۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
News ID: 401047
30 جولائی 2024 - 21:29
مسيرة زوار الأربعينية مشيا على الأقدام من رأس البيشة إلى كربلاء

حوزہ/چند شب قبل ایک روشن فکر خوش اسلوب کہنہ مشق شاعر برادر ندیم سرسوی صاحب نے اپنی ایک نظم پڑھی غالباً جس کا عنوان تھا -میں آج کی کربلا میں کہاں کھڑا ہوں اور یہ نظم بڑی ہی انقلابی اور حقیقت پہ استوار افکار پر مبنی تھی۔

تحریر: سید عنبر عباس رضوی (قسط 1)

حوزہ نیوز ایجنسی| چند شب قبل ایک روشن فکر خوش اسلوب کہنہ مشق شاعر برادر ندیم سرسوی صاحب نے اپنی ایک نظم پڑھی غالباً جس کا عنوان تھا -میں آج کی کربلا میں کہاں کھڑا ہوں اور یہ نظم بڑی ہی انقلابی اور حقیقت پہ استوار افکار پر مبنی تھی۔

بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو شعر کے اجمالی قالب میں بیان کرنے کے علاوہ انکی حقیقت اور طول و عرض کو کما حقہ سمجھنے کے لیے انہیں ہمہ جہت زاویوں سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔

واقعہ کربلا کا تعلق الہی نظام ہدایت اور امامت سے ہے جو دین اسلام کے مسلمات میں سے ہے، اور اس واقعے سے مربوط عزاۓ سید الشہداء کی حیثیت اسلام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔

موجودہ زمانے میں اٹھنے والے سوالات اور پیش آئے جدید شبہات کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور ان کو حل و جمع کرنے کے لیے ضروری ہےکہ جتنا زور کربلا کی واقعیت کو سمجھنے پر دیا گیا ہے اتنا ہی زور کربلا کی حیثیت کو سمجھنے کے لیے بھی دیا جائے، سب سے پہلا سوال اس ضمن میں یہ ہوگا کہ کیا واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ تھا جو تاریخ کے پنوں کی ایک میراث ہے اور ایک ایسا حادثہ جس کو منحصر بر فرد کر کے ایک خاص تاریخی حیثیت دے دی جاۓ؟

یا اسکے برعکس کربلا چونکہ نظام ہدایت کی ایک کڑی ہے اس لیے کربلا خود میں اس ظرفیت کی حامل ہے کہ اس کو ایک نماد سیمبل ائیڈیالوجیکل نگاہ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے, یا یوں کہیے کہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ہدایت کا ایک ایسا وسیع و عریض ہائیوے ہے جو ہر زمانے کے متلاشی حق کو حق تک پہنچانے کے لیے ,ظلم و استبداد کا قلع قمع کرنے کے لیے, کیفیت کو کمیت و کثرت سے بے پرواہ کر حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے قوت بخشتا ہے, اور اس میں ہر زمانے کے مبنی برحق انقلاب کو اپنی آغوش میں سما لینے کی گنجائش موجود ہے، کربلا عزت مداری کا وہ محور ہے جو خود سے وابستہ افراد میں باطل کے سامنے تسلیم نہ ہونے کی روح پھونک دیتا ہے

یہ کربلا کی حقیقت کا وہ دوسرا پہلو ہے جو ایک صبح و شام کے درمیان ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان کے علاوہ ہے، جو ماضی گوئی کے علاوہ مستقبل پرور ہے جسکے اثرات تا قیام قیامت دیکھنے کو ملیں گے۔

اس ضمن میں پیش آئے جدید شبہات کو سوالات و مفروضات کے قالب میں ڈھال کر انشاء اللہ ان پر بعد میں حسبِ استطاعت روشنی ڈالی جائے گی۔

چونکہ یہ بات پہلے ہی عرض کر دی گئی ہے کہ کسی بھی مسئلے کو اس کے طول و عرض کو سمجھے بغیر حل کرنا ناانصافی ہے تو سب سے پہلے ہمیں دین کے مفہوم کو اس کی حقیقت اور اہداف کو سمجھنا ہوگا کیونکہ واقعہ کربلا ایک امام منصوص من اللہ کہ فریضے کی ادائیگی کا نام ہے لہذا کربلا صرف ذات شخص سے نہیں بلکہ مستقلا و مستقیما دین سے مربوط ہے اور خدا کی جانب سے ہدایت کے انتظامات میں سے ایک انتظام ہے، تو اس بات کا نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ انسان اور معاشرے کی زندگی پر جتنا گہرا اثر دین کا ہوگا اتنا ہی گہرا اثر کربلا کا بھی ہوگا۔

جاری ہے۔۔۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .