تحریر: ڈاکٹر سید عباس مھدی حسنی
حوزہ نیوز ایجنسی | سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رحمان و رحیم پروردگار نے ’’رحمۃللعالمین ‘‘بناکر بھیجا، یہ لقب اور شرف ایسا ہے جو کسی اور کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔
یقیناً رحمۃللعالمین وہی عظیم ترین ہستی قرار پائے گی، جس نے امنِ عالم کے قیام و استحکام کےلیے ساری زندگی صرف کی ہو، جس نے بندوں کواللہ سے ملایا ہو، جس نے غریبی و امیری، جوانی و پیری، امن اور جنگ، رنج و راحت، حزن و مسرت، ہر موقع اور مقام پر انسانیت کی راہ نمائی کی ہو، جس کی تعلیم نے تمام افرادِ بشر کو بھائی بھائی کے رشتہ سے جوڑ دیا ہو، جس نے اپنے جانی دُشمنوں کو بھی پروانۂ اَمن و امان عطا کیا ہو، غیرمسلم ذمیوں کو جان و مال، عزت و آبرو اور دیگر حقوقِ انسانی کی حفاظت میں مسلمانوں کے ہم پلّہ اور مساوی قرار دیا ہو، رحمۃ للعالمین وہی ہے جس نے تمام نوع بشر کو انسانی، قومی، قانونی اور مالی مساوات کا درس دیا ہو، جس نے یہودیوں، عیسائیوں، منافقوں اور تمام مخالفوں کے ساتھ بے نظیر رواداری اور عدل و انصاف کا برتاؤ کیا ہو اور ان کے ہر طرح کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت لی ہو، جس نے انسانوں کے تمام طبقات، عوام و خواص امیر و غریب،، بوڑھوں، بچوں، جوانوں، مردوں عورتوں، محنت کشوں، مزدوروں، غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ رافت و رحمت، رحمدلی و غم گساری، مساوات و ہم دردی جیسی نیک صفات سے معاشرے کو آراستہ کیا ہو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے،
وہ محمد(ص) جو اپنی تعریف و توصیف میں کسی مخلوق کا محتاج نہیں اس لئے کہ اسکی مدح سرائی میں خود حامد و محمود رطب اللسان ہے۔ ایسا محمود کہ تمام حمد و ثنا کی بازگشت بس اسی کی طرف ہے۔
انسان اسکے مقام کو کیا بیان کرے گا جسے ذات حق نے مقام محمود پر فائز کیا ہو۔(وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا(اسراء 79)
اسکی منزلت کا اندازہ کیسے ممکن ہے جسکی رضا و خوشنودی کے لیے رب العزت نے فرمایا ہو: (وَلَسَوۡفَ يُعۡطِيكَ رَبُّكَ فَتَرۡضَىٰٓ(ضحی5)
اسکے اخلاق و بلندی کردار کا اندازہ یہ خاکی بشر کہاں سے لگا سکتا ہے جس کے لئے ارشاد باری ہو: ( وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ(قلم4)
ہم تاریخ کے جھروکے میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ محسن انسانیت ہادیٔ برحق ،رہبر کامل،نبی آخر ،آمنہ کے لال ،مولائے کل محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات پر جس کسی کی بهی نظر پڑی وہ آپکے اخلاق حسنہ اور صفات حمیدہ کا قصیدہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکا۔بشرطیکہ کہ اسنے تعصب کی عینک نہ لگائی ہو اور اسکے قلب و دل پر دنیوی زرق و برق'جاہ و مقام و مادی اغراض اور نفسانی خواہشات کے پردے نہ پڑے ہوں۔ اسمیں حق بینی اور حقیقت یابی کی شمع روشن ہوں۔ خود غرضی و غفلت اور خواہشات نفس نے اسکے ضمیر کو مردہ نہ بنا دیا ہو۔
اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بغض و عناد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کے متعلق جو زہر اگلا جاتا رہا ہے تاریخ کے صفحات ان سازشوں اور پروپیگنڈوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بے انصاف متعصب اور درباری دانشوروں اور مصنفین نے کہیں مسلمانوں کو دہشتگرد اور جنگجو بتایا جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہےاور کہیں براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس پر حملے کیئے گئے۔
لیکن اس حقیقت کے ادراک پر قلب و جان فرط مسرت سے جھومنے لگتے ہیں کہ ہر صدی، ہر عہد اور ہر دور کے اہل علم و ادب نے اپنا بہترین اثاثہ فکر بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نذر کیا ہے۔ مسلم ہی نہیں غیر مسلم بھی، اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ اقدس میں عقیدت کے نذرانے پیش کرتے نظر آئے۔
اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی جان، مال، اولاد سے بھی بڑھ کر محبوب رکھنا ایمان کی علامت ہے تو ایک غیر مسلم کا بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اظہار عقیدت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا ذوق پاکیزہ 'ضمیر زندہ اور بصیرت باقی ہے۔ ذیل میں سرکار رسالتمآب کے سلسلہ میں چند ہندو دانشوروں کے بیانات نقل کیے جارہے ہیں:
1۔ سوامی برج نارائن سنیاسی
حقیقت بہرحال حقیقت ہے ۔ اگر بغض و عناد کی پٹی آنکھوں سے ہٹا دی جائے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نورانی چہرہ ان تمام داغ دھبوں سے پاک و صاف نظر آئے گا جو بتلائے جاتے ہیں۔
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تمام کائنات کے لیئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے اور کائنات میں عالم انسان، عالم حیوان، عالم نباتات اور عالم جمادات سب شامل ہیں ۔(نقوش رسول نمبر ص 487)
2۔بابو جگل کشور کھنہ :
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لائف اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بنیادی تعلیمات کے متعلق جان کر ہر شخص اس نتیجہ پر باآسانی پہنچ سکتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا پر بہت احسانات کیئے ہیں اور دنیا نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات سے بہت فائدہ اٹھایا۔صرف ملک عرب پر ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احسانات نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فیض تعلیم و ہدایت دنیا کے ہر گوشے میں پہنچا۔ غلامی کےخلاف سب سے پہلی آواز حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلند کی اور غلاموں کے بارے میں ایسے احکام جاری کیئے کہ ان کے حقوق بھائیوں کے برابر کر دیئے۔ آپ نے عورتوں اور استریوں کے درجہ کو بلند کر دیا۔
سود کو قطعاََ حرام قرار دے کر سرمایہ کاری کی جڑ پر ایسا کلہاڑا مارا کہ اس کے بعد پھر یہ درخت اچھی طرح پھل پھول ہی نہ سکا۔ سود خوری ہمیشہ کے لیئے ایک لعنت ہی رہی ہے۔ مساوات کی طرف ایک ایسا عملی اقدام کیا کہ اس سے قبل دنیا اس سے ناآشنا اور ناواقف تھی ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہایت پرزور طریقے سے توہمات کے خلاف جہاد کیا اور نہ صرف اپنے پیروؤں کے اندر سے اس کی بیخ و بنیاد اکھاڑ پھینکی بلکہ دنیا کو ایک ایسی روشنی عطا کی کہ توہمات کے بھیانک چہرے اور اس کی ہیئت کے خدوخال سب کو نظر آگئے۔(رسالہ مولوی ربیع الاول 1351ء(
3۔ بی ایس رندھاوا ہوشیارپوری :
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جتنا ستایا گیا اتنا کسی بھی ہادی اور پیغمبر کو نہیں ستایا گیاایسی حالت میں کیوں نہ محمد صاحب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحمدلی، شفقت اور مروت علی المخلوقات کی داد دوں جنہوں نے خود تو ظلم و ستم کے پہاڑ اپنے سر اٹھا لیئے مگر اپنے ستانے والے اور دکھ دینے والے کو اف تک نہ کہا۔ بلکہ ان کے حق میں دعائیں مانگیں اور طاقت و اقتدار مل جانے پر بھی ان سے انتقام نہ لیا ۔
بانیان مذاہب میں سب سے زیادہ کسی پر ظلم اور ناانصافی کی گئی ہے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اور کوشش کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک خونخوار اور بے رحم انسان دکھایا جائے اور خواہ مخواہ دوسروں کو ان سے نفرت دلائی جائے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہوا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لائف پر تنقید کرنے والوں نے اسلامی تاریخ اور بانی اسلام کی صحیح سیرت کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی بلکہ سنی سنائی اور بے بنیاد باتوں کو سرمایہ بنا کر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ اگر وہ اسلامی روایات کو سمجھ لیتے اور سچائی کے اظہار کے لیئے اپنے اندر اگر کوئی جرات و ہمت پاتے تو ضرور اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے۔(حوالہ مذکور)
4۔سوامی لکشمن رائے:
مفسر راز حیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا تاریخ عالم کے تمام صفحات زندگی اس قدر صحیح تفسیر کرنے والی کسی دوسری شخصیت عظمیٰ کے بیان سے خالی ہیں۔ وہ کون سی اذیتیں تھیں جو کفرستان عرب کے کافروں نے اپنے عقائد باطلہ کی حفاظت میں عرب کے اس بت شکن پیغمبر کو نہیں دیں۔
وہ کون سے انسانیت سوز مظالم تھے جو عرب کے درندوں نے اس رحم و ہمدردی کے مجسمہ پر نہیں توڑے۔ وہ کون سے زہرہ گداز ستم تھے جو جہالت کے گہوارے میں پلنے والی قوم نے اپنے سچے ہادی پر روا نہیں رکھے۔مگر انسانیت کے اس محسن اعظم کی زبان فیض ترجمان سے بجائے بددعا کے دعا ہی نکلی ۔(نقوش رسول نمبر صفحہ 453)
5۔سوامی لشمی شنکر اچاریہ:
پہلے انہوں نے اسلام کے خلاف کتاب لکھی وہ کہتے ہیں دینک جاگرن میں مضمون پڑھا "دنگے کیوں ہوتے ہیں "اسکی وجہ کافروں سے لڑنے والی آیتوں کو بتایا گیا تھا پہر مجھے ایک پمفلٹ ملا ۔قرآن کی چوبیس آیتیں۔پھر میں نے قرآن پڑا اور ان آیتوں کو دیکھا دماغ اتنا مشوش ہو چکا تھا کہ ہر دنگے اور آتںگواد کا کارن(وجہ) اسلام ہی ہے۔
جسکے نتیجہ میں ایک کتاب
the history of Islamic terrorism
لکھ ڈالی جو ممبئی سے چھپی ۔
میں نے علماء کے بیانوں کو دیکھا کہ اسلام پیار اور محبت کا دہھرم ہے اسکا دھشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دھشرگردی کے خلاف فتوا بھی جاری ہوا۔ جہادی آیتوں کو مختلف علماء سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کی قرآنی آیتیں مختلف حالات میں نازل ہوئی ہیں لھذا ترجمہ کے ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کن حالات میں اتری ہیں تبھی اسکا صحیح مقصد معلوم ہو پائے گا۔۔سب سے پہلے میں نے پیغمبر کی زندگی پڑھی اور پھر پاک و پاکیزہ ذہن سے قرآن شروع سے آخر تک پڑھا تو آیتوں کا صحیح مطلب اور مقصد سمجھ میں آنے لگا۔
سچ سامنے آنے کے بعد مجھے اپنی بھول کا احساس ہوا کہ میں لاعلمی کے سبب شک میں مبتلا تھا میں نے اسلامک آتنکواد کتاب میں اسلام کو دہشتگردی سے جوڑا جسکا مجھے دلی افسوس ہے ۔میں اللہ سے پیغمبر محمد سے اور سبھی مسلم بھائیوں سے اجتماعی طور سے معافی مانگتا ہوں اور لاعلمی میں لکھے گئےالفاظ واپس لیتا ہوں۔
اسکے بعد سوامی جی نے دوسری کتاب لکھی ۔اسلام آتنک یا آدرش یعنی اسلام شدت پسندی یا نمونہ عمل
اس کتاب کی ابتدا میں کہتے ہیں اسلام کے بارے میں کچھ بھی ثابت کرنے کے لئے تین معیارات ہیں:
1۔قرآن مجید میں اللہ کے دستورات
2۔پیغمبر حضرت محمد کا زندگی نامہ
3۔حضرت محمد کی کتھنی یعنی حدیث
سوامی جی نبی مکرم (ص) کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالنے ہوئے دشمنوں کے ساتھ آپکی ہمدردی کا ذکر یوں کرتے ہیں: اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی نیکی اور رحم دلی کی مورت بن گئے اور اللہ کے رسول نے ان سبھی لوگوں کو معاف کردیا جنہوں نے آپ پر اور مسلمانوں پر بے دردی سے ظلم کیا تھا اور اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔آج وہی مکے والے اللہ کے رسول کے سامنے خوشی سے کہہ رہے تھے :لا الہ الا اللہ محمد رسول ا للہ ۔۔۔
حضرت محمد کی پاک زندگانی پڑھنے کے بعد میں نے پایا کہ آپ نے توحید کی صداقت کو قائم کرنے کے لئے بہت صعوبتیں برداشت کیں۔
حضور کے صبرو استقامت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مکہ کے کافر سچائی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لئے آپ کو اور صداقت کے راستے پر چلنے والے مسلمانوں کو مسلسل 13 سال تک تکلیفیں دیں اور بے عزت کیا اس شدید ظلم و بربریت کے باوجود آپنے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا ۔یہاں تک کہ آپ کو اپناوطن چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا ۔۔۔اللہ کے رسول نے سچائی اور امن و سالمیت باقی رکھنے کی خاطر آخری حد تک صبر سے کام لیا۔
۔آنحضرت کے عفو و درگزر کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قریش جنہوں نے آپ پر اور مسلمانوں پر بھیانک ظلم کئے تھے فتح مکہ کے دن تھر تھر کانپ رہے تھے کہ آج کیا ہوگا لیکن آپ نے انہیں معاف کرکے گلے لگا لیا۔
پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی نامہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا آخری پیغام دنیا میں صداقت اور امن و امان قائم کرنا اور دھشتگردی کی مخالفت ہے لھذا اسلام کو تشدد اور دہشتگردی سے جوڑنا سب سے پڑا جھوٹ ہے(اسلام آتنک یا آدرش ص1۔19)
6؛ پنڈت ویر پرکاش اپادپھ
کالکی اوتار کتاب کے مصنف معروف سنسکرت کے اسکالر اور بہت بڑے محقق پنڈت ویر پرکاش اپادپھ جو کہ ہندو برہمن ہیں اپنی کتا ب میں صداقت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں؛ ہندومت اور ہندوؤں کی جن اہم بڑی مذہبی کتابوں میں جس رہبر اور رہنماء کا زکر کلکی اوتار کے نام سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت عربستان کے باشندے جناب محمد کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارک پر ہی صادق آتا ہے اس لئے ساری دنیا کے ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ مزید کسی انتظار کی تکلیف نہ کریں بلکہ اس ہستی کلکی اوتار یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئیں اسی کتاب کے مصنف جناب ویرپرکاش اور ان آٹھ پنڈتوں نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ہندومت کے سمجھنے اور ماننے والے ابھی تک کلکی اوتار کے آنے کا نتظار کر رہے ہیں ان کا یہ انتظار جو قیامت تک ختم ہونے والا نہیں ہے کیونکہ یہ جس اعلیٰ ہستی کا انتظار کر رہے ہیں اس مقدس ہستی کا ظہور اس دنیا میں ہو چکا ہے (یعنی وہ تشریف لا چکے ہیں ) اور وہ اپنا کام مکمل کر کے اور اپنی مفوضہ ذمہ داری ادا کرکے چودہ سو سال پہلے اس دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں۔( کلکی اوتار)
7۔مہاتما گاندھی جی
آپ اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعریف میں فرماتے ہیں:
اسلام اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں تعصب اور ہٹ دھرمی سے پاک تھا، دنیا سے خراج تحسین وصول کئے۔ جب مغرب پر تاریکی اور جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اس وقت مشرق سے ایک ستارہ نمودار ہوا۔ ایک روشن ستارہ جس کی روشنی سے ظلمت کدے منور ہو گئے اسلام دینِ باطل نہیں ہے۔ ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں۔
میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام بزورِ شمشیر نہیں پھیلا۔ بلکہ اس کی ترقی کا سبب پیغمبر کی مستحکم سادگی، تواضع و انکساری'خود خواہی کا فقدان 'عدل و انصاف میں دقت نظر اور دوستوں و پیروکاروں سے محبت اور احترام تھا۔
حضرت محمد عظیم پیغمبر اور ایک بہادر انسان تھے۔صرف خدا سے ڈرتے تھے آپکی رفتار گفتار کے مطابق ہوتی تھی۔کبھی دولت کو اختیار نہیں کیا جب اگر چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے۔
میں ان میں سے بہترین کے بارے میں جاننا چاہتا تھا جس کی آج لاکھوں کروڑوں دلوں تک رسائی ہے۔ میں اس ضمن میں یقین سے بھی آگے گذر چکا ہوں کہ اسلام ان دنوں تلوار کے زور پر نہیں پھیلا بلکہ اس کی پاکیزگی اور قربانی دینے کا اعلٰی ترین جذبہ اس کے پھیلنے کا موجب بنا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان تھک انداز میں اپنا فریضہ سرانجام دیا ، انہیں بہترین دوست اور امتی ملے جو بلاخوف اللہ پر حتمی یقین کے ساتھ ان کے دین کے مشن کو لے کر چلے"۔
ان کے انہیں صفات نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔ یورپی اقوام 'جنوبی افریقہ میں اسلام کو تیزی کے ساتھ پھیلتا دیکھ کر خوف زدہ ہیں۔ اسلام جس نے اندلس کو مہذب بنایا۔ اسلام جو مشعلِ ہدایت کو مراکو تک لے گیا۔ اسلام جس نے اخوت کا درس دیا۔
جب میں یہ بات پڑھ رہا تھا کہ اختیاری طور پر انہوں نے اور انکے گھر والوں نے کتنی محرومیتیں برداشت کیں تو میں نے بہت گریا کیا(اسلام از دیدگاہ دانشمندان غرب 60۔61)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے تمام لیڈروں اور فاتحین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے حالات زندگی محمد سے زیادہ اچھے اور سچے ہوں۔
(از کتاب مہاتما گاندھی کی شہادت)
بابای قوم نے ھندستان بلکہ اہل عالم کی نجات کا حل تعلیمات رحمۃ للعالمین کو بتایا ہے:
دنیا اور نتیجتاً ہم کہ جو دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جس طرح محمد اور اپنیشدوں کی تعلیمات کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے اسی طرح اگر تعلیمات عیسیٰ پر عمل نہ کریں تو ہم نے حیات کو عظمت سے گرا دیا ہے( ویل ڈورانٹ اختناق ہندوستان ص125)
ایک مقام پر ھندستان کا راہ نجات امام حسین علیہ السلام کا راستہ بیان فرماتے ہیں:
میں ہندستان کے لئے کوئی نئی چیز نہیں لایا ہوں میں کربلا کے بہادروں کی تاریخ کے بارے میں اپنے مطالعہ اور تحقیق کے نتیجہ کو ملت ھندوستان کے لئے بطور ہدیہ لایا ہوں۔
اگر ہم ہندستان کو نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی راستہ پر چلنا ہوگا جس پر حسین چلے(مجلہ الغری نجف اشرف ربیع الاول 1381)
مذکورہ بالا دانشمندوں کی عقیدت سے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آفاقیت ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پوری کائنات کے مرکز نگاہ ہیں ۔ان حقیقت پسند حضرات نے اس عظیم الشان ذات کو خراج تحسین پیش کیا جس کی عزت و عظمت کا سورج تاابد روشن رہے گا۔ آنے والے ہر دور میں جو شخص بھی ہٹ دھرمی، تعصب اور بغض و عناد سے ہٹ کر سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مطالعہ کرے گا وہ عظمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کامعترف اور مداح بن جائے گا۔
وہ دن دور نہیں جب اہل عالم مذہب و ملت کی تقسیموں اور تفریقوں سے بلند ہو کر حضرت محمدؐ کو کسی ایک مذہب یا علاقے سے مخصوص کرنے کے بجائے اپنے لئے نمونہ عمل بنائیں گے۔ جس میں ساری انسانیت کی صلاح و فلاح ہے۔