تحریر: مولانا گلزار جعفری
میرے شعور نے اس وقت انگلی تھام کر چلنا سیکھا تھا جب قدموں میں لڑ کھڑاہٹ تھی زبان میں لکنت اور فکرو فن کا کوئی قد و قامت تو کجا وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس دور میں ایک انقلابی شخصیت اپنے نظم و نسق، دینداری و بیداری، عابد شب زندہ دار، شعور کی شاہراہوں پر شمع تحریک حسینی کی خیرات کے جلوے اپنے کشکول مودت سے امت کے لیے بکھیرنے والا،شہنشاہیت جسکے تکلم کی تلوار سے لرزہ بر اندام ہو رہی ہو ، وہ تحریک حریت کا امین* اپنے امام حریت و نہضت کے خاک قدم کو سرمہ بنا کر وسعت فکر میں خاک شفا کا صدقہ اتار کر فلک بوس حکومت کے مناروں کو تسبیح کے دانوں سے بکھیر منہدم کر رہا تھا اور مصلے کے مسند سے سجدوں کی ابر و بچانے کا ہنر جو در سیدالشہدا سے سیکھا تھا اسے بروے کار لاکر خواب غفلت میں پڑی ہوئی ایرانی قوم کے ضمیر و خمیر کو جھنجوڑ کر قلم فکر و فقہاہت کی عظمتوں سے آشنا کرا رہا تھا۔ اسکی زبان لسان اللہ تو نہیں تھی پر بیان میں وہ جاذبیت تھی کے لسان اللہ بھی اپنے فرزند ارجمند کو یقینا دادو تحسین سے نواز رہے ہوں گے اس مرد آہنی نے قلم فکر سے بزم حریت کے وہ حسین مناظر کھینچیں ہیں جن پر ہر صاحب فکرو نظر کو فخرو مباہات ہونا چاہیے۔
رضا شاہ پہلوی کے تلوے چاٹنے والے سگ صفت، حکومت کے دل دادہ، دولت کے رسیا، خواہشات نفس کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں لگانے والے فرزندان ظلمت و مصلحت کیا جانے کی ایک فقیہ کے قلم سے نکلا ہوا فتویٰ شعور کی بیداری اوار ملت کے ضمیروں کو شوق شہادت کی دہلیز پر کس طرح لا کر کھڑا کردیتا ہے۔
صبر کا سرمہ، توکل کا کاجل اور پیشانی کی وسعتوں میں سجدہ کا نشاں اسکی بلند ہمتی کی پرواز کو درشاتا ہے۔
اسکے ہونٹوں کا تبسم شہادت کے شیریں ذایقہ کا پتہ دیکر ششماہے مجاہد کی خاموشی کی ہنسی کا وار اور راز عیاں کرتا ہے اسنے ہجرت کی صعوبتوں کو برداشت کیا ،قید و بند کی تاریکی کا سامنا کیا مگر حوصلوں کی اڑان میں کبھی کسی نے کوءی کمی نہیں دیکھی بلکہ شاہین زمانۂ اس مجاہد کی حد پرواز کو چھونے سے عاجز نظر آتا ہے۔
پیکر اخلاص و وفا کا یہ عالم ہیکہ۔ جب احباب اظہار محبت میں القابات عصمت کے قریب لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔
تو بڑی جرات و ہمت کے ساتھ اسی مجمع میں اپنی انکساری کا ثبوت دیتے ہیں۔
اپنے لیے ان القابات کے لباس زریں کو پہننے کے بجایے انکے گردو عبارت کو چشم بینا میں بطور سرمہ لگانا باعث صد افتخار سمجھتا ہو اور اپنے لیے ایک اچھے انسان بن جانے اور بنکر رہنے کو ہی کافی جانتا ہو۔
اس مخلصانہ روش کی نظیر اس دور شہرت طلب میں ملنا ناگزیر ہے۔
تنقید کے متبت پہلووں کو اجاگر کرنا اور منفی تنقید کے پس منظر کو سازش و سوزش قرار دینا آپ کی دور بینی بصارت و بصیرت ،شعور واحساس کی زندہ دلیل ہے۔
نظام ولایت کے صدقہ کو کاسہ ایران میں سمو کر شیعت کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچانے والا خاموش صفت انسان رہبر حریت اور امین تحریک حریت ،وحدانیت کے رموز و اسرار کا معلم بن کر درس معرفت دینے والا عظیم مدرس جب فلسفہ کی باریکیوں کو سامنے رکھ کر علم کی موشگافیاں کرتا ہے تو قدامت پسند افراد کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے مگر اس باضمیر انسان نے راستے کے سنگریزوں کو کبھی خاطر میں نہ لایا ورنہ وہ چاہتا تو اپنے دست علم پر انکے تکلم سے کلمہ پڑھوا لیتا مگر اسنے شمع حریت کے اجالوں کو غلامی کی اندھیر نگری میں رہنے والوں کے لیے روشن کیا تھا جسکی بھڑکتی ہوءی لو کو شہنشاہیت کے طوفانوں اور طغیانیوں سے بجھایا نہ جا سکے۔
راہ وفا میں شجر اخلاص کو اپنے لہو سے اس نے نہ سینچا ہوتا تو آج چمن شہادت یوں نہ لہلہاتا اس مرد مجاہد کو باخوبی معلوم تھا کی انقلاب افراد کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں پنپتا اسکے لیے تقوی و تقدس کا حصار بنا کر توکل و اعتماد کے ساتھ محکم حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ان سب کے باوجود ایک وارث کے نگاہ کرم کی بے پناہ ضرورت ہے جسکے چشم ابرو کے اشارے پر یہ نظام ولایت قایم و دایم رہے تشبیہات و استعارات کی دنیا میں جینے والے اہل قلم ادباء عبارتوں کے رازوں سے واقف ہوتے ہیں عصر رواں کے نظام ولایت کو اصل نظام ولایت سے لفظ ہمان کے ذریعہ اگر شباہت دی گیی ہے تو فکر و۔ فن کی دنیا میں سب جانتے ہیں کی عصمت کی روشن کی ہوئی شمع حریت اور ہے اور غیر معصوم کے جلا ئیے ہوئے چراغ آزادی اور ہیں جس شخص نے بھرے مجمع میں اپنے آپ کو غلامان علی کے قدموں کی خاک سے بھی کمتر سمجھا ہو بھلا وہ نظام ولایت فقیہ کو نظام ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے برابر کیسے قرار دے سکتا ہے۔
عظمت کا معیار نہیں بلکہ حفاظت کے اعتبار سے ہیکہ تم اس زمانۂ میں نہیں تھے کی عصمت کے نظام کی حفاظت کرتے تو اس دور میں اس نظام کی حفاظت کرو شاید غیبت میں اسکا تحفظ اس تربیت کو پروان چڑھا دے کہ جب اصل وارث نظام ولایت اور شمع نظام ولایت عظمی کی روشنی پھیلایے تو تربیت یافتہ آنکھوں میں خیرگی نہ ہو جایے ورنہ جن لوگوں کو غلاموں کا نظام ولایت برداشت نہیں ہوتا ان آقاوںں کا نظام کیسے برداشت ہوگا کسی بھی نظام کے تحفظ کے لیے شعور و بصیرت ،علم و آگہی ،تقوی و تقدس ،فکر رساں ،عزم جواں ، پیکر اخلاص و وفا، حلیم و بردبار ،صابر و شاکر عالم با عمل اور ایک اچھے انسان کا ہونا ضروری ہے تاکہ فہم و ادراک میں یہ نظام سرایت کر جایے اور یہی نظام ولایت حقیقت میں دنیاوی آخرت کی کامیابی ہے۔