۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
مولانا مصطفی علی خان ادیب الہندی

حوزہ/ ظالم و ستمگر عباسی حکمراں ہارون رشید ملعون نے شیعیان اہل بیت علیہم السلام، سادات اور خاص طور سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پر ظلم و ستم کرنے میں کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو اس نے 14 سال سخت ترین قید میں رکھا کہ جہاں نہ سورج کا نکلنا معلوم ہوتا تھا اور نہ سورج کا ڈوبنا۔

تحریر: مولانا مصطفیٰ علی خان

حوزہ نیوز ایجنسی| ظالم و ستمگر عباسی حکمراں ہارون رشید ملعون نے شیعیان اہل بیت علیہم السلام، سادات اور خاص طور سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پر ظلم و ستم کرنے میں کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو اس نے 14 سال سخت ترین قید میں رکھا کہ جہاں نہ سورج کا نکلنا معلوم ہوتا تھا اور نہ سورج کا ڈوبنا، جیسا کہ میر انیس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی

ہارون کی قید خانے میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی دردناک اور مظلومانہ شہادت کے بعد ہارون اس قدر دنیا میں بدنام ہوا کہ اس نے اس کے بعد امام علی رضا علیہ السلام کے سلسلے میں کسی طرح کے اقدام نہ کرنے میں ہی خود کے لئے بہتر سمجھا۔

امام علی رضا علیہ السلام نے ہارون کے زمانے میں اپنی امامت کا بہ بانگ دہل اعلان کیا اور لوگوں کی ہدایت و تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔

ہارون کے واصل جہنم ہونے کے بعد حكومت و خلافت دو بھائیوں کی آپسی رنجش اور جنگ کا شکار ہوئی امین و مامون میں زبردست جنگ ہوئی آخر امین مارا گیا اور مامون پوری اسلامی مملکت کا تنہا بادشاہ ہو گیا۔

امین کو قتل کرنے کے بعد مامون کو مختلف جہتوں سے چیلنجز کا سامنا تھا ایک جانب اسلامی مملکت کے مخالفین اسلامی حکومت کے خلاف اقدام کر رہے تھے، بنو امیہ کے باقی ماندہ لوگ انتقامی کاروائی کی سوچ رہے تھے، شیعہ اور علوی حکومت کے خلاف قیام کر رہے تھے، خود بنی عباس کے افراد امین کے قتل کے سبب مامون کے شدید مخالف تھے۔

مامون نے ان تمام چیلنجز کو جواب دینے کے لئے مکر و فریب کی ساری حدیں پار کر دیں۔ اس نے یہ راستہ نكالا کہ اگر وہ امام علی رضا علیہ السلام کو بلا کر خود سے قریب کر لے گا تو اس کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

لہٰذا اس نے امام کو زبردستی مدینے سے خراسان بلایا۔ جن افراد کو مامور کیا تھا کہ وہ امام کو مدینے سے خراسان لائیں ان کو تاکید تھی کہ وہ شیعہ علاقوں سے نہ آئیں بلکہ غیر شیعہ علاقوں سے امام کو لے کر آئیں تاکہ امام کا کوئی چاہنے والا راستے میں امام کو نہ ملے اور جب کوئی چاہنے والا نہیں ملے گا تو وہ حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح جب آپ خراسان پہنچے تب بھی اس نے آپ کو خود سے نزدیک کیا تاکہ کوئی آپ سے نہ مل پائے۔

حاکمِ شام صفت مامون نے اپنی تمام شیطانی مکر و فریب کو بروئے کار لاتے ہوئے خود کو کامیابی کی طرف لے جانے کی مکمل کوشش کر رہا تھا۔

خراسان پہنچنے پر اس نے پہلے امام رضا علیہ السلام کو حکومت پیش کش کی۔ جسے امام نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ اگر یہ لباس خلافت اللہ نے تجھے پہنایا ہے تو جو چیز اللہ نے تجھے پہنائی ہے وہ تو كسی دوسرے کو كیسے دے سکتا ہے؟ اور اگر یہ تو نے خود سے پہن لیا ہے تو جو چیز خود تیری نہیں ہے وہ تو دوسرے کو كیسے دے سکتا ہے؟ خلافت کے مسئلے میں جب اسے ناکامی ہوئی تو اس نے ولایت عہدی قبول کرنے کی تجویز رکھی۔ پہلے امام علیہ الصلوۃ والسلام نے انکار کیا لیکن جب ادھر سے اصرار ہوا تو امام علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شرط پر ولایت عہدی کو قبول کیا کہ کسی کے عزل و نصب میں آپ مداخلت نہیں کریں گے۔ گویا یہ ولایت بھی ایسے ہی ہے جیسے بغیر خوشبو کا پھول اور بغیر نور کا چراغ۔

امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنانے کے بعد بھی اسے سکون نہ مل سکا، بلکہ بنی عباس پہلے سے زیادہ اس کے مخالف ہو گئے، علویوں کا قیام نہ تھم سکا، المختصر اس کی ساری کوششیں رائگاں ہو گئیں اور اس کی ساری چالیں خود اس کے خلاف ہو گئی۔

اس نے دیگر مذاہب و ادیان کے ہٹ دھرم اور بحث و جدل کے ماہر علماء و دانشوروں سے امام علی رضا علیہ السلام کا مناظرہ کرایا تاکہ کہیں بھی امام ناکام ہوں تو وہ اپنی کامیابی کا اعلان کر سکے۔ لیکن دیگر ادیان و مذاہب سے مناظرے میں بھی ناکامی اور نامرادی اس کا مقدر ٹھہری۔

البتہ یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو جتنا فروغ امام علی رضا علیہ السلام نے ولایت عہدی کے دوران دیا اتنا دوسرے ائمہ کو یہ موقع نہیں مل سکا۔ چونکہ امام ولی عہد تھے لہذا آپ نے اپنے جد بزرگوار مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو نمایاں فروغ دیا۔‌ شاعر اہل بیت دعبل خزائی جب عاشور کے دن امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ایک شایان شان مجلس عزا منعقد کی۔‌

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ مامون کی ساری سازشیں اور مکاریاں ناکام ہو گئیں تو اس نے آخر فیصلہ کیا کہ امام علی رضا علیہ السلام کو شہید کر دے۔ امام عالی مقام كو قتل كرنے سے پہلے اس نے اپنے وزیر کو قتل کرایا اور آخر امام علی رضا علیہ السلام کو بھی زہر دغا دے کر شہید کر دیا۔ شہادت کے بعد مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اس نے عزائے عمومی کا اعلان کیا، اور چاہا کہ امام علیہ السلام کو اپنے ظالم و جابر اور ستمگر باپ ہارون کے پائنتی دفن کر دے لیکن یہاں پر بھی اسے ناکامی ہی ملی اور امام علیہ السلام اس جگہ نہ دفن ہوئے جہاں وہ چاہتا تھا۔

قران ناطق حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی حکمت کی کامیابی اور مامون کے مکر و فریب کی ناکامی کاقصیدہ قرآن مجید نے یوں پڑھا۔

مکروا و مکر اللہ واللہ خیر الماکرین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .