگر فاطمہ زہراؑ اپنے لخت جگر، حسینؑ کو زمین پر پڑا دیکھ لیں جسے فرات کے کنارے پیاسا شہید کر دیا گیا تو اس وقت فاطمہ زہراؑ اپنا چہرہ پیٹنے لگیں گی اور ان کے رخساروں پر آنسو بہنے لگیں گے۔ ان اشعار پر امام رضا علیہ السلام گریہ کناں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ معصومینؑ نے امام حسینؑ کے مصائب پر اشعار کہنے کی تاکید کی ہے۔

5- تحریک میں جوانوں کی شرکت:

کربلا کی تحریک میں موجود لوگوں میں سے اکثریت جوانوں کی تھی کیونکہ جوانوں میں جوش اور ولولہ ہوتا ہے اور جو ان پر مصیبت و بلا آتی ہے وہ ہر دل میں درد، رنج و غم پیدا کرتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں ایک خاص سوزش پیدا ہوتی ہے۔ عرب میں یہ بات مشہور ہے کہ عرب کسی جوان کے غم کے مقابلے میں کسی دوسرے کے غم پر گریہ نہیں کرتے۔ بے شک فلسطینی، حوثی، انصار اللہ، حزب اللہ، حشد الشعابی و دیگر مقاومتی گروپ کربلا کی تحریک سے متاثر ہوئے ہیں۔

6- شہادت اور قربانی کا استقبال کرنا:

واقعہ کربلا میں جتنے لوگ شریک تھے ان کی نگاہ میں موت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، انہیں موت سے کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ موت پر ٹوٹ پڑے یا موت ان پر آئے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کے لئے موت تو شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ کربلا کے شہداء میں موت کی پرواہ نہ ہونا کربلا والوں کے خصوصی و امتیازی کردار سے واضح اور عیاں ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں شامل جانباز تیر، تلوار اور نیزوں کے سامنے اپنے سینے پیش کرتے تھے۔ ان میں موت کا کوئی خوف نہیں تھا۔ امام حسینؑ کی تحریک کو جاویداں و دائمی ہونے کی سب سے اہم وجہ تھی۔ یہی وجہ بھی ہے جس کے سبب یہ قربانی و تحریک لوگوں کی زبان پر رہا۔ زمانہ اس طرح سے قربانی پیش کرنے والوں کو یاد رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ذات سے ہٹ کر ایک بلند مقصد اور ہدف کے لیے ثابت قدم رہے اور انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

7- امام حسینؑ کے اہل بیتؑ:

اگر امام حسینؑ کے گھر والے نہ ہوتے تو معرکہ کربلا کے واقعات اور اس میں پیش آنے والے مصائب کا کوئی خاص اثر نہ ہوتا اور یہ عظیم سانحہ کربلا کی زمین اور یوم عاشورہ ہی اپنی موت مر گیا ہوتا۔

شہادتیں پیش کرنے کے بعد جنھوں نے کربلا سے کوفہ و شام اور یزید لعنت اللہ کے دربار میں خطبات، احتجاج اور دشمنوں و جاہلوں سے کئے گئے مناظرات کے جو مثبت اثرات نمودار ہوئے، وہ نہیں ہو پاتے۔

8- مجالس حسینؑ:

حسینیؑ تحریک کی جاودانی و آفاقیت میں مجالس کا بہت اہم کردار رہاہے کیونکہ یہ پورا سال منعقد کی جاتی ہیں خصوصاً محرم اور صفر کے ایام میں۔ یہ مجالس، وعظ و نصیحت پر مشتمل ہوتی ہیں اور مومنین و مومنات کو اسلامی تعلیمات، احکام اور قرآن کریم کے مفاہیم کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور انہیں دینی و دنیوی ضروریات کے مطابق دوسرے علوم اور مفاہیم سے آگاہ کرتی ہیں اور یہی مجالس تحریک حسینی کے اہداف اور روز عاشور کے واقعات اور مصائب سے بھی آگاہی فراہم کرتی ہیں۔ اور یہ سارے پیغامات ایک نسل سے دوسری نسل تک ان مجالس کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔ یہ امر قابل قبول ہے کہ تحریک حسینیؑ کے زندہ جاوید ہونے کی ایک بڑی اور اہم وجہ مجالس ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسی مجالس کے انعقاد کی بہت زیادہ تاکید کی ہے اور انہیں بہترین طریقے سے برپا کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ارشاد ذوالجلال ہے مرتا نہیں شہید

زندہ رہے گا نام ہمیشہ حسین کا

اپنے کردار و عمل سے فتح و شکست کے مروجہ اصول تبدیل کر دینے والے حسینؑ ابن علیؑ کی بارگاہ میں محبتوں، عقیدتوں اور چاہتوں کا نذرانہ بڑے پر تپاک سے پیش کیا جا رہا ہے۔ یا حسین! یا حسین!! کہہ کر سینا زنی کرنے والے عزاداران سید الشہداء والہانہ محبتوں و مودتوں کا اظہار کیا جاتا ہے جنہوں نے گل ہوتے مناظر کو اپنے لہو سے روشن کر دیا۔ اور ئے بھی تحریر کر دی جائے کہ سید الشہداء کی یاد میں خوش گفتار اور خوش رفتار کے قلم سے ٹپکنے والے آنسوؤں کا مجموعہ ہے۔ رنج و ملال میں دوبی، محبت و عقیدت میں بھیگی، تحقیق و تفتیش میں لپٹا یہ مضمون شہدائے کربلا سے محبت کرنے والوں کے لیے معمولی سا تبرک ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی تحریک سے وابستہ عزادار ہمیشہ تحریک کیحرارت، ہر حالت میں باقی رکھیں گے۔ یہ عہد رہے گا کہ اس روشن چراغ کو سلامت اور خود کو پیروکار بنائے رکھیں گے اور تاحیات شوق شہادت کے جذبے کو برقرار رکھیں گے۔ امام حسین علیہ السلام نے جو تحریک جس نظریہ اور مقاصد کے شروع کی تھی، شہادت پیش کر کربلا کو آباد کیا تھا وہ امتحان تو اب بھی جاری ہے، مقامی طور پر اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔ وقت و مقصد آج بھی حسین علیہ السلام کی تلاش میں ہے۔ مگر حجازی کے کارواں میں کوئی حسین دکھائی نہیں دیتا، بصری میں دکھائی نہیں دیتا اور کوفیوں میں بھی نظر نہیں آتا۔ لشکر یزید میں کھڑے ہزاروں حر آج بھی اپنے حسین کی راہیں تک رہے ہیں۔ تحریک حسین میں لاکھوں شامل ہیں لیکن فقدان کردار و عمل ہے۔ ھل من کی صدا کان تک پہنچی ہے لیکن دل میں مقام حاصل نہیں کر سکا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور پیغام پر عمل کرنے والوں کا دل شفاف، دماغ روشن اور ضمیر زندہ رہتا ہے۔ وہ اپنے راستوں میں آنے والے آگ کے دریاؤں میں ڈوب کنورٹ خورشید ابھرنے اور راستہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں:

اس کو ملے گی منزل مقصود بالیقیں

کر لے جو اختیار طریقہ حسینؑ کا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Zainab nisar IN 20:27 - 2024/07/11
    0 0
    I want to learn something about islam