۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
محمد سجاد شاکری

حوزہ/ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"کنجوسی ننگ و عار ہے، اور بزدلی عیب ہے، اور غربت و تنگدستی زیرک انسان کو اپنی دلیل کے بیان سے عاجز بنا دیتی ہے، اور غریب و مفلس اپنے ہی شہر میں غریب الوطن ہوتا ہے۔"

ترجمہ و تفسیر : مولانا محمد سجاد شاکری

حوزہ نیوز ایجنسی

قال امیر المومنین علی علیہ السلام:البُخلُ عارٌ و الجُبنُ مُنقَصَةٌ و الفَقرُ یُخرِسُ الفَطِنَ عَن حُجَّتِهِ وَ المُقِلُّ غَریبٌ فی بَلدَتِه؛
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"کنجوسی ننگ و عار ہے، اور بزدلی عیب ہے، اور غربت و تنگدستی زیرک انسان کو اپنی دلیل کے بیان سے عاجز بنا دیتی ہے، اور غریب و مفلس اپنے ہی شہر میں غریب الوطن ہوتا ہے۔"

حصہ اول: شرح الفاظ

1۔ البُخلُ: بخل، کنجوسی۔

2۔ عار: ننگ و عار، ذلت، شرمندگی۔

3۔ الجُبنُ: بزدلی، ڈرپوک ہونا۔

4۔ مُنقَصَةٌ:عیب، نقص، کمی۔

5۔ الفَقر: غربت، تنگدستی۔

 6۔ یُخرِسُ:گونگا بنا دیتا ہے، بولنے سے عاجز کرتا ہے۔

7۔ الفَطِن:زیرک، دانا، عقلمند، با ہوش۔
    
8۔ حُجَّة: دلیل، حجت، سند۔

9۔ المُقِلُّ: مفلس، تنگدست، فقیر۔
 
10۔ غَریبٌ:پردیسی، مسافر۔

11۔ بَلدَة:وطن، شھر، ملک، سرزمین۔

حصہ دوم: سلیس ترجمہ

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

"کنجوسی ننگ و عار ہے، اور بزدلی عیب ہے، اور غربت و تنگدستی زیرک انسان کو اپنی دلیل کے بیان سے عاجز بنا دیتی ہے، اور غریب و مفلس اپنے ہی شہر میں غریب الوطن ہوتا ہے۔"

حصہ سوم: شرح کلام

حضرت امیر المومنین(ع) اپنے اس گہر بار کلام میں ایسے تین اخلاقی کمزوریوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، جو انسان کی سماجی اور اجتماعی زندگی میں بہت ہی تاثیر گزار ہیں۔ اور وہ بخل، بزدلی اور تنگدستی ہیں۔ ذیل میں انہی تین خصلتوں کی مختصر تشریح بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

1۔ بخل و کنجوسی:

بخل اس صفت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان مال کے ہوتے ہوئے بھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا وہ حتی اپنی ذات پر بھی خرچ کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتا۔ اسی وجہ سے مال کے ہوتے ہوئے فقیرانہ زندگی گزارتا ہے۔ جیسا کہ امیر المؤمنین(ع) ایک جگہ بخیل کی اصلیت اور حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: "مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ جس فقر و نداری سے بھاگنا چاہتا ہے، اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔ اور جس ثروت کا طالب ہوتا ہے، وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی گزارتا ہے اور آخرت میں دولتمندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا۔"(حکمت: 126)

انسانی معاشرے میں عمومی روابط کے برقرار رہنے میں باہمی منفعتیں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن بخیل کے لئے یہ تمام مفاہیم بے معنی ہیں۔ وہ نہ فقط کسی دوسرے کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوتا بلکہ خود اپنے بھی فائدے کا خیال رکھے بغیر صرف مال جمع کرنے پر لگا ہوا ہوتا ہے۔ اور اپنے اوپر بھی اس لئے خرچ نہیں کرتا کہ کہیں پیسہ اور مال میں کمی نہ آجائے۔  اس حد تک مال دنیا کی محبت، انسان کو جرائم کی دنیا کا بادشاہ بنا دیتی ہے۔ لہذا مولا(ع) ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: "بخل و کنجوسی تمام برے عیوب کا مجموعہ ہے۔ اور ایسی مہار ہے جو اسے ہر برائی کی طرف کھینچ کر لے جائے۔" (حکمت: 377)

لہذا مولا نے اپنے بعض دیگر فرامین میں بخیل کے ساتھ کچھ خاص قسم کے روابط سے منع کیا ہے۔

 الف) بخیل کو دوست مت بناؤ:

مولا(ع) اپنے فرزند امام حسن(ع) کو نصیحت میں فرماتے ہیں:"اے فرزند! ۔۔۔۔ بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی ضرورت ہوگی وہ تمہاری مدد کرنے سے ہاتھ روکے گا۔" (حکمت: 38)

ب) بخیل کو مشاور مت بناؤ:

مولا علی (ع) اپنے مشہور عہدنامہ میں مالک سے فرماتے ہیں:"اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمہیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا۔ اور فقر و افلاس کا خطرہ دلائے گا۔" (خط: 53)

طبقاتی نظام میں بخل کا کردار

جب کسی معاشرے میں امیر اور مالدار طبقہ بخیل ہوں اور وہ اپنی ذات، اپنی اولاد اور اپنے خاندان پر خرچ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو ایسے افراد کے ارد گرد ہی فقر و تنگدستی بے داد کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسلام نے مالداروں کی دولت میں غریبوں اور فقیروں کے لئے حصہ قرار دیا ہے اور خمس، زکات، صدقہ اور خیرات کے اصول اسی لئے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں طبقاتی فاصلے کم سے کم ہوتے چلے جائیں۔ جب امیر اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو پھر معاشرے میں نت نئے جرائم وجود میں آتے ہیں۔ مولا ایک دوسری جگہ جابر بن عبد اللہ انصاری سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:

"اے جابر! چار قسم کے آدمیوں سے دین و دنیا کا قیام ہے۔ عالم جو اپنے علم کو کام میں لاتا ہو۔ جاہل جو علم کے حصول میں عار نہ کرتا ہو۔ سخی جو عطا و بخشش میں بخل نہ کرتا ہو۔ اور فقیر جو آخرت کو دنیا کے عوض نہ بیچتا ہو۔۔۔۔۔۔۔ جب دولت مند احسان و بخشش میں بخل کرے گا تو فقیر اپنی آخرت دنیا کے بدلے بیچ ڈالے گا۔"(حکمت: 372)

2۔ بزدلی

بزدلی انسان کی نفسیاتی ایک کیفیت کا نام ہے۔ جس انسان میں یہ صفت پائی جاتی ہو وہ نہ خود کسی میدان میں کوئی کار آمد انسان بنتا ہے اور نہ ہی کسی کو بننے دیتا ہے۔

 بزدل باپ بچوں کو بھی بزدل بنا دیتا ہے، بزدل استاد شاگروں کو بھی بزدل بنا دیتا ہے۔ بزدل کمانڈر اپنی لشکر کے جوانوں سے مردانہ وار لڑنے کا حوصلہ چھین لیتا  ہے، بزدل حکمران قوم کی عزت و وقار کو داؤ پے لگاتا ہے اور بزدل لیڈر شیر جیسی صفت رکھنے والی قوم کو بھی گیڈر بننے کا درس دیتا ہے۔

شجاعت و دلیری ایمان کی اور بزدلی کفر و شرک کی علامت ہے۔ لہذا نہ بزدل ایمان لا سکتا ہے اور نہ ہی مومن بزدل ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ مولا نے اسی مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:

"بزدل شخص ایمان نہیں لاتا۔۔۔۔ اور مومن ڈرپوک و بزدل نہیں ہوتا۔"

اسی طرح آپ نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں بھی انہیں بزدل انسانوں کو مشاور بنانے اور ان سے مشورہ کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بزدل بڑے فیصلے اور اقدامات سے انسان کو روکتا ہے۔

 خواتین کی اچھی صفات

مذکورہ دو صفات یعنی بخل اور بزدلی کے بارے میں امیر المومنین(ع) کا فرمان ہے کہ یہ وہ صفات ہیں جو مردوں کے لئے تو بری ہیں لیکن خواتین کے لئے اچھی ہیں۔

"عورتوں کی بہترین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین خصلتیں ہیں۔ غرور، بزدلی اور کنجوسی۔ اس لئے کہ جب عورت مغرور ہوگی تو وہ کسی کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی۔ کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی۔ اور بزدل ہوگی تو وہ ہر اس چیز سے ڈرے گی جو اس (کی عزت) کے لئے پیش آئے گی۔"

اس کلام کی تفسیر میں بہت سارے نکات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے جسے انشاءاللہ اپنے موقع پر بیان کریں گے۔

3۔ فقر و تنگدستی:

فقر و تنگدستی کسی بھی معاشرے کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ خصوصا کسی حکومت کے لئے۔ اسلام نے اس سے مقابلے کے لئے نہایت ہی کارآمد طریقے متعارف کرایا ہے لیکن ان پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے آج اسلامی معاشرہ سب سے زیادہ غربت و افلاس کا شکار ہے۔ معاشرے میں فقر عام ہونے کے کچھ بنیادی اسباب و عوامل ہیں۔

 الف) امیروں کا بخل:

اگر آج اسلامی ممالک میں ہر شخص اپنے گردن پر موجود مالی حقوق ادا کریں اور امیر طبقہ قرآن کے دستور پر عمل کرتے ہوئے اپنے مال سے  غریب طبقے کا حق ادا کریں تو شاید ہی کوئی غریب رہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے معاشرے میں اسلام کے مالی واجبات اور فرائض پر عمل کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

 ب) فقیروں کی سستی:

فقر و تنگدستی معاشرے سے ختم نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ خود فقیر طبقہ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ عزت سے کھائیں انہیں مانگ کر کھانے اور مفت روٹی کا چسکا لگ چکا ہے۔ اس لئے وہ خود سے اپنی مالی پوزیشن بہتر کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اور ان کی اس عادت کی بھی ایک بنیادی وجہ وہ امیر طبقہ ہے جو فقیروں کی مدد تو کرتے ہیں لیکن ان کی یہ مدد اس نادان ماں باپ کی بے جا محبت جیسی ہے جو گرنے کے خوف سے کبھی اپنے بچے کو چلنے نہیں دیتے۔ جس کے نتیجے میں بچہ کبھی چلنا نہیں سیکھتا۔ ہمارے مخیر حضرات بھی فقیر طبقے کے ساتھ کچھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ فقیر کا پیٹ بھرنے کے لئے عمومی دسترخوان یا ماہانہ راشن کا بندوبست کریں۔ لیکن ان کی فقر و تنگدستی کے مکمل خاتمے کے لئے کچھ نہیں سوچتے۔ جبکہ یہ عمل ہمارے ائمہ طاہرین(ع) کی سیرت اور کردار کے بالکل خلاف ہے۔ وہ حضرات فقیروں کی وقتی ضرورت (روٹی، لباس، علاج اور مکان) کا بھی بندوبست کرتے تھے اور ان کو تنگدستی سے نجات کے وسائل بھی فراہم کرتے تھے۔ کسی کو شغل دلاتے تھے تو کسی کے لئے زراعت کا بندوبست کراتے تھے، کسی کو حیوانات دیتے تھے تو کسی کو تجارت کے لئے سرمایہ فراہم کرتے تھے۔ غرض یہ کہ فقیر اور نادار انسان کی اس طرح مدد فرماتے تھے کہ پھر زندگی میں دوبارہ مانگنے کی نوبت تو دور کی بات خود بھی زمانے کے مخیر حضرات میں شمار ہوتے تھے۔

کچھ اور عوامل جیسے کرپٹ حکومت، سرمایہ دارانہ نظام اور پیشہ ورانہ گدائی وغیرہ بھی معاشرے میں فقر و تنگدستی عام ہونے کے بنیادی عوامل اور فقر سے مقابلے کی راہ میں رکاوٹیں شمار ہوتی ہیں۔ جس پر گفتگو ہماری بحث کو طولانی کرنے کا باعث بنے گا انشاء اللہ پھر کبھی اس پر گفتگو ہوگی۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Safdar Hussain Shah PK 09:47 - 2023/08/10
    0 0
    ماشاءاللہ قبلہ صاحب نے حق ترجمہ وتفسیر کلمات قصار ادا کردیا