۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ/تمام حمد و ثناء خداوند متعال کی، جس کے قبضے میں کائنات ہے اور درود شریف حضرت محمد مصطفٰی ﷺ اور آپؐ کی آل علیہما السلام پر کہ جن کی وجہ سے دنیا کی خلقت ہوئی۔

تحریر و ترتیب: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی |تمام حمد و ثناء خداوند متعال کی، جس کے قبضے میں کائنات ہے اور درود شریف حضرت محمد مصطفٰی ﷺ اور آپؐ کی آل علیہما السلام پر کہ جن کی وجہ سے دنیا کی خلقت ہوئی۔

اہمیتٍ کتاب اس بنیاد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پروردگار عالم جس کی قدرت میں ہر قیمتی نعمت، حیات و موت اور کن فیکن کا مالک ہے اس نے اپنے حبیبؐ، تاجدار انبیاءؑ اور رحمت العالمین کو ایک کتاب عطاء فرمائے، جس میں چھوٹے اور بڑے کل 114 سورۃ ہیں اور رسول اکرمؐ کا آخری دور آیا تو آپؐ نے اپنی اُمّت سے فرمایا کہ تمھارے درمیان گراں قدر چیز چھوڑے جا رہا ہوں یعنی قرآن کریم سے متمسک رہنے کے لئے فرمایا۔ اس سے کتاب کی عظمت، فضیلت اور اہمیت کا اندازہ لگانا مفید ہے۔

امریکی ممتاز، مشہور و معروف مصنف نالٹن کا کہنا ہے کہ جب کوئی کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آتی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم زندہ ہے، قوم کے زندہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کتاب میں فکر، احساس، علم، فیہم، ادراک، مشاہدہ اور تخلیقی صلاحیتوں کی قابلیت و اہلیت نمایاں رہتی ہیں۔ کتابیں انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہیں۔ وہ ان کی غور و فکر کا طریقہ بدلتی ہیں اور ان کو نئے طریقے سے تدبر و تفکر کی عقل و شعور سے مزین کرتی ہیں جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں بھی موجود ہے۔ کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر اور یہ کہنا درست ہے کہ یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔

1446 ہجری کے آغاز پر اور کربلا کے عظیم سانحہ کے 1365 ویں سال کے موقع سے ایک کتاب "قصبہء شکارپور کے معلوم مرثیہ نگار" کا رسم اجرا ہوا۔ اس کتاب کے مصنف پروفیسر سید ضمیر حیدر صاحب ہیں جن کا آبائی تعلق شکارپور، بلند شہر، ہندوستان ہے لیکن پروفیسر حیدر صاحب کی پیدائش میرپور، صوبہ سندھ، پاکستان میں ہوئی، تعلیم و تربیت بھی اسی مقام، شہر میں مکمل ہوئی۔

کتاب "مرثیہ شکارپور کے معلوم مرثیہ نگار" سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں شکارپور، شکارپور کے شعراء کرام اور شکارپور کے مرثیہ نگاروں سے کتنی محبت، عقیدت و لگاؤ ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پروفیسر حیدر جسمانی طور پر صوبہ سندھ میں مقیم ہیں لیکن ذہنی، فکری، علمی، ادبی اور تحقیقی طور پر شکارپور میں وجود رکھتے ہیں۔

راقم الحروف اس کتاب کے حوالے سے ایک تاریخی بات کو قارئین کرام سے ساجھا کرتے ہوئے تحریر کر رہا ہے کہ ممتاز، مشہور و معروف صحافی، مصنف، ادیب، تاریخ نویس ہمدردی و محبت کے علمبردار خشونت سنگھ جو ہدالی، شہر خوشداب، صوبہ پنجاب میں 1915 عیسوی میں پیدا ہوئے اور پانچ سال کی عمر میں ہجرت کر دہلی، ہندوستان آگئے جنھوں نے 2004 عیسوی میں اپنی 89 سال کی عمر میں راقم الحروف سے کہا کہ ڈاکٹر شجاعت شیعوں میں اب ویسے قلمکار نہیں ہیں جیسے انیس و دبیر تھے۔ خشونت سنگھ صاحب کے اس تبصرے سے ان کی اردو ادب شناسی مرثیہ نگاری کے صنف سے واقفیت، علم و جستجو، دلچسپی اور کس قدر آشنائی و شیدائی تھے۔ آج 20 سال بعد ان کی فکر خوش آئند میں تبدیل ہوئی اور پروفیسر سید ضمیر حیدر صاحب کی سعی، جستجو اور دلچسپی سے وہ کام انجام پایا جس کا شدت سے انتظار تھا۔

