مولانا محسن عباس مقپون کی علمی نشست آثار رہبری اور ہماری ذمہ داری میں پیش کردہ مقالہ
حوزہ نیوز ایجنسی । عظیم شخصیات کے افکار بھی عظیم ہوتے ہیں۔ انسان جتنا فکری لحاظ سے عروج کی طرف سفر کرتا ہے اسی حساب سے اس کی آئیڈیالوجی دوسروں کے افکار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آج کے دور میں جس شخصیت کے افکار نے ساری دنیا کے مفکروں کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے اور ہزار دشمنی اور کینہ توزی کے باوجود اس شخصیت کی مدح سرائی پر دنیا مجبور ہے اسے ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر اور عالم اسلام کا رہبر سید علی حسینی خامنہ ای کہتے ہیں۔ رہبر کے افکار کی ترویج ،سماج کی ضروریات میں سے ایک ہے کیونکہ ان کے افکار عالم انسانیت کی نجات کے لیےعظیم سرمایہ ہے۔رہبر انقلاب اسلامی کے افکار ، دین شناسی، کمالات معنوی کے حصول اور تشنگان معرفت کو سیراب کرنے کا سر چشمہ ہے۔ان کے افکار سے آگاہی نوجوان نسل کی صحیح سمت میں تربیت کا ضامن ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم زیادہ تر رہبر معظم کی ذات سے اظہار عقیدت کرتے ہیں لیکن ان کے انسان ساز افکار ونظریات پر غور فکر کرنے سے عاری ہیں۔ ہم عقیدت کے دیوانے ضرور ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حکیم رہبر کی پیروی اور ان کے افکار پر عمیق انداز میں سوچنا بھی چاہیے تاکہ ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے آگے بڑھ سکیں۔ہم رہبر معظم کے افکار کے صرف ساتھ اہم اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
پیغام وحدت
اتحاد واتفاق صرف مسلمانوں سے مربوط نہیں بلکہ ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ انسان مسلم ہو یا غیر مسلم جس ملک میں اتفاق اور اتحاد کا ماحول نہ ہو وہاں اجتماعی ، سیاسی، اقتصادی ، معاشی اور معاشرتی بحران جنم لیتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو اس معاشرے یا ملک میں محفوظ نہیں سمجھتا۔ رہبر معظم کے افکار میں سے ایک وحدت اسلامی ہے۔ وحدت کا نظریہ اسلامی کتب میں پایا جاتا تھا لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کا سہرا اسی رہبر کے سر سجتا ہے کیونکہ آپ نے اتحاد امت کے لیے بے مثال قدم اٹھائے ہیں۔ ہر سال اسی نظریے کی تکمیل کی غرض سے تہران میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کرتے ہیں اور سارے اسلامی نمائندوں کو اس میں دعوت دیتے ہیں۔سنی شیعہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے مغربی ممالک اور اسلام دشمن عناصر کے پروپیگنڈوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
ثقافتی تعامل
رہبر معظم ثقافتی یلغار کے مقابلے کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ثقافتی تعامل کی تأکید کرتے ہیں۔ ثقافتی تعامل کا فارمولہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں بلکہ ہر قوم وملک سے متعلق ہے جہاں عالمی استعمار اپنے مکروہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے دیگر اقوام پر ثقافتی یلغار کرتے ہیں۔ثقافتی تعامل سے مراد یہ ہے کہ ہر قوم اپنی ثقافت کی حفاظت کے ساتھ دوسری ثقافت کی اچھی اور قابل تقلید چیزوں کواپنائے اور ثقافتوں کے درمیان برابری کی سطح پر رابطے اور تعلق استوار ہوں۔
آزادی اور حریت
حریت وآزادی ہر انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔ کسی بھی انسان سے آزادی کے حق کو کوئی دوسرا چھین نہیں سکتا۔رہبر معظم نےبھی اسی نعمت کی حفاظت اور اس کے حصول کی طرف ہر انسان کو دعوت دی ہے ۔عقیدے میں آزادی ، اظہار رائے ، مذہبی رسومات سب شامل ہیں۔
توحید محوری
ہر معظم کے افکار کی خصوصیات میں سے ایک توحید محوری ہے یعنی انسان کی شخصی زندگی سے لیکر ملکی اور پھر عالمی تعلقات کے اصول توحید کے زیر سایہ تشکیل پائے۔مغربی افکار جیسے فیمینزم، سوشلزم، ہیومنیزم کے ذریعے انسانیت کو خواہشات نفسانی اور شیطانی اعمال کے اسیر بناتے ہیں جبکہ رہبر معظم انسان کو کرامت اور عزت کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
خود اعتمادی
استعماری طاقتیں سب سے پہلے کمزور قوموں کی خود اعتمادی کو ان سے سلب کرتی ہیں اور پھر اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کی راہ ہموار کرتی ہیں کیونکہ ایک قوی ارادہ کے حامل قوم کو زیر کرنا کسی بھی طاقت کے لیے ممکن نہیں ۔ ان کو بے ارادہ اور کمزورلوگوں کی ضرورت ہوتی ہیں تاکہ آسانی کے ساتھ قابو کرسکیں ۔ رہبر معظم ہمیشہ ضعیف قوموں کو اپنے اندر خود اعتمادی بحال کرنے ، شجاع اورقوی ارادے کا مالک بننے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
تعلیم وتربیت
رہبر معظم کے فرمودات پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس قدر تعلیم کے ساتھ تربیت پر زور دیتے ہیں۔ان کی نظر میں تعلیم بغیر تربیت نقصان دہ ہے، علم وہنر تب مفید ثابت ہوتے ہیں جب یہ چیزیں تربیت کے معجون ہوں، وگرنہ یہی تعلیم و ہنر انسان کو انسانیت سے دور کر کے وحشی بنادیتے ہیں۔ اگرعلم طب تربیت کے ساتھ نہ ہو تو اس علم کا پڑھنے والا قصاب بن جائیگا۔تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو استاد داعشی بن جائیگا۔
دور اندیشی
رہبر انقلاب کی نظر میں انسان کو دور اندیش ہونا چاہیں کیونکہ دور اندیش قوم ہی اپنے آپ کے ساتھ آئندہ آنے والی نسلوں کو دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے بچا کر عزت و شرف کے بام عروج کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ ان کی نگاہ میں اگر کسی قوم کی نگاہ سطحی ہو تو اس کا مستقبل خطرے میں ہے کیونکہ دشمن سو سال بلکہ اس کے آگے کا سوچ رہاہے ۔ دیگر قوموں کے استحصال کے لیے پانچ سو اور ہزارسال کا منصوبہ ابھی سے بنا لیے ہیں ایسے ماحول میں ہر انسان اور قوم کو ہوشیار اور بیدار رہنی چاہیے۔
رہبر انقلاب ایک بلند پایہ مفکر،عالم بشریت اور مسلمانوں کے مسائل اور ان کے راحل سے بخوبی آگاہ ایک عالم ب وفقیہ ابصیرت اور ہبر دوران ہیں جو ان کے آثار،کتب،تقریروں اور عملی جدوجید اور ذاتی کردار میں سب کے لئے نمایاں ہیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان آثار کامطالعہ کریں، اور اس کو معاشرے میں پھیلانے کے لئے مختلف طریقوں سے اپنا کردار ادا کریں۔