تحریر: مولانا حسن اصغر شبیب، حوزہ علمیہ قم
حوزہ نیوز ایجنسی | پیغمبراسلام حضرت محمدمصطفی ﷺ کی حیات طیبہ اخلاق,کردار اور گفتار کااعلی مظہر ہے۔ ان کی سنت وسیرت تمام عالم بشریت بالخصوص مسلمانوں کے لئے کامیابی کا راستہ ہے,لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی طرز زندگی سے واقف ہوں اور ان کی اقتدا کریں تاکہ منزل کمال و مقام سعادت تک رسائی حاصل کر سکیں۔
قرآن کریم کی آیتوں میں آپکی زندگی کی متعددصفات و خصوصیات مذکور ہیں, جن میں سے مندرجہ ذیل صفات کلام خدا کی روشنی میں بیان کی جارہی ہیں۔
۱۔ اسوہ حسنہ:
لَقَدْ كانَ لَكُمْ في رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثيراً
(بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو)۔
پیغمبرﷺ کا وجود با برکت انسانی کمالات , پسندیدہ صفات و مادی و روحانی فضایل سے سرشار اور دنیا کی تما م غلاظتوں و خباثتوں سے پاک وپاکیزہ تھا ۔احمد مرسلﷺ تمام مسلمانوں کے لئے انسانی صفات و کمالات کا شفاف آئینہ ہیں۔
سیرت نبی کریمﷺ مکمل خدائی اور قرآنی ہے اسی لئے قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کی نور افشاں سیرت کو نمونہ عمل قرار دیا ہے۔رب العلمین نے رحمۃ للعالمین ﷺ کا تعارف انسان کامل کے عنوان سے کرایا کہ جس کا کردار انسانوں کے لئے طرز حیات کادرس ہے ,خواہ وہ ایمان و اخلاص کی منزل ہو یا زہد وتقوی کا مقام , صبر واستقامت کا لمحہ ہو یا توکل وایثار کا مرحلہ,عبادت و شجاعت کا میدان ہو یا طہارت و سخاوت کا فیضان , المختصر زندگی کے تمام مراحل میں سیرت پیغمبر ﷺدنیا کے تمام انسانوں کے لئے جامع نمونہ عمل ہے اور انسان اسے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے دنیا وآخرت کی سعادت کا مالک بن سکتا ہے۔
۲۔ خلق عظیم
وَ إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظيم
(اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں)۔
یہ آیت فخر کائنات ﷺ کے خلق عظیم کا قصیدہ ہے, جس میں پروردگار عالم انسان کی اعلی ترین صفت کے ذریعہ اپنے رسولﷺ کا تعارف پیش کر رہا ہے کہ آپ خلق عظہم پہ فائز ہیں یعنی اے میری حبیب ﷺآپ محبتوں کا خزانہ اور رحمتوں کا چشمہ ہیں۔
ختمی مرتبت ﷺ کی کامیابی کا راز آپکے خلق عظیم میں مخفی ہے۔ دشمن آپکو تکلیف دے رہے ہیں اور آپ انکو جہنم کا خوف دلا رہے ہیں ,وہ آپ کو برا بھلا کہ رہے ہیں اور آپ ان کے لئے دست بدعا ہیں ,آپکو پتھر مار رہے ہیں اور ا ٓٓپ انکی ہدایت کے خواہاں ہیں , وہ آپ پہ کوڑا پھینک رہے ہیں اور آپ انکی عیادت کے لیے جا رہے ہیں۔
۳۔ سادگی :
خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے اے میرے حبیب ﷺ:
فَلا تُعْجِبْكَ أَمْوالُهُمْ وَ لا أَوْلادُهُمْ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ تَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كافِرُون
(لہٰذا ان کے اموال اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کر دیں، اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے انہیں دنیاوی زندگی میں بھی عذاب دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جان کنی ہو)
اکثر و بیشتر مادی امور قوانین و احکام الہی کی پیروی و انجامدهی میں ممانعت ایجاد کرتےهیں , انسان جس حد تک بھی اپنی زندگی کی لئے مال و دولت ذخیرہ کر لے لیکن اس کا انجام موت ہے ,لہذا ضروری ہے کہ دنیا طلبی سے کنارہ کشی اختیار کرے ۔
دنیا کی تمام نعمتیں انسان کے لئے امتحان ہیں, لہذا نعمت خداوندی کا صحیح استعمال کرتے ہوئےشکر خدا بجا لائیں تاکه یه شکر گذاری همارے لئے توشه آخرت قرار پائے اور ہم راہ مستقیم کی منزلوں کو آسانی سے طے کرتے ہوئے قرب خداوندی حاصل کر سکیں ۔
خداوند عالم دوسرے مقام پہ اپنے نبی ﷺکو زہد کی دعوت دے رہا ہے:
لا تَمُدَّنَ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ وَ لا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَ اخْفِضْ جَناحَكَ لِلْمُؤْمِنين
(اے رسول) آپ اس سامان عیش کی طرف ہرگز نگاہ نہ اٹھائیں جو ہم نے ان (کافروں ) میں سے مختلف جماعتوں کو دے رکھاہے اور نہ ہی ان کے حال پر رنجیدہ خاطر ہوں اور آپ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں)۔
دنیاوی عیش و عشرت سےدور سرور کائناتﷺ زہد وپارسا کی بے مثال شخصیت ہیں, جسکا مشاہدہ خود دنیا نے فتح مکہ کے بعد کیا کہ فاتح ہونے کے باوجود جیسی سادگی بھری زندگی فتح سے پہلے تھی ویسی ہی فتح کے بعد بھی رہی, نہ تو پیغمبراسلامﷺ کی خوراک میں کوئی تبدیلی آئی نہ تو پوشاک میں۔
حضور ﷺ نے معاشرہ کے حاکم ہونے کے باوجود با دشاہوں جیسی زندگی بسر نہیں کی بلکہ سادگی و انکساری کے ساتھ گزار دی ,ختمی مرتبتﷺ کی یہی سادگی و انکساری کی خوشبو تکبر و دولت طلبی کی بدبودار فضا وں میں بکھرتی چلی گئی اور بشریت استشمام بوئے رسالت سے مسرور ہو کر شمع رسالت کی پروانہ بنتی چلی گئی۔
۴۔ محبت ومہربانی:
اسلام میں محبت ومہربانی ایک نیک و پسندیدہ صفت ہے جس کی بنا پہ دشمن بھی دوست بن جایا کرتے ہیں ۔خود مصداق رَحْمَتي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْء پروردگار نےاپنے حبیب ﷺکو بھی اس خاص صفت سے مخصوص قرار دیا اور فرمایا:
لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ
(بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے)
رحمۃ للعالمین ﷺ کی مکمل حیات , محبت ورحمت کا نمونہ ہے آپ اپنوں کے لئے پیکرمحبت ہیں تو دشمنوں کے لئے وجود رحمت , اسی لئے خدا نے ارشاد فرمایا: وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ
یقینااگر آپکا وجود اس نرم مزاجی ومہر و مہربانی سے لبریز نہ ہوتا تو دشمن آپکا کلمہ پڑھتے ہوئے نظر نہ آتے, آپکے اطراف جمع ہو کر اپنی زندگی کی کامیابی و کامرانی کا درس حاصل نہ کر رہے ہوتے, جیسا کہ قرٓٓن نے کہا : فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِك
(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے،)
رحمت دو عالم ﷺ نے اپنی مہربانیوں و محبتوں کے زیر سایہ جاہلیت کی تاریکیوں میں گم شدہ سخت دل انسانوں کا سویا ہوا مقدر بیدار کر دیا اور نور اسلام کے ذریعہ انکا مستقبل روشن ومنور بنا دیا۔
۵۔ بخشش و بردباری:
دوسروں کو معاف کردینا صفات حسنہ میں سے ہے اور اس صفت کا حامل انسان وسعت صدر کا مالک ہوتا ہے,۔نادان افراد کی نادانیوں سے گریز اختیار کرنے والا حلیم وبردبار کہلاتا ہے۔
خداوند عالم مرسل اعظم ﷺ کی بخشش وحلم و بردباری کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے:
خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْجاهِلين
(اے رسول) در گزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں)۔
روایتوں میں مذکور ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا جس کا بہترین نمونہ فتح مکہ ہے, َ جہاں دوسرے افراد اپنے دیرینہ دشمن مشرکین و کافرین مکہ سے بدلہ لینا چاہتے تھے وہاں مظہر رحمت الہی نے عفو و بخشش کا اعلان عام فرمایا, جس کے بعد دنیا نے يَدْخُلُونَ في دينِ اللَّهِ أَفْواجاً کا حسین ترین منظر دیکھا۔
احمد مرسل ﷺدین اسلام کی ترویج کی خاطر متعصب ,لج باز وجاہل افراد سے روبرو ہوتے رہے , تہمتیں برداشت کرتے رہے, پتھر کھاتے رہے ,جاہلانہ اقدام کو نظر انداز کرتے رہے لیکن خلق عظیم کے مرتبے پہ فائز رسولﷺنادان وکم عقل افراد پہ کامیابی حاصل کرنے لئے صبر وحوصلہ کا راستہ اختیار کیا , حلم وبردباری کا مظارہ کیا ۔ اسی صبر و حوصلہ و بردباری نےجاہلوں کو خواب ٖغفلت سے بیدار کیا , متعصب افراد کے دلوں میں جلتی ہوئی حسد کی آگ کو خاموش کردیا اور جس کے بعد پرچم توحید سرفراز ہو کر آہستہ آہستہ افق عالم پہ لہرانے لگا ۔
۶۔امت سے ہمدردی:
ایک دوسرے سے ہمدردی انسانیت کا تقاضہ اورتقویت ایمان کی علامت ہے۔ رحمۃ للعالمینﷺ کو اپنی امت سے بہت ہی گہرا تعلق تھا , اگر کسی کا ایمان ضعیف ہوتا تو اس کے ایمان کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے , انکی ہدایت کے لئے مسلسل سعی وکوشش کیا کرتے تھے, جسے قرٓن نے یوں بیان کیا:
فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلى آثارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَديثِ أَسَفا
(پس اگر یہ لوگ اس (قرآنی) مضمون پر ایمان نہ لائے توان کی وجہ سے شاید آپ اس رنج میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں)
رسول اکرم ﷺبہت چاہتے تھے کہ انسان دولت اسلامی سے مالا مال اور عزت ایمانی سے سر فراز ہو , آنحضرت رنجیدہ ہو جاتے کہ کیوں قرٓان واسلام جیسے شیریں چشمہ کے کنارے رہ کر بشریت پیاس سے بلک رہی ہے؟ , حضورﷺ غمزدہ ہو جاتے کہ کیوں عقل کل کی موجودگی میں انسانیت جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے؟
پیغمبر ﷺدشمنوں کے اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ سے غمگین ہو جاتے تھے, ان کے ایمان نہ لانے پہ رنجیدہ ہو جاتے تھے , جسکی بنا پہ خداوند عالم نے آپکو تسلی دی اور فرمایا:
وَ لا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَ لا تَكُنْ في ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ
(اور (اے رسول) ان (کے حال) پر رنجیدہ نہ ہوں اور نہ ہی ان کی مکاریوں پر دل تنگ ہوں )
رسول خدا انسانوں کی ہدایت کے عاشق وبشریت کے حامی و مددگار تھے ۔
غور و فکر کا مقام ہے ؛ کہیں ایسا تو نہیں کہ۔۔۔۔۔محبتوں کا مجموعہ, مہربانیوں کا چشمہ, حسن کرادر کا پیکر اور اخلاق کا گوہر رسول ﷺ ہمارے کردار ,رفتار و گفتار پہ نالاں ہو ؟
غیروں کی عیادت کرنے والا , دوسروں سے ہمددردی رکھنے والا, یتیموں پہ شفقت کرنے والا, کمزور افراد کی دلجوئی کرنے والا, حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے والا, ہماری بد اخلاقی, قساوت قلبی, یتیموں سے دوری اور ضرورتمندوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے غمزدہ ہو ؟؟؟؟؟