۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
ইমাম হুসাইন (আ.)এর শাহাদত উপলক্ষে শোকানুষ্ঠান

حوزہ/حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب میں دعا مانگی "پالنے والے مجھے ایک ایسا فرزند عطا کر دے جو عین اسلام حسینؑ پر قربان ہو کر مجھے تیری بارگاہ میں سرخرو بنا سکے۔" علیؑ کی دعا قبول ہوئی اور بطن حضرت فاطمہ کلابیہ سے حضرت عباسؑ پیدا ہوئے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب میں دعا مانگی "پالنے والے مجھے ایک ایسا فرزند عطا کر دے جو عین اسلام حسینؑ پر قربان ہو کر مجھے تیری بارگاہ میں سرخرو بنا سکے۔" علیؑ کی دعا قبول ہوئی اور بطن حضرت فاطمہ کلابیہ سے حضرت عباسؑ پیدا ہوئے، جنھوں نے تحفظ اسلام کی خاطر 34 سال کی عمر طیبہ، بروز 10 محرم الحرام، یوم جمعہ وقت بعد ظہر اپنے آقا، حسینؑ پر قربان ہوکر حضرت علی علیہ السلام کو سرخرو کر دیا۔ حضرت عباسؑ نے اس ہستیوں میں اپنا بلند مقام حاصل کر لیا جن کی نظیر صحن کائنات میں نہیں ہے:

شہیدانٍ وفا کو ہم جو دیں تشبیہ کس سے دیں

کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں مثالیں بے مثالوں کی

علامہ حسین کاشفی رقمطراز ہیں "در آں روزے بروئے زمیں ایشاں راشبیہ نظیر نہ بود"، شہدائے کربلا کی نظیر روئے زمین پر ناممکن ہے۔ (جواہر الایقان، صحفہ 74؛ روضتہ الشہداء، صفحہ 6)

خون سے اپنے وہ لکھا کہ قلم توڑ دیا

یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کا رخ موڑ دیا

حضرت عباس علمدارؑ کے لئے فرماتے ہیں "یغبطہ الملائکتہ"۔ آپؑ نے رہتی دنیا تک کے لیے اپنی قربانی اور شہادت کے زور سے حیات ابدی حاصل کر لی۔ آپؑ کے لئے شاعر کہتا ہے:

مرنے والوں نے بنا ڈالی ہے جینے کی نئی

زندگی دوڑتی ہے خون کے فواروں میں

حضرت عباسؑ کی فضیلت، عظمت اور کرامت کے حوالے سے لکھنا یہ قطعی غلط نہیں ہوگا کہ جس نے تمام عباداتٍ مدارج طے کر لیے، عبدیت سے نوازا گیا۔ وہ آپؐ ہی کا اہل بیتؑ ہے۔ اور اس کے ذکر کو عبادت قرار دیا۔ آپؑ کے پدر بزرگوار کا ذکر بھی عبادت اور ان کے چہرے پر نظر ڈالنی بھی عبادت ہے (نور الابصار) یہ کمال عبدیت کی وجہ سے اہل ذکر قرار پائے:

عباس کو ہم صورت حیدرؑ نہ کہو

سن لیں گے نصیری تو خدا کہہ دیں گے

راقم الحروف کو مطالعہ اور تحقیق کے بعد تاریخ کے اوراق میں ایک ایسی ہستی نظر آرہی ہے جس کی تمنا حیدر کرار، شیر خدا، عین اللہ، وجہہ اللہ، اذن اللہ، جنب اللہ اور نفس اللہ کر رہے ہیں جس کی شجاعت کی بشارت حضرت محمد مصطفٰی (ص) دے رہے ہیں، حضرت فاطمتہ الزہؑرا اپنا فرزند فرما رہی ہیں، جس کو امام حسنؑ اپنا مدد گار بتا رہے ہیں اور امام حسین علیہ السلام "بنفسی انت" فرما رہے ہیں۔ آپؑ کو امام جعفر صادقؑ نافذ البصیرت اور عبد صالح فرما رہے ہیں۔

حضرت عباسؑ علمدار نے جس طرح اسلام اور سید الشہداء کی حمایت و خدمات کی ہیں وہ تاریخ کے صفحات میں بے نظیر ہیں۔ آپ کا دلیرانہ عمل اور کردار ناقابل فراموش ہے۔ جنگ صفین میں شجاعت و جنگی کارناموں کے جوہر بکھرے، مدینہ سے روانگی، مکہ میں قیام، کربلا میں ورود، نصب خیام کا واقعہ، طلب آب، سقائ، سیدانیوں کا سہارا، حسینؑ کے لشکر کا ڈھارس اور دشمنوں کے لیے ہیبت غرضیکہ زندگی کے اس عظیم سفر میں آپؑ نے شاندار کردار پیش فرمایا۔

حضرت عباس علمدارؑ کی شخصیت کو جنگ، قتال اور بہادری کے علاوہ علم و فقہ کی روشنی میں بھی دیکھنا ہوگا جس سے سمجھ میں آئے گا کہ اسلام کا عَلم میدان کربلا میں کیسی شخصیت کے ہاتھ میں تھا، وہ شخص کس خصوصیات کا حامل تھا۔ اسلام کے پرچم کے معنی، مقصد اور اہمیت کو محسوس کرنا ہوگا۔ اور فداکاری کے جذبے، فکر و تربیت کو عمل سے معاشرے کو محسوس کرانا ہوگا۔

تاجدار انبیاء حضرت محمد مصطفٰی (ص) نے امیر المومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کو بابٍ مدینتہ العلم فرمایا اور حضرت علیؑ خود بھی فرمایا کرتے تھے "صلونی قبل ان تفقدونی"۔ حضرت عباسؑ اس باپ کے فرزند ہیں۔ دنیا یہ نہ سمجھے کہ حضرت عباس صرف ایک وفادار اور شجاع انسان تھے، بلکہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی طرح میدان وفا میں وفادار، میدان قتال میں شجاع اور میدان علم میں زبردست عالم تھے۔ اور علم بھی کیسا، علم فقہ جو سب سے اہم ہوتا ہے۔ علامہ مامقانی لکھتے ہیں "قد کان من فقہاء اولاد الائمہ" حضرت عباسؑ آئمہ طاہرین علیہما السلام میں فقیہ اولادوں میں ایک زبردست فقیہ تھے۔ (تنقیح المقال باب العین، صفحہ 128، طبع ایران)

علامہ قائنی خراسانی لکھتے ہیں "بد انکہ ابو الفضل از اکابر وا فاضل فقہاء و علماء اہلبیت بود بلکہ عالم غیر متعلم بود۔" عزاداران شہدائے کربلا، خصوصی طور پر وہ حضرات جو علمٍ عباسؑ جلوسوں اور مجلسوں میں اُٹھاتے ہیں، بوسہ دیتے ہیں اور منتیں و مرادیں مانگتے اور طلب حاجت کرتے ہیں کہ حضرت عباس فقہائے آل محمدؐ اور علمائے اہلبیت علیہم السلام میں بڑی حیثیت کے مالک تھے۔ آپؑ تو شریکتہ الحسین، ثانی الزہؑرا حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح عالم غیر متعلم تھے (کبریت احمیر، جلد 3، صفحہ 45) یعنی آپؑ ایسے عالم تھے جس نے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ آئمہ طاہرین کے مانند حضرت عباسؑ بھی عٍلم لدّنی کے مالک تھے۔

علم میں اضافے کے لئے یہ تحریر کرنا فرض ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام میں امامت کی صلاحیت تھی۔ آپؑ کی جلالتٍ قدر کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا غیر مناسب نہ ہوگا کی اپؑ میں امامت کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آئمہ طاہرین کی امامت خدا کی طرف سے ہے، نہ کسی کو اس عہدے کے قبول کرنے کا اختیار تھا۔ اگر حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے بصیر انسان بھی یہ چاہتے کہ اپنے بعد مثلاً حضرت عباس کو امام بنا دیں "لم یکن لیفعل" یہ کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ اس لئے کہ یہ لطفٍ عہدہ خدا کی طرف سے خاص بندوں کے لئے معین ہے۔ (اصول کافی، صفحہ 139، طبع ایران، 1281 ھ)

حضرت عباس علیہ السلام کا عہدہ علمبرداروں کا ذکر بھی ضروری کیونکہ آپؑ کے نام کے ساتھ علمبردار بھی جڑا ہوا ہے۔ جنگ خیبر میں حضرت محمد مصطفٰی (ص) نے علمبرداروں کا معیار قائم کر دی یہ فرما کر کہ کل علم اس کو دونگا جو غیر فرار و کرار ہوگا۔ اس کے علاوہ علمدار کی صفت ہے جو خدا اور رسول سے محبت کرتا ہو۔