عزاداری کے فروغ میں مرثیہ نگار کا اہم کردار

کتاب 'قصبہ شکارپور کے معلوم مرثیہ نگار' میں کل 12 مرثیہ نگار کو مقام حاصل ہوا ہے جن کے نام ہیں: سید حیدر حسن ناظمٓ، محبتٓ حسین شکارپوری، سید مزمل حسین ضیآ، سید مشتاقٓ حسین، سید اعجاز حیدر اعجازٓ، سالکٓ نقوی، شاہدٓ نقوی، عابدٓ حشری، فرحتٓ نقوی، احسنٓ شکارپوری، قمرٓ نقوی اور ڈاکٹر بصیر الحسن وفآ نقوی ہیں۔

محترم ڈاکٹر سید بصیر الحسن وفآ نقوی ایک ممتاز عالمی شہرت یافتہ ناظم ہیں۔ آپ اخبارات، جرائد، ریڈیو، ٹیلیویژن، محفل اور نظامت کی دنیا میں اپنی منفرد پہچان و اعلٰی مقام بنا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ان میں علم و ادب، فیہم و ادراک، فکری بلندی اور قلمی و تخلیقی صلاحیتیں نمایاں ہیں۔ ویسے تو ڈاکٹر وفآ نقوی صاحب اردو ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اب آپ کی آواز مرثیہ نگاری کے ذریعے سے بھی سنائی دینے لگی ہے۔ قارئین کرام کے لیے ڈاکٹر وفا نقوی کا ایک دو بند نمونہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو قابل توجہ اور ستائش بھی ہے:

سفر حسینؑ کو کرنا پڑا مدینے سے

کہ جیسے دور انگوٹھی ہوئی نگینے سے

کہ جیسے دور ہوا کوئی سفینے سے

کوئی گیا ہی نہیں گھر سے اس قرینے سے

حسینؑ جاتے تھے رخصت کو لوگ آتے تھے

گلے لگاتے تھے مولاؑ کو، خون بہاتے تھے

حسینؑ ابن علیؑ نے کچھ ایسا کام کیا

کہ بڑھ کے کوثر و تسنیم نے سلام کیا

کیا یہ وقت نے کیا سید انام کیا

عدو کے ساتھ ہی حسینؑ عملٍ امام کیا

کہا حسینؑ نے میں بھی علیؑ کا بیٹا ہوں

سخاوتوں میں پلا ہوں، سخی کا بیٹا ہوں

شکارپور کی اردو علمٍ ادب کی جو تاریخ لکھی جائے گی، اس کا حسن و خوبی یہ ہوگی کہ اس کتاب میں ان بارہ شعراء کرام کی مراثی کو پڑھ کر تجزیے اور فیصلے کر سکتے ہیں کہ ادب کا کیا معیار ہے اور کربلا کا احساس کس قدر پنہاں ہے۔

مرثیہ کیا ہے؟ مرثیہ کس شئے کا نام ہے؟ کس واقعہ، کس حالت کا، کس کیفیت کا اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھوم جائے۔ صرف آنکھوں کے سامنے ہی نہ پھرے بلکہ قلب میں احساسات و محسوسات کیا جائے۔ عزاداران سید الشہداء، شہدائے کربلا اور اسیران کربلا بخوبی واقف ہیں کہ مرثیہ وہ نظم ہے جس میں شہدائے کربلا کے مصائب اور شہادت کا ذکر ہوتا ہے۔ مرثیہ نگار جب مراثی تحریر کرتے ہیں اس میں دریہ کی روانی، جنگل کی ویرانی، گرمی کی تپش، پیاس کی شدت، ماؤں کی ممتا، بھائی بہن کی محبت، جوان بیٹوں اور ننھے مجاہد کی قربانیاں، رنج و محن، غیظ و غضب، استعجاب و حیرت، ان چیزوں کا اس طرح بیان کرنا وہی کیفیت دلوں میں نقص کر جائے، آنکھوں سے آنسو بے ساختہ جاری یو جائے، اسی کا نام مرثیہ گوئی ہے۔

اس کے ساتھ الفاظ میں فصاحت، سلاست، روانی، بندش، دل آویزی اور برجستگی، لطیف و نازک تشبیہات اور استعارات، اصول بلاغت کے مراعات، ان تمام اوصاف کے زاویے سے ان بارہ شعراء کرام کے مراثی کو دیکھنا، پڑھنا، تجزیہ کرنا اور لوگوں تک یعنی عزاداران کربلا اور ادباء و نقادوں تک پہنچانا بھی فرض ہے۔ مرثیہ خواں ان مرثیے پڑھ کر پزیرائی کریں، کچھ منبر سے پڑھ کر مومنین تک پہنچائیں اور کچھ اخبارات، رسائل و جرائد کے لئے مضامین تحریر کر شائع کروائیں۔ یہ مصنف پروفیسر سید ضمیر حیدر کے لئے ہمت افزائی ہوگی۔

آخر میں ڈاکٹر وفا نقوی کا ایک اور بند قارئین کرام کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، ملاحظ فرمائیں:

اُدھر یہ کہتی تھی کلثومؑ پیٹ پیٹ کے سر

نہ راس آیا بیابانٍ کربلا کا سفر

مدینے! دیکھ ہماری یہ حالت مضطر

ہمارے آنے کو للہ تو قبول نہ کر

نشاں رسن کے تو زخمی قلوب لائے ہیں

تمام گھر کو لٹا کر وطن میں آئے ہیں۔

مرثیے کے حوالے سے راقم الحروف روشناس کرانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ اکبر اسدی، مہدی رضائی اپنی کتاب "نمونہ صبر- زینبؑ" میں لکھتے ہیں کہ کسی بھی واقعے یا حادثے کو یادگار بنانے میں شعراء کا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ اشعار لوگوں کے دلوں اور ان کے ذوق میں ایک خاص اثر پیدا کرتے ہیں اور لوگ کربلا کے واقعات اور اس کے تخیل کے حوالے سے ان اشعار کے کلمات سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

شعراء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اشعار میں واقعے کو اس کی اصلی حالت میں بیان کریں یا ان کو خیال و فکر کے لحاظ سے درست بیان کریں اور انھیں شعر و ادب کے ذوق کے لحاظ سے سانچے میں ڈھالیں یا عہد سپنے اشعار کو کسی بھی شخصیت کے لحاظ سے زبان حال میں بیان کریں۔ آئمہ معصومین علیہم السلام کے حضور شاعروں نے واقعہ کربلا کو اصل واقعات اور سپنے تخیل دونوں طریقوں سے اپنے اشعار کے ذریعے بیان کیا ہے۔

دعبل خزاعی نے امام رضا علیہ السلام کے حضور اپنے معروف اشعار میں یوں بیان کیا ہے:

اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ "اگر فاطمتہ الزہؑرا اپنے حسینؑ کو زمین پر پڑا دیکھ لیں جسے فرات کے کنارے پیاسا شہید کر دیا گیا تو اس وقت حضرت فاطمہؑ اپنا چہرہ پیٹنے لگیں گی اور آپؑ کے رخساروں پر آنسو بہنے لگیں گے۔"

اس اشعار پر امام علیہ السلام نے گریہ کیا۔

اس بات سے تمام عزاداران شہدائے کربلا متفق رائے قائم کرتے ہیں کہ فروغ عزاداری میں علماء کرام، ذاکرین عظام، مقررین اور خطباء کے ہمراہ مرثیہ نگاروں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔

عزاداران کربلا، ادباء، ناقدین اور اس کتاب "قصبہ شکارپور کے معلوم مرثیہ نگار" میں شامل شعراء کرام پروفیسر سید ضمیر حیدر کے شکرگزار ہیں کہ مرثیہ نگاری میں قابل قدر کنٹریبیوشن کیا ہے۔ شکارپور کے حضرات آپ کی صحت، سلامتی و کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .