تحریر: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر بھیجا پھر اس کو دنیا اور آخرت کی عظیم نعمت کے حصول کی تاکید کی۔ اللہ نے انہی انسانوں میں سے اپنے منتخب بندوں کو علم کی دولت سے مالامال کرکے بھیجا اور اہل بصیرت ان افراد کو (جنہیں اللہ نے یہ عظیم دولت عطا کر کے دنیا میں بھیجتا ) ہادی ، راہنما اور صاحبان علم کہتے ہیں۔ تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے جو انسان کو حیوان سے ممتاز بناتی ہے اگرکسی معاشرے میں تعلیمی فقدان ہے تو وہ حیوان سے بدتر ہے کیونکہ تعلیم فرد ، قوم، معاشرے ، شہر، ملک اور اہل دنیا کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کا سبب بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول ، کالج اور یونیورسٹی سے کسی ڈگری کا حاصل کرنا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکے۔ تعلیم وہ سرمایہ ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان اللہ کی قربت اور دنیا میں کامیابی کو حاصل کرلیتا ہے۔
حصول تعلیم کو تمام مذاہب اہمیت دیتے ہیں مگر دین اسلام حصول تعلیم کو واجب اور ضروری جانتا ہے۔ آج کے اس پر آشوب دور میں کمپیوٹر، ایٹمی ترقی، سائنس اور صنعتی ترقیوں کا بول بالا ہے ۔ اسکولوں میں مختلف جدید علوم جن میں ٹیکنیکل، وکالت، طبابت، جغرافیا، کیمیا وغیرہ کا حاصل کرنا لازمی تقاضہ بن چکا ہے اور بننا بھی چاہیے کیونکہ انسانی معاشروں کی ضرورت ہے اور یہ ہی علوم خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات کے ساتھ ہوں تو دینی علم کہلاتے ہیں چنانچہ تعلیم یافہ افراد کی خلوص نیت، خدمت خلق اور اخلاق کی وجہ سے نیک اور صالح معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔
تعلیم کا اولین مقصد انسان کی فکری، جسمانی او روحانی صلاحیتوں کی نشونما کرنا ہوتاہے تعلیمی حصول کیلئے قابل اساتذہ بے حد ضروری ہیں جوبچوں کو اعلی تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں استاد وہ نہیں جو محض دو چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہوجائیں بلکہ استاد وہ ہے جو طالب اور طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور اپنے شاگردوں کو شعور و ادراک ، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا ،ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔
جہاں اساتذہ کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں قوم و ملت کی بھی اس سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، قوموں کے ہرفرد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے معاشرے کو اچھا بنائیں اور یہ عظیم کام بغیر علم کے ممکن ہی نہیں ہے اگر معاشرے خراب ہیں تو سمجھ لیجیے تعلیم کا فقدان ہے لہذا اس فقدانی کا علاج بہت ضروری ہے در حقیقت قوم کے با اثر و رسوخ افراد نے اس مسئلہ کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں ہے اور اگر سوچا بھی ہے تو ان سے باصلاحیت افراد جوڑے نہیں ہیں۔
یاد رکھیے اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت جیسی دولت کی مدد سے دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمانوں نے علم اور تعلیم سے دوری یا تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا یا تو وہ غلام بنالیئے گئے یابحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔
ہندوستان میں بھی قوم کی حالت کچھ اسی طرح دکھائی دے رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ قوم اپنی شناخت کھو بیٹھی ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ شیعہ قوم علم سے پہچانی جاتی تھی اگر ماضی میں علم کی بات ہوتی تھی تو کہاجاتا تھا سادات اور اہلبیت علیہم السلام کے پیروکار عالم ہوتے ہیں مگر آج ایسا نہیں ہے کیونکہ شیعہ قوم تعلیم سے دوری کی وجہ سے اپنی شناخت کھوبیٹھی ہے۔ یہ شناخت کسی ایک کی سعی و تلاش سے واپس نہیں آئے گی بلکہ قوم کے ہرفرد کو اس مشن میں حصہ داری کرنی ہوگی اور جب کسی مشن کا آغاز ہوتا ہے تو چند ہی لوگ اس کی ابتدا کرتے ہیں ۔ چنانچہ ملک بھر میں سمینار اور کانفرنس برگزار ہو تے رہتے ہیں جن میں زیادہ تر قوم و ملت کے مستقبل کی کوئی بات نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو اس پر عمل نہیں ہوتا اور یہ سب اسلیے ہے کہ سمینار یا کانفرنس کے برگزار کرنے کا مقصد ہی شہرت طلبی یا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے چنانچہ وہ ان کی منشاء کے مطابق مل جاتی ہے۔ میں اپنی قوم سے درخواست گزار ہوں کہ تعلیم کے مسئلہ کی طرف متوجہ ہوں اور قوم و ملت کے بچوں کے مستقبل پر غور فرمائیں ۔ اس پر آشوب ماحول میں قوم کے ہرفرد کا حقیقی وظیفہ یہ ہے کہ وہ تعلیم اور اقتصاد پر توجہ دے کر اپنی شناخت کو محفوظ کر ے اور یہ کام اس وقت ممکن ہوگا جب اہل بصیرت اس امر کے لئے حساس دل کے ساتھ آگے آئیں اور قوم کی ڈوبتی ہوئی نبضیں اوپر لائیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ لوگ کام نہیں کر رہے کام ہورہا ہے جو مختلف اداروں اور افراد کی صورت میں سامنے آیا اور آتارہے گا۔ مگر اپنے اپنے معاشرے، محلوں اور شہروں کا سنجیدگی سے تجزیہ کریں کہ ہمارے شہر اور محلے میں تمام وسائل علمی اور زیستی مہیا ہیں یا ہمیں کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا پڑ رہا ہے اگر علاج کی ضرورت ہے تو ہم نے اپنے بچوں کو میڈیکل سائنس کی تعلیم دی اور ہوسپیٹل بناکر علاج کا ساز و سامان فراہم کیا ہے یا نہیں۔ ہم نے کبھی معاشرے کے غریب افراد کی تعلیم، علاج اور اقتصادی حالت کے سدھار کی فکر کی؟ہرگز نہیں۔ اگر کبھی سوچا بھی تو اپنی درآمد ، شہرت یا قوت کے مظاہرے کے لئے کسی شخصیت یا کسی دوسری بات کو عنوان بنا کر سمینار اور کانفرنس کے بارے میں سوچا جس کا نتیجہ پانی کے بلبلے کے مانند ہے اور اس سے قوم و ملت کو کوئی نفع نہیں ہے لہذا صاحبان عقل کے لئے غور فکر کا مقام ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرائیں تاکہ جہالت جیسے وائرس کے سبب غربت، ظلم و جور، فتنہ و فساد اور بے انصافی جیسے امراج کا وجود میں آ نے سے پہلے ہی سدباب ہوسکے۔آخر میں، میں اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ پالنے والے انسانی معاشروں کی اصلاح فرما اور قوموں کو اپنے اپنے معاشرے کو اچھا بنانے کی توفیق عطا فرما آمین۔