۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
محمد سجاد شاکری

حوزہ/ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"عقلمند کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے۔ کشادہ روئی محبت کا جال ہے۔ اور تحمل و بردباری عیبوں کی قبر ہے۔"

ترجمہ و تفسیر: مولانا محمد سجاد شاکری

حوزہ نیوز ایجنسی |

وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام:"صَدْرُ الْعَاقِلِ‏ صُنْدُوقُ‏ سِرِّهِ‏ وَ الْبَشَاشَةُ حِبَالَةُ الْمَوَدَّةِ وَ الِاحْتِمَالُ قَبْرُ الْعُيُوبِ وَ رُوِيَ أَنَّهُ قَالَ فِي الْعِبَارَةِ عَنْ هَذَا الْمَعْنَى أَيْضاً [الْمُسَالَمَةُ خَبْ‏ءُ الْعُيُوبِ‏] وَ مَنْ رَضِيَ عَنْ نَفْسِهِ كَثُرَ السَّاخِطُ عَلَيْهِ؛" "عقلمند کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے۔ کشادہ روئی محبت کا جال ہے۔ اور تحمل و بردباری عیبوں کی قبر ہے۔ (یا آپ نے اس جملے کو دوسری عبارت میں یوں بیان فرمایا کہ) صلح و صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے خودپسندی اختیار کی اس کے دشمن زیادہ ہوگئے۔"

 حصہ اول: شرح الفاظ 

1۔ صَدْر: سینہ، قلب، دل۔

2۔ الْعَاقِلِ‏: عقل رکھنے والا، عقلمند، سمجھدار۔

3۔ صُنْدُوق: صندوق، لوہا یا لکڑی کا وہ بکس جس میں قیمتی اشیاء کو محفوظ کیا جاتا ہے۔

4۔ سِرِّ: راز، خفیہ رکھی جانے والی بات۔

5۔ الْبَشَاشَة: کشادہ روئی، خوش روئی، خندہ پیشانی۔

6۔ حِبَالَةُ: یہ کلمہ حبل سے مشتق ہوا ہے اور حبل کا معنی رسی کے ہے۔ لہذا حبالہ شکاری کے اس جال کو کہا جاتا ہے جو چھوٹی چھوٹی رسیوں سے بنا ہے۔

7۔ الْمَوَدَّةِ: محبت، دوستی، مودت، عشق۔

8۔ الِاحْتِمَالُ: تحمل، بردباری، برداشت، چشم پوشی۔

9۔ قَبْرُ: مدفن، قبر، مزار، محل دفن انسان، لحد۔

10۔ الْعُيُوبِ: عیب کی جمع، نقص، کمی، بدی۔

11۔ رُوِيَ: روایت کی گئی ہے۔

12۔ قَالَ:کہا، فرمایا۔

13۔ الْمُسَالَمَةُ: صلح و صفائی، مسالمت، بنا رہنا، مل جل کر رہنا، تحمل و بردباری سے زندگی کرنا۔

14۔ خَبْ‏ءُ:چھپانا، مخفی کرنا، ڈھانپنا۔

15۔ رَضِي:راضی ہوا، قبول کیا، مان لیا۔

16۔ نَفْسِ: نفس، خودی، ذات، اصلیت۔

17۔ كَثُرَ:زیادہ ہوا۔

18۔ السَّاخِطُ: سخت غصہ کرنے والا، بہت زیادہ ناراض۔

 حصہ دوم: سلیس ترجمہ

"عقلمند کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے۔ کشادہ روئی محبت کا جال ہے۔ اور تحمل و بردباری عیبوں کی قبر ہے۔ (یا آپ نے اس جملے کو دوسری عبارت میں یوں بیان فرمایا کہ) صلح و صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے خودپسندی اختیار کی اس کے دشمن زیادہ ہوگئے۔"

 حصہ سوم: شرح کلام 

امام علیہ السلام اس نورانی کلام میں چار ایسی صفات بیان فرما رہے ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان  دنیا و آخرت دونوں میں سرخ رو ہو سکتا ہے۔

1۔ راز داری:

فرمایا: عقلمند کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے۔

جس طرح عقلمند انسان اپنی قیمتی اشیاء کو صندوق میں محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح رازوں کو بھی سینے میں محفوظ کرتا ہے۔ اور ہر کسی کے سامنے بیان نہیں کرتا، چاہے اس کے اپنے راز ہوں یا دوسروں کے۔

کیونکہ اسرار دو قسم کے ہیں:

 الف) اپنے اسرار

 ب) دوسروں کے اسرار

الف) اپنے رازوں کو فاش کرنے والا احمق ہے۔

اگر انسان اپنے رازوں کی بھی حفاظت نہ کر سکے اور اسے ہر کسی کے سامنے برملا کرے چاہے قابل اعتماد ہو یا نہ ہو تو یہ عمل خود بے وقوفی کی علامت ہے۔ کیونکہ کوئی بھی عاقل انسان امام کے فرمان کے مطابق اپنے رازوں کو ہر کس و ناکس پر برملا نہیں کرتا۔ بلکہ انسان کی زندگی میں راز دار بہت ہی کم ہوتے ہیں یا اصلا ممکن ہے کسی انسان کو کوئی راز دار دوست نہ ملے۔ امیر المؤمنین، حضرت زہرا کی شہادت کے بعد اکثر اوقات کنویں میں سر ڈال کر کنواں کے پانی سے ہم کلام ہوتے تھے۔ یعنی کوئی نہیں تھا جس کے سامنے مولا اپنے بھیدوں کو برملا کرے۔ پس انسان کو اپنا سفرہ دل کسی کے سامنے کھولنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے کہ سامنے والا قابل اعتماد ہے یا نہیں۔

کیونکہ انسان اپنا راز کسی کے سامنے بیان کرے تو گویا اس نے اپنی اسیری اور غلامی کا پھندا اپنے گلے میں ڈالا ہے۔ ممکن ہے وہ آدمی اس کو اسی راز کے ذریعے بلیک میل کرے۔ وہ بھی ایک بار نہیں، دو بار نہیں بلکہ زندگی بھر۔  مولا اسی مطلب کو یوں بیان فرماتے ہیں:

"تیرا راز تیرے ہاتھوں اسیر ہے، لیکن جب تو نے اسے فاش کردیا تو تم خود اس کے اسیر ہوگئے۔"

 ب) دوسروں کے رازوں کو برملا کرنے والا خائن ہے۔

انسانی معاشرے میں باہم زندگی کرنے والوں کے ایک دوسرے کی گردن پر کچھ ذمہ داریاں اور حقوق عائد ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک بنیادی حق ایک دوسرے کے راز دار ہونا ہے۔ ایک دوسرے کے بھیدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اور جو ان حقوق کی رعایت نہیں کرتا تو وہ خائن ہے۔ اور اس نے اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت کی ہے۔ چاہے ان کے درمیان کا تعلق اور ہمراہی کسی بھی نسبت سے ہو۔ چاہے اولاد اور والدین کی نسبت پائی جاتی ہو یا میاں بیوی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہوں، اسٹاف اور باس کا رابطہ ہو یا سیاست دان اور عوام کا۔ خلاصہ ہر کسی کو اپنے ساتھی اور ہم نشین کے رازوں کی حفاظت کرنی چاہئے، خصوصا ایک فیملی میں اولاد کو والدین کا اور والدین کو اولاد کا راز دار ہونا چاہئے۔ شوہر کو بیوی کا اور بیوی کو شوہر کا پکا راز دار ہونا چاہئے۔ ورنہ خیانت کی بنیاد پر بنے گھرانے میں بہت جلد دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اور پھر وہاں نہ کوئی حقوق کی رعایت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی احترام کا قائل رہتا۔

اگر ماں باپ اولا کے رازوں کی حفاظت نہ کریں تو وہ بچے اپنے ماں باپ کو ایک جاسوس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور اسی طرح اس کا برعکس بھی اگر بچے ماں باپ کے رازوں کی محافظت نہ کریں تو ماں باپ اپنے بچوں کے ہوتے ہوئے بھی خود کو بے سہارا محسوس کرنے لگتے ہیں۔

شوہر بیوی کا راز دار نہ بنے تو بیوی اپنا سفرہ دل گھر سے باہر پڑوسن کے پاس کھولتی ہے نتیجے میں آپ اپنے گھر کا در و دیوار کتنا ہی مضبوط بنائیں غیروں کو آپ کے گھر میں جھانکنے کے لئے روزنہ(سوراخ) مل ہی جاتا ہے۔ اسی طرح بیوی شوہر کا راز دار نہ بنے تو پھر شوہر اپنا دل ہی کسی اور کو دے بیٹھتا ہے۔ لہذا اپنے ارد گرد کے عزیزوں کی راز داری کر کے آپ سب سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کر رہے ہوں گے پس رازوں کو برملا کر کے نہ بے وقوف بنو اور نہ خائن۔ کیونکہ پیامبر اکرم(ص) احمق اور بے وقوف کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے ایک نشانی رازوں میں خیانت کو شمار کرتے ہیں: "اگر اس (احمق) کے پاس اپنا راز رکھو گے تو وہ اس میں خیانت کرے گا۔"

2۔ کشادہ روئی

آپ نے فرمایا: کشادہ روئی محبت کا جال ہے۔

بہت ہی پیاری تعبیر کا استعمال کیا ہے امام نے۔ کیونکہ جس طرح شکاری بڑی ظرافت اور احتیاط سے اپنا جال بچھاتا ہے تاکہ شکار کے بچ جانے کا کوئی امکان نہ ہو۔ اور اس کو شکار کرنا یقینی ہوجائے۔ کشادہ روئی، خوش روئی اور ملتے وقت کھلکھلاتے چہرے کے ساتھ ملنا شکاری کے جال سے کم نہیں ہے۔ ہر انسان کشادہ روئی سے ملنے والے میں جذب ہوجاتا ہے۔ کسی بھی شخصیت میں جذب ہونے کے کئی راستے ہیں۔ مثلا اس کا کردار، گفتار اور رد عمل وغیرہ لیکن سب سے پہلے جس چیز کی وجہ سے ایک انسان کسی دوسرے انسان میں جذب ہوجاتا ہے وہ ملتے وقت اس کے چہرے کا رد عمل ہے۔ حتی سلام اور مصافحہ کا مرحلہ بھی اس کے بعد آتا ہے۔ پس چہرے کا ری ایکشن بہت بڑا اثر دکھاتا ہے اور اس کو دیکھتے ہی سامنے والا اندازہ لگاتا ہے کہ کتنا بڑا دل رکھنے والا ہے۔ کیونکہ جو انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کو دیکھ کر ایک مسکان اپنے چہرے پہ نہ لا سکے تو وہ حقیقت میں دنیا کا سب سے بڑا کنجوس آدمی یے۔ ہمارے پیامبر اور ائمہ طاہرین کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ آپ لوگوں کے چہرے پر ہمیشہ دھیمی سی مسکراہٹ چھائی رہتی تھی۔ جبھی تو جو ان ذوات مقدسہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ان میں محو ہوجاتے۔ اور ان کی مسحور کن شخصیت کا عاشق بن جاتے۔

جو کشادہ روئی سے ملتا ہے وہ بہت جلد لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔

کشادہ روئی سے ملنے والے کا دوست اور چاہنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

لوگ کشادہ روئی رکھنے والے انسان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ایک خاص لذت محسوس کرتے ہیں۔

کشادہ روئی سے پیش آنے والا اپنی زندگی میں خاص طور پر اجتماعی اور سماجی روابط میں کامیاب رہتا ہے۔

بے پناہ لوگ کشادہ روئی سے پیش آنے والے کو اپنا پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔

اور کشادہ روئی جس طرح انسان کو دنیا میں سعادتمند بناتی ہے آخرت میں بھی سعادت سے ہمکنار کرتی ہے۔

3۔ تحمل و بردباری

فرمایا: تحمل و بردباری عیبوں کی قبر ہے۔ (یا آپ نے اس جملے کو دوسری عبارت میں یوں بیان فرمایا کہ) صلح و صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے۔

آیت اللہ العظمی خوئی(رح) فرماتے ہیں: جس طرح قبر اپنے اندر بدبودار جس کی بدبو اور اس سے پھیلنے والی بیماریوں کو چھپائے رکھتی ہے فضا کو مسموم ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ اسی طرح تحمل و بردباری بھی بد زبانیوں، بد رفتاریوں اور بد اخلاقیوں سے اسلامی معاشرے کو محفوظ رکھتی ہے۔ اسی لئے مولا نے اسے عیوب کی قبر سے تعبیر فرمایا ہے۔

تحمل و بردباری ایک معاشرے میں صلح و امنیت برقرار رکھنے کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔ کیونکہ جرائم کی بہت بڑی تعداد عدم تحمل کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ انسان معصوم تو نہیں کہ اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوجائے۔ پس ایک دوسرے کی غلطیوں کو تحمل کرتے ہوئے نظر انداز کریں اور اس پر پردہ ڈالنے کی کوشس کریں تو نت نئی دشمنیاں جنم نہیں لیتی، نتیجے میں صلح و امنیت معاشرے میں برقرار رہتی ہے۔

اگر آج ہمارے معاشرے میں نفرتیں، دشمنیاں، لڑائی جھگڑے، قتل و غارتگری اور دہشت گردی وغیرہ بہت عام ہیں تو ان سب کا ایک بنیادی سبب ہمارے معاشرے میں تحمل کا فقدان ہے۔

اگر والدین اور اولاد میں تحمل نہ ہو تو نفرتیں جنم لیتی ہیں۔

اگر میاں بیوی میں تحمل نہ ہو تو روز روز کا جھگڑا پھر طلاق پھر عدالتی کچہریوں کا چکر شروع ہوجاتا ہے۔

اگر استاد شاگرد میں تحمل نہ ہو تو تعلیمی نظام کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

اگر اپنے ہم نوع انسانوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں پر تحمل کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو نفرتیں، لڑائی جھگڑے، چوری ڈکیتی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔

اگر کسی کی ترقی کو تحمل نہ کر سکے تو دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کی عادت عام ہوجاتی ہے۔

اگر عالم دین کے پاس تحمل نہ ہو تو وہ اپنے ہر مخالف پر کفر کے فتوے لگا کر واجب القتل قرار دیتا ہے۔ اور یہیں سے فرقہ واریت، تکفیریت اور مذہبی دہشت گردی کی لعنت معاشرے کے دامن گیر ہوجاتی ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بچے یتیم ہوجاتے ہیں، سہاگ اجڑ جاتے ہیں، مائیں گریاں ہوجاتی ہیں، بازاروں میں رونق نہیں رہتی۔ مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں، بستیاں اجڑ جاتی ہیں اور آدم کے بیٹے اور حوا کی بیٹی کو ہر جگہ آگ اور خون کے علاوہ کچھ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔

لہذا تحمل و بردباری ایسی بڑی نعمت ہے جس کے چھن جانے سے اور بہت ساری نعمتوں سے بھی ہم محروم ہوجاتے ہیں۔ پس اپنے اندر تحمل پیدا کیجئے تاکہ خوشگوار زندگی جی سکو۔ 

4۔ خود پسندی

فرمایا: جس شخص نے خودپسندی اختیار کی اس کے دشمن زیادہ ہوگئے۔

کیونکہ کوئی بھی انسان خود پسند شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اور اس کو دیکھ کر چہرہ جھریوں سے بھر جاتا ہے۔ لہذا لوگ اس کے دوست بننے کے بجائے دشمن بنتے ہیں۔

البتہ خود پسندی اور خود اعتمادی میں اشتباہ نہ ہوجائے کیونکہ خود اعتمادی اپنی قوتوں پر بھروسہ کا نام ہے۔ جبکہ خودپسندی اپنے آپ کو ہر چیز میں باکمال سمجھنا دوسرے الفاظ میں خود کو خطاؤں سے پاک اور معصوم تصور کرنا اور باقی سارے لوگوں کو خود سے کم تر اور معیوب دیکھنا ہے۔ لہذا ایسا انسان ہر جگہ اپنی تعریفیں کرتا پھرتا ہے۔ مولا فرماتے ہیں: "ناپسند ترین سچائی، انسان کا اپنی تعریف کرنا ہے"

اور چونکہ اپنے اندر کوئی عیب نہیں دیکھتا اس لئے عیبوں سے دور رہنے کی کوشش نہیں کرتا نتیجے میں عیبوں سے پر ہوجاتا ہے۔

اپنے اندر کسی قسم کی کمی کا احساس نہیں کرتا اس لئے ترقی نہیں کرتا۔

خود سب سے بہتر اور سب کو خود سے کم تر سمجھتا ہے اس لئے ہر کوئی اس کے ساتھ معاشرت سے اجتناب کرتا ہے۔ مولا فرماتے ہیں: "وحشتناک ترین تنہائی خودپسندی ہے"

خود کو سب سے بڑا عقلمند تصور کرتا ہے اس لئے لوگ بھی اسے سب سے بڑا احمق سمجھتے ہیں۔ مولا فرماتے ہیں: "خود پسندی بے وقوفی کا سر ہے۔"

خود کو سب سے برتر اور بہتر اور سب کو خود سے کم تر سمجھتا ہے اس لئے وہ بجائے اس کے کہ ترقی کی راہیں طے کرے تنزلی اور پستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے: "عجب و خودپسندی ترقی اور پیشرفت کو روکتی ہے۔"

خودپسندی کے مقابلے میں تواضع اور انکساری ہے۔ متواضع اور منکسر المزاج انسان تر و تازہ چھڑی کی مانند ہے اور خود پسند خشک چھڑی کی سی۔

تر و تازہ چھڑی ہر پیچ و خم اور نشیب و فراز والے سانچے میں ڈھل سکتی ہے لیکن خشک چھڑی زندگی کے پیچ و خم اور نشیب و فراز کے سامنے کچھ دیر مقاومت دکھاتی ہے پھر زندگی کی ناسازگاریوں کے سامنے تاب نہ لاتی ہوئی ٹوٹ جاتی ہے۔ پس ضروری لچک پیدا کرو اور منکسرالمزاج بن جاؤ تاکہ اچھی زندگی کر سکو۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .