حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے فعال مبلغ مولانا سید حیدر عباس رضوی نے محسن ملت علامہ محسن علی نجفی طاب ثراہ اور اپنے والد ماجد سید اظہار الحسن صاحب مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے حرم اہل بیت، آشیانہ آل محمد قم مقدسہ میں ایک مجلس عزا کا انعقاد شہر کے مشہور امام بارگاہ، حسینہ ابو الفضل العباس علیہ السلام میں کیا۔
تفصیلات کے مطابق، مجلسِ عزاء میں حوزہ علمیہ قم کے بزرگ علماء و افاضل اور طلاب کرام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ہندوستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام و المسلمین حاج آقای مہدی مہدوی پور نے بھی علم و علماء کی تجلیل کی خاطر اس مجلس میں خصوصی شرکت فرمائی۔
مجلس عزاء کی نظامت ماہر ناظم حجت الاسلام فرزان زید پوری نے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دی۔ حجت الاسلام ماہر علی غازی نے قرآن مجید کی دلنشین آواز میں تلاوت فرمائی ۔
نظم تعزیت اور علامہ محسن نجفی کی شخصیت کو حجت الاسلام عابد رضا نوشاد نے بہترین انداز میں منظوم طور پر پیش کیا۔
مجلس کو خطاب کرتے ہوئے خطیب شہیر حجت الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سید مراد رضا رضوی نے سرنامہ سخن کے طور پر سورہ لقمان کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی۔
قرآن مجید میں محسن کے اوصاف پر روشنی ڈالتے ہوئے خطیب مجلس نے بتایا کہ قرآن مجید میں یہ کلمہ اپنے مشتقات کے ساتھ 39 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ سورۂ لقمان میں محسن کی ایک اہم صفت یقین بیان کی گئی ہے جس کی بنیاد پر وہ ثابت قدم رہتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں وہ خوف اور حزن وملال کے عمومی مرض سے محفوظ رہتا ہے ایسی صورت میں اس صفت کا حامل انسان محب خدا سے محبوب الٰہی کے درجہ پر فائز ہو جاتا ہے۔
مولانا مراد رضوی نے اضافہ کیا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر محسن کی ذات میں وہ کون سا کمال ہے جس کی وجہ سے وہ محبوب الٰہی بن جاتا ہے؟اس سوال کے جواب کے لئے درجہ احسان کا مطالعہ ضروری ہے۔ احسان عرفان اور سیر وسلوک کا وہ درجہ معرفت ہے جو سفر عشق الٰہی کا 51واں پڑاؤ ہے ۔اس درجہ پر پہنچ کر انسان دیدار اور مشاہدہ کے درجہ ہر فائز ہو جاتا ہے جس کے تین مراحل مراقبہ ،کالمشاہدہ اور مشاہدہ ہیں۔ جب انسان کی معرفت یہاں تک پہنچتی ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا تو یہ مراقبہ ہے اور جب وہ اس درجہ تک پہنچتا ہے کہ عبادت میں گویا خدا کو دیکھ رہا ہے تو یہ کالمشاھدہ اور آخری مرحلہ مشاہدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ درجہ احسان کے تین مراتب ہیں:احسان فی القصد، احسان فی الاحوال اور احسان فی الوقت
خلاصہ یہ کہ ان مراحل سے گزرنے والا انسان محسن ہو جاتا ہے اور پھر جن راستوں سے وہ گزرتا ہے دوسروں کو ان راستوں پر لے جانا چاہتا ہے تو پھر اس راہ تک لے جانے کے لئے اس کا اظہار حسن مدرسہ بنانے ، اسکول قائم کرنے ،طلاب کی پرورش دار الایتام کی تشکیل اور اور قوم کے لئے عالم دین پیش کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔
مولانا نے کہا کہ علامہ محسن علی نجفی اسی لئے محبوب الہی تھے کہ ان کے یہاں اظہار حسن کی کیفیت اچھی طرح پائی جاتی تھی۔جب انسان اللہ کے علاؤہ کسی کو نہیں دیکھتا تو وہ محسن ہو جاتا ہے اور اس کے احسان کا اظہار حسن ہو جاتا ہے۔کربلا والے اسی لئے محسن علی اور محسن حسن تھے کہ ان کا اظہار حسن تھا جو فنا فی الحسین ہو جائے وہ محسن علی ہوا کرتا ہے اور اس کا اظہار ایسا حسن ہوتا ہے کہ زخموں سے چور چور ہونے کے بعد بھی یہی سوال ہوتا ہے کہ کیا میں نے اپنا وعدہ پورا کیا کیا میری فنائی کیفیت قبول ہوئی کیا میرا اظہار حسن ہوا کہ میں محب سے محبوب تک رسائی حاصل کرسکوں؟
مولانا سید مراد رضا نے درجہ احسان پر مصائب کی جو منظر کشی کی اس سے بزم میں موجود علما وطلاب پھوٹ پھوٹ کر گریہ وزاری کرنے لگے۔
مجلس عزاء میں مولانا احتشام نقوی سرسوی کی اہلیہ اور مولانا ظہیر حسن کی والدہ کے لئے بھی فاتحہ خوانی کی رسم ادا کی گئی۔آخر میں مولانا سید حیدر عباس نے تمام علماء و افاضل نیز شرکاء کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کیا۔