۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید محمد حسنین باقری

حوزہ/ ہمیشہ ہی مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے دوسرے گروہ کو مبانی و بنیاد جدا ہونے کی وجہ سے یا ایک دوسرے کے مبانی سمجھ نہ پانے کی وجہ سے کافر قرار دینے کی وجہ سے امت مسلمہ کو بہت سے ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا سید محمد حسنین باقری، لکھنؤ

حوزہ نیوز ایجنسی | دین اسلام،  پوری انسانیت کی نجات چاہتا ہے، ’’قولوا لاالہ الا اللہ تفلحوا‘‘ (پیغمبرؐ کا فرمانا کہ: ’اللہ کو مانو تاکہ تم سب فلاح پاجاؤ‘)کا مقصد ہی یہ تھا کہ تمام انسان فلاح و کامیابی کا راستہ پاجائیں۔ جب اس کائنات کا خالق وہی خدائے واحد ہے تو اس نے اپنی مخلوق کی فلاح و کامیابی اور نجات کے لیے اپنی جانب سے جو راستہ بتایا اسے انبیاء لیکر آئے جس کی تکمیل آخری نبی ﷺ پر ہوئی اور اسکا نام اسلام قرار پایا۔ دین اسلام کے حقیقی رہنما اور رہبر یعنی نبی و آل نبی علیہم السلام چونکہ خدا کی طرف سے معین ہوئے اس لیے انھوں نے بھی پوری انسانیت کی فکر کی لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مذہب تمام انسانوں کی بھلائی چاہتا ہے اور تمام انسانوں کو اتحاد و بھائی چارہ، محبت و یگانگی کا پیغام دیکر ایک ہی راستہ کا پابند بنانا چاہتا ہے اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے ’’ولا تفرقوا‘‘ کہہ کر آپس میں اتحاد و بھائی چارہ کو لازم و ضروری قرار دیتا ہے تاکہ وہ حقیقی معنی میں ریسمان الٰہی سے وابستہ ہوسکیں۔ اسلام، مسلمانوں کے درمیان ہرگز اختلاف و دشمنی کو پسند نہیں کرتا۔ پیغمبر اکرمﷺ کا طریقہ ہم کو یہی نظر آتا ہے کہ آپؐ نے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کے لئے کوششیں کیں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف و دشمنی کو روکنے کے لئے کوشش کے ساتھ ہر طرح کی قربانی بھی دی ہے۔ لہذا ہر دور کی طرح آج بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و دشمنی کسی فرد یا شخص کے لئے ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ 
البتہ حقیقی اسلام کے ہمدردوں کے برخلاف ہمیشہ دشمنان اسلام نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے، دوریاں پیدا کرنے کی ہر ممنکہ کوششیں کی ہیں۔ جس کی تاریخ شاہد ہے۔ اس کوشش کا ایک نمونہ قرآن و تعلیمات اسلامی کے برخلاف مسلمانوں کی ’’تکفیر‘‘ ( کسی مسلمان پر کافر ہونے الزام لگانا) ہے۔ یہ ایک ایسی وبا ہے جس نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا اور اسلام کا چہرہ بھی داغدار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جن مسائل کے سلسلے میں تاکید ہوئی ہے ان میں سے ایک، مسلمانوں کی عدم تکفیر ہے۔ یعنی قرآن کریم نے سختی سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کو بغیر وجہ و سبب کے کافر قرار دیا جائے۔قرآن نے اس سلسلے میں مسلمانوں کے سامنے راستے اورطریقے بیان کئے ہیں جن کے ذ ریعہ مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کی جاسکے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ جو اظہار اسلام کررہا ہو اس کو کافر قرار دینے میں جلد بازی نہ کریں۔ دوسروں کے اسلام میں شک نہ کریں۔ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے دونوں گروہوں کو ’’مسلمان‘‘ کہہ کر پیش کرنا، نزاع و اختلاف کی صورت میں دو گروہوں کے درمیان اصلاح کا حکم دینا اور مسلمان کے خون کو با عظمت قرار دینا، یہ سب تکفیر کو ختم کرنے اور اس کے علاج کے راستے ہیں جنہیں قرآن نے پیش کیا ہے۔درج ذیل مضمون جو حجۃالاسلام آقای وحید خورشیدی(قم) کے مقالہ کے ترجمہ اور اس سے استفادہ پر مشتمل ہے اس میں کوشش کی گئی ہے کہ آیات الٰہی میں غور و فکر کے ذریعہ تکفیریت کی وبا کو ختم کرنے اور اس کے علاج کےلئے قرآنی راستہ بیان کیا جائے تاکہ دشمان اسلام کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے انھیں انکی کوشش میں ناکام کرتے ہوئے خوشنودیٔ خدا و رسولؐ حاصل کی جائے۔
مقدمہ:
تاریخ اسلام میں ایسے افراد اور گروہ پائے گئے ہیں جنہوں نے اپنے مخالفین کو بے جا کافر قرار دیا ہے اور معمولی سبب سے ان کو دین اسلام سے خارج قرار دیتے ہوئے ان کے واجب القتل ہونے تک کا حکم صادر کیا ہے۔ ہمیشہ ہی مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے دوسرے گروہ کو مبانی و بنیاد جدا ہونے کی وجہ سے یا ایک دوسرے کے مبانی سمجھ نہ پانے کی وجہ سے کافر قرار دینے کی وجہ سے امت مسلمہ کو بہت سے ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔ اسلام کی نظر میں ہر وہ شخص مسلمان ہے جو زبان پر شہادتین جاری کرے۔ چاہے باطن میں دوسرا عقیدہ رکھتا ہو۔ شریعت اسلامی کی بنیا دپر ہرگز صحیح نہیں ہے کہ اسلامی فرقہ یا امت اسلامی سے وابستہ کسی شخص کو بغیر دلیل کے کافر قرار دیا جائے جب تک کہ شہادتین کا اعتراف کررہا ہے اور ضروریات دین میں سے کسی ضرورت کا انکار نہیں کررہا ہے۔ اسی وجہ سے اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اس خطرناک اور مخرب دین وبا یعنی کسی مسلمان کو کافر قرار دیئے جانے کا علاج اور اس وبا کو ختم کرنے کا طریقہ قرآن کی روشنی میں بیان کیا جائے اور یہ بیان کیا جائے کہ قرآن اس وبا کا کس طرح مقابلہ کرتا ہے۔ اور چونکہ یہ تکفیری گروہ اپنے کو تو بزعم خود مسلمان سمجھتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں لہٰذا سب کے سامنے یہ و اضح ہوجائے کہ اس گروہ کا یہ طریقہ قرآن اور حقیقی اسلام کے برخلاف ہے خاص اس موضوع سے متعلق مختلف عناوین مثلاً تکفیر قرآن و سنت کی روشنی میں پیش تو کئے گئے ہیں لیکن زیادہ تر کلی گوئی سے کام لیا گیا ہے لیکن اس مقالہ میں آیات کو جزئی صورت میں البتہ مزید دقّت اور باریکی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاکہ یہ موضوع قابل استفادہ ہوجائے۔ اس مقالہ میں موضوع اس طرح آگے بڑھایا گیا ہے :
 تکفیر کے لغوی و اصطلاحی معنی۔ تکفیر کا علاج اور اس سے نجات پانے کا قرآنی راستہ۔ تکفیر کا حق کس کو ہے؟ اور آخر میں تکفیریوں بالخصوص وہابیوں کی قرآن کی مخالفت کو بیان کیا گیا ہے۔ 
لغت و اصطلاح میں تکفیر:
کلمۂ تکفیر مصدر ہے باب تفعیل کا، جو مادّہ کفّر یکفّر سے لیا گیا ہے۔ اس کا ثلاثی مجرد ’کفر‘ ہے جیسا کہ المفردات میں آیا ہے کہ کفر لغت میں کسی چیز کے چھپانے کے معنی میں ہے رات کو کافر کہتے ہیں اس لئے کہ لوگوں کو چھپاتی ہے۔کسان کو کافر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ دانے کو زمین میں چھپاتا ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ :
 کفرِ نعمت یہ ہے کہ نعمت پر شکر ادا نہ کیا جائے یہ اس کو چھپانا ہے۔ سب سے بڑا کفر، خداوند عالم کی وحدانیت یا نبوت کا انکار ہے۔ 
( المفردات غریب القرآن راغب اصفہانی جلد ۱ ص ۴۳۳)
 زبیدی اور جوہری نے کفر کے معنی ایمان کی ضد کے بیان کئے ہیں اور تکفیر کا مطلب تواضع و فروتنی اور کسی چیز کو محو کرنا اور ختم کرنا بیان کیا ہے۔ 
(تاج العروس ، محمد مرتضیٰ زبیدی ، جلد ۱۴ ص ۵۰ الصحاح ، جوہری ۴۲۔ ص ۸۰۷)
زبیدی نے تکفیر کے ایک معنی ’’ دوسرے کو کافر سمجھنا‘‘ بیان کیا ہے۔ : وکفرہ تکفیراً : نسبہ الی الکفر۔ (ص ۴۵۶) 
کتاب معجم اللغۃ العربیہ المعاصر کے الفاظ یہ ہیں: ’’ کفّر الشخص : کفّرہ : حملہ علی الکفر و نسبہ الیہ و قال لہ کفرت ‘‘ ۔
(معجم اللغۃ العربیہ المعاصر ، احمد عبد الحمید عمر ، جلد ۳ ص۱۹۴۳) 
کسی شخص کی تکفیر یعنی اس کو کافر سمجھنا یا اس کی طرف کفر کی نسبت دینا یا اس سے کہنا کہ تم کافر ہوگئے ہو۔ 
وہ آگے لکھتے ہیں: 
جن لوگوں کو تکفیر ی جماعت کہا جاتا ہے یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ شدت پسند افراد ہیں جو اہل معصیت و گنہ گار شخص کو کفر سے متہم کرتے اور بہت سے لوگوں کو تکفیر اور قتل کرتے ہیں۔ 
(سابق، ص ۱۹۴۴)۔
عبد المنعم نے بھی مادہ تکفیر کے ذیل میں لکھا ہے : 
تکفیر کا مطلب ہے کسی اہل قبیلہ کی طرف کفر کی نسبت دینا ۔
(معجم المصطلحات والالفاظ الفقہیہ ، محمود عبد المنعم ، جلد ۱ ص ۴۸۷) 
کفر کے جو معانی بیان کئے گئے ہیں ان میں سے جب بطور مطلق استعمال کیا جائے تو اکثر ایمان کی ضد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیساکہ ملا علی قاری نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
 (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، بدر الدین عینی ک جلد ۱ ص ۲۱۶)
ایجی نے بیان کیا ہے کہ اصطلاح میں کفر کا مطلب ہے ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار اور پیغمبر ﷺ کی عدم تصدیق ۔ 
( المواقف، عضد الدین ایجی ، جلد ۳ ص ۵۴۴)
 ابن حزم نے بھی لکھا ہے:
 دین میں کفر کا مطلب خدا نے جس چیز پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے اتمام حجت کے بعد اس کا انکار کرے۔
 (الاحکام فی اصول الاحکام ، علی بن الحزم جلد ۱ ص ۴۹)
ابن تیمیہ بھی اسی عقیدہ کے قائل ہیں کہ کفر سے مراد خدا و رسول پر عدم ایمان ہے۔
 (کتب و رسائل و فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ابن تیمیہ جلد ۱۲ و ۳۳۵)
 انہوں نے دوسری جگہ پر کفر کا مطلب ضروریات دین اور احکام متواتر کا انکار بیان کیا ہے۔
 (سابق، جلد ۱ ص ۱۰۶)
 اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں کہ :
 کفر سے مراد یہ ہے کہ رسو ل خداﷺ نے جس بات کی خبر دی ہے اس کو جھٹلانا اور صداقت پیغمبرﷺکے یقین کے ساتھ ۔۔۔۔  یہود و غیرہ کی طرح آنحضرتﷺ کی پیروی نہ کرنا۔
 (درء تعارض العقل والنقل ابن تیمیہ، جلد ۱ ص ۲۴۲) 
فخر رازی کہتے ہیں: 
کفر کا مطلب عدم ایمان ہے یعنی جن ضروریات کو پیغمبر ﷺ لائے ان کی تصدیق نہ کرنا  ہے۔ 
(شرح المقاصد فی علم الکلام ، سعد تفتازانی ، جلد ۲ ص ۲۶۷)
 ابن الوزیر نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
 اصل کفر یہ ہے کہ کتاب خدا میں سے کسی بات یا کسی پیغمبر ﷺ کی تکذیب کرنا یا جو چیزیں انبیاء لائے ہیں ان کی تکذیب کرنا البتہ اس وقت کہ جب وہ چیز بطور معین ضروریات دین میں سے ہو۔
 (ایثار الحق علی الخلق فی رد الخلافات الی المذہب الحق من اصول التوحید محمد بن وزیر ، جلد ۱ ص ۳۷۶) 
لہٰذا اصطلاح میں کفر کا مطلب ہوا خدا ورسول پر ایمان نہ لانا، ضروریات دین کا انکار کرنا ہے۔ علمائے اہل سنت کی اس تعریف کی روشنی میں جو شخص منکر خدا و نبوت نہ ہو اور ضروریات دین کا انکار نہ کررہا ہو وہ کفر کے دائرہ سے خارج ہے۔ تکفیر کا مطلب بھی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان کو کافر سمجھے۔ 
پہلا حصہ:
دوسروں کے اسلام میں تامّل اور عدم شک:
(الف) دوسر وں کے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کرنا۔ 
تکفیر کی بیماری کو ختم کرنے کےلئے قرآن کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس نے مومنین کو حکم دیا ہے کہ دوسروں کے اسلام کے بارے میں حکم لگانے میں جلد بازی نہ کریں اور یہ حکم جنگ کے موقع پر نازل ہوا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّـهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ۔
(سورہ نساء،آیت ۹۴)
 ترجمہ :’’ایمان والو جب تم راہِ خدا میں جہاد کے لئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں- آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی کافر تھے- خدا نے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا(اور دل چیرنے کی شرط نہیں لگائی) تو اب تم بھی اقدام سے پہلے تحقیق کرو کہ خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔‘‘
  روایات و تفاسیر میں اس آیت کے سلسلے میں متعدد شان نزول ذکر ہوئے ہیں جو آپس میں شباہت رکھتے ہیں۔ جس میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے جنگ خیبر سے واپسی پر اسامہ بن زید کو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ان یہودیوں کی طرف بھیجا جو فدک کے ایک گاؤں میں رہتے تھے تاکہ ان یہودیوں کو اسلام یا شرائط ذمی قبول کرنے کی دعوت دیں ۔ ایک یہودی جس کا نام مرداس تھا، جب وہ لشکر اسلام کے آنے سے مطلع ہوا تو اس نے اپنے مال و اولاد کو ایک پہاڑ کے پاس چھپا دیا اور خدا کی وحدانیت اور پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی گواہی دیتے ہوئے مسلمانوں کے استقبال کے لئے آگے بڑھا۔ اسامہ بن زید نے سوچا کہ یہ یہودی جان و مال کے خوف سے اظہار اسلام کررہا ہے اور باطن میں مسلمان نہیں ہے یہ خیال کرکے اس پر حملہ کیا اور اس کو قتل کردیا اور اس کی بھیڑیں غنیمت کے طور پر لے لیں۔ جب پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ 
(تفسیر البغوی ، حسین البغوی جلد ۱ ص ۴۶۶۔ تفسیر القرطبی، محمد قرطبی جلد ۵ ص ۳۳۶) 
اس آیت میں غور و فکر کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی کو کافر کہنے کے سلسلے میں چاہے وہ پہلے کافر ہی رہا ہو یا یہ کہ باطن میں کافر ہو اور بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے زبان پر شہادتین جاری کررہا ہو ، جلد بازی نہ کرے بلکہ اس کی بات کو مانا جائے۔ 
اہل سنت کے مشہور مفسر طبری نے اس آیت کو جنگ کے زمانے سے مخصوص جانا ہے اور اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ دوسروں کو کافر قرار دینے میں جلد بازی نہ کرنا چاہئے۔ 
[(اذا ضربتم فی الارض )یقول اذا سرتم مسیر اللہ فی جہاد اعدائکم ( فتبینوا) بقول فتانوا فی قتل من اشکل علیکم امرہ فلم تعلموا حقیقۃ اسلامہ ولا کفرہ ولا تعجلوا فتقتلوا من التبس علیکم امرہ ولا تتقدموا علی قتل احد الا علی قتل من علمتموہ یقیناً حربا لکم وللہ و لرسولہ ]
(تفسیر الطبری ، محمد طبری جلد ۵ ص ۲۲۱)
جس وقت تم راہ خدا میں قدم اٹھا رہے ہو یعنی جس وقت تم خدا کے لئے دشمنوں کے ساتھ جہاد کے راستے میں ہو تو تحقیق و جستجو کرو۔ یعنی جس شخص کے بارے میں حقیقت تمہارے لئے واضح نہ ہو اور تم کو معلوم نہ ہو کہ آیا اس نے واقعاً اسلام قبول کیا ہے یا کافر ہے تو اس کے قتل میں جلد ی نہ کرو صرف اسی کو قتل کرنے کا حق ہے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ تمہارے ساتھ رسول اور خدا کے ساتھ جنگ کا ارادہ رکھتا ہے۔ 
البتہ انہوں نے مطلب کی وضاحت کےلئے ’’ فتبینوا‘‘ کے لفظی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کا مطلب تانّی یعنی تأمّل و درنگ اور جلد بازی نہ کرنا بیان کئے ہیں۔ 
(سابق، صفحہ ۲۲۵)
بیضاوی نے بھی یہی تفسیر کی ہے اور ان کا نظریہ ہے کہ فتبینوا سے مراد اس شخص کے سلسلے میں حکم لگانے و فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرنا ہےجو جنگ میں اظہار اسلام کرے ۔
(تفسیر البیضاوی ، ناصر الدین بیضاوی ، جلد ۲ ص۲۳۷)۔
 اور آگے لکھتے ہیں:ولاتبادروا الی قتلھم ظنابانھم دخلوا فیہ اتقاء و خوفاً فان ابقاء الف کافر اھون عند اللہ من قتل امریٔ مسلم و تکریرہ تاکید لتعظیم الامر۔
(سابق)
اس خیال سے کہ وہ خوف و تقیہ کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں تم ان کے قتل میں جلد بازی نہ کرو اس لئے کہ خداوند عالم کے نزدیک کسی ایک مسلمان کے قتل ہونے سے ہزار کافروں کا باقی رہنا آسان تر ہے اور جملہ ’’ فتبینوا‘‘ کی تکرار اس بات کی عظمت کو بیان کررہی ہے۔ 
غزالی نے بھی مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں جلدی نہ کرنے کے سلسلے میں کہا ہے :
 سزا وار ہے کہ تکفیر سے اجتناب کیا جائے اس لئے کہ اس مسلمان کے خون کو مباح سمجھنا جو توحید کا اقرار کرتا ہو، اشتباہ و غلطی ہے اور ہزار کافروں کے باقی رہنے کا اشتباہ ایک مسلمان کے خون بہائے جانے سے آسان تر ہے۔
(نیل الاوطار من احادیث سید الاخبار شرح منتقی الاخبار، محمد شوکانی جلد ۷ ص۳۵۳)۔
( ایک مسلمان کی جان بچ جائے بہتر ہے چاہے ہزار کافروں کی جان بخشی کی نتیجے میں ہو۔)
 وہابیوں کے قابل اعتماد مفسر ناصر سعدی بھی جملہ ’’ فتبینوا‘‘ کی تفسیر میں کہتے ہیں : جب کوئی شخص دشمنان خدا کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو او ران سے مقابلے کے لئے نکلے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس شخص کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے جو کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور اس بات پر قرینہ بھی موجود ہو۔ جو جنگ کے موقع پر اپنی جان بچانے کے لئے اسلام ظاہر کرے تو آیت کہتی ہے کہ اس کے بارے میں جستجو کی جائے تاکہ حقیقت واضح ہوجائے اور اشتباہ نہ ہو۔  
(تفسیر السعدی ، عبد الرحمان ، سعدی ، جلد ۱ ص۱۹۵)
اسی طرح وہ دوسری جگہ اس آیت کے ذیل میں دوسروں کے سلسلے میں کفر کا حکم لگانے میں جلدی نہ کرنے کے فائدے بیان کرتے ہوئے معتقد ہیں کہ اس سلسلے میں تامل کرنا بہت سے فائدوں کا سبب اور بڑے شر کے دفع ہونے کا سبب ہے۔ اس کام سے اس شخص کا دین معلوم ہوجائے گا یہ برخلاف اس کے کہ اس بارے میں حکم لگانے میں جلدی کرو اس لئے کہ جلد بازی میں نوبت یہاں تک آتی ہے جو نامناسب ہے۔ 
(سابق، صفحہ۱۹۴)
 فخر رازی بھی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں : اس آیت کا مقصود مومنوں کے قتل کے حرام ہونے میں مبالغہ و شدت حرمت اور ان کے قتل کو ترک میں بھی مبالغہ اور سخت مناہی ہے تاکہ ناحق خون ضعیف تاویل کی وجہ سے نہ بہایا جائے۔
(التفسیر الکبیر او مفاتیح الغیب فخر الدین رازی، جلد ۱۱ ۔ ص۳)
 آیت میں غور و فکر اور اس کے سلسلے میں مفسرین کے آراء و نظریات کو سامنے رکھنے کے بعد بخوبی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کس طرح خداوند عالم نے دوسروں کی تکفیر اور ان پر بے جا کافر ہونے کا حکم لگانے میں تامّل کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ بھی بدترین موقع پر یعنی جنگ کے موقع پر جہاں جھوٹ و فریب کا امکان پایا جاتا ہے لیکن خداوند عالم ایسے موقع پر بھی حکم دیتاہے کہ جو شخص اسلام ظاہر کررہا ہو اس کے بارے میں جلد بازی نہ کرو۔ اور اس کو کافر نہ گردانو۔ جیسا کہ قرطبی نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ فقہ میں ظاہر پر حکم لگانا معیار و ملاک قرار پاتا ہے نہ کہ باطن پر۔
(الجامع الاحکام القرآن ، محمد قرطبی ، جلد ۵ ص۳۳۹)
 اس بات کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ آیت کے آخر میں جلدی نہ کرنے کی تکرار ہوئی ہے!!! فتبینوا ان اللہ بما تعملون خبیرا ‘‘
 گویا خداوند عالم کا اس جانب اشارہ ہے کہ تکفیر کا حکم بہت خطرناک ہے۔ کسی شخص کے اسلام کا انکار جائز نہیں ہے جب تک کہ اس کے کافر ہونے پر کوئی قطعی دلیل نہ ہو۔ روایات بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ مثلاً اسامہ بن زید کہتے ہیں : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو قبیلۂ حُرقات کی جانب روانہ کیا۔ صبح ہم نے ان پر حملہ کیا اور ان کو شکست دی۔ میں اور ایک انصاری ایک شخص کے پاس پہنچے جب ہم اس پر مسلط ہوگئے تو اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا۔ انصاری نے تو ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اس پر اتنے نیزے مارے کہ وہ مرگیا جب ہم مدینہ واپس آئے اور آنحضرتؐ تک بات پہنچی ۔ آپؐ نے فرمایا : اے اسامہ جب اس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا تھا  اس کے بعد بھی تم نے اسے قتل کردیا؟
میں نے کہا : اس نے جان بچانے کے لئے گواہی دی تھی۔ پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جملہ کی اتنی تکرار فرمائی کہ میں نے آرزو کیا کہ کا ش اس سے قبل میں مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
 (صحیح البخاری ، محمد بخاری ، جلد ۴، ص۱۵۵۵)
 (ب) دوسر وں کے اسلام میں عدم شک :
 تکفیر کی وبا کو ختم کرنے اور اس کے علاج کا ایک راستہ قرآن کی نظر میں یہ ہے کہ دوسروں کےاسلام میں شک نہ کیا جائے اور حتیٰ جنگ کے موقع پر بھی ان کے کفر کا حکم نہ لگایا جائے۔ قرآن اس سلسلے میں بیان کرتا ہے : وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۔
(سورہ نساء، آیت۹۴)۔
جو شخص اسلام و صلح کا اظہار کرے اس سے  یہ نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ 
اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب کوئی اظہار اسلام کرے تو واجب ہے کہ اس کی بات قبول کی جائے اور اس کو کافر نہ سمجھا جائے۔ اور اس آیت کے اطلاق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو اسلام کا دعوی کررہا ہے اس کےدعوے کو تقیہ یا خوف پر بھی حمل نہ کیا جائے بلکہ اس کے اس قول کو کہ میں مسلمان ہوں، بغیر قید و شرط کے قبول کیا جائے ۔ 
فخر رازی نے بھی اسلام کے معنی بیان کرنے کےذیل میں بیضاوی ہی کی بات کو پیش کیا ہے۔ 
اسلام کےد ومعنی ہیں: پہلے یہ کہ اسلام کا مطلب مسلمانوں پر تحیت ہے یعنی جب کوئی تم کو سلام کرکے سلام تحیت کہے تو یہ نہ کہو کہ اس نے پناہ حاصل کرنے کے لئے یہ جملہ کہا ہے اور ایسا نہ ہو کہ اس کی بات قبول نہ کرتے ہوئے اس پر تلوار اٹھالو اور اس کے مال پر قبضہ کرلو۔ بلکہ اس سلسلے میں اس سے دست بردار ہوتے ہوئے جو اس نے ظاہر کیا ہے اس میں اس کی بات قبول کرو۔ اور اسلام کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جوجنگ میں تم سے کنارے ہٹ جائے تو اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ 
(التفسیر الکبیر ، فخر الدین رازی، جلد ۱ص۳)
طبری نے سورہ نساء کی آیت کے اس حصے کے ذیل میں جو شخص اظہار اسلام کرے اس کے ساتھ جنگ نہ کرنے کو بیان کیا ہے: ولاتقولوا لمن استسلم لکم فلم یقاتلکم مظہراً لکم انہ من اھل ملتکم و دعوتکم لست مومناً۔
(التفسیر الکبیر ، فخر الدین رازی، جلد ۱ص۳)۔
جو تمہارے سامنے تسلیم ہوجائے اور تم سے جنگ نہ کرے اور یہ ظاہر کرے کہ میں تمہارا دین رکھتا ہوں تو اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ 
 شوکانی نے آیت کے اس حصے کی بہت اچھی تفسیر کی ہے :’’ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ ۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس آیت میں نہی سے مرادکافر اپنے اسلام کے بارے میں جس چیز سے استدلال کرے اس میں مسلمانوں کو مسامحہ سے روکنا ہے نیز مسلمانوں کو اس بات سے روکنا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ کافر کا اسلام ظاہر کرنا پناہ حاصل کرنے اور  تقیہ کے لئے تھا۔
(فتح القدیر الجامع بین فنی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر محمد شوکافی جلد ۱ ،ص۵۰۱)
لہٰذا اس آیت کے مطابق دو سروں کے بارے میں اسلام کا حکم لگانے میں اصل ظاہر ہے نہ کہ باطن یعنی کسی شخص کے کفر سے نکلنے کےلئے تظاہر بہ اسلام یعنی اپنے کو مسلمان ظاہر کرنا کافی ہے۔ 
جیسا کہ علمائے اہل سنت اسی اصل کو قبول کرتے ہیں اور اس پر تاکید کرتے ہیں۔ شاطبی نے کتاب الموافقات میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے : احکام میں اصل و بنیاد ظاہر پر حکم ہے جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ باوجودیکہ وحی کے ذریعہ منافق و غیر منافق کو جانتے پھر بھی ظاہر کے مطابق عمل کرتے تھے۔ 
(الموافقات فی اصول الفقہ ابراہیم شاطبی ، جلد ۲، ص ۲۷۱)۔
دوسرا حصہ :
 ایمان کی توصیف اور ایمانی بھائی چارہ کی تاکید 
الف:افراد اور سماج و معاشرہ کو منحرف ہونے سے محفوظ رکھنے اور اس انحراف کے علاج کےلئے قرآن کا ایک طریقہ اصلی و حقیقی ایمان کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ خداوند عالم نے مسلمانوں کے ان گروہوں کو اہل ایمان کہا ہے جو آپس میں جنگ کی حالت میں ہیں:
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿١٠﴾ ۔
(سورہ حجرات ، آیت ۹و۱۰) 
ترجمہ: اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کردو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔
ان آیات کا شان نزول مدینہ کے دومشہور قبیلوں یعنی اوس و خزرج کے درمیان نزاع و اختلاف ہے۔ 
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس آیت میں مسلمانوں کا آپس میں لڑنا جو کہ گناہان کبیرہ میں سے ہے ان کے دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا سبب نہیں ہے۔
(شرح لاعقیدہ الطحاویہ ، سفر بن عبد الرحمن موالی ، ص۴۲) 
بخاری بھی اس آیت و دوسری آیات کی روشنی میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایک شخص گناہ کرنے کی وجہ سے اگر چہ وہ گناہ بڑا ہو پھر بھی دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
(تفسیر القرآن العظیم، اسماعیل ابن کثیر جلد ۴ ص ۲۱۲)
 ثعلبی بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ آیات دلات کرتی ہیں کہ ’’ بغی‘‘(ظلم و زیادتی کرنا) ایمان کو ختم نہیں کرتا ہے اس لئے کہ خداوند عالم نے ان لوگوں کو گرچہ اہل بغی ہیں، ایمانی بھائی کہا ہے۔
(الکشف والبیان ( تفسیر الثعلبی ) ، ابو اسحاق احمد ثعلبی ، جلد ۹، ص۷۹)
ابن قدامہ نے بھی ان آیات کے ذیل میں پانچ فائدے ذکر کئے ہیں پہلا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کریم ان مسلمانوں کو جو آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کی حالت میں ہیں اور اہل بغی ہیں، ایمان سے خارج نہیں کیا ہے اور ان کو مومن کہا ہے۔
( المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی ، ابن قدامہ مقدسی ، جلد ۹، ص ۳)
عینی نے بھی اس آیت کے ذیل میں اشارہ کیا ہے کہ خداوند عالم نے اہل قتال کو مومن قرار دیا ہے اور دائرۂ ایمان سے خارج نہیں کیا ہے۔  
(عمدۃ القاری شرح البخاری ، بدر الدین عینی ، جلد ۱ ص۲۰۹)
البانی بھی اس آیت کے ذیل میں اہل بغی کے کافر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
 خداوند عالم نے اس آیت میں تجاوز و زیادتی کرنے والے گروہ کو جو مومن اور صاحبان حق کے ساتھ جنگ کرے، اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا ہے۔
 ( فتنۃ التکفیر ، ناصر الدین البانی ، ص۲۷)
ابن باز نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مومنین کا آپس میں جنگ و جدال کرنا ان کو ایمان کے دائرہ سے باہر نہیں کرتا ہے اگر چہ ان کے ایمان کے کمزور و ضعیف ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ 
(مجموع فتاویٰ العلامۃ عبد العزیز بن باز، عبد العزیز بن باز، جلد ۲، ص ۱۹۴)
البتہ اہل سنت کی روایات میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہ جو آپس میں جنگ کی حالت میں ہوں ان دونوں گروہوں کو مسلمان کہا گیا ہے اور ان پر مسلمان ہونے کا اطلاق ہوا ہے مثلاً یہ روایت جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ ولیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
ابنی ھذا سید و لعل اللہ ا ن یصلح بہ بین فئتین من المسلمین ۔
 (صحیح البخاری ، محمد بخاری، جلد ۳، ص ۱۳۲۸)
میرا یہ بیٹا ( حسن مجتبیٰؑ) سید و سردار ہے، امید ہے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں ( لشکر امام حسنؑ و لشکر معاویہ) کے درمیان صلح برقرار کرے۔ گویا خداوند عالم نے ان دوگروہوں کے جو جنگ و جدال کی حالت میں ہیں، ایمان کی نفی نہیں کی ہے اور کسی کو کافر قرار نہیں دیا ہے بلکہ ذکر کیا ہے کہ وہ اہل ایمان ہیں اور یہ ایمان ہے جو ان کے درمیان صلح کا سبب قرار پائے گا۔ اس لئے کہ ایک گروہ کافر ہوتا تو صلح کے کیا معنی تھے۔ لہٰذا اس قرآنی منطق اور قرآنی روش و طریقےکی روشنی میں مسلمانوں کو چاہئے کہ کسی دوسرے مسلمان کی تکفیر نہ کریں اور کسی مسلمان کو کافر قرار نہ دیں اس لئے کہ خداو ند عالم نے جنگ کرنے والے مسلمانوں کو بھی اہل ایمان میں شمار کیا ہے۔ 
ایک اعتراض کا جواب: 
ہوسکتا ہے کہ یہاں پر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعض صحیح روایات میں مسلمانوں کے آپس میں جنگ و قتال کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے لہٰذا ایسی صورت میں ان روایات کو ان آیات کے ساتھ جو اہل قتال کو مومن قرار دیتی ہیں کس طرح جمع کیا جائے؟ مثلاً پیغمبر اسلا م صلی اللہ ولیہ و آلہ و سلم کی حدیث شریف میں ذکر ہوا ہے کہ سباب المسلم فسوقٌ و قتالہ کفر۔ 
(سابق،جلد ۱، ص۲۷) 
مسلمان کو برا بھلا کہنا، گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ جنگ و قتال کفر ہے۔ 
 اسی طرح دوسری روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ ولیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : 
لاترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض ۔
(جلد ۴، ص۱۵۹۹) 
میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔
اس شبہہ کا جواب یہ ہےکہ:
 اولاً ان روایات میں اور اس طرح کی روایات میں کفر سے مراد، کفر اصغر ہے جو دین سے خارج ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے۔ برخلاف کفر اکبر کے جو دین سے خارج ہونے کا  سبب ہوتا ہے۔ کفر اصغر وہی کفر عملی ہے اس طرح کا کفر انسان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا۔ قرآن و سنت میں جن گناہوں کو کفر سے تعبیر کیا گیا  ہے  اور ان پر کفر کا اطلاق ہوا ہے جو کفر اکبر کی حدتک نہیں پہنچتے ان میں سے کفران نعمت ہے۔ لیکن کفر اکبر انسان کو دائرہ اسلام سے خار ج کرکے اعمال کو برباد کردیتا ہے۔ البتہ یہ تقسیم اہل سنت نے پیش کی ہے۔ 
ابن قیم جوزیہ نے اپنی کتاب مدارج السائلین میں کفر کی دو قسمیں اکبر و اصغر کرنے کے بعد لکھا ہے : کفر اکبر جہنم میں خلود کا سبب ہوتا ہے برخلاف کفر اصغر کے جو صرف مستحق عذاب ہے نہ کہ خلود جہنم کا سبب۔ 
(مدارج السالکین، محمد بن قیم جلد ۱، ص ۳۳۶) 
سلسلۂ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے یہ روایت ’’سباب المسلم فسوقٌ و قتالہ کفر‘‘ اور اس طرح کی دیگر روایات کے سلسلے میں راہ حل پیش کرتے ہوئے ان کو کفر اصغر پر حمل کیا ہے اور اسی طرح (’’اومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولٰئک ھم الکافرون‘‘ )
(سورہ مائدہ آیت ۴۴)
’’اور وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہیں لگاتے وہ کافرہیں ‘‘ ، 
اس آیت کے سلسلے میں ابن عباس کےجواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آیت میں کفر سے مراد ملت و دین سے خارج نہیں ہونا نہیں ہے اور یہ کافر اس کافر کی طرح نہیں ہے جو خداوند عالم ، فرشتوں ، کتابوں اور پیغمبروں کا انکار کرنے والا ہے۔ ابن تیمیہ نے بھی اسی طرح کی توجیہ پیش کی ہے۔ 
(کتب و رسائل و فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ابن تیمیہ جلد ۲ ص ۲۵۴)
 ثانیاً : ان جگہوں پر لفظ کفر کا اطلاق ، شدت تغلیظ اور انتہائی مذمت کو بیان کرنے کے لئے ہے۔ جیسا کہ ابن حجر اس آیت کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 فدل علی ان بعض الاعمال یطلق علیہ الکفر تغلیظاً ۔
(فتح الباری ، شرح صحیح البخاری ، ابن حجر عسقلانی ، جلد ۱ ص۱۱۳) 
یہ آیات دلالت کرتی ہیں کہ بعض اعمال پر کفر کا اطلاق تغلیظ کے سبب ہے حقیقی معنی یعنی دین سے خارج ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ 
 لہٰذا یہ روایات دین سے خارج ہونے کے معنی والے کفر سے کوئی ربط نہیں رکھتی ہیں۔ یعنی یہ روایات اس کفر کو بیان نہیں کررہی ہے جو دین سے خارج ہونے کے معنی میں ہے۔ 
 پس ان روایات میں وہ کفر مراد نہیں جو دین سے خارج ہونے کے معنی میں ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ روایات مذکورہ آیات سے تعارض رکھتی ہیں بلکہ ان روایات میں کفر سے مراد کفر اصغر ہے جو ممکن ہے مسلمان بھی بعض گناہوں کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اس کا مصداق قرار پائیں۔ اگر دینی متون اور روایات وغیرہ میں کسی فعل و عمل یا عقیدہ کے سلسلے میں کفر کا لفظ استعمال ہو ا ہو تو ضروری نہیں کہ ہمیشہ کفر اکبر کو بیان کررہا ہو یعنی ایسے کفر کو جو انسان کو دین سے خارج کردیتا ہے۔ لہٰذا تکفیر اور کسی کو کافر قرار دینے میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ہم آیات و روایات کے صرف ظاہر سے سہارا لینے کی کوشش نہ کریں اور ہر کفر کو کفر اکبر پر حمل نہ کریں۔ مسلمانوں کے آپس میں جنگ و جدال کو کفر کہا گیا ہے لیکن قطعاً یہ کفر ، کفر اکبر نہیں ہے بلکہ کفر اصغر ہے۔
(ب) اہل نزاع کے درمیان صلح و صفائی کا حکم:
  جنگ میں مصروف دوگرہوں کے درمیان اختلاف کو دور کرنے کا سب سے پہلا راستہ جسے قرآن نے بھی پیش کیا ہے یہ ہے کہ دونوں کے درمیان صلح و آشتی کرائی جائے ارشاد خداوندی ہے: فاصلحوا بینھما ۔
( سورہ حجرات، آیت ۹)
 یہ حکم خداوند عالم کی طرف سے مومنین کے لئے تاکید ہے کہ جنگ کررہے دو گروہوں کے درمیان صلح قائم کریں اور ان کو کتاب خدا کی طرف دعوت دیں۔ جیسا کہ مفسرین نے اس جانب اشارہ کیا ہے : مثلاً جصاص کا کہنا ہے : یہ حالت جنگ میں مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان اصلاح و بھائی چارہ قائم کرنے کا حکم ہے اور کتاب و سنت اور بغی سے پلٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔
 (احکام القرآن ، احمد خصاص جلد ۳۵ ص۲۸۲)
اس آیت میں صلح و آشتی کا حکم ایک عمومی حکم ہے جو اختلاف و جھگڑا کررہے دو گروہوں کے درمیان انجام پائے ۔ اس میں کسی ایک طرف میلان و رجحان نہ ہو یا کسی کو کافر قرار نہ دیا جائے۔ ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان عدالت و انصاف کے ساتھ صلح کرائی جائے۔ صرف اس وقت کہ جب ایک گروہ دوسرے پر بغی اورظلم و زیادتی کرے اور حکم خدا نہ مانے تو اس سے جنگ کی جائے تاکہ حکم خدا کے آگے سر جھکادے۔ جیسا کہ مفسرین  نے بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 
(تفسیر الطبری  ، محمد طبری جلد ۲۶ ص۱۲۷)
 اس صلح کی تو اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ ایک ہی آیت میں دو مرتبہ تکرار ہوئی ہے۔ ایک یہ کہ آغاز جنگ میں ان کے درمیان صلح کی کوشش کرو دوسرے یہ کہ اگر تجاوز و زیاد تی کرنے والاگروہ جنگ کے بعد اصلاح کا امکان رکھتا ہو۔تو ان کے درمیان عدالت و انصاف کے ساتھ صلح کراؤ۔ اس آیت میں اہم نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے ان کے کفر کا حکم نہیں لگایا ہے بلکہ ان کے ساتھ اہل ایمان والا برتاؤ کیا ہے۔ اس صلح کی تکراربعد والی آیت میں بھی ہوئی ہے۔ فاصلحوا بین اخویکم، (اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ): تاکہ مسلمانوں کو باور کرائے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف سے صلح و آشتی بہتر ہے لہٰذا ان آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ افراد یا گروہوں کے درمیان نزاع و اختلاف کی صورت میں صلح کرانے میں کسی پر کفر کا حکم نہ لگایا جائے بلکہ ان کے ساتھ اہل ایمان والا رویہ اپنا یا جائے۔ 
ج) ایمانی بھائی چارگی کی تاکید:
ایک دو سرے کی تکفیر سے روکنے اور اس کو ختم کرنے کا ایک قرآنی راستہ مسلمانوں کے گروہوں کے درمیان ایمانی بھائی چارگی کی تاکید ہے۔ خداوند عالم نے صریحی طور پر مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے: 
انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتقوا للہ لعلکم ترحمون۔
 (سورہ حجرات، آیت ۱۰)
مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور خدا سے ڈرو شائد تم پر رحم کیا جائے۔ 
عقیدہ و دین میں بھائی ہونا ، نسب میں بھائی ہونے سے کہیں مضبوط تر و پائیدار تر ہے اس لئے کہ نسب میں بھائی ہونا دین کی مخالفت کی صورت میں ختم ہوجاتا ہے لیکن دین میں بھائی ہونا نسب کے قطع ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔
 ( الجامع الاحکام القرآن ، محمد قرطبی ، جلد ۱۶، ص۳۲۲) 
اسی وجہ سے خداوند عالم آپس میں جنگ میں مصروف مومنین کو تاکید کررہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں تاکہ ان کے درمیان اصلاح کرے۔ گویا خداوند عالم اس بات کی تاکید کررہا ہے کہ مومنین جو آپس میں جنگ کی حالت میں ہیں وہ نسب و ولادت میں ایک دوسرے کے بھائی کی طرح ہیں۔ 
ابن تیمیہ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے:باوجودیکہ مسلمان آپس میں جنگ کی حالت میں ہیں پھر بھی ان کو ایک دو سرے کا بھائی قرار دیا جبکہ خود خداوند عالم نے اہل بغی و اہل تجاوز کے ساتھ قتال کا حکم دیا ہے لیکن ہر بغی و ہر ظلم عموم افراد کو ایمان کےد ائرہ سے خارج نہیں کرتا ہے۔ 
(الفتاویٰ الکبریٰ الشیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن تیمیہ ، جلد ۴ ص۲۶۵) 
ذھبی نے بھی لکھا ہے : یہ آیت آپس میں جنگ کررہے مومنین کو اہل ایمان قرار دے رہی ہے اور خبر دی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
 ( المنتقی من منہاج الاعتدال فی نقض کلام اھل الرفض والاعتدال محمد ذہبی جلد ۱ ص ۵۵۹) 
کتاب اعلام السند مومنین میں بھی ذکر ہوا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت کے ذریعہ مومنین کو ایمان سے متصف کیا ہے اور ان کو برادر ایمانی خطاب کیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے ایمان کی ذرہ برابر نفی نہیں کی ۔
(اعلام السنۃ المنشورۃ ، حافظ حکمی، جلد ۱ ص ۲۳۲)۔
 سعدی نے  آیت کے اس حصے کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ یہ خداوند عالم کے عہد و پیمان میں سے ہے جو مومنین کے درمیان اس بات پر ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا کے کسی کو نے میں خدا ، ملائکہ ، کتب ، پیغمبران خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مومنین کا دینی بھائی ہے اور اخوت سبب بنتی ہے کہ مومنین جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہ اپنے دینی بھائی کے لئے بھی پسند کریں اور جو بات اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں وہ ان کے لئے بھی ناپسند کریں۔ انہوں نے ا س اخوت  و بھائی چارگی کو مومنین کے درمیان جنگ و اختلاف سے بچنے کا راستہ بیان کیا ہے اس طریقہ سے کہ مومنین کو چاہئے اپنےد رمیان اصلاح کریں۔
 (تفسیر السعدی، عبد الرحمن سعدی ، جلد ۱، ص ۸۰۰۔ ۸۰۱۰)
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان آیات کا شان نزول اور سیاق و سباق مومنین کے دوگروہوں کےد رمیان جنگ و اختلاف کے سلسلے میں ہے لیکن خداوند عالم نے دونوں گروہوں کو مومن کہہ کر خطاب کیا ہے اور ان کو ایک دوسرے کا بھائی کہا ہے جبکہ وہ لوگ گنہ گار اور اہل بغی تھے اسی طرح اہل سنت کی حدیثی، تفسیری ، تاریخی اور اعتقادی کتابوں میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں حضرت علیؑ نے جمل ، صفین اور نہروان والوں کو جو حضرت کے خلاف برسر پیکار تھے کافر نہیں قرار دیا بلکہ ان کو اپنا بھائی کہہ کر خطاب کیا ہے ان کو صرف اہل بغی اور نافرمان بتایا ہے۔ تفیسر بغوی میں آیا ہے کہ : 
ان علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سئل وھو القدوۃ فی قتال ، اھل ابغی عن اھل الجمل و صفین امشرکون ھم؟ فقال لا من الشرک فروا ، فقیل، امنافقون ھم؟ فقال: لا ان المنافقین لا یذکرون اللہ الا قلیلاً قیل: فما حالھم قال: اخواننا بغوا علینا ۔
 ( تفسیر بغوی ، بغوی ، جلد ۴ ص ۲۱۳)
 حضرت علیؑ جو اہل بغی کے ساتھ جنگ میں پیشوا و سردار تھے آپ سے اہل جمل و صفین کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ مشرک ہیں؟ حضرت نے فرمایا: انہوں نے شرک سے فرار اختیار کی ہے، پوچھا گیا ،کیا وہ منافق ہیں؟ حضرت نےفرمایا: منافق ذکر خدا نہیں کرتا مگر بہت معمولی، سوال کیا گیا: پس ان کی حالت کیا ہے ؟ فرمایا: وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت و نافرمانی کی ہے۔ اسی طرح کی روایت نہروان والوں کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے ۔ 
(البدایۃ ولانہایہ ، اسماعیل ابن کثیر جلد ۷ ص ۲۹)
 واضح رہے کہ حضرت علی ؑ کی ان گروہوں کے خلاف جنگ پیغمبر اسلامؐ کے صریحی حکم کے مطابق تھی۔ جیسا کہ حضرت علیؑ نے فرمایا: 
عہد الی رسول اللہ فی قتال الناکثین والقاسطین والمارقین ۔
 ( مسند البزار ابو بکر بزاز ، جلد ۲ ص ۲۶۔۲۷۔جلد ۷۷۴)
پیغمبر اسلامﷺ نے مجھ سے ناکثین و قاسطین و مارقین کے خلاف جنگ کے لئے عہد لیا۔ 
 یہ روایت اہل سنت کی دسیوں کتابوں میں متعدداسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ 
 ان روایات کے مطابق حضرت نے جمل ، صفین اور نہروان والوں کے ساتھ اسلام والا معاملہ کیا ہے اور ان کے ظاہری ایمان پر حکم لگاتے ہوئے ان کو اپنا بھائی خطاب کیا ہے ورنہ معاویہ جیسے افراد یقیناً باطنی طور پر کافر تھے جیسا کہ حضرت علیؑ نے خود اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے ْ آپ نہج البلاغہ میں اپنے مکتوب نمبر ۱۶میں ارشاد فرماتے ہیں:
۔۔۔وَ اَعْطُوا السُّيُوفَ حَقُوقَها. وَ وَطِّئُوا لِلْجُنُوبِ مَصارِعَها، وَ اذْمُرُوا ۔اَنْفُسَكُمْ عَلَى الطَّعْنِ الدَّعْسِىِّ، وَ الضَّرْبِ الطِّلَحْفِى ِ، وَ اَميتُوا ،الاَْصْواتَ فَاِنَّهُ اَطْرَدُ لِلْفَشَلِ. فَوَ الَّذى فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ، ما اَسْلَمُوا وَلكِنِ اسْتَسْلَمُوا وَ اَسَرُّوا الْكُفْرَ، فَلَمّا وَجَدُوا اَعْواناً عَلَيْهِ اَظْهَرُوهُ.  (نہج البلاغہ۔
( صبحی صالح)، شریف رضی ، ص ۳۷۴)
 ترجمہ:۔۔۔ تلواروں کو ان کا حق دے دو اور پہلو کے بھل گرنے والے دشمنوں کےلئے مقتل تیار رکھو۔ اپنے نفس کو شدید نیزہ بازی اور سخت ترین شمشیر زنی کےلئے آمادہ رکھو اور آوازوں کو مردہ بنا دو کہ اس سے کمزوری دور ہوجاتی ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے، اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا ہے کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں بلکہ حالات کے سامنے سپر انداختہ ہوگئے ہیں اور اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں اور جیسے ہی مددگار مل گئے ویسے ہی اظہار کر دیا۔
حضرت علیؑ نے جو لوگ آپ سے لڑ رہے تھے باطن میں ا ن کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے لیکن ظاہر میں چونکہ اظہار اسلام کیا تھا اس لئے ان کے ساتھ اسلامی سلوک کیا اور ان کو اپنا بھائی خطاب کیا اور ظاہر میں ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا۔ 
 قرآن کریم نے مومنین کو بھائی قرار دے کر بالخصوص جنگ و نزاع کی صورت میں، مومن کی تکفیر سے روکا ہے اور جو لوگ اہل بغی ہیں ان کو ایمان سے خارج نہیں سمجھا ہے بلکہ ان کو بھائی خطاب کرکے چاہا ہے کہ اختلاف و تفرقہ کو روکے اور اس کام میں ان کے لئے صلح کو پیش کرے۔ جیسا کہ دوسری آیات میں قاتل اور ولی دم کو ایک دوسرے کا بھائی کہا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
(سورہ بقرہ ، آیت ۱۷۸) 
ترجمہ:ایمان والو! تمہارے اوپر مقتولین کے بارے میں قصاص لکھ دیا گیا ہے آزادکے بدلے آزاد اورغلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت. اب اگرکسی کو مقتول کے وارث کی طرف سے معافی مل جائے تو نیکی کا اتباع کرے اور احسان کے ساتھ اس کے حق کو ادا کردے. یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے حق میں تخفیف اور رحمت ہے لیکن اب جو شخص زیادتی کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب بھی ہے۔
تیسرا حصہ:
 مسلمان کے خون کی عظمت و اہمیت اور اس کی حفاظت کی تاکید 
(الف) مومن کا قتل تمام لوگوں کے قتل کے برابر ہے۔ 
 سب سے اہم چیز جو کسی مسلمان کے خون کے حلال ہونے کا سبب بنتی ہے وہ تکفیر ہے اور تکفیر کامطلب ہے اہل قبلہ کی طرف کفر کی نسبت دینا۔ قرآن کریم میں قتل و غارت گری کی اتنی زیادہ مذمت ہوئی ہے کہ ناحق ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور ایک شخص کے حیات دینے کو پوری بشریت کو حیات دینے کے برابر قرار دیا ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ناحق کسی مسلمان کے خون بہائے جانے سے روکنے کےلئے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل جانا ہے:
مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ۔ 
(سورہ مائدہ آیت ۳۲)
ترجمہ:اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو .... کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی اور بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے مگر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے۔
 مقصد یہ ہے کہ ایک شخص کا قتل ، تمام لوگوں کے قتل کے برابر ہے۔ اور شک نہیں کہ یہاں عمدی قتل کی مذمت اور اس کی سزا کی سختی کو بیان کرتا اور اس کام کو بہت برا پیش کرنا مقصود ہے جیسا کہ تمام مخلوق کا قتل ہر ایک کے لئے  بہت بڑی بات ہے اسی طرح ایک شخص کا بھی قتل ہے۔ فخر رازی نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
 ( التفسیر الکبیر ، فخر الدین رازی، جلد ۱۱۔ ص ۱۶۸)
 قرطبی نے بھی ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے: اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایک انسان کو قتل کرے اور حرمت کا خیال نہ رکھے گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا ہے۔ اور اگر کوئی ایک انسان کے قتل سے اپنے کو روکے اور اس کے خون کوخوف خدا کی وجہ سے محفوظ رکھے گویا اس نے تمام لوگوں کو زندگی عطا کی ہے۔
 (الجامع الاحکام القرآن ، محمد قرطبی ، جلد ۶ ص ۱۴۶)
سعدی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے : اگر کوئی ایسے شخص کو قتل کرنے کے لئے اقدام کرے جو قتل کا مستحق نہیں ہے ، یہ آیت اعلان کررہی ہے اس مقتول اور دوسرے افراد میں کوئی فرق نہیں ہے یہ نفس امارہ ہے جو قاتل کو وسوسہ کرتا ہے قتل کرنے کےلئے۔ اگر قاتل یہ کام انجام دے گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خوف خدا کی وجہ سے ایسے شخص کو قتل کرنے سے اپنے کو روک لے جس کے قتل کرنے کے لئے نفس امارہ وسوسہ کررہا ہے تو گویا اس نے تمام انسانیت کو زندہ کیا ہے۔
 ( تفسیر الکریم الرحمان فی تفسیر کلام المنان، عبدا لرحمان سعدی، جلد ۱۲ ص ۲۲۹)
 البتہ بعض مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ :
 وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ۔میں احیا او رزندہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی شخص کی بقا و نجات کا سبب بنے یا تو اس شخص کے قاتل کو روک کر یا خطرات سے نجات دے کر۔
 ( روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ،، سید محمود آلوسی جلد ۶ ص۱۱۸)
بہت زیادہ روایات اسی آیت کی تائید میں پیغمبر اکرمﷺ سے نقل ہوئی ہیں جس میں آنحضرتﷺ نے ناحق خون بہانے سے منع فرمایا ہے دو روایات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے  :
 لا یزال المومن فی نفسہ من دینہ مالم یصیب دما حراما
( صحیح بخاری ، محمد بخاری، جلد ۶ ص ۲۵۱۷)
مومن اپنے دین اسلام کی جانب سے ہمیشہ فائدہ حاصل کرتا ہے جب تک کہ ناحق خون نہ بہائے۔ 
دوسری روایت یہ ہے کہ : من قتل معاھداً لم یرح رائحۃ الجنۃ۔
(صحیح بخاری ، محمد بخاری ، جلد ۳ ص ۱۱۵۵)
جو بھی ایسے شخص کوناحق قتل کردے جو اسلام کی پناہ میں ہے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا۔ 
ب:دوزخ، قاتل مومن کے انتظار میں: 
خداوند عالم نے ایک دو سری آیت میں قتل و خونریزی سے روکنے کے لئے قاتل کے لئے بہت سخت  عذاب کو بیان کیا ہے تاکہ اس ذریعہ بھی مومن کی جان محفوظ رہنے کی اہمیت کو پیش کیا جائے:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ۔
(سورہ انسا آیت ۹۳)
ترجمہ : اور جو بھی کسی مومن کو قصدا قتل کردے گا اس کی جزا جہنّم ہے- اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اس کے لئے عذابِ عظیم بھی مہیّا کررکھا ہے۔
قرآن کریم نے اس آیت میں اس شخص کے لئے سزاؤں کا تذکرہ کیا ہے جو کسی مومن کو عمداً قتل کردے:
 (۱) جہنم کی سزا (۲) دوزخ میں ہمیشہ رہنا۔ (۳) غضب خدا (۴) لعنت خدا ۔ (۵) عذاب عظیم۔ 
گویا جرم کے بہت سخت اور بہت بڑے ہونے کی جانب اشارہ ہے جیسا کہ وہابی مفتی ابن عثیمین نے بھی اسی آیت کے ذیل میں اس بات کو بیان کیا ہے: 
ان العمد اعظم جرماً من ان تدخلہ الکفارۃ و لیس فیہ الا ھٰذا الوعید الشدید و ھٰذا القول اصح 
(الشرح الممتع علی زد المستقنع ، محمد بن عثیمین، جلد ۱۴ ص ۱۹۱)
بیشک عمدی قتل کا جرم اتنا سخت اور بڑا ہے کہ اس پر کفارہ بھی نہیں ہوسکتا اور اس قتل کا کوئی بھی چیزجبران نہیں کرسکتی سوائے وعدۂ عذاب کے ۔ یہ صحیح ترین قول ہے۔ 
جیسا کہ مذکورہ دو آیات میں ملاحظہ ہوا کہ خداوند عالم نے کسی مسلمان کے قتل کو بہت بڑا جرم دکھا کر ، نفس کی حفاظت کی جانب خصوصی توجہ کرتے ہوئے اور مومن کے قاتل کے لئے سخت عذاب و سزا معین کرکے مومنین کے حقوق کے سلسلے میں تجاوز و زیادتی کو روکنا چاہاہے اور بالخصوص ان کے نفوس کی اہمیت اور ان کی حفاظت کا پیغام دیا ہے ۔ لیکن تکفیری گرو ہوں نے دوسروں کو کافر قرار دے کر اور ان آیات کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلمانوں، جن میں بچے بڑے ، زن و مرد سب شامل ہیں کے ناحق  خون کو بہایا جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔ 
 (چوتھا حصہ )
 اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم
 ریسمان الٰہی کو پکڑنے اور تفرقہ و اختلاف سے دوری کا حکم 
تکفیر کے علاج اور اس وبا سے نجات پانے  کے لئے قرآن کا ایک بتایا ہوا راستہ  یہ ہے کہ تمام مسلمان کتاب خداو  سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وابستہ ہوں اور اختلاف و تفرقہ سے دوری اختیار کریں:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ۔ 
(سورہ آل عمران ، آیت ۱۰۳)
ترجمہ:’’اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنّم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ‘‘۔
طبری نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ : 
اپنے کو ریسمان خدا سے لٹکا لو دین الٰہی اور عہد و پیمان ( یعنی الفت و محبت ، حق پر مجتمع ہونا ، امر الٰہی کے آگے تسلیم ہونا کہ ان چیزوں کے بارے میں کتاب خدا میں عہد لیا گیا ہے ) سے تمسک کرو۔ 
( تفسیر الطبری ، محمد طبری جلد ۴ ص ۳۰) 
خداوند عالم نے ا تحاد کا حکم دینے کے بعد تفرقہ و اختلاف سے بھی منع کیا ہے ارشاد ہے: وَلَا تَفَرَّقُوا
یعنی خدا کے دین اور اس کے ساتھ کئے گئے عہد ( خدا و رسول کی اطاعت و پیروی میں متحد رہنا) سے جدا نہ ہو۔
 ( تفسیر الطبری ، محمد طبری جلد  ۴ ص ۳۲)
  قرطبی نے بھی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : فان اللہ تعالیٰ یامر بالالفۃ و ینھی عن الفرقۃ فان الفرقۃ ہلکۃ والجماعۃ نجاۃ۔
 (الجامع الاحکام القرآن، محمد قرطبی  جلد ۴ ص ۱۵۹)
خداوند عالم نے الفت و بھائی چارگی کا حکم دیا ہے اور اختلاف و تفرقہ سے منع فرمایا ہے اس لئے کہ تفرقہ میں ہلاکت اور جماعت و اتحاد میں نجات ہے۔ 
 ایک دوسری آیت میں خدا و اس کے رسول کی اطاعت و پیروی کا حکم دینے کے بعد اختلاف و تفرقہ کے نتیجے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ کہ نتیجہ قدرت و شوکت کا ختم ہوجانا بیان ہوا ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔ 
( سورہ انفال آیت ۴۶)۔
 ترجمہ:اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف و جھگڑا نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمہاری ہَوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
 اختلاف و تفرقہ سب سے بڑا سبب ہے ضعف و کمزوری کا ۔ تفرقہ کا سبب ہونے والی چیزوں میں سے ایک مسلمانوں کی تکفیر ہے ۔ لیکن کتاب خدا و سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تمسک مسلمانوں کے درمیان وحدت و ہمدلی کے اسباب میں سے ہے اور مسلمانوں کے ایک دوسرے سے جدائی کے راستہ کو بند کردیتا ہے۔ قرآن کریم نے بھی اس موضوع کی جانب اشارہ کیا ہے اور خدا و رسول کی طرف رجوع و بازگشت کو اختلاف کے دور ہونے کا راستہ بیان کیا ہے: 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۔ 
(سورہ نساء آیت ۵۹) 
ترجمہ:ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔
 لہٰذا قرآنی دستورات و احکامات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام امت مسلمہ آپس میں متحد رہے ۔ اس قرآنی تعلیم کے مقابلے استعمار کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالا جائے، آمادہ کیا جائے کہ ایک دوسرے کو تکفیر و لعن کریں ۔
 تکفیر ، خدا و رسولﷺ کا حق ہے
(کسی کو کافر قرار دینے کا حق صرف خدا و رسول کو ہے) :
تکفیری وبا کو روکنے کے لئے قرآنی تعلیمات اور قرآنی علاج کو پیش کرنے کے بعد ضروری ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ کون لوگ تکفیر کا حق رکھتے ہیں؟ کیا ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ دوسرے کو کفار کے گروہ میں داخل کرے؟ 
تکفیر کس وقت جائز ہے ؟
  جیسا کہ علماء نے کہا ہے کہ تکفیر کا مسئلہ شرعی ہے جو خدا و رسول کے اختیار میں ہے۔ شہرستانی نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
 لان التکفیر حکم شرعی 
( الملل والنحل ، محمد شہرستانی ، جلد ۱ ص ۲۰۲)
 اس لئے کہ تکفیر حکم شرعی ہے۔ امام قرانی بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ تکفیر شرعی مسئلہ ہے عقلی نہیں۔
 (الفروق او انوار البروق فی انواء الفروق ( مع الھوامش) احمد قرانی ۴/۲۹۸)
 ابن حجر ہیشمی نے لکھا ہے : التکفیر حکم شرعی سببہ جحد 
(الصواعق المحرقہ علی اھل الرفض الضلال الزندقر ، احمد ابن حجر ۱/۱۳۲)
 تکفیر حکم شرعی ہے جس کا سبب جحد اور انکار ہے۔ 
ابن تیمیہ جو وہابیت کے فکری و عقیدتی رہبر کے عنوان سے مشہور ہیں انہوں نے بھی تکفیر کو فقہی مسئلہ قرار دیا ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ تکفیر ، خدا کا حق ہے ، کسی کو حق حاصل نہیں کہ کسی دوسرے کو کافر قرار دے اور اس خدائی حق میں تجاوز کرے اور تکفیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس میں خدا و ر سول ہی اظہار نظر کرسکتے ہیں۔ 
 انہوں نے اپنی کتاب الاستغاثہ میں لکھا ہے :علم و سنت والے اپنے مخالفین کی تکفیر نہیں کرتے ولو وہ مخالف اس علم و سنت والے کی تکفیر کرے۔ اس لئے کہ کفر ایک شرعی حکم ہے لہٰذا انسان کو حق حاصل نہیں ہے کہ اس بارے میں مقابلہ بہ مثل کرے اور اس کی تکفیر کرے۔ جیسا کہ اگر کوئی تمہاری تکذیب کرے یا تمہارے اہل کے ساتھ تجاوز کرے تو تم کو حق نہیں ہے کہ اس کی تکذیب کرو یا اس کے اہل کے ساتھ تجاوز کرو۔ اس لئے کہ جھوٹ اور زنا حق اللہ ہے۔ اسی طرح تکفیر بھی حق اللہ ہے اور کسی کو تکفیر کا  حق حاصل نہیں ہے۔ صرف خدا و اس کے رسول تکفیر کرسکتے ہیں اس طرح کسی بھی شخص کی تکفیر اور اس کے قتل کا جواز، اس بات پر موقوف ہے کہ رسول خداﷺ کی طرف سے دلیل موجود ہو کہ اس کے مخالف کی تکفیر جائز ہے۔ ورنہ جو بھی دین سے جاہل ہو اس کی تکفیر نہیں ہوتی ۔
 (الاستغاثہ فی الرد علی البکری ، ابن تیمیہ ، جلد ۱ ص ۳۸۱) 
انہوں نے دوسری جگہ لکھا ہے کہ یہ وجوب و تحریم، ثواب و عقاب، تکفیر تفسیق خدا و رسول کا کام ہے۔ اور کوئی بھی اس سلسلے میں دخالت نہیں کرسکتا۔
 ( کتب و رسائل و فتاویٰ شیخ الاسلام بن تیمیہ ، جلد ۵ ص ۵۵۴)
 اسی طرح دوسری جگہ لکھا ہے کہ کسی کو حق حاصل نہیں ہے کہ کسی مسلمان کی تکفیر کرے چاہے اس نے غلطی ہی کی ہو مگر یہ کہ اس تکفیر پر دلیل موجود ہو۔ 
(کتب و رسائل و فتاویٰ شیخ الاسلام بن تیمیہ ، جلد۱۲، ص ۵۰۱)
ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ابن قیم کہتے ہیں: الکفر حق اللہ ثم رسولہ بالشرع یثبت لا بقول فلاں 
(توضیح المقاصد و تصحیح القواعد فی شرح قصیدۃ الامام ابن القیم ، احمد بن قیم جلد ۲، ص ۴۱۲)
 کفر حق خدا ہے پھر خدا کے رسول کا حق ہے جو شریعت سے ثابت ہوتا ہے کسی کے کہنے سے نہیں۔ 
وہابیوں کے بزرگ عالم ابن عثیمین بھی تکفیر کو خدا و رسول کا حق قرار دیتے ہوئے معتقد ہیں کہ جو کسی کی تکفیر کرے در حقیقت خود وہ کافر ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
 خدا کی پناہ ،جو لوگ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں وہ امت اسلامی سے خارج ہیں اور اس میں شک نہیں کہ وہ کفار میں سے ہیں اس لئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خبر دی ہے کہ اگر کوئی اپنے بھائی سے کہے۔ :
 اے کافر! دو ہی صورتیں ہیں :  جس کی تکفیر کی گئی ہے اگر وہ واقعی طور پر کافر ہو تو وہ کافر ہے لیکن تکفیر ہونے والاکافر نہ ہو تو کافر کہنے والاکافر ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ اپنی زبان و قلب کو مسلمانوں کی تکفیر سے محفوظ رکھے  اور یہ تکفیر خدا و اس کے رسول کا حق ہے وہ جس کی   تکفیر کریں وہ کافر ہے چاہے ہمارے نزدیک مسلمان ہو اور وہ جس کی تکفیر نہ کریں وہ مسلمان ہے چاہے کوئی کہے کہ وہ شخص کا فر ہے۔
 (شرح ریاض  الصالحین، محمد بن عثیمین ، جلد ۶ ص ۴۷۹) 
 ولید بن راشد بن عبد العزیز السعید ان نے کتاب الاجماع العقدمی میں ۶۱۹ ایسے مسائل جمع کئے ہیں جو اہل سنت کے درمیان متفق علیہ ہیں۔ 
انہوں نے تکفیر کو بھی ان مسائل میں سے قرار دیا ہے جس پر اہل سنت کا اتفاق ہے کہ یہ شارع کا حق ہے۔
 وہ لکھتے ہیں :
 واجمعوا علی ان التکفیر حق للشارع فلا نکفر الا من کفرہ اللہ تعالیٰ و رسولہ ۔ 
( الاجماع العقدی، ولید سعیدان ، شمارہ ۵۶۸۔ ص ۵۲) 
اہل سنت کا اجماع ہے کہ تکفیر شارع کا حق ہے ( یعنی کسی کو کافر قرار دینے کا حق صرف شارع کو ہے ) ۔ ہم کسی کی تکفیر نہیں کرتے، کسی کو کافر قرار نہیں دیتے صرف اس کو جس کو خدا و رسول نے کافر قرار دیا ہو۔ 
 حمد محمد بوقرینی بھی تکفیر کو ایک شرعی مسئلہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : تکفیر و کافر قرار دینے میں کسی کی ذاتی و شخصی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے کہ یہ مسئلہ شرعی ہے نہ کہ عقلی اور کافر وہی ہے جس کو خدا و رسول کافر سمجھیں نہ کہ کوئی اور۔
(التکفیر ، مفہو مہ و خطارہ و ضوابطہ ، حمد محمد بوقر ین ، ص ۵۰)
 لہٰذا  جب معلوم ہوگیا کہ تکفیر حق ہے خدا و رسول کا تو اب کسی کو حق نہیں ہے اس سلسلے میں حدود الٰہی سے تجاوز کرے صرف اسی وقت کسی کو کافر قرار دے سکتا ہے کہ جب شرع کی جانب سے اس کے پاس کوئی قطعی دلیل ہو۔ جیسا کہ علمائے سنت نے اس بات کا قرار کیا ہے ۔ 
 ذہبی بھی تکفیر کو صرف اسی وقت جائز سمجھتے ہیں کہ جب دلیل قطعی ہو۔ 
وہ علماء کو خطاب کرکے کہتے ہیں :
 فما ینبغی لک یا فقیہ ان تبادر الی تکفیر المسلم الا ببرھان قطعی ۔
 (سیر اعلام النبلاء ، محمد ذہبی جلد ۱۴، ص ۳۴۳) 
اے فقیہ ! تمہارے لئے ہر گز سزاوار نہیں ہے کہ کسی مسلمان کی تکفیر کرو مگر اسی وقت کہ جب تمہارے پاس قطعی دلیل موجود ہو۔ 
 اہل سنت کے بزرگ عالم شوکانی بھی واضح و روشن دلیل کے ساتھ تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: میرا کہنا ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں یہ حکم لگانا صحیح نہیں ہے کہ وہ دین سے خارج ہوگیا ہے اور کفر میں داخل ہوگیا ہے۔ ایسے شخص کی طرف سے جو خدا و روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے جب تک کہ بالکل واضح و روشن دلیل نہ ہو۔ 
(السیل الجرار، المتدفق علی حدائق الازہار جلد ۴ ص ۵۷۸)
عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب نے بھی اس بارے میں لکھا ہے : 
’’تکفیر کے مسئلہ میں واجب ہے کہ کوئی اپنی زبان پر کوئی حرف بھی نہ لائے جب تک کہ خدا کی طرف سے علم و برہان نہ ہو۔ اور کسی کو  اپنی سمجھ اور استحسان عقلی کے ذریعہ دین اسلام سے خارج کرنے سے اجتناب کرے۔ اسلئے کہ دین اسلام سے کسی کو خارج کرنا یا کسی کو دین اسلام میں داخل کرنا بہت بڑا دینی امر ہے ۔‘‘  اور تاکید کی ہے کہ تکفیر کے مسئلے میں معصوم یعنی پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے نص موجود ہو۔ ممکن ہے شیطان نے بہت سے افراد کو اس  سلسلے میں فریب دیا ہو کہ انہوں نے اس شخص کو مسلمان سمجھا جس کے بارے میں کتاب و سنت و اجماع نے کافر ہونے کا حکم لگایا تھا اور اس کو کافر قرار دیا جسے کتاب و سنت و اجماع نے مسلمان قرار دیا تھا۔
 (الدر السنیۃ فی الاجویۃ النجدیہ، علماء نجد ، جلد ۱۰۔ ۳۸۴، نواقض الایمان القولیۃ العملیۃ عبد العزیز بن محمد بن علی العبد اللطیف ۱/۷) 
 اسی طرح ابن الوزیر جو یمن کے عظیم علماء میں سے ہیں ۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی کے کافر ہونے پر دلیل بھی موجود ہو پھر بھی تکفیر کے سلسلے میں احتیاط کرنا چاہئے وہ لکھتے ہیں :جمہور علماء جب اس شخص کی تکفیر میں احتیاط کا حکم لگاتے ہیں جس کے بارے میں کفر پر دلیل موجود ہو تو ایسے شخص کے بارے میں جس کے کفر پر نص و دلیل نہ ہو بدرجہ اولیٰ احتیاط و تقویٰ کا خیال کرنا چاہئے۔ 
آگے وہ اس بات کا بھی جواب دیتے ہیں کو نص کے موجود ہونے کی صورت میں بھی تکفیر سے اجتناب کرنا چاہئے۔ عدم تکفیر کی سب سے اہم دلیل حضرت علیؑ کے ذریعہ خوارج کی تکفیر نہ کرنا ہے۔ 
 پھر وہ لکھتے ہیں: باوجودیکہ خوارج حضرت علیؑ سے بغض و کینہ رکھتے تھے اور یہ دشمنی ان کے نفاق کی دلیل تھی اور باوجود یکہ وہ لوگ حضرت علیؑ کی تکفیر کررہے تھے لیکن حضرت نے ان کی تکفیر نہیں کی  ان کو کافر نہیں کہا۔
 (ایثار الحق علی الخلق فی رد الخلافات الی المذہب الحق من اصول التوحید، محمد ابن الوزیر جلد ۱ ص ۳۸۸)
اب تک جو باتیں میں نے اہل سنت وہابیوں کے بزرگ علماء سے نقل کی ہیں ان سے واضح ہوگیا کہ تکفیر ، خداکا حق ہے اور خدا و رسولﷺ کے علاوہ کوئی کسی کو کافر قرار نہیں دے سکتا صرف اسی صورت میں کافر قرار دے سکتا ہے کہ شرعی و قطعی (نہ کہ ظنی) دلیل موجود ہو۔ اور دلیل قطعی کے ہونے کے باوجود بھی احتیاط ہی کرنا چاہئے اور اگر بغیر دلیل کسی مسلمان کی تکفیر کرے تو خود وہ کافر ہے جیسا کہ ابن عثیمین نے اشارہ کیا ہے۔ تکفیریوں کا طریقہ اور مسلمانوں کی تکفیر میں قرآن کی مخالفت اسلامی تاریخ میں تکفیر کا ماضی ہے لیکن وہابی فرقہ کا وجود میں آنا اسلامی مذاہب کے درمیان تکفیر کی بحث کے وجود میں آنے کا آغاز ہے جب سے وہابی فرقہ وجود میں آیا ہے اس وقت سے اسلامی مذاہب کے درمیان مسلمانوں کو کافر قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس لئے وہابیت کے وجود میں آنے سے پہلے کسی بھی اسلامی فرقہ کا مذہبی و بنیادی عقیدہ تکفیر نہیں تھا صرف وہابیوں ہی کی یہ منطق و طریقہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینے اور تکفیر کو اہمیت دیتے ہیں۔ 
وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ صرف وہی مسلمان ہیں بقیہ جو بھی ان کے عقائد و نظریات کے خلاف ہے وہ مشرک ہے اسی وجہ سے وہ اہل سنت اور علمائے اسلام کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔ 
(عقائد علماء اھل السنۃ الدیوبندیہ ( المہند علی المفند) مولانا خلیل احمد سہارنپوری ، ص ۵۸)
مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے اپنی کتاب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور آلوسی نے بھی اپنی کتاب تاریخ نجد میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہابیوں نے مسلمانوں کو حج سے روکا اور ان کو کافر قرار دینے میں زیادہ روی کی۔
 (تاریخ نجد ، سید محمود آلوسی، ص ۹۴) 
کتاب السحب والوائلہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ جو بھی محمد بن عبد الوہاب کی مخالفت کرتا اس کی تکفیر کرتے اور اس کے خون کو مباح قرار دیتے 
 (السحب الوائلہ علی ضرایح الحنابلہ ، محمد ابن حمید ، ص ۲۷۶)
 البتہ محمد بن عبد الوہاب کے بھائی نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کا بھائی ہر اس شخص کو کافر سمجھتا تھا جو ان کا مخالف ہو۔
 (الصواعق الاھیۃ فی الرد علی الوہابیۃ سلیمان بند عبد الوہاب ۱ ص۴)
وہابی مورخ ابن غنام نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ : بارہویں صدی کے آغاز میں یعنی محمد بن عبد الوہاب کے قیام سے پہلے اکثر مسلمان مشرک تھے اور ارتداد جاہلیت کی طرف پلٹ چکے تھے۔
 (تاریخ نجد ، حسین بن غنام ، ص ۱۳) 
مولف نے اس کتاب میں محمد بن عبد الوہاب کی بہت زیادہ تعریف و تمجید اور حمایت کی ہے۔ 
 وہابی علماء آل شیخ کے راستے کی پیروی کو تنہا نجات کا راستہ سمجھتے ہیں اور اپنے مخالفین کو گمراہ و اہل جہنم قرار دیتے ہیں۔
 (الدررالسنیۃ فی الاجویۃ النجدیہ ، علماء نجد ، جلد ۱۴ ص ۳۷۵)
اسی تکفیر اور دوسرو ں کو کافر قرار دینے ہی کا نتیجہ تھا انہوں نے مردوں عورتوں اور بچوں کے خون کو اپنے اوپر حلال سمجھا جیسا کہ جبرتی نے اپنی تاریخی کتاب میں اس بربریت کی طرف اشارہ کیا ہے: مردوں کو قتل کیا اور عورتوں و بچوں کو قیدی بنایا، کہ وہابیوں کا یہی طریقہ ہے۔
 (عجائب الآثار عبد الرحمان جیرتی ، ص ۳۷۳)
ابن بشیر نے بھی یہ اعتراف کیا ہے وہابیوں نے اسلامی ممالک میں ہزاروں بے گناہ افراد کا خون بہایا ہے۔
 (عنوان الجد فی تا ریخ نجد، عثمان بن بشر، ص ۲۵۷۔ ۲۵۸)
وہابیوں نے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر قرآن کے اس حکم کی مخالفت کی جس میں مومنین کے درمیان بھائی چارے کا حکم دیا گیا اور مسلمانوں کی تکفیر سے منع کیا گیا۔ وہ مومنین کے ناحق خون کو زمین پر بہا رہے ہیں جس سے قرآن نے شدت سے روکا ہے۔ یہ تو قرآن و منطق کی عین مخالفت ہے۔ 
اہل سنت بھی طول تاریخ میں وہابیوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہے جبکہ طول تاریخ میں شیعہ حضرات حقیقی موحد و مومن ہونے کے باوجود سب سے زیادہ اس تکفیر کی قربانی کی نذر ہوئے ۔ یہاں تک کہ محمد بن عبد الوہاب نے نہ صرف شیعوں کو بے وجہ کافر قرار دیا، بلکہ ان کے کافر ہونے میں شک کرنے والوں کو بھی کافر جانا ہے وہ لکھتا ہے : 
ومن شک فی کفرھم بعد قیام الحجۃ علیہم فھو کافر ۔
( الدرر السنیۃ الاجویۃ النجدیۃ ، علما نجد جلد ۱۰ ص ۴۴۰) 
’’جو بھی شیعوں کے سلسلے میں حجت تمام ہونے کے بعد ان کے کافر ہونے میں شک کرے و ہ کافر ہے‘‘۔ 
افندی ان تکفیری افراد میں سے ہے جس نے طول تاریخ میں قرآن و سنت کی مخالفت کرتے ہوئے شیعوں کی تکفیر کے بارے میں سب سے خطرناک فتاویٰ دیئے ہیں۔ مشہور حنفی فقہا میں سے محمد امین جو ابن عبادین کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اپنی کتاب تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں شیعوں کی تکفیر اور ان کے قتل کے جواز کے بارے میں عبد اللہ افندی کے مشہور فتاویٰ کو بیان کیا ہے اور افندی کی اس بات کو بھی نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شیعوں کے کفر یا ان کے قتل کے جائز ہونے میں شک یا توقف کرے وہ بھی کافر ہے ابن عابدین نے افندی کے فتاویٰ کے واقعہ کو اس انداز سے بیان کیا ہے:
شیخ الاسلام عبد اللہ افندی کے ۱۱۴۶ھ؁ میں مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد میں نے ان کے بعض رسالوں میں دیکھا کہ سوال کیا گیا تھا: شیعوں کےقتل کئے جانے کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسی صورت میں کہ جب وہ حاکم اسلامی پر خروج کریں ان کے کفر کی وجہ سے؟ اگر کفر کی وجہ سے ہو تو ان کے کفر کی وجہ کیا ہے؟ اور کفر ثابت ہونے کی صورت میں اگر توبہ کرلیں تو کیا ان کی توبہ اور ان کا اسلام مرتد کی طرح قابل قبول ہوگا۔ یا اس شخص کی طرح جو پیغمبر ﷺ کو گالیاں دے، قبول نہیں ہوگی اور قتل کئے جائیں گے۔ اور اگر کافر ہیں تو کیا حد قتل جاری ہوگی یا کفر؟
 اور کیا جائز ہے کہ ان کا جزیہ لیا جائے اور وہ قتل نہ کئے جائیں اور ان کی عورتیں کنیز کے طور پر لی جائیں؟
افندی نے شیعوں سے کینہ و حسد کی وجہ سے جواب میں لکھا :
 ان ھولاء الکفرۃ والبغاۃ الفجرۃ جمعوا بین اصناف الکفر والبغی والعناد و انواع الفسق والزندقۃ والالحاد ومن توقف فی کفرھم والحادھم و وجوب قتالھم و جواز قتلھم فھو کافر مثلھم ۔ 
یہ کفار و ستم گرا ور باغی و خطاکار (مراد شیعہ ) نے ہر طرح کفر ، ظلم ، فسق اور بے دینی کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے۔ جو بھی ان کے کفر، شرک ، بے دینی اور قتل میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔۔۔۔۔۔ کافر گروہ ( شیعہ ) چاہے توبہ کرے یا نہ کرے ان کا قتل واجب ہے ۔ اس لئے کہ اگر توبہ کریں اور مسلمان ہوجائیں تو ان پر حد جاری ہوگی اور ایسے شخص کی حد اس کا قتل کیا جانا ہے۔ اور اگر توبہ نہ کریں تو قتل کئے جائیں گے اور ان پر کافروں کے احکام جاری ہوں گے اسی وجہ سے ان کا چھوڑ دینا اور جزیہ لینا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قتل کئے جائیں ۔ اور ان کی عورتوں و بچوں کو کنیزی کے طور پر لیا جائے اس لئے کہ بچہ ، ماں کے حکم میں ہے۔
 (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ ، محمد امین بن عابدین، جلد ۱ ص۱۰)
اس کے بر خلاف قاضی ایجی کا کہنا ہے کہ : اہل سنت کے جمہور فقہا و متکلین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جاسکتی کسی اہل قبلہ کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔۔
 (المواقف ، عضد الدین ایجی ، جلد ۳ ، ص ۵۶۰) 
قاضی سبکی کا بھی کہنا ہے کہ مومنین کی تکفیر اور ان کو کافر قرار دینا بہت سخت ہے۔ تکفیر سخت و خطرناک امر ہے۔
 (الیواقف والجواہر ، سبکی ، ص ۵۸)
نتیجہ: 
قرآن کریم، مسلمانوں کے سب سے پہلے ماخذ و منبع ہونے کے ساتھ سب سے پہلی کتاب ہے جس نے مسلمانوں کی تکفیر اور ان کو بے وجہ کافر قرار دیئے جانے کی مذمت کی ہے۔ قرآن کریم نے تکفیر سے روکنے اور اس وبا کو ختم کرنے کے لئے بہت سے راستے بتائے ہیں ان میں سے ایک راستہ ، دوسروں کی تکفیر میں جلد بازی سے پرہیز اورظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کرنے والے کے اسلام میں شک نہ کرنا ہے۔ دوسرا راستہ ہے جو مسلمان آپس میں جنگ کی حالت میں ہیں ان کو مومن کہہ کر خطاب کرنا اور ان کے درمیان ایمانی بھائی چارے کی تاکید ہے۔ اسی طرح نزاع و اختلاف کرنے والوں کے درمیان اصلاح، صلح و صفائی کا حکم دیکر تکفیر اور اختلاف کے راستے کو بند کیا ہے۔ قرآن کریم نے مومن کے خون کو بہت زیادہ اہمیت دے کر اس کی حفاظت کی کوشش کی ہے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ کوئی تکفیر کے ذریعہ یعنی بے وجہ کسی کو کافر قرار دے کر اس کے حقوق پائمال کرے۔ تکفیر جیسے خطرناک مرض کو ختم کرنے کے لئے اولی الامر کی طرف رجوع بھی ایک قرآنی راستہ ہے۔ اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ تکفیر ایک شرعی مسئلہ ہے۔ جو خداو رسول کا حق ہے صرف خدا و رسول کسی کو کافر قرار دے سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کسی کو حق حاصل نہیں ہے کہ بغیر قطعی دلیل کے دوسرے کو کافر سمجھے۔ اسی طرح تکفیریوں کے غلط اور غیر قرآنی طریقے کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنے مخالفین کو باوجودیکہ وہ مسلمان تھے ان کی تکفیر کی اور ان کے خون کو اپنے اوپر مباح سمجھا۔
آخر میں ہم بارگاہ خداوندی میں دعا کریں کہ پروردگار عالم مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے اور قرآن کی مخالفت کرتے ہوئے بے وجہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینے سے محفوظ فرمائے۔ اور مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنکر آپس میں اتحاد و بھائی چارہ کی توفیق مرحمت فرمائے۔(آمین)
منابع:
(۱) قرآن
(۲) ابن وزی ر، محمد بن نصر المرتضیٰ ، ایثا الحق علی الخلق کی رد الخلافات الی المذہب الحق من اصول التوحید ، چاپ دوئم دار ا الکتب العلمیہ ، بیروت ۱۹۸۷ء، 
(۳) ابن باز، عبد العزیز ، مجموع فاویٰ العلامۃ عبد العزیز بن باز، تحقیق اشرف علی جمعہ، محمد بن سعد الشویعر، ریاض ۔
 (۴) ابن بشر، عثمان بن عبد اللہ ، عنوان المجد فی تاریخ نجد، چاپ چہارم : مطبوعات دارۃ الملک عبد العزیز ، ریاض۔
(۵) ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم الاستغاثہ فی الرد علی البکریٰ ، تحقیق عبد اللہ بن محمد سھلی ، چاپ اول : اول دار الوطن ، ریاض ۱۴۱۸۔
(۶) ---------، كکتب و رسائل و فتاو ی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، تحقیق عبد الرحمن بن محمد بن قاسم عاصمی نجدی، چاپ دوئم مکتبہ ابن تیمیہ، ریاض۔
 (۷) الفتاویٰ الکبریٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ ، تحقیق قدم لہ حسین محمد  مخلوف، دار المعرفۃ ، بیروت۔
(۸)درء تعاض العقل و والنقل ، تحقیق عبد اللطیف عبد  الرحمن ، دار الکتب العمیہ ، بیروت ۱۴۱۷  ھ/۱۹۹۷ء؁
(۹) ابن حجر، ابو العباس احمد بن محمد بن علی، الصواعق لامحرقۃ علی اھل الرفض و الضلال و الزندقۃ، تحقیق عبد الرحمن بن عبد اللہ ترکی، کامل محمد الخراط، چاپ اول: موسسہ الرسالہ ،بیروت ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء
(۱۰) ابن حجر عسقلانی ، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل، فتح الباری شرح صحیح البخاری ، تحقیق محب الدین الخطیب، دار المعرفہ ، بیروت ۔
 (۱۱)  ابن قیم، احمد بن ابرہایم بن عیسییٰ، توضیح المقاصد و تصحیح القواعدفی شرح قصیدۃ الامام ابن القیم ،  تحقیق زہیر الشاویش ، چاپ سوم، المکتب الاسلامی ، بیروت ۱۴۰۶ھ۔
 (۱۲) ابن حزم ، علی بن احمد ، الاحکام فی اصول الاحکام چاپ اول، دار الحدیث ، قاھرہ ۱۴۰۴۔
(۱۳) ابن حمید ، محمد بن عبد اللہ ابن حمید ، نجدی حنبلی مفتی مکہ، السحب الوئلہ علی ضرایح الحنابلہ ، مکتبۃ امام احمد۔
 (۱۴) ابن عابدین، محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین دمشقی حنفی ، العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ۔
(۱۵) ابن عبد الوہاب ، سلیمان ، الصواعق الھیہ فی الرد علی الوھابیہ، چاپ سوم دار الشفقہ ، استانبول ، ۱۳۹۹ھ۔
(۱۶) ابن عثیمین ، محمد بن صالح بن محمد عثیمین ، شرح ریاض الصالحین ، دار الوطن اللنشر ، ریاض ۱۳۲۶ھ۔
(۱۷) الشرح الممتع علی زاد المستقنع چاپ اول ۔ دار ابن  الجوزی ، ۱۴۲۲۔۱۴۲۸۔
(۱۸) ابن قیم، محمد بن ابی بکر ایوب زرعی، مدارج السالکین بین منازل ایاک نعبد و ایاک نستعین ، تحقیق محمد حامد فقی، چاپ دوئم ، در الکتاب العربی ، بیروت ۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء۔
(۱۰) ابن کثیر ، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ ، مکتبۃ المعارف ، بیروت ۔
(۲۰) تفسیر القرآن العظیم ، دار الفکر ، بیروت ۱۴۰۱،ھ
(۲۱) آلوسی ، شہاب الدین سید محمود، تاریخ نجد، تحقیق محمد بہجۃ اثری، مکتبۃ دار المدبلولی، قاھرہ۔
 (۲۲) روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۔
(۲۳) ایجی، عضد الدین عبد الرحمن، کتاب المواقف، تحقیق عبد الرحمن عمیرہ ، چاپ اول، دار الجبل ، بیروت ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء۔
(۲۴) البانی ، محمد ناصر ، فتنۃ التکفیر ، چاپ دوئم ، دار ابن خزیمہ ، ریاض۔
(۲۵) بخاری  ، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری ، تحقیق مصطفیٰ دیب البغا ، چاپ دوئم ، دار ابن کثیر ، یمامہ بیروت ۱۴۰۷ھ، ۱۹۸۷۔
(۲۶) بزار، ابو بکر احمد بن عمرو ، البحر الزخار (مسند البزار،) تحقیق محفوظ الرحمن زین اللہ ، چاپ اول: موسسۃ علوم القرآن ، مکبتۃ العلوم والحکم ، بیروت ۱۴۰۹ھ۔
(۲۷) بغوی ، حسین بن مسعود ، تفسیر البغوی ، تحقیق خالد عبد الرحمن العک۔ دار المعرفہ، بیروت۔
(۲۸) بوقرین ، حمد محمد، التکفیر، مفہومہ و اخارہ و ضوابطہ۔
(۲۹) بیضاوی، ناصر الدین ابو الخیر عبد اللہ بن عمر بن محمد، انوار التنزیل و اسرار التاویل ( تفسیر البیضاوی) دار الفکر ، بیروت ۔
 (۳۰) تفتازانی ، سعد الدین مسعود، شرح المقاصد فی علم الکلام ، چاپ اول : دار المعارف النعمانیہ، پاکستان ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء۔
(۳۱) ثعلبی ، ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابرہایم، الکشف البیان  ، تحقیق الامام ابی محمد بن عاشور ، چاپ اول ، دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۲ھ/۲۰۰۲ء۔
(۳۲) جبرتی ، عبد الرحمان بن حسن جبرتی ، عجائب الآچار ، تحقیق عبد الرحمان عبد الرحیم ، چاپ سوم ، دار الکتب المصریہ ، قاھرہ۔
 (۳۳) جصاص، احمد بن علی رازی، احکام القرآن ، تحقیق محمد صادق قمحاوی، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۱۳۰۵ھ۔
(۳۴) جوہری ، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیہ ، تحقیق احمد عبد الغفور عطار، چاپ چہارم : دار العلم اللملایین ، بیروت ۱۴۰۷ھ۔
 (۳۵)  ضسہم نم غما، ۔ تارہؒ مکد ۔ چا]  چپار، ۔ دار الشروق ۱۴۱۵ھ۔
(۳۶) حکمی ، حافظ بن احمد بن علی اعلام السنہ المنشورہ۔
 (۳۷) حوالی ، سفر بن عبد الرحمن ، شرح العقیدۃ الطحاویۃ ، دار المعرفۃ ۔
(۳۸) ذہبی ، ابو عبد اللہ محمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء ، تحقیق شعیب الارناوول محمد نعیم عرقسوسی ، چاپ نھم، موسسہ الرسالہ، بیروت ۱۴۱۳ھ۔
(۳۹) المنتقی من منھاج الاعتدال فی نقض کلام اھل الرفض والاعتزال ، تحقیق محب الدین الخطیب ۔ 
(۴۰) رازی ، شافعی ، فخر الدین محمد بن عمر تمیمی، التفسیر الکبیر او مفاتیح الغیب، چاپ اول ، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء۔
(۴۱) راغب اصفہانی ، حسن بن محمد المفردات فی غریب القرآن ، تحقیقی محمد سید گیلانی ، دار المعرفت ، لبنان۔
 (۴۲) رضی، شریف ، نہج البلاغہ للصبحی صالح ، تحقیق و تصحیح فیض الاسلام ، چاپ اول، ہجرت ، قم ۱۴۱۴ھ۔
(۴۳) زبیدی ، محمد مرتضیٰ حسینی ، تاج العروس من جواہر القاموس ، تحقیق جمعی از محققین ، دار الھدایۃ۔
 (۴۴) سبکی ، الیواقت والجواہر۔
 (۴۵) سعدی عبد الرحمن بن ناصر ، تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان ( تفسیر السعدی ) تحقیق ابن عثیمین موسسۃ الرسالہ ، بیروت ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء۔
(۴۶) سہارنپوری ، عقائد علماء اہل السنۃ الدیوبندیہ ( المند علی امفند) مولانا خلیل احمد سہارنپوری ، تھقیق دکتر سید طالب رحمان، چاپ اول، ریاض۔
(۴۷)  شوکانی ، محمد بن علی بن محمد ، فتح القدیر الجامع بین فنی الروایۃ الدرایۃ من علم التفسیر ، دار الفکر ، بیروت ۔
(۴۸) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السیل الجرار المتدفق علی حدائق الازھار، تحقیق محمود ابراہیم زاید، چاپ اول، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ۱۴۰۵۔
(۴۹) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیل الاوطار من احادیث سید والاخیار شرح منتقی الاخبار، دار الجیل ، بیروت ۱۹۷۳۔
 (۵۰) شہرستانی ، محمد بن عبد الکریم ، الملل والنحل ، تحقیق محمد سید گیلانی ، دار المعرفۃ ، بیروت ۱۴۰۴۔
(۵۱)  طبری، ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب، جامع البیان عن  تاویل ای القرآن ( تفسیر طبری ) دار الفکر ، بیروت ۱۴۰۵۔
(۵۲) عبد الحمید عمر، احمد مختار، معجم اللغۃ العربیہ المعاصرۃ ، چاپ اول، عالم الکتب ، ۱۴۲۹ھ/۲۰۰۸۔
(۵۳) عبد المنعم ، محمود عبد الرحمان، معجم المصطلحات والالفاظ الفقھیہ ، دار الفضیلہ۔
 (۵۴) عقدی ، ولید بن راشد بن عبد العزیز السعیدان ، الاجماع العقدی ۔
 (۵۵) علماء نجد الدرر السنیۃ فی الاجوبۃ النجدیۃ ، تحقیق عبد الرحمان بن محمد بن قاسم، چاپ ششم۔
(۵۶) عینی ، بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد، عمدۃ  القاری شرح صحیح البخاری، دار احیاء التراث العربی ، بیروت۔
  (۵۷) غرناطی کلبی معروف بہ شاطبی ، ابرہایم بن موسیٰ لخمی ، الموافقات فی اصول الفقہ، تحقیق عبد اللہ دراز، دار المعرفۃ بیروت۔
 (۵۸) قرافی ، ابو العباس احمد بن ادریس صنھاجی ، الفروق او انوار البروق فی انواء الفروق ( مع الھوامش) تحقیق خلیل المنصور، چاپ اول ، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۸۔
(۵۹) قرطبی، ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح، الجامع الاحکام القرآن ، دار الشعب ، قاھرہ۔
 (۶۰) مقدسی ، ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن قدامۃ المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی ، چاپ اول، دار الفکر ، بیروت ۱۴۰۵۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .