تحریر: مولانا فیروز علی بنارسی
حوزہ نیوز ایجنسی | جوانوں پرامام جعفر صادق ؈ کی مہربانی بھری نظر، وہ بھی اُن کی شخصیت کو بڑھانے، اُن کی صلاحیتوں اور لیاقتوں کا احترام کرنے، اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور اُن کے پاس و پاکیزہ دلوں کی جانب توجہ کے ساتھ تھی اور جوانوں کا آپؑ کی جانب کھنچ کرآنا آپؑ کے رفتار و کردار ، سنجیدگی، محبت آمیز حکیمانہ اورخلوص و مہربانی سے سرشار برتاؤ پرتھا۔ وہ بھی اس حد تک تھاکہ آپؑ کی باتیں صفحۂ قلب پر بیٹھ جاتی تھیں کیونکہ جوان خوبی،نیکی اورخوبصورتی کی جانب دوسروں سے زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے اور اسی حقیقت کو امام جعفر صادق ؈ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
’’جوان بہت تیزی سے نیکی کی طرف دوڑتا ہے‘‘۔
امامؑ کی رفتار و گفتار رسولِ اکرم ﷺکے اس ارشاد کاحقیقی ترجمان ہے:
’’مَیں تُم سب سے تاکید کرتا ہوں کہ جوانوںکے ساتھ اچّھا برتاؤ کرو کیونکہ اُن کے دِل بہت نرم ہوتے ہیں ‘‘۔
امام جعفر صادق؈ جوانوں کی لطیف روح اور اُمنگوں پر توجہ کے ساتھ ساتھ اپنے احباب اور قرابتداروں کو بھی ان نکات کی طرف توجہ اور غور دینے کی طرف رہنمائی فرماتے تھے۔ آپ ؑکے ایک صحابی مومن طاق نے دین کی تبلیغ کی خاطر ایک مدت تک بصرہ میں زندگی بسر کی۔ جب وہ مدینہ واپس آئے اور امام جعفرصادق ؈ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپؑ نے ان سے سوال کیا:
’’ بصرہ گئے تھے؟‘‘
عرض کیا: ’’ہاں!‘‘
’’لوگوں کا دین اورولایت کی تئیں رجحان کیا دیکھا؟‘‘
’’خدا کی قسم! بہت کم ہے۔ لوگ آئے ہیں، مگر بہت کم‘‘۔
’’جوانوں کو بچاؤ کیونکہ وہ نیکی میں زیادہ سبقت کرنے والے ہیں ‘‘۔
امام جعفر صادق ؈ کی ہدایات کی روشنی میں جوانوں کا منشور و آئین کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں:
زمانہ کی گلی
جوانی ایک اچھی فرصت اور نسیم رحمت ہوتی ہے جس سے بخوبی فائدہ اُٹھانا چاہئے اور ذہانت و تیز بینی کے ساتھ اس خداداد نعمت کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ فرصت اچک لی جانے والی اورختم ہو جانے والی ہے اور اس کا ضائع و برباد کرنا جوانی کے گزر جانے کے بعد غم و اندوہ اور پشیمانی کے علاوہ کچھ چھوڑ کر نہیں جاتا ہے۔
عمر بہت مختصر ہے اور راستہ بہت طولانی ہے اور فرصت بہت جلدی گزر جانے والی ہے۔ہمارا سرمایہ صرف وقت ہے جوپلٹ کر آنے والا نہیں ہے ۔لہٰذا سب سے بڑا فن اورہنر بہتر طریقہ سے جینا اوربے نظیر فرصتوں سے فائدہ اٹھانا ہے جوگزر رہی ہیں۔ امام جعفر صادق ؈ کے اس ارشاد پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے:
’’جس شخص کو فرصت ملے اور وہ مکمل طور پر فرصت ملنے کے انتظار میں اس میں ٹال مٹول کرے ، تو زمانہ اس سے اس فرصت کو بھی چھین لے گا کیونکہ دنوں کا کام لے جانا ہے اور زمانہ کا طریقۂ کا رہاتھ سے نکل جانا ہے‘‘۔
رنگِ خُدا
انسان جوانی کے دورہ میں داخل ہونے کے بعد ایک نئی پہچان کی تلاش میں رہتا ہے۔ اپنی یگانگی کا احساس کہ ’مَیں کون ہوں اور مجھے کیسا ہونا چائے؟‘ اس حد تک رسائی انسان کے لئے یہ امکان فراہم کرتی ہے وہ اپنے رابط کواپنے آپ سے ، اپنے خدا سے ، عالم طبیعت سے اور معاشرہ سے منظم کرے ۔
ایسی حالت میں شناخت و معرفت کے رول کی حقیقت کو تلاش کر لینا کافی موثر و مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ انسان کے رفتار و انداز میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے ۔اسی مرحلہ میں ممکن ہے کہ پہچان میں حیرانی و سرگردانی سبب بنے کہ انسان اپنی شخصیت اور اپنے سماجی رول کے سلسلہ میں شک و تردید کا شکار ہو جائے ۔یہ شک اس کے نفسانی انجام کو درہم برہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بحران ہویت کی طرف لے جاسکتا ہے۔ ایک ایسا بحران جوکہ جوان کو اپنے دراز مدت اغراض و مقاصد ، مشغل کے انتخاب ، دوستی کے نمونے، جنسی رجحان ، مذہبی شناخت، اخلاقی اقدام اور اجتماعی عہد و پہچان کی پابندی کی طرف لے جائے گا۔وہ شک و تردیدکی نظر سے دیکھے گا ۔
ہویت اور پہچان عطا کرنے میں دینی معرفت کافی اہم کردار ادا کرتی ہے۔درحقیقت دین جوانوں کی پناہ گاہ اور اُنھیں اس بحران سے نجات دلانے والا ہے ۔ البتہ علم و سعی و کوشش بھی اس کی پہچان بنانے میں کارساز ہے ۔
لہٰذا جوان کو خدائی رنگ اختیار کرنا چاہئے کہ اس کی ہویت و پہچان خدائی ہو جائے۔ دین وہی رنگ خدا ہے جو ہر ایک کو اپنی طرف دعوت دیتا ہے :
’’ خدائی رنگ اختیار کر لو اوررنگِ الٰہی سے بہتر کوئی اور رنگ ہو ہی نہیں سکتا ‘‘۔
امام جعفر صادق ؈ نے اس آیت کے بارےمیں فرمایا:
’’خدائی رنگ سے مراد دین اسلام ہے‘‘۔
دین جوان کو اپنی پہچان بنانے اور اسے آراستہ کرنےمیں مثبت جواب دیتا ہے ۔اس لئے کہ انسان کو ایک ایسی پیاس ہوتی ہے جو صرف راہِ خدا کو طے کرنے پر بجھتی ہے۔
اسی لئے امام جعفر صادق؈ احکامِ الٰہی اور دین کے حقائق کو سیکھنے کو جوان کے دور کی خصوصیت میں قرار دیتے ہیں۔اور بسا اوقات آپؑ ان جوانوں کی وجہ سے رنجیدہ ہو جاتے ہیں جن کے پاس دین کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں۔
دین کی معتبر شناخت
دین اسلام ایک طریقۂ حیات ہے جو معاشرتی زندگی کو خداوندعالم کی عبادت سے ربط دیتا ہے اور انسان کے سارے انفرادی اور اجتماعی اعمال و افعال میں فریضۂ الٰہی ایجاد کرتا ہے۔ عقائد ، عمل اور اخلاقی احکام کا یہ مجموعہ اس دنیا اور عالم آخرت دونوں جہان میں انسان کی خوشی اور دائمی سعادت کا سبب بنتا ہے۔
دین کو سمجھنا کس طرح ہے اور جوان کسے دین کہے؟
کیا ہر کوئی دین فہمی تک پہنچ سکتا ہے؟
کیاہر دین فہمی صحیح اور پسندیدہ ہے؟
کیا دین فہمی نسبتی ہےاور کوئی ثابت دین فہمی وجود نہیں رکھتی ہے؟
یا دین کی ایک رسمی اور قانونی تفسیر و فہم پائی جاتی ہے؟
رسولِ اکرمﷺ کی رحلت کے بعد مکتب اہلبیت’ثقل اصغر‘ کے عنوان سے نمایاں ہوا، لیکن لوگ اور جماعتیں مختلف عوامل و اسباب کی وجہ سے اس مکتب کےمقابلہ میں کھڑے ہوگئے اورانھوں نے دین کی مختلف فہم کانظریہ چھیڑ کرمعصومین ؑ کی تعلیمات سے مقابلہ کیا۔افسوس کہ تاریخ اسلام ہمیشہ ایسے نظریات پیش کرنے والوں کی دام فریب میں گرفتار ہوتی رہی۔
امام جعفر صادق ؈ کے دور میں کفر آمیز فرقوں اور یونانی افکار و نظریات کے رواج اور تحریک ترجمہ کے آغاز کے ساتھ ساتھ دینی فہمی کے دائرہ میں مختلف نظریات رائج تھے۔ یہاں تک کہ بعض فرقوں کے بانی، جوکہ خود ایک مدت تک امامؑ کے شاگرد تھے، انھوں نے بھی اپنے نظریات ،برتر اور صحیح نظریات کے عنوان سے پیش کئے اور دین کے حقیقی بنیادی اور احیاء کرنے والے کے سامنے کھڑے ہو گئے اور عوام کو اپنی طر ف کھینچنے لگے ۔
امام؈نےان نظریات سے مقابلہ میں خودان کو برملا کیا اور دوسری جانب شاگردوں کی تربیت میں مصروف ہو گئے تاکہ وہ مناظرے اور گفتگو میں ان لوگوں کی من گڑھت باتوں کا جواب دیں۔
جو بات امام جعفر صادق؈ کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچا رہی تھی،وہ جوانوں کا گمراہ کن اسلام دشمن فرقوں کی طرف کھنچ جانا تھا۔نمونہ کے طور پرامام ؑ جوانوں کو اس دور کے دو مشہور فرقوں مرحیہ اور غلاۃ کی طرف رجحان سے منع فرماتے تھے۔ آپؑ فرماتے تھے:
’’اپنے جوانوں کے سلسلہ میں غالیوں سے ہوشیار رہو کہ وہ انھیں گمراہی کی طرف نہ کھینچیں۔اس لئے کہ غالی مخلوقات میں سب سے پست مخلوق ہے۔ یہ لوگ خدا کی عظمت کو چھوٹا کرتے ہیں اور اس کے بندوں کے لئے ربوبیت اور خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں‘‘۔
امام جعفر صادق؈ ہوشیاری کو اصل قرار دیتے ہوئے جوانوں کے سامنے حقیقی اور مکتب اہلبیتؑسے حاصل دین کو پیش کرنے کی تاکید فرماتے تھے تاکہ جوانوں کے عقیدہ کی راہ میںرہزنوں پر راستہ بند کر دیا جائے۔ آپؑ ارشاد فرماتے ہیں :
’’اے جوانو ! تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور گمراہ سرداروں کے پاس مت جاؤ۔ انھیں چھوڑ دو۔ یہاںتک کہ وہ اپنی گڑھی ہوئی باتوںکو چھوڑ دیں۔انھیں خدا کو چھوڑ کر اپنا دوست اور ہمدم نہ بناؤ۔ خدا کی قسم! مَیں تمہارے لئے ان سے بہت بہتر ہوں۔ ‘‘
دوستی
اچھا دوست زندگی کا ایک عظیم سرمایہ اور آدمی کی خوشبختی و سعادت کاایک سبب ہے ۔انسان دوست سے انس میں خوشی محسوس کرتا ہےاور اپنی خوشحالی کو دوست کی ہمنشینی کا مرہون منت مانتا ہے۔
اچھا اور مناسب دوست جوان کے لئے اپنا خاص مقام رکھتا ہے اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس کی شخصیت بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔نوع دوستی کے پہلے حقیقی احساسات کو اس کے اندرایجاد کرتا ہے۔
جوان ایک طرف تو طبیعی کشش، خواہش دل اور دوستی و رفاقت کا عاشق ہوتا ہے اور اپنے ہم عمر ایک یا چند افراد سے گہرے دوستانہ روابط ایجاد کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طر ف ناسنجیدہ احساسات اور عقلانی نگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ نالائق اور فاسد دوستوں کی دوستی کے جال میںپھنس جائے۔اسی لئے بُرے اور خراب دوستوں کا وجود جوانوں میں یہ فکرمندی ایجاد کرتا ہے کہ ’ہم کیونکر ایک اچھا اور نیک دل دوست منتخب کریں؟
امام جعفر صادق ؈ نے تین طرح کے دوست بتائے ہیں:
(۱) وہ جس کا وجود غذاکے مانند ضرورت ہے اور وہ عاقل دوست ہے۔
(۲) وہ جس کا وجود انسان کے لئے ایک زحمت و مشقت اور تکلیف دہ بیماری کے مانند ہے اور وہ احمق دوست ہے۔
(۳) وہ جس کا وجود شفا بخش دوا کے مانند ہے اور وہ روشن بین اور صاحب عقل و خرد دوست ہے۔
امام جعفر صادق ؈ کی نظر میں دوست کے انتخاب کے طریقے حسب ذیل ہیں:
دوستی کے لئے کچھ حدود ہیں۔جس کے اندر یہ تمام حدود نہ پائے جائیں، وہ کامل نہیں ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی حد نہ ہو، وہ اصلاً دوست نہیں ہے:
(۱) دوست کا ظاہر و باطن تمہارے لئے یکساں ہو۔
(۲) تمہاری عزت و آبرو کو اپنی عزت و آبروسمجھے اور تمہاری بُرائی کو اپنی بُرائی سمجھے۔
(۳) مال و دولت پاجانا یا کسی منصب تک پہنچ جانا دوست کے طریقۂ کار کو نہ بدل دے۔
(۴) دوستی میں اس کے پاس جو کچھ ہے اسے تمہارے اوپر خرچ کرنے میں مضائقہ نہ کرے۔
(۵) تمہیں مصیبت کے وقت میں اکیلا نہ چھوڑ دے۔
ایک دوست دوسرے دوست کا تمام نما آئینہ ہوتا ہے۔اور دو دوست دو ہاتھ کے مانند ہوتے ہیں۔ جو ایک دوسرے کی گندگی کودھوتے ہیں اور امام جعفر صاد ق ؈ کے ارشاد کے مطابق جو شخص دیکھے کہ اس کا دوست کوئی بُری عادت میں مبتلا ہےاور وہ اسے روکنے کی سکت رکھنے کے باوجود نہ روکے، تو اس نے دوستی میں خیانت کی ہے۔
امام جعفر صادق ؈ اچھے دوست کے انتخاب اور اسے دوستی پر باقی رکھنے کی بیحد تاکید کرتے ہوئے جوانوں کو نادان و احمق سے دوستی سے منع فرماتے ہیں:
’’جو شخص احمق و بیوقوف کی دوستی سے پرہیز نہیں کرےگا، وہ اس کے احمقانہ کاموں سے متأثر ہو جائے گا اور اُس کا اخلاق بھی اس احمق کے ناپسندیدہ اخلاق کے مانند ہو جائےگا۔‘‘
نورانی روایات میں جوانوں کو بدنام لوگوں کی دوستی سے خبردار کیا گیا ہے اور انھیں خائن و زیادتی کرنے والوں اور چغل خوروں سے دوستی نہ کرنے کی ترغیب کی گئی ہے۔
امام جعفر صادق ؈ فرماتے ہیں:
’’تین طرح کے لوگوں سے کنارہ کشی کرو اور ان سے دوستی کا منصوبہ نہ بناؤ: خائن، ظالم اور چغل خور۔ اس لئے کہ جو شخص تمہاری خاطر دوسروں سے خیانت کر رہا ہے ، وہ ایک دن تم سے بھی خیانت کرےگا؛جو شخص تمہاری خاطر دوسروں پر ظلم و زیادتی کر رہا ہے، وہ ایک دن تم پر بھی ظلم و زیادتی کرےگا؛ جو شخص تمہارے سامنے دوسروں کی چغل خوری کر رہا ہے، وہ دوسروںکے سامنے تمہاری بھی چغل خوری کرےگا۔
رفاقت و دوستی کے طریقے دوستی کے ثابت و پائیدار ہونے میں اثر انداز ثابت ہوتے ہیں۔اسی راہ ورسم رفاقت کا ایک نمونہ امام جعفر صادق؈ کے ارشاد گرامی میں ہے:
’’جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہو، وہی چیز اس کے لئے بھی پسند کرواور جس چیز کو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو، اسے اس کے لئے بھی ناپسند سمجھو۔اس کے غصّہ سے بچواور اس کی رضا و خوشنودی سے ڈرتے رہو ۔اپنی جان، مال، زبان، ہاتھ،پیر سے اس کی مدد کرو۔اس کے نگراں و رہنما اور اس کا آئینہ بنو۔اس کی قسم کو قبول کرواور اس کی دعوت پر لبیک کہو۔
جب بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کو جاؤ۔ جس سمجھ جاؤ کہ اسے کوئی ضرروت ہے تو اس کے بیان کرنے سے پہلے اسے انجام دو۔ اسے مجبور نہ کرو کہ وہ تم سے کسی کام کے انجام دینے کی درخواست کرے۔