علاوہ ازیں، حضرت عباسؑ حافظ قرآن اور علم الٰہی کے ماہر تھے۔ جناب سرورٍ کائنات نے کسی غزوہ میں علم لشکر مرحمت کئے جانے کا معیار قرار دیا۔ قارئین کرام غور فرمائیں۔ آپؑ نے اصحاب سے پوچھا کہ تم کو کوئی سورہ یاد ہے۔ بد قسمتی سے بزم میں خاموشی چھا گئی۔ ایک نو عمر لڑکا حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا کہ مجھے سورہ بقر یاد ہے۔ آپ نے بلا تکلف اس کو عَلم دے دیا۔ لوگوں کو اس منصب کے تفویض کر دینے میں جب عذر ہوا، تو آپؐ نے فرمایا "معہ سورۃ البقر" اس کے ساتھ سورہ بقر ہے۔ اب ذرا اسے بھی توجہ دیں۔ اصحاب امام حسین علیہ السلام میں ایسے لوگ موجود تھے جن کو پورا قرآن کریم حفظ تھا۔ ان حفاظ قرآن کی موجودگی میں حضرت عباسؑ کو عَلم دیا جانا بتاتا ہے کہ کسی ذاتی رشتہ یا قرابت کی بنا پر یہ عہدہ تفویض نہیں ہوا بلکہ وہ عٍلم قرآن میں بھی ممتاز ترین انسان تھے اور صحیح معنوں میں ان کو حق تھا کہ عَلم حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ میں رہا چکا ہو اس کو حضرت عباس علیہ السلام اپنے دست مبارک میں لیں۔

یہ قابل فخر و افتخار ہے کہ حضرت عباسؑ نے اسی شان و شوکت کے ساتھ علمداری کی ہے جس شان و شوکت سے حضرت علیؑ اور حضرت جعفر طیارؑ نے لشکر اسلام کی علمبرداری کی ہے۔ سب سے اہم خصوصیات علمدار لشکر کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہیں: بند ہمت، قوی جگر، جری، بہادر اور شجاع۔ بڑے بڑے ہولناک جنگاہ میں اپنے کو پہنچا دینا اور دشمن سے بے جھجک لڑ جانا، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا، دشمن سے مرعوب نہ ہونا، میدان جنگ کی طرف پشت کرنے کو عار سمجھنا، اپنے آقا کا تابع فرمان ہونا، اس کا شیوہ زندگی ہو اور عَلم کی حفاظت میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کو تیار رہے۔ مختصر کہ یہ اتنا بہادر ہو کہ ہاتھوں کے ٹوٹ جانے اور شانوں کے قلم ہو جانے پر بھی عَلم سرنگوں نہ ہونے دے۔

یہ ظاہر ہے کہ ان صفات سے متصف بہت کم لوگ ہوا کرتے ہیں۔ اسی لئے عہدہ علمبرداری دوسروں کے سپرد کرنا تو در کنار، خود اس وقت بھی ان کو ہاتھ نہیں لگانے دینا چاہیے۔ جب علمدار کا ہاتھ زخمی ہو گیا تو کسی دوسرے کو نہ دے۔

قارئین کرام کے لئے واقعہ وضاحت کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ جنگ اُحد میں عَلم رسول (ص) حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ میں تھا۔ شیر خدا کی داہنی کلائی ٹوٹ گئی۔ ہاتھ سے عَلم چھوٹا۔ لوگوں نے سنبھالنا چاہا۔ ارشاد رحمت العالمین ہوا کہ عَلم کوئی نہ لے۔ علم علیؑ کے دس مبارک میں ہی دے دو۔ اس لئے کہ یہی دنیا و آخرت دونوں جہاں میں میرے علمدار ہیں۔

اگر حضرت عباس علیہ السلام کے کردار، صفات، کرامات اور فضیلت پر لکھی گئیں کتابوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہماری نظر سے گزرتا ہے کہ آپؑ عادل، متقی، ثقہ اور پاک طینت جواں شخص تھے۔

حضرت عباسؑ ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ آپؑ تو ایک فکر، انقلاب، علیؑ کے دلبند اور فاطمہ الزہرا کے فرزند کا نام ہے:

مرنے جینے کا سبق سکھلا دیا عباسؑ نے

جن کے دم سے آج بھی معجزات ظاہر ہوتے ہیں

حضرت عباس علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں دکھا دیا کہ حق کا ساتھ یوں دیا جاتا ہے۔ یہی شمر تھا جس نے آپؑ کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ منصب، دولت، شوکت، جاہ و حشم دوسری طرف فاقہ، پیاس، صبر، استقلال، وفا، زخم، شہادت اور دنیا سے رخصتی لیکن حق کے مقابلے میں آپ نے ان سب کو ٹھکرا دیا۔ پیاسا رہنا گوارا کیا اپنے گھر کی مخدرات عصمت کی دربدری پسند کی لیکن حق پر ثابت قدم رہے۔ عباسؑ علمدار ہمارے لیے کامل نمونہ ہیں۔ آپ کی پیروی دنیا کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

حضرت عباسؑ کی ہیبت کا عالم دیکھ کر

آئیں جب فوجیں مقابل میں ہراساں ہوگئیں

آج ہمارے سامنے شہید قاسم سلیمانی کے کردار، صفات، معجزات و میدان قتال میں راہنمائی کرتا ہوا دکھائی دیا اور زندہ شہید مالک اشتر کہلایا۔ شہید سلیمانی نے صرف اپنے وطن عزیز کی رہنمائی نہیں کی بلکہ عراق، شام، یمن، اور لبنان کو اس قدر قوت افزا بنا دیا کہ سپر پاور کہلانے والا اسرائیل اب تھر تھر کانپتا ہے۔ فلسطینیوں کو غلیل سے راکٹ اور میزائل نظام کی صلاحیتوں کا حامل و کامل بنا دیا۔ یہ اپنی قوم کے لیے فخر و مباحات ہے۔ اہل تشیع کو بین الاقوامی سطح پر باوقار بنایا۔ یہ سب کچھ حضرت عباسؑ کی حیاتیات اور کارناموں سے ہی سیکھا، اپنایا اور عمل میں لائے۔ اپنی زندگی کو انسانیت، اسلام کے پرچم اور حق کی بلندی کے لیے آخری دم تک مقابلہ کرتے رہے اور اپنی جان کو قربان کر دیا۔ ایسے ہوتے ہیں عباس علمدار کے عزادار و پیروکار۔ کس طرح سے نشانی و علامتٍ کربلا کے عَلم کو بلند رکھا اور آئندہ نسلوں کو درس دے گئے۔ حضرت عباس علمدار کے عَلم کو بلند کرنے والوں کو اپنے کردار، صفات، عٍلم اور حلم، صبر، وفا، ایثار و قربانی اور صلاحیتوں کا میزانٍ کربلا پر تولنا ہی ہوگا۔ آپ علم بلند کرتے ہیں محض اس لیے کہ آپ کی مرادیں پوری ہوں۔ یا دولت، شوکت، جاہ و حشم اور اپنی دنیاوی فلاح و بہبودی کے لیے ہے؟ آج عزادارانٍ حضرت عباسؑ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ علماء کرام، ذاکرین، خطبا، واعظین، مصنفین، حفاظ، قاضی، قاری، مدرسہ عالیہ کے مدرس اعلٰی، حوزہ کے منتظمین، متولیان، شعبۂ دنیات کہ چیرمین و ڈین اور دیگر شعبۂ جات سے تعلق رکھنے والے افراد ظالم اور دولت کے آگے سر خم کر دیا ہے۔ ہم ایسی صفت والوں کی ہدایت کے لیے دعا گو ہیں۔ لیکن ہم لوگوں کے لیے چراغٍ ہدایت اور کشتی نجات رواں و دواں ہے بس ہدایت فرما دے!

عزادارانٍ حضرت عباس علیہ السلام کی صفات کا مطالعہ کریں اور اپنائیں۔ وہ مظہر العجائب اور معجز نما کے لخت جگر، قمر بنی ہاشم، فخر عجم، زینت عرب، حمزہؑ کا رعب، شوکت جعفرؑ طیار، علیؑ کی آن، حسنؑ کی شان، حسینؑ کی جان وفا کی عظمت کا نشان، صف شکن، تیغ زن، شجاعت کے تاجدار، کرامت کے سردار، عبادت گزار، صبر کے پیکر، فرزند صاحب ذو الفقار، برادر شہؑ ابرار، ام البنین کے لال، حیدرؑ کا جلال، زینبؑ کا آسرا اور علمدار لشکر دشت کربلا ہیں۔

ہم سب کے آقا، چھوٹے حضرت، پیکر وفا، حضرت عباس علیہ السلام کے مراتب عالیہ کا انداہ لگانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ان شہدائے کربلا میں علمدار کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر تو آئمہ معصومین علیہم السلام سلام بھیجتے رہے، جن کی زیارت کا حکم وہ اہل ایمان و مودت کو دیتے رہے اور جن کی زیارت میں یہ کلمہ بھی آیا کہ"اے کربلا کے شہیدوں، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔" علمدار حسینی سے کرامات عظیمہ کا ظاہر ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہ تو ان کے عنداللہ مراتب عالیہ اور درجات رفیعہ کا معمولی تقاضا ہے۔ کیونکہ ان کی کرامت سے نہ صرف یہ کہ آپؑ کے برادر، سید الشہداء کی عظمت و حقانیت ظاہر ہوتی ہے بلکہ پورے خاندان رسالت و امامت کی عظمت و حقانیت کا ظہور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عزاداران شہدائے کربلا، زائرین کرام، مقررین، ذاکرین، خطبا اور علماء کرام، خدام صاحبان کے مطابق روضہ علمدار سے جتنی کرامات آئے دن ظاہر ہوتی رہتی ہیں اتنی خود سرکار سید الشہداء کے روضہ مبارک سے ظاہر نہیں ہوتیں۔

غازی کے ارادے میں الٹ پھیر نہیں ہے

عباسؑ کے آنے میں بس اب دیر نہیں ہے

ہیں شیعہ علیؑ سب پہ زبردست رہیں گے

عباسؑ کے نام میں بھی زیر نہیں ہے

شب عاشور بھی امام حسین علیہ السلام نے سبھی رفقاء کے ساتھ عباسؑ پر سے بھی بیت اُٹھا لی تھی لیکن حضرت عباسؑ نے کہا "خدا ہمیں وہ روزٍ بد نہ دکھائے کہ ہم آپ کے بعد زندہ رہیں۔ ستر بار بھی موت آجائے اور زندہ کئے جائیں تو ہمارا یہی ہوگا۔" اسی طرح روز عاشور بھی آپ کو اس کا موقعہ اور امام عالی مقامؑ نے یہ فرما کر دیا۔ "اگر عباس تم دشمن کے لشکر میں چلے گئے تو زینب کے سر سے رٍدا اتارنے کی کسی میں جرآت نہ ہوگی۔ لیکن جناب عباسؑ نے اس وقت بھی عجیب جواب دیا۔ "آقا آج ہی کے دن کے لیے تو والدہ ماجدہ نے میری پرورش کی تھی اور شیر خدا نے بھی یہ وعدہ لیا تھا کہ اپنے بھائی حسینؑ کا ساتھ نہ چھوڑنا۔"

حضرت عباس علیہ السلام نے جیسا نامور پدر بزرگوار پایا اس کے مقام کے تعین میں 1400 سو سال علماء، حدیث، تفسیر، کلام، فقہ، ادب و حکمت کوشاں ہیں اور ان کا سفر ابھی منزل کی تلاش میں ہے۔ حضرت عباسؑ کو اپنے بےنظیر باپ سے بہت صفات وراثت میں ملیں۔ ان صفات نمایاں ترین صفات قائد کے ساتھ حیرت ناک فداکاری اور بے مثال اطاعت و جاں نثاری تھیں کہ حضرت علی علیہ السلام جس طرح رسولٍ اکرم (ص) پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ حضرت عباسؑ اسی طرح امام حسینؑ کی قیادت میں اپنی زندگی کو قربان کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔

علیؑ اور ابن علیؑ عباسؑ کے کردار میں یکسانیت ہے۔ علیؑ شمع رسالت کے پروانے اور عباسؑ شمع امامت کے محافظ، دونوں نے اپنی زندگیوں میں رسالت اور امامت کو دشمنانٍ اسلام کے شر سے محفوظ رکھا۔ بیٹا تو اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ امامت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں کو کٹوا لیا اور امامت کی شمع پر جان نثار کر دی۔

دریائے وفا کے شناور ہیں عباسؑ

لاکھوں میں ہیں بے مثل دلاور عباسؑ

ٹل جائے ہر ایک بلا بہ فیض شبیرؑ

ہو جائیں اگر کسی کے یاور عباسؑ

تاریخ پر نظر رکھنے والا عزادار جانتا ہے کہ عباسؑ امام علی علیہ السلام کی نماز شب کا ثمر ہے۔ اور کربلا کا خاص اہتمام و انتطام بھی۔ ان کا صبر اور ہر عمل امام حسین علیہ السلام کی فکر و پیغام کا مکمل ترجمان ہے۔ عزادار علمدار کے علم مبارک اُٹھائیں اور ان کے کردار کو اپنائیں یہی حقٍ وفا سوگورانٍ باوفا حضرت عباسؑ کی ادائیگی ہے۔

جب زبان پر کبھی آجاتا ہے عباسؑ

دیر تک ہونٹوں سے خوشبوئے وفا آتی ہے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .