حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے یوم ولادت اور یوم قیام جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب کے موقع پر جامعہ امامیہ میں آن لائن جلسہ سیرت و جشن مسرت منعقد ہوا۔مولانا سید صفدر عباس فاضل جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے جلسہ کا آغاز کیا۔ بعدہ مولانا بلال مندراپالوی اور جناب سیف عباس نے بارگاہ امام علی رضا علیہ السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ مولانا سید علی مہذب خرد نقوی صاحب نے بعنوان ’’جامعہ امامیہ کی خدمات کا جائزہ‘‘ مقالہ پیش کیا۔
مولانا سید محمد راحم صاحب مبلغ جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ شرعی رقوم کو غصب کرنے کےسبب فرقہ واقفیہ وجود میں آیا۔ واقفی لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے دین میں شبہات ایجاد کرتے ، کتابیں چھاپتے اور مختلف علاقوں میں اپنے نمایندے بھیجتے تا کہ لوگ امام علی رضا علیہ السلام کی امامت سے دور ہو جائیں ۔ دوسری جانب امام علی رضا علیہ السلام لوگوں کی ہدایت فرماتے، ان کے سوالات و شبہات کے جوابات دیتے جس سے صاحبان ایمان ہدایت پاتے ۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی صاحب مبلغ جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ علم یعنی انسان با بصیرت بن جائے، خدا شناسی حاصل کر لے، اگرچہ خدا شناسی خود شناسی کے بغیر ممکن نہیں۔’’ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے صحابی جناب ابا صلت سے فرمایا: خدا اس بندے پر رحمت نازل کرے جو ہمارے امر کو احیاء کرے، جناب ابا صلت نے پوچھا: مولا آپ کا امر کیسے احیاء ہو گا ؟ امام ؑ نے فرمایا: علم حاصل کرے اور دوسروں کو تعلیم دے۔ کیوں کہ جب لوگ ہمارے کلام کے محاسن کو دیکھیں تو ہماری پیروی کریں گے۔ ‘‘ ہمیں دوسروں سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے ہم صرف دنیا کے سامنے معصوم رہبروں کے کلام پیش کر دیں کہ اگر انکے پاس بھی ایسا کلام ہو تو وہ بھی پیش کریں۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی استاد جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ جب بنی امیہ اور بنی عباس آپس میں برسر پیکار تھے تو امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے امت کی ہدایت کے لئے موقع غنیمت جانا اور انکی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے اسی طرح جب امین و مامون آپس میں برسر پیکار تھے تو امام علی رضا علیہ السلام نے موقع کو غنیمت سمجھا اور امت کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ اگر ائمہ علیہم السلم کی تعلیمات پر لوگ عمل پیرا ہو جائیں تو سماج سے تمام برائیوں کا خاتمہ ہو جائے، امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ پہلے مزدور کی مزدوری طے کرو پھر اس سے کام لو اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی مزدوری ادا کر دو۔
مولانا سید نقی عسکری صاحب رکن مجلس انتظام تنظیم المکاتب نے فرمایا: دنیا میں کوئی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مملکت کا آئندہ حاکم کون ہو گا؟ پہلے الیکشن ہو گا اور اس کے نتیجہ کے مطابق حاکم معین ہو گا۔ لیکن اللہ کے نبیؐ نے دین کے حکام اور امیروں یعنی بارہ اماموں کے نام مع ولدیت، لقب اور کنیت بیان کر دیا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’عنقریب میرے جگر کا ٹکڑا خراسان میں دفن ہو گا۔ جب کوئی مومن انکی زیارت کرے گا تو اللہ جنت کو اس پر واجب اور جہنم کو قرار دے گا۔‘‘ اس حدیث میں مومن کی شرط بیان ہے۔ کیوں کہ آپ سے پہلے کے ائمہ علیہم السلام کی زیارت پر آنے والے ضروری نہیں کہ وہ سب بارہ اماموں کی امامت کے قائل ہوں لیکن جو امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا قائل ہے وہ بارہ اماموں کی امامت کا قائل ہے۔
مولانا سید منور حسین صاحب انچارج جامعہ امامیہ نے حدیث سلسلۃ الذہب ’’کلمہ لاالہ الا اللہ میرا قلعہ ہے جو میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے امان پا گیا۔ ‘‘ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہر چیزکی اصل توحید ہے۔ لیکن اس توحید کی اہم شرط ولایت ہے ، یعنی بغیر ولایت کے توحید تک رسائی ممکن نہیں ، جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہو رہا ہے ’’علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت میرا قلعہ ہے جو میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے امان پا گیا۔
مولانا سید ممتاز جعفر نقوی صاحب مربی اعلیٰ جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ جب مامون اپنے بھائی امین کو قتل کرکے پوری اسلامی مملکت کا حاکم بنا تو بنی عباس اس کے خلاف ہو گئے دوسری جانب علوی حکومت کے خلاف قیام کر رہے تھے لہذا اس نے امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے مرو بلا کر حکومت کی پیشکش کی جسے آپ نے قبول نہیں کیاتو اس نے ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا تو امام ؑ نے حکومتی امور میں دخل اندازی نہ کرنے کی شرط کے ساتھ اسے قبول فرمایا۔ ولایت عہدی سے مامون کا مقصد تھا کہ وہ امام ؑ پر نظر رکھے، لوگوں سے آپ کے رابطے ختم کر دے، علویوں کے قیام کو روک سکے اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے اثرات کم کر سکے لیکن جب اسے اپنے مقصد میں ناکامی نظر آئی تو امامؑ کو شہید کر دیا۔