۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
محمد سجاد شاکری

حوزہ/ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"اور عجز و ناتوانی مصیبت ہے، اور صبر و شکیبائی شجاعت ہے، اور دنیا سے بے رغبتی بڑی ثروت ہے، اور پرہیزگاری ایک بڑی سپر ہے، رضایت بہترین ساتھی ہے۔"

ترجمہ و تفسیر: مولانا محمد سجاد شاکری

حوزہ نیوز ایجنسی |

وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام:الْعَجْزُ آفَةٌ، وَ الصَّبْرُ شَجَاعَةٌ، وَ الزُّهْدُ ثَرْوَةٌ، وَ الْوَرَعُ جُنَّةٌ، وَ نِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَى.
"اور عجز و ناتوانی مصیبت ہے، اور صبر و شکیبائی شجاعت ہے، اور دنیا سے بے رغبتی بڑی ثروت ہے، اور پرہیزگاری ایک بڑی سپر ہے، رضایت بہترین ساتھی ہے۔"
حصہ اول: شرح الفاظ

1۔ الْعَجْزُ:ناتوانی، کمزوری، عجز، مجبوری۔

2۔ آفَةٌ:آفت، بلا، مصیبت۔

3۔ الصَّبْرُ:صبر، تحمل، شکیبائی۔

4۔ شَجَاعَةٌ:شجاعت، بہادری۔

5۔ الزُّهْدُ:بے رغبتی، زہد، پارسائی۔

6۔ ثَرْوَةٌ:دولت، مال، ثروت۔

7۔ الْوَرَعُ: تقوی، پرہیزگاری۔

8۔ جُنَّةٌ:سپر، ڈھال، محافظ۔

9۔ نِعْمَ:اچھا، خوب، بہترین۔

10۔ الْقَرِينُ:ساتھی، ہمراہ، دوست۔

11۔ الرِّضَى: رضایت، تسلیم

 حصہ دوم: سلیس ترجمہ
"اور عجز و ناتوانی مصیبت ہے، اور صبر و شکیبائی شجاعت ہے، اور دنیا سے بے رغبتی بڑی ثروت ہے، اور پرہیزگاری ایک بڑی سپر ہے، رضایت بہترین ساتھی ہے۔"

حصہ سوم: شرح کلام

مولا امیر المؤمنین علی علیہ السلام اپنے اس کلام میں کچھ اخلاقی اور نفسیاتی اچھائیوں اور کچھ برائیوں کو بیان فرما رہے ہیں۔ اور کلی طور پر یہ کلام پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ ذیل میں انشاءاللہ ہر ایک پر مختصر تحلیلی نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

1۔ عجز و درماندگی

ناتوانی بہت وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے۔ عام طور پر ناتوانی کا لفظ جب استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب فقط جسمانی ناتوانی مراد ہوتا ہے لیکن جسمانی ناتوانی کے علاوہ ذہن، فکر، سیاست، ثقافت، سماج، اقتصاد، علم، روح اور ارادہ سب ہی میں عجز و ناتوانی کا تصور موجود ہے۔

جسمانی ناتوانی: سے انسان نہ دشمن کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ بیماریوں کا۔ حتی کہ جسمانی ناتوانی کا شکار انسان خدا کی عبادت اور بندگی بھی درست طریقے سے انجام نہیں دے سکتا۔ اور نہ خدا کے مخلوقات کی کوئی مدد کرسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کمزور انسان نہ خدا کی خدمت کرسکتا ہے اور نہ ہی خلق خدا کی۔ اسی لئے مولائے متقیان(ع) دعائے کمیل میں جسمانی توانائی کی دعا فرماتے ہیں: "پروردگار!  میرے اعضاء و جوارح میں خدمت کی قوت عطا فرما۔"

ذہنی ناتوانی: انسان کو سمجھ بوجھ سے عاجز بنا دیتی ہے۔

فکری ناتوانی: انسان کو اپنے گرد و نواح میں پیش آنے والے حوادث و واقعات اور مسائل کی تحلیل اور ان کی واقعیت تک پہنچنے سے باز رکھتی ہے۔

سیاسی ناتوانی: کا شکار حکمران یا لیڈر کبھی بھی قوم کی ترقی کے لئے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا، اور نہ ہی دشمن کا ٹھیک سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

ثقافتی ناتوانی: کی بیماری کا شکار قوم ہمیشہ ثقافتی طور پر اغیار کی جھولی کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے اور اسی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ اپنی ثقافتی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔

سماجی ناتوانی: اسے انسان سماج میں تنہا ہو کر رہ جاتا ہے، وہ ارتباط برقرار کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ لہذا مولا فرماتے ہیں: "عاجز ترین انسان وہ ہے جو کسی کو دوست نہ بنا سکے، اور اس سے بھی عاجز تر وہ ہے جو پائے ہوئے دوستوں کو بھی کھو دے۔" (حکمت: 12)

 اقتصادی ناتوانی: انسان کو گدا بنا دیتی ہے۔ وہ پھر چاہے فرد ہو یا قوم، بڑی قدرتوں کی کاسہ لیسی پر مجبور ہوجاتی ہے۔

علمی ناتوانی: کا شکار انسان ترقی کی راہوں کو طے کرنے کے لئے دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔

روحی ناتوانی: سے انسان اپنے نفس کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔

ارادہ کی ناتوانی:مندرجہ بالا تمام ناتوانیوں میں ارادے کی ناتوانی سب پر فوقیت رکھتی ہے۔ در واقع ارادے کی ناتوانی باقی ساری ناتوانیوں کا اصل عامل اور سبب ہے۔ ارادے کا قوی انسان ہر میدان میں قوی نظر آتا ہے۔ 

عجز و ناتوانی کا علاج:
عجز و ناتوانی سے جان چھڑانے اور طاقت ور بننے کے لئے مختلف علاج اور راہ حل پائے جاتے ہیں کہ ہم ذیل میں دو پر اکتفا کرتے ہیں۔

الف)۔ اعتماد بہ نفس:
انسان کو اپنی طاقت و قدرت اور توانائی کا اندازہ ہو جائے اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا آجائے تو ناتوان سے ناتوان تر انسان بھی بہت بڑا کام کر سکتا ہے۔ ضرورت یہ کہ انسان اقبال کے فلسفہ خودی اور امام خمینی کے "ما می توانیم" (ہم کر سکتے ہیں) کے فلسفے سے آشنا ہوجائے۔ ورنہ صلاحیتوں سے بھرپور انسان کو بھی احساس کمتری اور خودباختگی اپاہج بنا دیتی ہے۔

 ب)۔ خدا پر امید
خدا کے علم و قدرت کی امید رکھنے والے کو خدا کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ لہذا جس کے ساتھ خدائے علیم و قدیر ہو تو وہ اس کی حفاظت اور کامیابی کے لئے مکڑی کے جالے کو بھی وہ قدرت عطا کرتا ہے جو محفوظ قلعوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔

2۔ صبر و شکیبائی
عموماً صبر کے بارے میں دو قسم کا تصور ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ دونوں ہی تصور قرآن و اھلبیت کے دئے ہوئے تصور کے برخلاف ہے۔

اولا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صبر فقط ظلم اور مصیبت کے مقابلے میں اختیار کیا جانے والا ایک ردعمل ہے۔ جبکہ قرآن و سنت کے مطابق صبر کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ خود امیر المؤمنین(ع) کے فرامین میں صبر کے اسی وسیع پیمانے کی نشاندہی موجود ہے۔ کہ آپ فرماتے ہیں:
"صبر، یا تو مصیبت پر ہے، یا اطاعت پر، یا معصیت پر، اور یہ تیسری قسم پہلے دونوں قسم سے بلند تر ہے۔"(منتخب میزان الحکمہ، ص 312) یعنی صبر نہ فقط مصیبت پر بلکہ خدا کی اطاعت کے راستے میں آنے والی سختیوں اور گناہوں سے بچنے کی سختیوں کو برداشت کرنا بھی صبر ہے۔ بلکہ یہ صبر پہلے والے سے زیادہ سخت بھی ہے اور اجر بھی بیشتر ہے۔

یہی صبر ہے جسے مولا نے ایمان کا رکن اور سر سے تعبیر فرمایا ہے۔(حکمت 31 و 82)

ثانیاً: ہم صبر کو ایک قسم کی کمزوری اور ناتوانی سمجھتے ہیں۔ جبکہ مولا فرماتے ہیں صبر شجاعت اور بہادری ہے۔ کیونکہ جس طرح صبر کا غلط مفہوم ہمارے معاشرے میں رائج ہے اسی طرح شجاعت کا بھی ایک ناقص مفہوم عام ہے۔ ایک دفعہ پیغمبر اکرم(ص) کہیں سے گزر رہے تھے کہ دیکھا کچھ جوان وزن برداری کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ آپ سے فیصلے کا تقاضا کیا گیا تو آپ نے مقابلہ کے اختتام پر فرمایا قدرتمند وہ نہیں ہے جو سب سے زیادہ سنگین اور وزنی شئی اٹھائے بلکہ سب سے طاقتور وہ ہے جو اپنے سرکش نفس کو زمین پر پٹخ دے۔ پہلوان وہ نہیں ہے جو دو سو یا چار سو کلوگرام وزن اٹھائے بلکہ پہلوان وہ ہے جو ناجائز مناظر کے سامنے اپنی چند گرام کی پلکیں گرا دے۔

3۔ زہد و پارسائی
زہد و پارسائی بھی ان خاص مفاہیم میں سے ایک ہے جس کا درست مفہوم معاشرے میں رائج نہیں بلکہ اس لفظ کو ایک منفی مفہوم و معنی پہنا دیا گیا ہے۔ زہد یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا کو بالکل ترک کردے۔ بلکہ دنیا سے دلبسته نہ ہو جانا زہد ہے۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق کسی چیز کے چھن جانے پر افسوس نہ کرنا اور کسی چیز کے پانے پر زیادہ خوش نہ ہوجانا، زہد کہلاتا ہے۔
امیر المومنین ایک جگہ زہد کی حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: "زہد، آرزوؤں کا چھوٹا کرنا، نعمتوں پر شکر گزار ہونا اور حرام سے پرہیز کرنا ہے۔" (خطبہ: 81)
زہد و پارسائی کو ثروت سے تعبیر کرنے کی جو بنیادی وجہ ہے وہ یہ کہ ثروت اور دولت انسان کو بے نیاز کرتا ہے لیکن بعض اوقات دنیا کی لالچ اور طمع زیادہ رکھنے والا مال و دولت سے مالامال ہونے کے باوجود بھی بے نیاز نہیں ہوتا بلکہ مزید دست نیاز دراز کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ لیکن اگر انسان زاہد ہو اور دنیا کے مال و دولت کے آنے جانے سے اسے کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو در حقیقت یہی انسان غنی اور بے نیاز ہے۔

4۔ تقوا و پرہیزگاری
ورع در واقع عربی زبان میں تقوا سے ایک درجہ بلند انسانی نفسانی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان نہ فقط حرام سے اپنے آپ کو بچاتا اور واجبات انجام دیتا ہے بلکہ شبہات اور مشکوک موارد میں بھی بڑی احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے۔ ورع اور تقوی کو سپر سے تعبیر کرنے کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح سپر جنگوں میں انسان  کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح ورع اور تقوا بھی انسانی روح کی حفاظت کرتا ہے۔ جس انسان کی روح کو تقوا اور پرہیزگاری نے اپنے حصار میں لیا ہو وہ روح شیاطین جن و انس کی ہر تیر سے محفوظ رہتی ہے۔

5۔ بہترین ساتھی
آیات و روایات کی رو سے بہترین ساتھی اور دوست انسان کو مشکلات اور پریشانیوں  میں تسلی دینے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اور اسے آئندہ کی امید دلاتا ہے۔ امام علیہ السلام نے خدا کے فیصلے پر راضی رہنے اور تسلیم ہوجانے کو انسان کے لئے بہترین ساتھی قرار دیا ہے۔ کیونکہ انسان اگر خدا کے فیصلے سے راضی ہو اور اس کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم ہو تو اس کے سامنے ہر قسم کی مشکل آسان ہو جائے گی۔ کیونکہ اسے ہر سختی کے بعد آرامش کا الہی قانون معلوم ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔ لہذا یہ جذبہ اگر انسان میں بیدار ہوجائے تو پھر انسان تنہا بھی تنہائی کا احساس نہیں کرتا کیونکہ خدا کی رضایت اس کے ساتھ ہے۔ اگر خدا کی رضایت اس کے ساتھ ہے تو سمجھو خدا اس کے ساتھ ہے۔ اور اگر خدا اس کے ساتھ ہے تو بقول امام حسین(ع) ہر شئی اس کے ساتھ ہے۔

"الهی ماذا وَجَدَ مَن فَقَدَک و ما الذی فَقَدَ مَن وَجَدَک"
"خدایا! اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھویا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پایا۔"(دعائے عرفہ)

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .