۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ رہبر معظم انقلاب کے نزدیک میڈیا کی بہت زیادہ اھمیت ہے۔ اور آپ میڈیا کو دین مبین اسلام کی تبلیغ و ترویج کا بہترین ذریعہ سمجھتے  ہیں۔کیونکہ میڈیا کے ہی ذریعے سے ہم دنیا کے گوشہ و کنار تک دین اسلام کی خوبصورت پیغامات کی اشاعت کرسکتے ہیں۔اور دنیا کے سامنے اسلامی بہترین ثقافت و تہذیب،دین کی حقیقی روح کو پیش کرنے کاعملاور اس کے ذریعے لوگوں کی ھدایت کر سکتے ہیں۔

تحریر: محمد حسن غدیری

حوزہ نیوز ایجنسیآج کے اس ترقی یافتہ دور میں تہذیب و ثقافت کی اہمیت کا کوئی منکر نہیں۔ کیونکہ نہ چاہتے ہوئے دنیا کی تہذیب و ثقافت سوشل میڈیا کے ذریعے نسل نسل نو تک منتقل ہو رہی ہیں ۔اسلامی تہذیب و ثقافت کی اہمیت کو جوانوں اور معاشرہ سمیت آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ضروری ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ آج کل میڈیا کے ذریعے وہ کام ممکن ہواہے جوپہلے ممکن نہیں تھا۔

میڈیا کے ذریعے گھر بیٹھے دین مبین اسلام کی تبلیغ و ترویج جس کی طرف سورہ نحل آیت نمبر 125 میں حکم دیا ہے کہ
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِين۔

اے رسول حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر اندازمیں بحث کریں یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ھدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔۔

سوشل میڈیا اس حکم کو بہترین و آسان ترین طریقے سےانجام دینے کابہترین وسیلہ ہے۔ایک اور آیت میں ارشاد ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون (،آل عمران۔104)
ترجمہ:
اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ نیکی کی طرف دعوت اور بھلائی کا حکم دینا سب کامشترکہ فرض ہے۔ تو اس دور میں یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعے بہترین انداز میں کیا جاسکتا ہےاوراسلامی ثقافت و تہذیب کی اشاعت کاعمل بھی انجام دینا ممکن ہے۔
کیونکہ ثقافت فقط ایک روحانی چیز نہیں ہے بلکہ ثقافت و تہذیب انسان پر روح کے ساتھ ظاہری اثرات بھی مرتب کرتاہے۔

اسی لیے رہبر معظم انقلاب نے جوانوں کی ایک ٹیم سے خطاب کرتے ہوے میڈیا کی اہمیت کو اس طرح بیان فرمایا:
"اگر میں رہبر نہ ہوتا تو سوشل میڈیا کی ایک ٹیم بناتا اور میں اس ٹیم کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لیتا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دین مبین اسلام کی حقیقی رخ کی ترجمانی کرتا اور لوگوں کے ذہن سازی کے لیے اس سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرتا۔ لیکن اب میں جس مقام پر ہوں کہ میرے پاس اس کام کیلیے وقت نہیں ہے لہذا یہ کام آپ لوگ کریں"۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ رہبر معظم انقلاب کے نزدیک میڈیا کی بہت زیادہ اھمیت ہے۔ اور آپ میڈیا کو دین مبین اسلام کی تبلیغ و ترویج کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔کیونکہ میڈیا کے ہی ذریعے سے ہم دنیا کے گوشہ و کنار تک دین اسلام کی خوبصورت پیغامات کی اشاعت کرسکتے ہیں۔اور دنیا کے سامنے اسلامی بہترین ثقافت و تہذیب،دین کی حقیقی روح کو پیش کرنے کاعملاور اس کے ذریعے لوگوں کی ھدایت کر سکتے ہیں۔

اگر کسی جوان نے یہ کام انجام دیا تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری کو بطور احسن ادا کیا کیونکہ اس نے دین کی بہترین خدمت کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے ایک مرتبہ سوشل میڈیا پر کام کرنے والے نوجوانوں اور جوانوں سے ملاقات کی اور انکے درمیان خطاب میں دور حاضر میں سوشل میڈیا کی طاقت اور دنیا تک اسلام ، انقلاب اور تشیع کے حقیقی پیغامات کو پہنچانے کی ذمہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ:
"میری نظر میں اس وقت مسجد کی باجماعت نماز میں شریک نوجوان جو فراض نماز ادا کر چکا ہوتا ہے اور اس کے بعد جب وہ ان عبادات کی طرف اتا ہے جو نفلی ہے۔میری نظر میں ان عبادات و نفلی نمازوں سے زیادہ عبادت یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں موبائل ہو اور اس کے انگلیاں موبائل کے بٹنوں پر ہو اور ان کے ذریعے نسل آدم کو منحرف کرنے والی قوتوں کا وہ مقابلہ کرے اور اپنے ارد گرد موجود نوجوان نسل کو ثقافتی انحرافات سے بچانے میں اپنامکمل کردار ادا کرے۔"

کیونکہ جو شخص مسجد میں اللہ اللہ کرتا ہے وہ صرف اپنے کو بچانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ میڈیا وہ جہادی میدان ہے کہ جس میں آپ اپنی نسل کو انحرافات سے بچاتے ہیں۔
پس اس دور میں میڈیا کی قوت و طاقت بہت ہی زیادہ ہے اس کی قوت و طاقت کو ہر کوئی اپنے ہاتھوں میں لے سکتا ہے اس کی اہمیت کے پیش نظر میڈیا پر کام اور دین مبین اسلام کی تبلیغ و ترویج اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو دنیا تک پھیلانے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

دشمن اسی میڈیا کے ذریعے اسلامی تہذیب وثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کررہاہے اور اسلامی تہذیب وثقافت کے جگہ پر استعماری غلط تہذیب و ثقافت کو عام کر رہاہے۔ جس قوم کے اندر اس کی اصلی ثقافت و تہذیب ختم ہو جائے تو اس قوم میں انحرافات جنم لیتے ہیں اور وہ پوری قوم منحرف ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے اج کل استعمار اسلامی ممالک کے اندر سے اصلی و اسلامی ثقافت و تہذیب کو ختم کرنے کیلیے جتنا پیسہ و قوت صرف کر رہاہے وہ کسی دوسرے کام پر صرف نہیں کر رہا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ثقافت و تہذیب انسان پر روحی اثرات کرتا ہے اور اسی کے ذریعے سے ہی استعمار ھم پر مسلط ہوتاہے۔

لہذا ہمیں اسلامی تہذیب و ثقافت کی اہمیت کو نوجوانوں اور جوانوں سمیت نئی نسل تک منتقل کرنے پر توجہ دینا ہوگا۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .