۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
نشست عاشورایی

حوزہ/"شہید" کی اپنی ایک خاص شان ہے۔ وہ سپریم عزیز ترین متاع یعنی زندگی کا نذرانہ دے کر مذہب و ملت کی بقا کا سامان پیدا کرتا ہے۔ اس کا لہو قوم کی رگوں دوڑ کر اسے حیات نو بخشتا ہے۔ یہ سی ایسی زندہ حقیقت ہے جس کی تائید تاریخ انسانیت قدم قدم اور ہمیشہ کرتی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| ”شہید" کی اپنی ایک خاص شان ہے۔ وہ سپریم عزیز ترین متاع یعنی زندگی کا نذرانہ دے کر مذہب و ملت کی بقا کا سامان پیدا کرتا ہے۔ اس کا لہو قوم کی رگوں دوڑ کر اسے حیات نو بخشتا ہے۔ یہ سی ایسی زندہ حقیقت ہے جس کی تائید تاریخ انسانیت قدم قدم اور ہمیشہ کرتی ہے۔

اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق وہی شخص شہید کا رتبہ حاصل کرتا ہے جس کی شہادت اسلام کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق انجام پائے یعنی شہادت کا اعزاز اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو بلند ترین اسلامی مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے قتل ہو جائے اور یہ عظیم قربانی پیش کرنے سے اس کا مقصد صحیح انسانی اقدار کی حفاظت کرنا ہو۔
قرآن کریم اور احادیث میں شہداء کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا اس سے اس لفظ کے صحیح و مناسب مفہوم کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اسے کیوں اس قدر محترم و مقدس سمجھتے ہیں۔

قرآن حکیم شہید کے سلسلے میں فرماتا ہے: "اور تم گمان بھی نہ کرو کہ کشتگان راہ خدا مردہ ہیں۔ نہیں، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔" سورۃ آل عمران، آیت 169)
شہید کی مثال ایک شمع کی مانند ہے جس کا کام دوسروں کو روشنی مہیا کرنے کی خاطر جلنا اور بجھ جانا ہے۔ شہداء عالم انسانیت کی شمعیں ہیں وہ بنی نوع انسان کو روشنی مہیا کرنے کے لئے اپنے آپ کو جلا کر خاکستر کر دیتے ہیں۔ اگر وہ اپنی روشنی نہ پھیلائیں تو کوئی انسانی معاشرہ نہ تو اپنے کام کا آغاز کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رکھ سکتا ہے۔
مولانا روم، سورۃ روم کی آیت کریمہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خواند مزمل نبی را زین سبب
کہ برون آی از گلیم ای بو الھرب
ہمیں قم اللیل کہ شمعی ای ہمام
شمع، دائم شب بود اندر قیام

فلسفہ اور مقصد قیام امام حسین علیہ السلام ابوالآئمہ حضرت علیؑ و سیدہ النساء حضرت فاطمتہ الزہؑرا کے فرزند اور پیغمبرٍ اسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ و جناب خدیجتہ الکبریٰ کے نواسے، شہید مظلوم امام حسنؑ کے قوت بازو اور امت کے نوجوانانٍ جنت کے سردارؑ کے عزادار کا مختصر تعرف، تعریف و شناخت ضروری ہے۔ عزادار کی پہچان عشق مقصدٍ پیغامٍ کربلا، عشق آشنائی فلسفۂ شہادت کربلا، مقصد قیامٍ حسینؑ سے روشن خیالی، عشق پاک تر و بیباک تر، عشق میدانٍ عمل کا مردٍ میدان، عشق روح عمل کی علامت، یقین محکم و پختہ عزم کا نشان ، عشق آباد کرنے کی خاطر خود کو ویران کرنے کا روشن منارہ، عشق کامیاب اور گراں بہا، عشق چون و چند سے آزاد، عشق امتحان کے لیے سدا آمادہ، کامیاب و کامران، عشق فضل خدا سے اپنا احتساب خود کرنے والا، عشق بندۂ الٰہی اور مظہرٍ کربلا، علم و دانش، حلم و عمل، سخاوت و ذہانت، زہد و تقویٰ، صبر و شکر اور ایثار و قربانی میں بے مثل۔ کربلا عشق کے لیے حریت ہی آرامٍ جاں اور حریت ہی سواری کی ساربان، عشق پیغام کربلا میں حالت جنگ و نبرد آزمائی کیونکہ سید الشہداء عاشقوں کا امام، وہ بتولؑ کا جگر بند جو رسالت مآب کے باغ خا سروٍ آزاد ہے، اللہ اللہ پدر بسم اللہ کی ب کا نقطہ ہے اور پسر خود آیۂ ذبحٍ عظیم کی حقیقت و تفسیر ہے (سورۃ الصقت 37، آیت 107):
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنیٔ ذبحٍ عظیم آمد پسر

حسینؑ کے لیے رسول اکرمؐ کی حدیث 'حسین منی و انا منل حسین' امتوں میں بہترین امت کے اس شہزادے کے لیے رسالت مآب کا دوش بہترین سواری بنے، ان کے لہو سے عشقٍ غیور سرخ رُو ہے اور اس کے مضمون سے اس مصرع کی رنگینی ہے، آپؑ کا مقام و مرتبہ اس امت کے درمیان ایسا ہی ہے جیسا قرآن میں قل ھواللہ ہے۔ عزاداران سید الشہدا کو زیر نظر رکھنا چاہیے کہ موسیٰ فرعون، شبیرؑ و یزید اور حق و باطل دو ایسی قوتیں ہیں جو ابتداء سے متواتر چلی آرہی ہیں۔ آج جو حق زندہ ہے وہ قوتٍ حسینیؑ سے زندہ ہے، سردار خیرالامم سے ٹکرایا جس سے بارانٍ رحمت ہوئی۔ یوں کہا جائے کربلا کی زمین کو اپنے لہو سے چمن بنایا، جلا بخشی، آپؑ نے قطعٍ استبداد، ظلم و ستم کی جڑیں کاٹ دیں اور آپ کے لہو کی موج نے چمن کی آبیاری کی اور حق کی بقا کی خاطر اپنی شہادت پیش کی اور کلمہ طیبہ کی محکم بنیاد بن گیا:
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لاالہ گرویدہ است
امام حسینؑ کا مقصد نہ تو تخت و تاج کا حصول تھا اور نہ ہی دولت و طاقت پر قبضہ کرنا تھا۔ یہ سب ان کے قدموں کی دھول تھی۔ آپؑ کا مقصد قیام و شہادت مسلمانوں کو خوابٍ غفلت سے بیدار کرنا اور اسلامی اقدار کو اجاگر کرنا تھا۔ امام حسینؑ کے قیام کا مقصد کلمۂ توحید کی بقا ٕ، شریعتٍ محمدیؐ کا تحفظ، قرآن کی بالادستی، انسانی اقدار کی بحالی، مساوات قائم کرنا، غلامی سے آزادی دلانا تھا جس کی وضاحت سبطٍ اصغرؑ نے مدینہ سے کربلا تک قدم قدم پر فرماتے رہے۔ شہید اکبرؑ کی شہادت و قیام کا مقصد اسلام کی صحیح تصویر سامنے لانا تھی اور ایک ایسا انقلاب پیدا کرنا تھا کی یزیدیت کی اصلی شکل اور پسٍ پردہ چہرے سامنے آجائیں اور ناناؐ کا دین تاقیامت زندۂ جاوید ہو جائے۔
سید الشہدؑاء کا ہدفٍ واجباتٍ دین پر عمل کرنا اور تمام مسلمانوں سے عمل کرانا تھا، اس کے لیے یزیدی حکومت کو ختم کرنے کے بجائے یزیدیت کو ختم کرنے کے اہداف کو اپنایا۔ یزیدیت کی نابودی کے لیے ایثار و قربانی، صبر و شکر کی ضرورت تھی۔ لہٰزا حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسلامی اور اخلاقی راہ اختیار کی اور اپنی و اپنے خاندان کی قربانیاں پیش کرکے اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جلا بخشی دی:
تیغ بہر عزت دین است و بس
مقصد اُو حفظٍ آئین است و بس

مقدس ہستیوں کا قیام، الٰہی قیام ہوتا ہے اور ان کا ہدف و مقاصد بندگانٍ خدا کو ظلم کے پنجوں سے نجات دلانا، غاصبوں سے مستحقین کو حق دلوانا، لوگوں کو شریعتٍ الٰہی کی تعلیم دینا اور اس کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ یہ مقدس ہستیاں خواہ بندگانٍ خدا کی نجات کے لیے قیام کریں یا شریعت الٰہی کے قائم و حفاظت کے لیے کریں دونوں صورتوں میں ان کا ہدف اور مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنی جان کی قربانی دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے عزیز ترین جگر گوشوں کو بھی اس راہ میں قربان کر دیتے ہیں۔ صرف خالص خوشنودیٔ خدا کے لیے شہادتیں پیش کرنا و قیام کرتے ہیں۔

سید الشہداءؑ کی وہ آواز 'ھل من ناصر ینصرنا' ہے کوئی جو میری مدد کرے دنیا میں گونج رہی ہے۔ اس صدا کا مقصد اسلامی اقدار کو زندہ کرنا اور قائم رکھنا ہے خواہ کتنے ہی مصائب برداشت کرنے ہوں اور کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ دنیا گواہ ہے کہ ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے لیکن اس کوہٍ عزم و استقلال سے ٹکرا کر خود پلٹ گئے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زبان پر ذیل شعر جاری رہا "اگر میرے نانا کا دین برقرار نہیں رہ سکتا جب تک کہ میری رگٍ حیات قطع نہیں ہو جاتی تو اے تلوارو! آؤ، یہ جسم حاضر ہے۔"
حضرت امام حسینؑ اور ان کے تمام دوست و احباب گویا سبھی ساتھیوں کے ذہنوں میں سورۃ العصر کے معنی و مطالب ان کی تعلیمات پر پیہم عمل پیرا رہے۔ والعصر ان الا نسان لفی خسر الا الذین آمنو ا وعملو الصلحت و تو اصو ا بالحق و تو ا صو ا بالصبر (سورۃ العصر 103) قسم زمانے کی یقینی طور پر انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی ہدایت اور صبر و تحمل کی تلقین کرتے رہے۔

متوجہ ہوں۔ اب ایک واقعہ۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی الحسینی سیستانی دام ظلہ کا ایک آفاقی سوال جو صوبہ یوپی، ہندوستان کے عالم ومعلم، جو کربلا کے روضہ مقدسات کی زیارت کی غرض سے زائرین کے طور پر عراق گئے ہوئے تھے، نجف الاشرف بھی وارد و صادر ہوئے۔ یہ سوال علماء کرام، ذاکرین، مقررین، بانیانٍ مجالس، شعراء کرام، نوحہ خواں، سوز خواں، مرثیہ خواں، ماتمی دستہ، مدرسین، حوزہ علمیہ، منتظمین مجالس، انجمنوں کے سکریٹریز اور متولیان نے اوقاف سے بھی منسلک ہے۔ جب عالمٍ دین و معلم کو مرجع تقلید، سید علی سیستانی دام ظلہ الوارف سے یہ کہہ کر ملاوایا گیا کہ ہندوستان سے ایک بڑے عالم آئے ہیں جو آپ سے ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں۔ ملاقات کے دوران سب سے پہلے دریافت کیا کہ آپ نے ابتک کتنے لوگوں کو شیعہ بنایا ہے؟ جن عالم سے یہ اہم سوال کیا گیا تھا ان عالم دین نے خود راقم الحروف کو دوران ملاقات بتایا۔ دل شگاف امر تو یہ ہے کہ شیعہ بنانا تو دور کی بات اب خود میں شیعوں کی صفات ہے بھی یا کہ نہیں؟

تعلیمات کربلا تعلیمات قرآن ہے۔ سید الشہدؑاء کا سر اقدس سجدۂ معبود میں ہوا اور جب سر اقدس نیزے پر بلند ہوا تو تلاوت قرآن کرتا ہوا نظر آیا۔ آواز خدا آئی "اے نفسٍ مطمئن اپنے رب کی طرف اس حال میں چل کہ تو خوش ہو اور پسندیدہ قرار پائے۔ پس! میرے بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں چلا جا۔" (سورۃ الفجر، آیت نمبر 27-30)۔

پانچ دفعہ کا پارلیمنٹیرین اور بیرسٹر، اسدالدین اویسی نے اعتراف حق کرتے ہوئے سامعین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ اقدس کی زیارت کے لیے کربلا ئے مولا گیا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا وہاں پر زندگی ہے، زندگی نظر آرہی ہے۔ کربلا کہ میدان کو دیکھا، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اسی مقام پر امام حسینؑ نے اسلام کی تبلیغ و بقا کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ زور دیکر یہ بھی کہا کہ یزیدوں کا ساتھ کبھی بھی کسی بھی حالت میں مت دینا۔
کافی نہیں ہے صرف عقیدت حسینؑ کی
کردار مانگتی ہے محبت حسینؑ کی

المختصر، کربلا کو الفاظ سے خراج عقیدت پیش کرنے کا نہیں یعنی مجلس و ماتم، ذکر و تقریر، شعر و شاعری اور نذر و تبرک ہی کافی نہیں بلکہ اپنے عمل و کردار سے فلسفہ، اور مقصد شہادت و قیام امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے و فروغ دینے کا نام ہے یہی خوشنودیٔ خدا، رسول اکرمؐ، علی مرتضٰی، فاطمتہ الزہؑرا، حسن مجتبٰی اور خود سید الشہداء ہے۔ جنھوں نے قیام امام حسین علیہ السلام کو اپنایا انھیں باقر الصدر ان کی ہمشیرہ، سید خمینی رح، سید علی سیستانی دام ظلہ الوارف، رہبر معظم سید علی خامنہ ای، سید حسن نصراللہ، شہید مطہری، شہید بہشتی، مفتی سید محمد عباس صاحب قبلہ طاب ثراہ جو جن و انس میں یکساںمقبول رہے، علامہ سید غلام عسکری صاحب طاب ثراہ، علامہ سید ذیشان حیدر جوادی طاب ثراہ، باقر النمر، زکزاکی حفظہ الوارف، شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہندس، شہید خدمت سید ابراہیم رئیسی طاب ثراہ اور آج بھی جو میدان کارزار جیسے ایران، عراق، شام، یمن، لبنان اور فلسطین وغیرہ جہاں محاذ جنگ پر دل میں قیام کربلا لیے وقت کے یزید سے نبرد آزمائی کے لیے اپنی زندگی قربان کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .