۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
حضور سرور کائنات کی حیات طیبہ، چند لافانی نقوش

حوزہ/ کاش رسول کا کلمہ زبان سے پڑھنے والے خدمت خلق کی صورت عملی کلمہ رسول پڑھیں اور انسانیت کے رستے زخموں پر سیرت و تعلیمات نبی رحمت کا عملی مرہم رکھ دیں  تو ہر طرف سے بس ایک ہی صدا آئے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | بڑی محنت سے سیاہ و سفید گوسفند کے اون کو آپس میں مخلوط کر کے ایک دیدہ زیب عربی پیراہن جسے جبہ کہتے ہیں، میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے تیار کیا۔ حضور کی خدمت میں پہنچا نہایت ادب و احترام کے ساتھ حضور کی خدمت میں اس پیراہن کو بطور ہدیہ پیش کیا، حضور نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور محض دیدہ تحسین سے دیکھا ہی نہیں بہت تعریف بھی کی اور پوچھا: 
سہیل تم نے خود  اسے اپنے ہاتھوں بنا ہے میرے لئے خود تیار کیا ہے ؟۔ 
جی سرکار! اپنے ہاتھوں سے آپکے لئے سی کر لایا ہوں سفید و سیاہ رنگ کا حسین امتزاج یوں ہی نہیں ہے بہت محنت کی ہے تاکہ موجودہ شکل میں ڈھل آئے۔ حضور نے اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: بہت ہی اچھا سلا سہیل لا جواب کیا کہنے؟ مجھے پسند آیا یہ کہہ کر حضور (ص) نے ایک طرف رکھا ہی تھا کہ سہل بن سعد کے بقول ایک اعرابی آیا اور حضور (ص) کے ہاتھ میں دیدہ زیب پیرہن دیکھ کر اس نے کہا ؟ یا رسول اللہ بڑا اچھا پیرہن ہے اسے مجھے دے دیجئے، فورا ًہی حضور (ص) نے اسکے حوالے کر دیا وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔۔۔ یہ نقش تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گیا

ابن مسعود سے نقل ہے، ہم نے بارہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کسی ایسے پیغمبر کی داستان کو بیان کرتے تھے کہ جنکی قوم نے انہیں اذیت دی اور ستایا اور وہ بھی  اس حال میں کہ خون اپنے چہرے سے صاف کر رہے ہوتے تھے کہتے تھے ” پروردگار! میری قوم کو بخش دے کہ یہ لوگ جاہل اور ناسمجھ ہیں۔(1)
کیا تاریخ اس نقش حیات کو بھلا سکتی ہے ۔

جابر بن سمرة اپنے کمسنی کے دور کی ایک روایت بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ کے ساتھ  نماز کو بجا لایا، بعد نماز آپ اپنے گھر والوں کے پاس گئے، میں بھی آپ کے ساتھ ہو لیا، آپکے دونوں نواسوں نے آپکا بڑھ کر استقبال کیا، آپ نے دونوں بچوں کے رخساروں پر جس طرح شفقت سے ہاتھ پھیرا میرے بھی رخساروں پر ویسے ہی ہاتھ پھیرا اور میں نے آنحضرت -صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم- کے ہاتھوں میں ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ نے ان ہاتھوں کو ابھی کسی عطر کے چرمی تھیلے سے باہر نکالا ہو۔ (2)
کیا تاریخ اس نقش حیات مربی انسانیت سے بے تفاوت ہو کر گزر سکتی ہے
”مالک بن الحویرث” نے روایت کی ہے کہ ”چند ہم سن و ہم عمر جوان پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس شب حضور کی خدمت میں رہے آنحضرت کو یہ گمان ہوا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کی یاد آ رہی ہے، انہوں نے ہمارے گھر والوں کے بارے میں ہر ایک سے الگ الگ سوال کیا اور ہم میں سے سب نے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتایا۔ آپ  کس قدر بہت مہر و محبت کرنے والے تھے اسکا اندازہ ہمیں تب ہوا جب آپ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ اور انہیں اسلامی تعلیمات سکھاؤ اور جس طرح تم نے مجھے نماز کی حالت میں دیکھا ہے ویسے ہی نماز پڑھو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک اذان کے لئے کھڑا ہو جائے پھر جو تم میں سب سے بڑا ہے وہ نماز کی امامت کیلئے کھڑا ہو ۔(3)
تاریخ نےایک بار پھر معلم انسانیت کے نقش حیات کو اپنے دامن میں محفوظ کر لیا

اسامہ بن زید نے روایت کی ہے ”پیغمبر خدا مجھے ایک زانو پر بٹھاتے تھے اور حسن ابن علی کو دوسرے پر پھر ہم دونوں کو قریب کر کے فرماتے تھے ”پروردگار ان پر اپنی رحمتیں نازل کر میں بھی ان کے ساتھ مہربان ہوں۔ (4)
ایک نقش حیات اور دامن تاریخ

اصحاب کرام سے نقل ہے، خدا کی قسم جب بھی ہم سفر یا حضر میں پیغمبر (ص) کے ساتھ ہوتے تو آپ ہمارے مریضوں کی عیادت کرتے، اگر کوئی مر جاتا تو تشیع جنازہ میں شرکت کرتے، جنگوں میں ہمارے ساتھ شریک رہتے، ہماری تنگی و وسعت کے ساتھ نبھاتے اور اس میں بھی شریک رہتے، اسی مضمون کے کلمات امام علی علیہ السلام سے بھی منقول ہیں۔ (5)
ان نقوش کو بھی تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر لیا

امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ”ضرورت مند اور بے نوا لوگ راتوں کو مسجد میں ٹہر جاتے تھے ، ایک شب آنحضرت (ص) نے مسجد میں منبر کے نزدیک سب کے ساتھ مخصوص ظرف میں افطار کیا اور تیس لوگوں نے اسکے بعد اسی ظرف میں افطار کیا پھر آپ اس ظرف کو لیکر اپنی زوجات کے پاس چلے گئے اور وہ بھی اسی سے سیر ہوگئیں۔ (6) 
ضرورت مندوں کا خیال وہ بھی اس انداز سے تاریخ کیونکر بھول جاتی چنانچہ یہ نقش حیات بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ ہو گیا
 
ہم خندق کھودنے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے ساتھ تھے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا روٹی لیکر حاضر ہوئیں اور اسے پیغمبر کو دیا، آنحضرت نے پوچھا یہ روٹی کس کے لئے ہے، جناب فاطمہ نے جواب دیا ایک روٹی حسن کے لئے دوسری حسین کے لئے پکائی تھی اور یہ آپ کے لئے لائی ہوں پیغمبر (ص) نے جواب دیا اے فاطمہ! تین دن کے بعد یہ پہلی غذا ہے جو تمہارے بابا کے پیٹ میں گئی ہے۔(7)
تاریخ نے اسے بھی محفوظ کر لیا ۔

ابو قتادہ کہتے ہیں، حاکم حبشہ نجاشی کی طرف سے ایک وفد آیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اس کے استقبال کے لئے گئے اور خود ہی انکی خدمت کی اصحاب کرام نے کہا، حضور (ص) آپ رہنے دیں ہم انکی ویسی ہی خدمت کریں گے جیسے آپ کہیں گے لیکن آپ بیٹھ جائیں اچھا نہیں لگتا۔ آپ نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نئے نئے مسلمان شدگان افراد کی خدمت کی تھی، جنہوں نے حبشہ میں پناہ لی تھی میں چاہتا ہوں بنفس نفیس انکی خدمت کروں تاکہ انکی محبتوں کا کچھ حق ادا کر سکوں۔(8)
یہ لافانی نقش حیات تاریخ کیونکر ثبت نہ کرتی سو یہ بھی تاریخ کی جبین پر درخشاں ہے۔ 

امام صادق علیہ السلام سے روایت کا مضمون کچھ یوں ہے کہ "حضور کی رضاعی بہن کو اسیر کر کے لایا گیا، جیسے ہی حضور نے دیکھا بہت خوش ہوئے، احترام میں کھڑے ہو گئے، اپنے ہاتھوں سے فرش بچھایا اور بڑے ہی مشفقانہ انداز میں یوں گفتگو کرتے رہے کہ تبسم آپ کے لبوں پر سجا رہا”۔ (9)۔
ایک اور نقش حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ محفوظ کئیے بنا نہ رہ سکی .

عمرو بن صائب سے روایت ہے کہ "حضور تشریف فرما تھے مادر رضاعی آپکی خدمت میں پہنچیں آپ نہ صرف اپنی جگہ سے اٹھے بلکہ آپ نے اپنی ردا انکے لئے بچھا دی اور انہیں اس پر بٹھایا۔
یہ نقش بھی محفوظ دامن تاریخ ۔

ابو امامہ کہتے ہیں، "ہم نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و۔ آلہ۔ وسلم  کے ہاتھوں میں ایک عصا ہے اور وہ دھیرے دھیرے ہماری طرف آ رہے ہیں، ہم فورا احتراما کھڑے ہو گئے آپ نے ہمیں منع کیا کہ جیسے عجم اپنے حاکموں کے ڈر سے کھڑے ہوتے تم کھڑے نہ ہو مجھے پسند نہیں کہ عجمی بادشاہوں کی طرح میرے۔ احترام میں  کھڑے ہو جاو
یہ نقش حیات نہ صرف تاریخ نے محفوظ کیا بلکہ یہ وہ نقش ہے جو آج بھی امت مسلمہ کے ان عمائدین و سربراہان قوم سے سوال کر رہا ہے جو جھوٹی شان و شوکت کے بھوکے ہیں اور انکی میزبانی میں ذرہ کوتاہی ہو جائے تو زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں انکی آرزو یہ ہے کہ ہر ایک انکےبسامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہےچاہے یہ عمل خلاف سنت پیغمبر ص کیوں نہ ہو۔

سفر پر گئے پانی کی تنگی تھی اور پانی کی مشک ابو قتادہ کے ہاتھوں میں تھی حضور نے کہا قتادہ پانی کہاں ہے؟ حضور یہ پانی آپکی خدمت میں ہے، قتادہ کیا تمہیں پیاس نہیں لگی؟ جی حضور لیکن پہلے آپ پی لیں،  نہیں قتادہ پہلے تم پیو کیونکہ ساقی قوم وہ ہوتا ہے جو سب کو پلاتا ہے اور آخر میں خود  پیتا ہے۔
یہ نقش حیات بھی نہ صرف تاریخ میں محفوظ ہے بلکہ آج کے رہبران قوم سے سوالی ہے کیسے قوم کی بھوک و پیاس کی اعتنا کئے بغیر تم محض اپنی سیرابی کے بارے میں سوچتے ہو

انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے حضور کی ۱۰ سال خدمت کی اور اس دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حضور نے مجھے خدمت سے متعلق کسی بات پر میری سرزنش کی ہو یا مجھے ڈانٹا ہو، جبکہ ایسا ہوا کہ میری وجہ سے حضور کو مشکل پیش بھی آئی، پھر انس ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور کے لئے دودھ ایک شربت بنایا کہ حضور اس سے افطار کریں، بعد از نماز حضور کو لوٹنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ یقیناً آپ اصحاب کے ساتھ افطار کر کے آئیں گے یہ سوچ کر شربت خود پی لیا، رات کا ایک حصہ گزرنے کے بعد حضور تشریف لائے اور مجھ سے کچھ کہے بغیر اپنے بستر پر چلے گئے، میں نے اطمینان کے لئے حضور کے ساتھ آنے والوں سے پوچھا کہ کیا حضور نے کچھ تناول کیا تھاَ ان لوگوں نے کہا نہیں حضور نے ہمارے ساتھ کچھ نہیں کھایا، دوسرے دن میں نے دیکھا حضور نے پھر صبح اٹھ کر روزہ رکھا ہوا تھا جبکہ نہ مجھ سے شربت کے بارے میں کچھ پوچھا، نہ مجھے کسی بات کا احساس ہونے دیا
اور آج تک میرے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا کہ کبھی سوال نہیں کیا کہ  اس شربت کا کیا ہوا جو میرے لئے بنایا تھا۔؟ مجھے تمہاری غفلت کی۔ وجہ سے رات کو بھوکے پیٹ سونا پڑا ۔
تاریخ نے یہ نقش بھی محفوظ کر لیا اور یہ نقش حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان لوگوں کے رخساروں پر ایک طمانچہ ہے جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ غلامانہ برتاو کرتے ہیں اور تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی غلطی مل جائے تو ذلیل کیا جائے ٹوہ میں رہتے ہیں کوئی خامی اپنے ماتحت کی نظر آئے تو سربازار اسے عام کیا جائے۔
میں ان نقوش کو دیکھ رہا تھا اور میری پلکوں پر سجے آنسو یتیم عبد اللہ کوخاضعانہ سلام کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا آج جب نبی رحمت کی ولادت کی تاریخ ہے تو میرے پاس کیا ہے ان لوگوں کو دینے کے لئیے جو آج مادیت کے چٹیل میدان میں۔ دنیا پرستی کے آگ اگلتے سورج کے سامنے پپڑائے ہونٹوں کے ساتھ  حسرت کے عالم میں امیدوں کے دئیے  جلائے ہم جیسے  لوگوں کی طرف یوں دیکھ رہے ہیں انکے  پاس تو چشمہ حیات پیغمبر ص ہے اور یہ  چاہیں تو دنیا کو معنویت کے جرعہ ہای شیریں سے سیراب کر سکتے ہیں لیکن میں کیا کروں میں تو خود ہی پیاسہ ہوں اور چشمہ حیات پیغمبر کو چھوڑ کر در در بھٹک رہا ہوں یہی کچھ سوچتے سوچت میرے آنسوں پلکوں سے اترے اور رخساروں پر ڈھلک گئے گو انکی حرارت نے مجھے بتایا کہ آج بھی دنیا میں مادیت کے یخ بستہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے حیات محمدی کا ہر نقش اتنی حرارت رکھتا ہے کہ سب کچھ آب آب کر دے لیکن اسکے لئیے ضرورت ہے مطالعہ حیات نبوی کی جس میں ہمارے ہر درد کی دوا موجود ہے گرچہ  یہ بھی سچ ہے کہ کس کس نقش حیات کو پیش کیا جائے تاریخ کا دامن چھوٹا اور نقوش حیات پیغمبر صلی اللہ کی کہنکشاں قابل احصاء نہیں بہت وقت لیا آپکا چلتے چلتے بس اتنا
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کی یہ چند ایک ہی جھلکیاں ایسی ہیں جن سے اگر ہم سیکھنا چاہیں تو بہت کچھ ہے اور اگر سیرت پیغمبر (ص) کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا چاہیں تب بھی بہت کچھ ہے۔ سیرت پیغمبر (ص) کے ان انمٹ نقوش کے درمیان یہ حدیث شاید ہماری زندگی کی نہج اور ہماری زندگی کا تصور ہی بدل دے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ پروردگار روز قیامت اسکی مدد کرے، اسے چاہیئے کہ دنیا میں خلق خدا کی خدمت کرے، (خدا اسی کے کام آئے گا جو اسکے بندوں کے کام آئے گا۔ (10)
کاش رسول کا کلمہ زبان سے پڑھنے والے خدمت خلق کی صورت عملی کلمہ رسول پڑھیں اور انسانیت کے رستے زخموں پر سیرت و تعلیمات نبی رحمت کا عملی مرہم رکھ دیں  تو ہر طرف سے بس ایک ہی صدا آئے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1۔ ابن حنبل ، مسند ،جلد ١ ص ٤٤١ ،و مسلم ، جلد ٣ ، ص ١٩١٧ ،2
2۔ مسلم جلد ٤، ص ١٨١٤ ۔ح٨٠
3۔ مسلم، گذشتہ حوالہ ص ٤٦٥، ح ٤٦٦ و علل الشرائع ، ص ٣٢٦ ،ح ٢
4۔ بخاری، جلد ٥، ص ٢٢٣٦، و شیخ صدوق ، ص ٣٤ ، ح ١٥٣
5۔ ابن حنبل، ج ١، ص ٧٠، و نھج البلاغہ خطبہ ١٠٠
6۔ مجلسی ، ج، ١٦، ص ٢١٩
7۔ مجلسی ، ج،١٦، ص ٢٢٥، طبقات ابن سعد ، جلد ، ٢ ص ١١٤
8۔ سفینۃ البحار ، جلد ۱ ص ۴۱۷
9۔ ایضا
10۔ (مسلم، ج، ٣، ص ١١٩٦، ح، ٣٢ ، ثواب الاعمال، جلد ١ ص ١٧٩ ،ح ١)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .