۸ تیر ۱۴۰۳ |۲۱ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 28, 2024
News ID: 399936
20 جون 2024 - 08:51
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ قرآنی آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابدی معجزہ (قرآن کریم) کے علاوہ اور بھی معجزات تھے۔ ان معجزات نے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے اور رہنمائی کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔(آیت اللہ جعفر سبحاني، منشور جاويد، جلد 7، ص 214)

ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| قرآنی آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابدی معجزہ (قرآن کریم) کے علاوہ اور بھی معجزات تھے۔ ان معجزات نے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے اور رہنمائی کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔(آیت اللہ جعفر سبحاني، منشور جاويد، جلد 7، ص 214)

ان معجزات میں سے ایک معجزہ "شق القمر" ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ چونکہ یہ کام غیر معمولی تھا، اس لئے اسے "معجزہ شق القمر" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (ترجمه تفسير الميزان، جلد 19، صفحہ 96)

شق القمر کا معجزہ کس تاریخ میں ہوا اور اس کے کیا اسباب تھے، اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں، لیکن یہ معجزہ ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں ہوا اس بات پر تمام مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے اور بعض روایات کے مطابق یہ معجزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے اعلان اسلام کے ابتدائی ایام میں رونما ہوا۔ (بحار الانوار، جلد 17، صفحہ 354)

بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ مدینہ منورہ کی جانب ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں قیام کے آخری ایام میں رونما ہوا۔ (بحار الانوار، جلد 17، صفحہ 352)

معجزہ شق القمر کے علل و اسباب کے سلسلے میں بھی روایات مختلف ہیں بعض روایات کے مطابق مشرکین مکہ کی درخواست پر یہ معجزہ رونما ہوا۔ (ترجمه الميزان، جلد 19، صفحہ 69؛ منشور جاويد، جلد 7، صفحہ 214)

روایات کے مطابق مشرکینِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر آپ حقیقت میں اللہ کے رسول اور نبی ہیں تو چاند کے دو ٹکڑے کر دیں، حضور نے پوچھا: اگر میں ایسا کر دوں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ ان لوگوں نے کہا: ہاں! ایمان لے آئیں گے۔ تو آپ نے اللہ تبارک و تعالی سے دعا کی اور یہ معجزہ رونما فرمایا۔

(مشنور جاويد، جلد 17، ص 214)

بعض دیگر روایتوں میں ہے کہ کچھ حقیقت کی جستجو کرنے والوں کی درخواست پر یہ معجزہ رونما ہوا جو مدینہ منورہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے اور انہوں نے مقام عقبہ پر آپ کی بیعت کی تھی۔ (بحارالانوار، جلد 17، ص 355)

شق القمر کے معجزے کی تجویز پیش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کا ماننا تھا کہ سحر و جادو زمینی امور میں ممکن ہے آسمانی امور میں ممکن نہیں ہے۔ لہذا مطمئن ہو جائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب معجزات ہیں نہ کہ جادوگر۔ (بحارالانوار، جلد 17، ص 352)

معجزہ شق القمر تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے سوائے تین لوگوں کے۔ (تفسير نمونه، جلد 23، صفحہ 13)

علمائے اسلام نے معجزہ شق القمر کو آیات و روایات سے ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ قران کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ (قیامت قریب آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ سورہ قمر، آیت 1) فخر رازی اور مرحوم طبرسی جیسے مفسرین کا بیان ہے اس آیت سے مراد یہ ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ صحیح احادیث بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہیں اور اس کا عقلی امکان شک سے بالاتر ہے۔ دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے سچے اور صادق نے اس کی خبر دی لہذا اسے قبول کرنا چاہیے۔ (تفسير نمونه، جلد 23، ص 12)

شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے عبید اللہ بن علی سے روایت نقل کی ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے آباء طاہرین کی حوالے سے روایت کی کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: مکہ مکرمہ میں چاند دو ٹکڑے ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گواہ رہنا، گواہ رہنا۔ (امالي شيخ طوسي، جلد 1، صفحہ 351)

بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت قیامت سے مربوط ہے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزے سے کوئی واسطہ نہیں ہے، کیونکہ اس آیت میں قیامت کے دن کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور چاند کا پھٹ جانا نظام ہستی کے ٹوٹنے کی مثالوں میں سے ہے اور اس آیت سے مراد قیامت میں چاند کے پھٹنے کی بات ہے۔ البتہ یہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے۔

اس آیت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزے سے تعلق ہونے پر بہت سے شواہد اور دلائل ہیں، یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ انشَقَّ ماضی کا صیغہ ہے، بلاوجہ اسے مستقبل سے مربوط نہیں کر سکتے کہ قیامت میں چاند کے دو ٹکڑے ہوں گے۔

اقْتَرَبَتِ یعنی قریب ہوئی، ماضی کا صیغہ ہے اور اس پر جو جملہ عطف ہوا ہے وہ بھی ماضی ہے، نتیجے میں بلا وجہ انشَقَّ جو ماضی ہے اسے مضارع نہیں مان سکتے۔ یعنی مستقبل میں جب قیامت آئے گی تو چاند کے دو ٹکڑے ہوں گے۔(منشور جاويد، جلد 7، ص 214 ـ 215) اس کے علاوہ اگر اس آیت کا تعلق معجزہ سے نہ ہو تو اس کے بعد والی دوسری آیت میں سحر کی نسبت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب بیان ہوئی ہے اس کا آپ سے تعلق نہیں ہوگا۔ سورہ قمر کی دوسری آیت میں ہے وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (اور یہ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک مسلسل جادو ہے۔ سورہ قمر، آیت 2)

سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے با رہا معجزات دیکھے تھے اور شق القمر انہی معجزات کا تسلسل تھا۔ لیکن مشرکین ان تمام معجزات کو جادو ہی سمجھتے رہے اگرچہ یہ حق قبول نہ کرنے کا ایک بہانہ تھا۔ (تفسير نمونه، جلد 23، ص 10) لہذا اس کے مطابق معجزہ شق القمر اس وقت ہوا جب مشرکین معجزات کو جادو سمجھ رہے تھے۔

اگلی آیت میں مشرکین کی مخالفت کے اسباب بھی بیان کئے گئے ہیں اگر مشرکین اس معجزہ کو قبول نہ کرتے تو اس کا انکار کرتے۔ اس انکار کا سبب یہ تھا کہ مشرکین اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کر رہے تھے۔ وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ ‎۔ اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کا اتباع کیا اور ہر بات کی ایک منزل ہوا کرتی ہے۔ (سورہ قمر، آیت 3)

اس کے علاوہ بہت سی روایتیں ہیں جو اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ شق القمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے اور اسے تمام مسلمان قبول کرتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .