۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/ انسانی معاشروں کی بہت ساری مشکلوں میں سے ایک اہم ترین مشکل کسی  چیز کی عدم شناخت یا درست شناخت نہ  ہونا پھر اس کے باوجود جاننے  کا دعویٰ کر کے جہل مرکب کا شکار ہونا ہے۔

تحریر : محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی | انسانی معاشروں کی بہت ساری مشکلوں میں سے ایک اہم ترین مشکل کسی  چیز کی عدم شناخت یا درست شناخت نہ  ہونا پھر اس کے باوجود جاننے  کا دعویٰ کر کے جہل مرکب کا شکار ہونا ہے۔اگر کسی ملک اور اسکی خارجہ پالیسی اور وہاں کی شخصیات اور دوست و دشمن کے بارے میں درست اور  دقیق مطالعے کی وجہ سے بصیرت حاصل ہو جائے تو پھر کوٸی انسان یا ملک کسی کو دھوکہ اور فریب نہیں دے سکتا۔ہمارے  معاشرے کی اصل مشکل یہی ہے کہ یہاں لوگوں سے لے کر حکمرانوں تک،تنظیموں سے لے کر تحریکوں تک، نعروں سے لے کر خارجہ پالیسیوں تک ، ظاہر کچھ تو باطن کچھ اور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔عالمی طاقتیں جنہیں استعمار کہنا اسم بامسمّی ہے ان کے نعروں اور دعوؤں کی بھی یہی حالت ہے۔جوعوام کو دھوکہ دینے کے لیے  پرکشش نعرے اور دعوے رکھتے  ہیں مگر ان کے مقاصد انتہاٸی مذموم اور خطرناک ہوتے ہیں۔انہی نعروں اور وعدوں میں سے ایک ان کا علم دوست ،علم پرور اور دوسرے ممالک کو علمی و ساٸنسی میدان میں پیشرفت کے لیے تعاون کرنے کا دعویدار ہونا ہے۔اس دعوے کے اثبات کے لیے یہ ممالک دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کے کالج یونیورسٹیوں سے اسکالرشپ کے نام پر ذہین ، فطین، قابل اور محنتی افراد کو لےکر جاتے ہیں پھر ان میں سے غیر  معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو اپنی خدمت کے لیے ہرقسم کی سہولیات و آساٸشیں دے کر ہمیشہ کے لیے خرید لیتے ہیں۔ درحقیقت یہ ممالک دانش پرور نہیں بلکہ دانش کش ہوتے ہیں ۔علم دوست نہیں بلکہ علم دشمن ہوتے ہیں .انہیں  دانشور سے  زیادہ خدمت گزار کی ضرورت ہوتی ہے۔کوٸی بھی ملک ان کی فرعونیت و برتری کو قبول کیے بغیر ایٹمی پیشرفت میں مصروف ہو جائے  تو ان پر مختلف طریقوں سے پابندیاں لگائی جاتی ہے۔جنوبی کوریا ، چین ، ایران ، شام ،  لیبیا اور عراق کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ بالخصوص مسلم ممالک  کے دانشور علمی پیشرفت میں مصروف اور کامیابی کی طرف گامزن ہوں تو ایسے دانشوروں کو جو {کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں} انہیں بڑی بےدردی کے ساتھ مختلف انداز میں  جان سے مار دیتے ہیں ۔انہی عظیم دانشوروں میں سے ایک حالیہ دنوں شہید ہونے والے ایرانی ایٹمی ساٸنسدان شہید فخری زادہ بھی ہیں ۔
مختلف مسلم ممالک سے استعماری ممالک میں اعلٰی تعلیم کے لیے جانے والی شخصیات جب  واپس اپنے ملک میں جاکر کوٸی خدمت انجام دینا چاہیں تو انہیں خفیہ انداز میں یا تو موت کی آغوش میں سلادیا جاتا ہے یا پھر خفیہ مواد کے ذریعے قسطوں میں ماردیا جاتا ہے ۔ان دو طریقوں میں اگر کامیاب نہ ہوں تو ان کی شخصیت کو مسخ کردیا جاتا ہے۔ 
میں اپنے اس دعوی کو تاریخ کے آٸینے میں ثابت کر سکتا ہوں۔میں مانتا ہوں کہ کوئی بھی انسان اس حقیقت کا منکر نہیں کہ مغرب نے سائنسی ایجادات میں کافی پیشرفت کی ہے۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ مغرب کے جدید ایجادات میں قدیم مسلم سائنسدانوں کی ایجادات و نظریات کا بنیادی کردار ہے۔جن میں بابائے کیمیا جابرابن حیّان سے لےکر زکریا رازی، تک شامل ہیں۔ 
مگر 
اہم سوال یہ ہے کہ جدید سائنسی دور میں مسلم سائنسدانوں کی کوئی اہم  پیشرفت کیوں نہیں؟

اس کیلئے ہمیں اپنی غفلتوں اور سستیوں کے علاوہ عالم استعمار کی سازشوں سے آگاہی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔یہ ایک انتہاٸی اہم موضوع ہے جس پہ کٸی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر بدقسمتی سے اس پر ابھی تک کوٸی کتاب موجود نہیں۔مجھے عالمی استعماری طاقتوں کی ان سازشوں پر المصطفی یونیورسٹی میں فارسی زبان کورس کے اختتام پر ایک مقالہ لکھنے کا موقع ملا تو بہت اہم موضوع ہونے کے باوجود میرے اساتید کا یہ کہنا تھا کہ اس موضوع پر ابھی تک کوٸی باقاعدہ کتاب موجود نہیں البتہ کچھ مواد فارسی اور عربی سائنس پر  موجود ہیں ان سے حاصل ہونے والی انتہاٸی اہم معلومات میں سے کچھ اقتباسات جو  میرے مقالے کا حصہ تھے  آپ قارٸین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

 آئیں دیکھیں کہ استعمار نے کٸی جیّد مسلم سائنسدانوں کے ساتھ کیسا امتیازی سلوک کیا۔
1-سمیرہ موسٰی
 یہ مصر سے تعلق رکھنے والی ایٹمی سائنسدان ہیں ۔انہوں نے ایٹمی طاقت کو میڈیکل کے شعبے میں کیسے کام میں لایا جاسکتا ہے۔نیز ایٹمی طاقت سے بجلی پیدا کرنے پر بھی مختلف ایجادات اور تحقیقات کیں ۔مگر افسوس انہیں 1952ء میں امریکہ کے دورے کے دوران قتل کردیا گیا۔
2- حسن رمال
اس عظیم سائنسدان کا تعلق لبنان سے تھا کہتے ہیں کہ یہ علم فزکس کے میدان کا عظیم شہسوار تھا ۔انھوں نے 119 سے زائد سائنسی ایجادات و تحقیقات کی ہیں جو کہ مسلم و قبول شدہ ہیں۔ مگر اس عظیم مسلم سائنسدان کو 1991ء میں فرانس میں قتل کر دیا گیا۔
3- سمیرنجیب
یہ بھی مصر سے تعلق رکھنے والے ایٹمی سائنسدان تھے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کام کیا کرتے تھے جب انہوں نے مصر واپس جانے کا فیصلہ کیا تو اس کی سائنسی تحقیقات کو چوری کرلیا گیا پھر  انہیں 1967ء میں قتل کر دیا گیا۔
4- سعید بدیر
یہ بھی مصر سے تعلق رکھتے تھے اور میزائل ٹیکنالوجی کے شعبے میں ماہر تھے اور اس شعبے میں قابل قدر علمی تحقیقات کیں اور کافی عرصہ جرمن میں سٹیلائٹ فیلڈ میں خدمات انجام دیتے رہے پھر 1989ء میں اسے بھی خفیہ طریقے سے قتل کردیا۔

5- حسن کامل الصباح
لبنان سے تعلق رکھنے والے ماہر انجینئر تھے انہیں ”عرب کا ایڈیسن“ بھی کہا جاتا تھا الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں دو ہزار کے قریب ثابت شدہ ایجادات ہیں۔انہیں بھی 1935ء میں امریکہ میں قتل کردیا گیا۔

6-ڈاکٹرنبیل قلینی

مصر کا ہی ایک اور ایٹمی سائنسدان جنہوں نے یورینیم کو افزودہ کرنے کے حوالے سے قابل قدر تحقیقات کی ہیں۔1975ء میں ایسے غاٸب ہو گئے کہ ابھی تک کچھ بھی خبر نہیں ۔

7 - یحیٰ المشد
یہ بھی مصر کے ایٹمی سائنسدان تھے بلکہ مصر کے ایٹمی پروگرام کا سرخیل تھے اور انہیں عراق کے ایٹمی پروگرام کا بابا بھی کہا جاتا ہے۔ایٹمی ری ایکٹر کے بارے میں ان کے تقریباً پچاس بہترین تحقیقاتی مقالہ جات موجود ہیں انکو بھی 1980ء میں فرانس کے شہر پیرس میں قتل کر دیا گیا۔
8- سامیہ میمنی
سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی میڈیکل ڈاکٹر تھی انکی تحقیقات نے ہارٹ آپریشن کا  زاویہ بدل کر رکھ دیا اس سلسلے میں ایک آلہ بھی ایجاد کر لیا تھا مگر 2005ء میں قتل کر کے ان کے ایجاد کردہ آلہ اور دیگر مسودات کو چرا لیا گیا۔

9- سلوٰی حبیب
 یہ کویت سے تعلق رکھنے والی خاتون ساٸنسدان تھی انہوں نے عرب اور افریقہ کے بارے میں اسرائیل کی کئی سازشوں کوطشت از بام کیا تھا جس کی پاداش میں انکو اپنے ہی فلیٹ میں ذبح کر دیا گیا صہیونیوں کے اس ظلم و بربریت پہ حقوق  نسواں کے علمبردار آج تک خاموش ہیں اور خاموش ہی رہیں گے۔

10-ابراہیم الظاہر
 
ایک عراقی جوہری ساٸنسدان جو کینیڈا میں مقیم تھے۔سقوط بغداد کے بعد عراق واپس آئے اور دیالا یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے لگے مگر استعماری آلہ کاروں نے اپنے آقاٶں کے حکم پر 2004ء کو شہر یعقوبہ میں  شہید کیا۔

11- یحیٰ المشد

ایک مصری نژاد عراقی ساٸنسدان جنہیں پیریس کے دورے کے وقت خفیہ طریقے سے ان کے ہوٹل میں قتل  کردیا گیامعروف ٹی وی چینل الجزیرہ کے مطابق ایک یہودی تنظیم نے ان کو قتل کیا۔

12-محمد الزواری
 تیونس کے ایرو اسپیس انجینٸر جنہیں 2016ء  میں تیونس کے شہر سفاق میں قتل کیا ان پر اسراٸیل  کی طرف سے فلسطین کے القسام بریگئیڈ کے  لئے ڈرون بنانے کی  مدد کرنے کا الزام تھا۔

13-فادی البطاش
 ایک فلسطینی نوجوان ساٸنسدان تھے جو ملاٸشیا  یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ان پر بھی اسراٸیل کی جانب سے فلسطینی جہادی تنظیم حماس کے لیے ڈرون بنانے کا الزام تھا امسال چند ماہ قبل انہیں کوالالمپور میں صبح کے وقت حملہ  کرکے شہید کیا گیا۔

14-مصطفی احمدی روشن
 یہ ایران کے جوہری ساٸنسدان تھے  جنہیں 2012ء میں فاٸرنگ کر کے شہید کیا گیا۔

15-مسعود علی محمدی
یہ ایک اور ایرانی ساٸنسدان تھے جسے 2010ء میں شہید کیا گیا۔ایرانی ایجنسی نے ان کے قاتل کو گرفتار کر کے پھانسی دی یہ ماجد جمالی نامی ایک باکسر تھا جس نے قتل کے بدلے موساد سے ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر لینے کا اعتراف کیا تھا۔

16- فریدون عباسی

ایران کا واحد ایٹمی ساٸنسدان جو جان لیوا حملے میں زخمی ہوکر بچ گئے تھے جب یہ اپنی گاڑی میں جارہے تھے تو انہوں نے محسوس کیا کہ کسی باٸیک والے نے چلتی ہوٸی گاڑی کے ساتھ کچھ چپکاکر نکل گیا ہے ۔انہوں نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوۓ گاڑی فورا سڑک  کنارے روک کر بیوی کو باہر نکالنے لگے تو مقناطیسی بم پھٹ گیا تھا جس سے یہ اور انکی بیوی زخمی ہوۓ مگر شکر ہے زندہ بچ گٸے اور آج بھی بقید حیات اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

17-شہید ڈاکٹر محسن فخری زادہ 
فریدون عباسی کےعظیم شاگرد ایٹمی ساٸنسدان جنہیں کراۓ کے استعماری آلہ کاروں نے تہران کے مضافات میں بےدردی سے شہید کیا۔


واضح رہے کہ کسی بھی مسلم مرد یا خاتون ساٸنسدان یا دانشور کے قتل پر علم دوستی یا عورت کی تعلیم و آزادی کے دعویداروں نے کوٸی احتجاج یا مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا۔

پاکستان

ملک خداداد پاکستان کے دانشور حضرات بھی ہمیشہ صہیونی اور استعماری طاقتوں کی آنکھ میں کانٹا بنے رہے کٸی مایہ ناز  علما ٕ ڈاکٹر و دانشور ان کے آلہ کاروں کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں ہوتے رہے یا جسمانی و روحانی اذیت میں مبتلا رہے ہیں۔

1- ڈاکٹر عبدالقدیر خان

محسن پاکستان، فخر پاکستان ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 کو بھوپال میں پیدا ہوۓ ۔آپ نے برلن ، ہالینڈ اور بلیجیم کے یونیورسٹیوں میں اعلٰی ساٸنسی تعلیم حاصل کی۔31 مٸی 1976ء کو ذولفقار علی بھٹو کی دعوت پر پاکستان آۓ جس کا پاکستان کے نمبر ون ایجنسی آٸی ایس آٸی نے کسی کو کانوں کان خبر ہونے نہیں دیا۔البتہ جب چڑیاں چگ گٸی کھیت ، ہالینڈ کی حکومت نے ان پر اہم معلومات چرانے کا الزام لگا کر مقدمہ داٸر کیا جسے ساٸنسدانوں کی ایک ٹیم نے جاٸزہ لے کر رد کرنے کے بعد ہالینڈ کی عدالت نے آپ کو باعزت بری کیا تھا۔آپ نے دن رات ایک کر کے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا جو کہ صیہونی اور استعماری لابی کے لیے ناقابل برداشت تھا لہذا جنرل مشرف کے دور حکومت میں ملک پاکستان پر ایٹمی مواد دیگر ملکوں کو فراہم کرنے کا الزام لگایا تو محسن ملت نے اس الزام کو اپنے سینے سے لگالیا۔یوں ان کی شخصیت کو عالمی میڈیا پہ مسخ کر کے پیش کیا گیا۔خدا کے لطف و کرم اور مضبوط آٸی ایس آٸی کی بدولت آپ ابھی تک استعماری آلہ کاروں سے محفوظ و سلامت ہے۔خدا سدا سلامت رکھے۔

2-ڈاکٹر عافیہ صدیقی
 امریکہ میں مقیم پاکستانی خاتون ساٸنسدان 2 مارچ 1972 کو کراچی میں پیدا ہوٸی آپ  نے اعلٰی تعلیم امریکہ میں حاصل کرنے کے بعد وہاں نوکری کرنے کی بجاۓ پاکستان واپسی کو ترجیح دی  یوں 2002ء میں پاکستان واپس آٸی پھر دوبارہ امریکہ جاکر واپس آٸی تو ایف بی آٸی نے انہیں عالمی میڈیا پہ القاعدہ سے جوڑ لیا اس پر آپ کراچی میں روپوش رہی مگر 2008ء میں آپ کو کراچی سے یا افغانستان میں امریکی افواج نے تحویل میں لینے کے بعد باقاعدہ گرفتاری ظاہر کی اور آپ پر 9/11 کے واقعات سے متعلق دستاویزات اور طالبان کے لیے جوہری ہتھیار بنانے اور امریکی فوجی سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کے الزامات پر 23 ستمبر  کو نیویارک میں امریکی عدالت نے 86 سال کی قید کی سزا سناٸی ۔ تب سے آپ امریکی ریاست ٹیکسس میں واقع کارذویل جیل میں قید ہیں۔آپ تمام تر الزامات کو رد کر کے ان سب کو اپنے خلاف صہیونی سازش قرار دیتی ہیں۔

3- ارفع کریم رندھاوا

نو برس کی عمر میں ماٸکرو سافٹ سرٹیفاٸڈ پروفیشنل امتحان اعلٰی نمبروں سے پاس کر کے کم عمر ترین مائکرو سافٹویئر انجینٸر کا اعزاز جب حاصل کیا تو مائکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس نے خصوصی طور پر امریکہ بلاکر ملاقات کی ۔ امریکہ سمیت کٸی بیرون ممالک سے کام کی آفر ہوئی آپ جذبہ حب الوطنی کے سبب پاکستان میں خدمات انجام دینے کے لیے وطن واپس آئی۔کچھ عرصہ بعد پھر دعوت آنے پر امریکہ گٸی پھر واپس آئی مگر غیر متوقع طور پر سترہ سال کی عمر میں انتقال کرگٸی۔   
اس جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات ہیں جو باشعور مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے اور عالمی استعمار کے ناپاک عزاٸم کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔
ان کے علاوہ بھی  ایران ، عراق ، لبنان کے کئی سائنسدانوں اور دانشوروں کو خفیہ انداز میں شہید کیا جاچکا ہے۔ جنہیں خود جان سے نہیں مار سکے انہیں اپنے آلہ کاروں ، ڈالر کے پجاریوں کے ذریعے مارا گیا اس کی واضح مثال عظیم فلاسفر شہید باقر الصدر اور شہید مرتضٰی مطھری کی شہادت ہے اور شہید موسٰی الصدر کی گمشدگی ہنوز قابل غور ہے یہ یہود وہنود کے وہ ناپاک  عزائم ہیں جن کے خلاف کوئی نہ لکھتا ہے نہ بولتا ہے۔اسی وجہ سے مسلمانوں کا علمی میدان میں بہت نقصان ہوا ہیں ہے۔

مگر ہاں!
 اب بھی نہیں لگتا کہ کوئی مسلمان سائنسی میدان میں پیشرفت کرےگا چونکہ استعمار ہمارے اداروں سے ہمارے شارپ دماغ جوانوں کو اٹھا کر لےجاتے ہیں پھر انہیں ڈاکٹرعاطف کی مانند گمراہ کردیتے ہیں وگرنہ ڈاکٹرعاطف جیسوں کا امریکہ جانے کے بعد قادیانی ہوجانا قابل غور ہے۔
ان مسلم دانشوروں اور سائنسدانوں کے اصل قاتل کون ہیں؟  مسلم سائنسدان اور دانشور کیوں قتل ہو جاتے ہیں؟  کیوں غائب ہوجاتے ہیں؟  المصطفٰی جیسی انٹرنیشنل یونیورسٹی پہ پابندی کیوں لگی جہاں ایک سو بیس سے زائد ممالک کے طلاب مختلف علوم حاصل کر رہے ہیں؟
یہ وہ سازشیں ہیں جنکے زریعے استعمار واستکبار مسلمانوں کو سائنسی پیشرفت  وترقی سے دور اور اپنے زیردست رکھنا چاہتے ہیں ۔خدا تمام مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

آخر یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں آنا چاہیے کہ کیوں مسلم دانشور اغواء اور قتل ہوتے رہتے ہیں؟
کیوں ہمارے دانشوروں کے لیے مسلم ممالک قتل گاہ جبکہ یورپی ممالک پناہ گاہ بن رہے ہیں؟
کیوں ہماری درسگاہوں سے ذہین و فطین لوگوں کو اسکالرشپ کے نام پر لے جاکر وہیں زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں؟واپس پلٹنے والوں کو مغربی ثقافت اپنانے کی تلقین کی جاتی ہے؟
حوالہ{قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ}
ہمارے ہزاروں شیعہ سنی علما ٕ کرام ، ڈاکٹرز ، انجینیٸرز وکیل اور اعلٰی افسران اپنے ہی ملکوں میں کیوں قتل ہوتے ہیں؟ آٸیں سوچیں سوچنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔؟

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .