۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای

حوزہ/ حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدر مدیرحوزہ علمیہ نے بیان کیا کہ اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے مختلف فرقوں کے درمیان اتنی جھوٹی اور غلط تہمتوں کی نسبت ایک دوسرے کی طرف دی ہیں کہ جس کے باعث بہت سے ملکوں میں،بہت سے فرقوں میں یہ ایک دوسرے سے بہت شدید دشمن ہو گئے ہیں ۔ اگر ہم امامت کے مسئلہ کو علمی طریقہ سے کتاب اور سنت کی روشن دلیلوں کے ذریعہ بیان کریں تو پھر ان جھوٹی تمہتوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس سے یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ ان بیقوف اورنادان دشمنوں نے غلط نسبتیں دیکر انتشار پھلا رکھاہے ۔                     

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی مدیرقرآن وعترت فاونڈیشن نے یہ اطلاع دیتے بتایا کہ جہاں اس موذی مرض کی وجہ سے تمام جگہوں پر علے الخصوص ہندوستان کی سرزمین کے تمام مدارس میں حضوری کلاسزاورپہلے کے تمام طریقے ناامیدی کے شکارہیں،وہیں پر اس حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،نے بہارکی سرزمین پر روش اور طور و طریقے کو بدل کر علمی فعالیت کے دیگر رنگ کو اپناکر فعالیت میں چار چاند لگادیا،اور علی الخصوص ائمہ معصومین کے سلسلے سے ہمیشہ فعالیت میں مشغول رہا،اور تمام محبان ولایت کی دعاوں کے نتیجے میں انشاء اللہ اس فعالیت کو ضرور آگے بڑھاتارہیگا۔ دہ کرامت میں جہاں سبھی لوگ ایک خاص طور پرجشن مسرت میں مشغول و مصروف ہیں وہیں پریہ حوزہ١٤سال سے عظیم فعالیت میں مشغول ہے،اس سال بھی د ہ کرامت کے سلسلے سے علمی پروگرام اورنذروغیرہ کاایک خاص اہتمام رکھاجس سے مومنین کرام نے پرجوش طریقے سے اسکااستقبال کیا۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای "بھیک پور،ہندوستان" میں میلاد امام رضاؑ اور معصومہ قم (س) کی مناسبت علمی نشست کا انعقاد

مولاناموصوف نے امامت کے سلسلے سے فرمایاکہدنیائے بشریت تشنہ علم ومعرفت جسے سیراب کرناہرارباب ولاکاسنگین وظیفہ ہے،آپ نے فرمایاامامت کے عنوان سے ہمیشہ پروگرام کی سخت ضرورت ہے،آپ نے اس سلسلے میں چند بندعرض کئے کہ: ١۔امام صرف اسلامی مملکت کے عام سربراہ کا نام نہیں ہے بلکہ امام رسولۖ کے اس جانشین کا نام ہے جو امت کی مادی و معنوی ،جسمانی اور روحانی ہر اعتبار سے قیادت کرتا ہے ۔٢۔ تمام اسلامی معارف کی تفصیل قرآن میں موجود نہیں بلکہ بعض رسولۖ نے خود بیان فرمایا ہے اور رسولۖ کے بعد ایسے احکام کو رسولۖ کا جانشین اور امام ہی بیان کر سکتا ہے ۔ ٣۔ امامت کے سلسلہ میں منطقی اور عقلی گفتگو نہ صرف یہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد ہونے کا سبب ہے بلکہ اس سے اختلاف اور کم ہوں گے ۔،،۴۔مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا سبب امامت کی بحث نہیں ہے بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں ہیں اور مسلمانوں کو ان سے آگاہ رہنا چاہئے۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای "بھیک پور،ہندوستان" میں میلاد امام رضاؑ اور معصومہ قم (س) کی مناسبت علمی نشست کا انعقاد

                                      

امامت کے سلسلے سے حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای، میں چند سوالات اور جوابات کا سلسہ شروع ہوا جسے طلاب عزیز اور اہل ولا کو کافی فائدہ پہونچا۔

 سوالات: :سوال١۔ شیعہ امام کسے کہتے ہیں؟ سوال٢۔ اہل سنت امام کسے کہتے ہیں؟ سوال٣۔ قرآن کی موجودگی میں امام کی کیا ضرورت ہے ؟ سوال ٤۔ امامت کی بحث سے لوگ کیوں روکتے ہیں؟ سوال ٥۔ کیا امامت کی بحث اختلاف کا باعث ہے ؟ سوال ٦۔ امام کو کن طریقوں سے ثابت کریں کہ اختلاف نہ ہو؟ (جیسا کہ خود لفظ سے ظاہر ہے) اسکی توضیح میں یہ مطالب پیش ہوے کہ:رہبر پیشوا کو کہتے ہیں اور شیعہ عقیدہ میں امام اسے کہتے ہیں  جو ہر چیز میں پیغمبر کا جانشین ہو فقط فرق اتنا ہے کہ نبی بانی شریعت ہوتا ہے اور امام محافظ شریعت پیغمبر ۖ حضرت محمدص پر وحی نازل ہوتی ہےجو امامؑ لوگوں کوپیش کرتاہے،وہ علم نبی سے حاصل کرتا ہے اورعلم لدنی کا مالک ہوتا ہے ۔

شیعوں کے عقیدہ کے مطابق امام وہ معنوی ،مادی اور ظاہری و باطنی نیز ہر طرح امت کی رہبری اس کے ذمہ ہوتی ہے احکام و عقیدہ کی حفاظت کا بھی ذمہ دار وہی ہوتا ہے تاکہ انہیں تحریف و تبدیلی سے بچائے اور وہ منصوص من اللہ ہوتا ہے ۔ ۔۔لیکن اہل سنت امام صرف اسلامی حکومت کے ذمہ دار کو مانتے ہیں دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ ہر دور کے حکمران و سربراہ مملکت کو نبی کا جانشین اور مسلمانوں کا خلیفہ مانتے ہیں ۔اب اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ نبی کے بعد جب کہ قرآن قانون کی کتاب موجود ہے امام کی کیا ضرورت؟ اس کا جواب یہ ہو گا کہ ٹھیک ہے قانون کی کتاب قرآن کی صورت میں موجود ہے لیکن اس کی تفسیر کی ضرورت ہے۔ آج کل کی دنیا میں قانون کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قوہ مجریہ اور قوہ قضائیہ موجود ہیں جو قانون پر عمل کرانے کی ضمانت لیتے ہیںاسی طرح اس الٰہی قانون کی تفسیر اور اسے عملی میدان میں لانے کے لئے نبی اور اس کے بعد امام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 
چونکہ قرآن نے ہرجزئی چیزکو بیان نہیں یا مثلاً نمازکی رکعتوں کی تعداد مشخص نہیں کی یا اسی طرح کی بہت سی چیزیں کہ جن کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے ایسی چیزوں کو پیغمبرۖ اور ان کے بعد امام  لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں خود قرآن کا کہنا ہے کہ ''ما اتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا'' (سورۂ حشر ٧)جو پیغمبر دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جائو ۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبرۖ کی سنت کی پیروری کرنا واجب ہے چونکہ پیغمبر کی اطاعت خدا کیاطاعت ہے ''من یطع الرسول فقد اطاع اللہ '' اورامامت اور ولایت پیغمبر ۖ کی سنت ہی کی پیروی کا نام ہے ۔ اب جیسے ہی امامت کی بحث شروع ہوتی ہے فوراً یہ آواز اٹھتی ہے کہ آج کا زمانہ مسلمانوں کے اتحاد کا ہے اور پیغمبر کے جانشین کا مسئلہ چھیڑنے سے اختلاف پیدا ہو گا لہذا اس مسئلہ کو چھیڑنا نہیں چاہئے ۔ لیکن یہ فکر بالکل غلط ہے جو چیز اختلاف کا باعث ہے وہ ہے غیر منطقی اور تعصب آمیز بحثیں ہیں اگر یہ بحثیں لڑائی جھگڑے سے ہٹ کر دوستانہ ماحول میں ہوں تو بجائے اختلاف کے ،فاصلہ کو کم کرنے اور انہیں مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوں گی ۔ دوسرے یہ کہ شیعوں میں مذاہب سے اتحاد کا پیغام پایا جاتا ہے ۔اس مذہب میں سبھی فرقوں کا احترام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ حقیقی اسلام کو بہتر طریقہ سے لوگوں تک پہچنوا سکتا ہے ۔اور اسلامی حکومت سے مربوط مسائل کا حل لا سکتا ہے ۔ اسی سبب پیغمبرۖ نے انہیں اپنا جانشین معین کیا ہے۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای "بھیک پور،ہندوستان" میں میلاد امام رضاؑ اور معصومہ قم (س) کی مناسبت علمی نشست کا انعقاد

حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدر مدیرحوزہ علمیہ نے بیان کیا کہ سبھی کوچاہئے کہ ان بحثوں کو دلیل ومنطق کے ذریعہ انجام دیں لیکن بحثوں میں اس بات کا خیال رہے کہ دوسرے فرقوں کے احساسات مجروح نہ ہونے پائیں ۔ اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے مختلف فرقوں کے درمیان اتنی جھوٹی اور غلط تہمتوں کی نسبت ایک دوسرے کی طرف دی ہیں کہ جس کے باعث بہت سے ملکوں میں،بہت سے فرقوں میں یہ ایک دوسرے سے بہت شدید دشمن ہو گئے ہیں ۔ اگر ہم امامت کے مسئلہ کو علمی طریقہ سے کتاب اور سنت کی روشن دلیلوں کے ذریعہ بیان کریں تو پھر ان جھوٹی تمہتوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس سے یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ ان بیقوف اورنادان دشمنوں نے  غلط نسبتیں دیکر انتشار پھلا رکھاہے ۔   

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .