تحریر: محمد علی سید
حوزہ نیوز ایجنسی| ایک مدت تک اسلام آباد کے اپنے عزیز دوستوں سے اصرار اور ان کا انتظار کرتا رہا کہ وہ اس تحریر کو شیخ محسن نجفی قدس سرہ کی تصاویر سے مزین کرکے سوشل میڈیا پر شیئر کریں، لیکن مجبوراً آج اپنی اس طویل تحریر کو تاخیر سے پوسٹ کر رہا ہوں۔
"شیخ محسن علی نجفی ؒ
علم و عمل کا نُورانی آبشار"
شیخ محسن علی نجفی رح ؒمیرے بزرگ، مربی، مہربان، رہنما ، دوست، سرپرست سب ہی کچھ تھے۔ اب میں ان سب رشتوں سے بہ یک محروم ہوچکا ہوں۔ ان کی شخصیت کے بارے میں میرا لکھنا ایسا ہے جیسے کسی گونگے سے خوش الہانی کی اُمید رکھی جائے۔
میں نے شیخ صاحب کی زندگی، ان کی جدو جہد اور ان کی جس شاندار کامیابی کو دیکھا اسے مختصر الفاظ میں بیان کروں تو وہ بس علامہ اقبالؒ کے اس شعر ہی کو دُہراتا رہوں گا۔
"یقیں محکم، ' عمل پیہم، ' محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں"
حضرت شیخ محسن علی نجفی ؒ کی پوری زندگی اور قبلہ کی کامیابیاں علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی مکمل تفسیر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ صفات۔۔ یقیں محکم ' عمل پیہم ' محبت فاتح عالم ...شیخ صاحب کی ذات میں مجسم ہوگئی تھیں۔
مجھ کم علم کے لیے ممکن نہیں کہ شیخ صاحبؒ کی حیات و خدمات پر کوئی باقاعدہ مقالہ لکھ سکوں اس لیے میں شیخ صاحب کے ساتھ اور ان کی خدمت میں گزرے ہوئے کچھ واقعات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔
ہماری خوش بختی کہ ہمیں حضرت شیخ محسن نجفی ؒ صاحب کی نہ صرف زیارت حاصل ہوئی بلکہ ان کی خدمت میں رہنے اور آپ کی نگرانی میں بہت کچھ کام کرنے کا موقع حاصل رہا۔
شیخ صاحب علم و عمل کا ایک نہ ختم ہونے والا نورانی آبشار تھے جو بلند و بالا پہاڑوں سے گرتا ہے اور راستے کے بےہنگم نوکیلے پتھروں کو اپنے تیز بہاؤ سے نرم و ہموار کرتا اور میدانوں کی خشک زمینوں کو سر سبز شاداب کرتا چلا جاتا ہے۔
دریائے سندھ کے مخرج کو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ دریا بھی شیخ محسن نجفی ؒ کے شہر سے گزر کر نیچے گرتا ہے اور دریا کی شکل اختیار کرتا ہے ۔
زندگیاں اور انسانی تہذبیں دریاوں کے کناروں پر جنم لیتی ہیں۔شیخ محسن نجفی ؒ علم و عمل کے نورانی دریا کی مانند ہیں ۔ اس دریا کے کناروں پر بھی تہذیب تمدن کی جو آبادیاں آباد ہوئیں اس سے کون واقف نہیں۔
شمالی علاقہ جات ملک کے نظر انداز کیے گئے علاقوں میں شامل کیے جاتے تھے
لیکن شیخ صاحب ؒ کی بہترین منصوبہ بندی، نہ ہارنے والی ہمت اور ایک رفتار سے مسلسل کام کے سبب شمالی علاقہ جات ہی نھیں ملک کے بہت سے پسماندہ علاقے علم و عمل کی روشنی کے سبب تعلیم یافتہ علاقوں میں تبدیل ہو گئے۔
شیخ صاحب کی توجہ صرف بلتستان پر نھیں تھی۔ آپ کی توجہ ملک بھر میں قوم کی بے علمی و بے عملی پر تھی ۔
اسی لیے انھوں نے تعلیم کی روشنی کو پوری منصوبہ بندی اور بے مثال کارکردگی کے ساتھ سارے ملک میں پھیلایا ۔ نہ صرف پھیلایا بلکہ اپنے قائم کردہ تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر نگاہ رکھی اور انھیں رو بہ ترقی رکھا۔
آپ جانتے ہیں کہ جہاں آبشار گرتے ہیں وہاں کی فضا کسی اور طرح کی ہوتی ہے۔آبشار کی گونج میلوں تک پھیلی رہتی ہے۔ آبشار کے چاروں طرف موجود فضا، پہاڑ ' پیڑ '،پھل ،پھول آبشار کے پانی کی وجہ سے ہر وقت چمکتے دمکتے رہتے ہیں۔
اسی پانی سے باغوں میں پھول کھلتے ہیں ، شاخوں پر پھل لگتے ہیں ۔کھیتوں ،کھلیانوں میں فصلیں لہلہاتی ہیں
زمین پر ہریالی کی تہہ در تہہ چادریں بچھتی چلی جاتی ہیں اور ان سے سبھی ذی حیات کو رزق و روزی فراہم ہوتی ہے ۔
آبشار کا پانی ندی نالوں میں بدل کر تمام ذی حیات کو رزق کی نسبتاً کم تر قسم فراہم کرتا ہے جو اُن کے وجود کو باقی رکھتی ہے ۔شیخ صاحبؒ کو اگر آبشار کی طرح سمجھا جائے توہزاروں لاکھوں افراد کو رزق کی یہ کم تر قسم کے ساتھ ساتھ شیخ صاحبؒ کے آبشار نے ہزاروں لاکھوں افراد، حتی کہ بستیوں اور علاقوں کو رزق کی اعلی تر قسم یعنی تعلیم و آگہی کا فراواں رزق بھی فراہم کیا ۔
آج ملک اور بیرون ملک شاید ہی کوئی دینی ادارہ ہو جہاں شیخ صاحبؒ کے شاگرد خدمات انجام نہ دے رہےہوں۔
دینی خدمات سے قطع نظر شیخ صاحبؒ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کی بڑی تعداد پروفیشنل تعلیم کے مختلف شعبوں میں اعلی تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
ہم نے علم و عمل کے جس آبشار کا تذکرہ کیا ہے اسی آبشار کے سائے اپنی زندگی کا بہترین زمانہ ہم نے بھی گزارا۔
ہم نے یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں آبشار گرتا ہے وہاں کی فضاہی مختلف ہوتی ہے۔ یہ جگہ پاکیزہ پانی کی پھواروں سے چمکتی دمکتی رہتی ہے۔۔۔
علم و عمل کے نورانی آبشار کو ہم نے’’جامعہ اہل بیت ؑ ‘‘اور ’’جامعۃ الکوثر‘‘ دونوں ہی جگہ پایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد قیام کے دوران میں ہمارے مرحوم دوست سید علی وجدان ہمیں شیخ محسن نجفیؒ قبلہ کی خدمت میں لے گئے۔
سید علی وجدان نے ہماری پہلی کتاب ’’ رب العالمین دعا اور انسان‘‘شیخ صاحبؒ قبلہ کی خدمت میں پیش کی۔
شیخ صاحبؒ یہ میرے دوست’’ محمد علی سید‘‘ہیں ۔ اوریہ ان کی کتاب ہے۔ اگر آپ کو ایسے آدمی کی ضرورت ہو تو یہ حاضرہیں۔ ’’
شیخ صاحب نے کتاب تھامی اور علی وجدان سے فرمایا: ‘‘ یہ کتاب میں پڑھ چکا ہوں۔اب محمد علی سید کہیں نہیں جائیں گے۔ہم دو رسالے شائع کرتے ہیں، ’’ماہنامہ معصوم ‘‘اور’’ سہہ ماہی ثقلین۔‘‘
پھر شیخ صاحب نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’ان رسائل کے لیے آپ کی ضرورت ہے‘‘۔
اس وقت شیخ صاحب کے لہجے کی محبت اور ان نگاہوں میں اپنے لیے پسندیدگی کی جھلک دیکھ کر میرا دل کھل اٹھا اور پھر شیخ صاحب کے اس جملے نے مجھے شاید ہمیشہ کے لیے شیخ صاحب سے وابستہ کردیا۔
مرجع کے کسی وکیل مطلق سے بات چیت کا یہ ہمارے لیے پہلا موقع تھا اور یہ موقع ہمیں حضرت شیخ محسن نجفی ؒ صاحب سے بار بار ملتا ہی رہا بلکہ یہ خوشگوار لمحہ ہمارے لیے ٹھہر ہی گیا۔
شیخ صاحب سے جامعہ اہل بیت ؑ میں ہر روز ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تھا اور شیخ صاحب سے ہر ملاقات لاشعوری طور پر میرے اندر بہت کچھ توانائی اور بہت کچھ خاموش تبدیلیوں کا سبب بنتی، جس کا اکثر ہمیں بھی احساس نہ ہوتا، لیکن اب جانتا ہوں کہ 1996 کے محمد علی سید اور آج کے محمد علی سید میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
۔۔۔ماہنامہ معصوم بھی میری ادارت سے پہلے کچھ اور تھا اور میری ادارت کے بعد کچھ اورہوگیا تھا۔
جب میں نے ادارت سنبھالی تو کراچی میں اس جریدے کے 14 رسالے آتے تھے اور مفت تقسیم ہوتے تھے اور 2005ء میں جب عالمی مجلس اہل بیت ؑ کے فیصلے کے مطابق ماہنامہ معصوم کسی اور ادارے کے حوالے کیا گیا اور جس کے سبب ہمیں ماہنامہ معصوم سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی تو اس وقت اسلام آباد سے نکلنے والے ماہنامہ معصوم کے صرف کراچی میں پندرہ سو سالانہ گاہک موجود تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ادارت میں ماہنامہ معصوم اسلام آباد کا پہلا شمارہ شائع ہوکر آیا اور اس دن میں جامعہ اہل بیت ؑپہنچا تو شیخ صاحب اپنے کمرے سے نکل رہے تھے۔میں اس لمحے کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتا ہوں کہ شیخ صاحب کے ہاتھ میں معصوم کا تازہ شمارہ تھا۔
انھوں نے مجھے دیکھا تو ذرا تیزی سے میری طرف بڑھے۔مجھے اس طرح سینے سے لپٹایا کہ میں شیخ صاحب کی عبا میں چُھپ گیا۔
شیخ صاحب نے میرے سر کو چُوما اور مسرت بھرے لہجے میں فرمایا۔
’’ماہنامہ معصوم آج پہلی بار شائع ہوا ھے۔‘‘( یعنی جیسا میں ایک ڈیڑھ سال سے شائع کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔)
اب آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ شیخ صاحب کی اس والہانہ محبت پاکر میرے اندر کس قدر توانائی بھر گئی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ صاحب کے انتقال کی خبر کراچی میں سب سے پہلے شاید مجھے ہی کو ملی تھی ۔ اس کے بعد مجھ پر جوگزری وہ میں ہی جانتا ہوں۔سارے دن گھر سے باہر پاگلوں کی طرح بھٹکتا پھرتا رہا۔
شیخ صاحب سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا لیکن میں جو کئی دن خود کو نارمل نہ کرسکا تو میرے ساتھ شیخ صاحب کی یہی محبت اور میری ان سے والہانہ عقیدت تھی۔
۔۔۔۔۔۔
اس وقت بھی میری آنکھوں میں بار بار نمی آجاتی ہے اور ان آنسووں کے اندر شیخ صاحبؒ کی یادیں رنگا رنگ کہکشاں کی مانند نظر آتی ہیں۔
1996-97ء کے سال میرے لیے مشکل ترین زمانے بھی تھے ۔ملک فرقہ وارانہ ہنگاموں اور قتل غارت گری کی زد میں تھا۔اسی زمانے میں مجھے بچوں کی وجہ سے کراچی آنا پڑا۔ شیخ صاحبؒ سے ایک ہفتے کی اجازت مانگی تھی لیکن واپسی پندرہ دن کے بعد ممکن ہوئی۔
دفتر واپس پہنچا تو شیخ صاحبؒ جامعہ اہل بیت ؑ کے برآمدے میں کھڑے کسی سے گفتگو کر رہے تھے۔مجھے دیکھا تو حسب روایت اسی محبت سے گلے لگایا۔
میں خاصی شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ شیخ صاحبؒ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ ’’سید صاحب، آپ کی واپسی سے مجھے ایسی خوشی ہو رہی ہے جیسے میرا گم ہوجانے والا خزانہ دوبارہ مجھے مل گیا ھے۔‘‘
ایسے قدرداں، ایسے مجسم محبت شخصیت کے بچھڑ جانے پر میری حالت پاگلوں جیسی بلا وجہ نہیں تھی۔مجھے تو لگ رہا تھا کہ میرا بیشتر وجود موت سے ہمکنار ہوچکا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
97-1996ء کے دور میں جامعہ اہل بیت ؑہی میں قیام رہا۔قیام کے ابتدائی دنوں میں رات کے وقت میں کتابوں کی تلاش میں مختلف الماریوں کو دیکھتا رہتا تھا۔ ایک رات کسی الماری میں مجھے’’الزہرا‘‘ کےکچھ پرانے شاید 1978 کے چند شمارے ملے۔
انہیں کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کبھی شیخ صاحبؒ یہ رسالہ بھی شائع کیا کرتے تھے۔۔
مختلف صفحات کو پڑھا تو یہ معلوم کرکے ایک خوشگوار کیفیت محسوس ہوئی کہ شیخ صاحبؒ قبلہ عام علماء کے برعکس سائنس میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
شیخ صاحبؒ کے مزاج کو سمجھنے کے بعد میں نے ماہنامہ معصوم میں" قران اہل بیتؑ اور سائنس " کے عنوان سے سلسلہ مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔
’’قران اہل بیت ؑ اور سائنس‘‘ کا سلسلہ بچوں بڑوں کو اور خاص طور پر شیخ صاحبؒ کو بہت پسند آیا۔
’’جسم کے عجائبات ‘‘ بھی شیخ صاحبؒ اور شیخ صاحبؒ کے کئی سینئر ساتھیوں کی ہمت افزائی کے سب ہی لکھا جاتا رہا اور بعد میں چار سو صفحات کی صورت میں شائع ہوا۔
واقعہ کربلا کے حوالے سے ناول ’’ لہو کی موجیں‘‘ بھی ماہنامہ معصوم میں لکھا گیا ۔بچوں کے لیے معصوم میں یہ قسط وار ناول’’ نقاب پوش‘‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا اور بعد میں یہ شاید چار سو صفحات پر شائع ہوئی اور شائع ہوتی ہی رہتی ہے۔
میں نے یہ باتیں مختصرا ً لکھیں کہ انھیں خود نمائی نہ سمجھا جائے۔۔میری کتابیں مزید بھی ہیں اور بار بار شائع ہوتی رہتی ہیں ۔
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ ادارے کا سربراہ خاص طور پر کسی دینی ادارے کا سربراہ کسی لکھنے والے سے محبت کا اظہار کرے ’ اس کے سر پر ہاتھ رکھے ' اس کی ہمت افزائی کرتا رہے تو کھردرے سیپ کے اندر موجود بہت سے آبدار سچے موتی باہر آجاتے ہیں۔
شیخ صاحبؒ کی خدمت میں حاضرہوا تو میری صرف ایک کتاب وہ بھی 80 صفحات کی پتلی سی کتاب شائع ہو چکی تھی اور شیخ صاحبؒ کی بے پناہ محبت ' نرمی اور ہمت افزائی پانے کے بعد اب تک میری پندرہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ان کے موضوع بھی ایسے ہیں کہ ان موضوعات پر پہلے کسی نے کام نھیں کیاتھا۔
جب بھی میری نئی کتاب شائع ہوتی تھی میں اس کا نسخہ پہلی فرصت میں شیخ صاحبؒ کے مطالعے کی خواہش کے ساتھ بھیجتا رہا۔
توحید مفضل کی سائنسی شرح لکھی تو یہ کتاب میں نے جامعہ کوثر کے پتے پر بھیجنے کے بجائے اسلام آباد کے اپنے دوست علی عمران کو بھیجی اور ان سے کہا کہ یہ کتابیں خود جاکر شیخ صاحبؒ کی خدمت پیش کریں۔
علی عمران نے ایسا ہی کیا شیخ صاحبؒ کی تصویر بھی مجھے بھیجی اور فون پر بتایا کہ شیخ صاحبؒ کتاب ملتے ہی اسے پڑھنے لگے اور خوش ہوکر کہا ،’’ یہ حدیث پہلی بار اب کھلی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سَن یاد نھیں، یہ یاد ہے کہ ہادی ٹی وی کے آغاز کے بعد کی بات ھے۔۔، ایک دن مجھے ایک مختصر سا پیغام ملا ـآخر میں لکھا تھا
’’ محسن علی‘‘
اندازہ ہوا کہ شیخ صاحبؒ کا میسج ہے۔میں نے اس نمبر پر کال کی معلوم ہوا کہ میرا اندازہ درست تھا۔ میں نے سلام عرض کیا۔مدت بعد شیخ صاحبؒ کی توانائی دینے والی آواز سنائی دی۔میں نے عرض کی ۔’’جی شیخ صاحب؟
‘‘شیخ صاحبؒ نے فرمایا۔’’مجھے آپ کی دو کتابیں درکار ہیں‘‘۔
میں نے عرض کی ’’کون سی؟‘‘۔
’’ ڈی این اے‘‘ اور’’ جسم کے عجائبات‘‘۔شخ صاحب نے فرمایا۔
میں نے عرض کیا ۔ ’’جسم کے عجائبات ‘‘میرے پاس ہے لیکن’’ ڈی این اے ‘‘والی کتاب میرے ریکارڈ تک کے لیے بھی نہیں ہے۔"
شیخ صاحب نے فرمایا۔
’’ مجھے کسی نہ کسی طرح چاہیے‘‘۔
شیخ صاحبؒ کا یہ محبت بھرا حکم ٹالنا میرے لیے ممکن نھیں تھا۔ میں نے حامی بھرلی۔مجھے یاد آیا کہ میں نے ایک کتاب مفتی تقی عثمانی صاحب کے بھائی ڈاکٹر ولی رازی صاحب کو دی تھی۔
انھیں فون کیا ۔عرض مدعا بیان کیا۔۔وہ کہنے لگے ۔’’سید صاحب۔آپ کی کتاب ہے میرے پاس ہے لیکن ہرگز نہیں دوں گا۔ کتاب کےہر صفحے پر میں نے نوٹ کر رکھے ہیں‘‘۔
قصہ مختصر ان کے گھر پہنچا۔ان سے آدھا گھنٹے کی مہلت لی۔ کتاب کی فوٹو کاپی کراکے انھیں واپس کی اور اپنی دونوں کتابیں اسی وقت کوریئر کے ذریعے شیخ صاحبؒ کے ایڈریس پر روانہ کردی۔
کچھ عرصے بعد میرے دوست علی عمران نے اسلام آباد سے شیخ صاحبؒ کی تازہ تصنیف ’’ اللہ کی تجلی‘‘ مجھے بھیجی جس کے سرورق پر ڈی این اے کی تصویر موجود تھی۔ کتاب کھول کر دیکھی تو اس کے کم ازکم بیس پچیس صفحات پر میرا نام اور میری کتابوں کے حوالے موجود تھے۔
یہ تھے شیخ صاحبؒ۔کشادہ دل ،مہربان ۔باصلاحیت خواہ مجھ جیسا کم مرتبہ ہی ہو تب بھی اس کے کام کا اعتراف کرنا، اسے عزت دینا شیخ صاحبؒ کے مزاج کا حصہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہادی ٹی وی کے پروجیکٹ پر کام ہوا تو ایک دن شیخ صاحبؒ کا فون آیا۔ہادی ٹی وی کے بارے میں بتایا اور فرمایا ۔’’ جہاز کا ٹکٹ آپ کو بھیجا جارہا ہے۔آپ کل ہی اسلام آباد آجائیں اور ہادی ٹی وی میں چار چاند لگائیں۔‘‘
اگلے دن میں شیخ صاحب ؒکے سامنے حاضر تھا۔شیخ صاحبؒ کا وہی خلوص وہی محبت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ انور نجفی صاحب کا شکرگزارہوں کہ انھوں نے شیخ محسن نجفی ؒ کے بارے میں اپنی یادیں لکھنے کا موقع دیا۔شیخ صاحبؒ کے انتقال نے مجھے گہرے صدمے سے دوچار کیا تھا۔ اگر ان یادوں کو نہ لکھتا تو گھٹ کے مرجاتا۔
اب میرا دل کسی حد تک ہلکا ہوگیا ہے۔
شیخ صاحب ؒسے وابستہ یادیں تو بہت ہیں اور ہر یاد کے ساتھ مجھے شیخ صاحبؒ کا مسکراتا چہرہ نظر آتا ہے۔ان سب یادوں کو لکھنا ممکن نہیں ہے ۔
.....یہ تھیں شیخ محسن نجفی ؒسے وابستہ کچھ یادیں جنہیں بھلانا کبھی ممکن نہ ہوگا ۔میں شیخ محسن علی نجفی ؒقبلہ کے لیے ہمیشہ دُعا گو رہوں گا۔ساتھ ہی مولانا شیخ انور نجفی، جناب اسحاق نجفی، برادر عزیز روح اللہ نجفی، خواہر زکیہ نجفی، شیخ صاحب ؒ کے تمام اہل خانہ اور شیخ صاحب ؒ کے سب چاہنے والوں سے دلی تعزیت کرتا ہوں۔