۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا

حوزہ/ عاشورا و اربعین کے ذریعے معرض وجود میں آنے والا یہ کربلائی ثقافت؛ معاشرے اسلامی تہذیب و تمدن کی طرف دوبارہ بلا رہا ہے۔  یہ ثقافت انسانی نجات،  بھائی چارے، محبت، ایثار، خدمت اور باہمی احترام پر استوار ہے۔

تحریر: سید عرفان کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی | دس محرم سن 61 ہجری کی ظہر کے بعد عاشورا کا واقعہ پیش آیا، جو ایک ثقافتی محور کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ نہضت حسینی، واقعہ عاشورا اور اس پر عزاداری کی ثقافت کے اثرات ہر عزادار اور عزاداری پر ہوئیں۔ یہ نہ صرف خاص مکتب و مسلک، دین و مذیب، رنگ و نسل پر اثر انداز ہوئی بلکہ بنی نوع بشر کے ہر عزادار فرد پر اثر چھوڑ دیا۔ ہر حریت پسند شخصیت کےلئے یہ ثقافت ایک کامل نمونہ ہے۔

واقعہ کربلا کے بعد جو چیز پوری دنیا پر واضح ہوئی، وہ حق و باطل کا معرکہ تھا۔ کربلا کے بعد شريكة الحسين نے جو اسلام کا تعارف لوگوں کے درمیان کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ ساتھ ہی بنت علی نے دنیا کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ اسلامی ثقافت بھی واضح کردیا اور دنیا نے اس چیز کو تسلیم کر دیا۔ لیکن بعض اس چیز کو ابھی بھی تسیلم نہیں کرتے ہیں۔ معرکہ کربلا کے بعد حق و باطل سے جو اسلامی ثقافت ہم تک پہنچی ہے، ہم میں سے اکثر نے اس سے منہ پھیر لیا ہے۔ آج مغربی تہذیب اور مغربی ثقافت کو اپنی ثقافت سمجھنے لگا ہےاور اصل ثقافت سے دوری اختیار کر لی۔

معرکہ کربلا نے ہماری خواتین کو بتایا حجاب کرنا حسن و زیبائی اور عزت و احترام اور حفاظت کا سبب ہے۔ نامحرم کے سامنے اسلامی حدود میں رہنے کا نام عاشورائی و کربلائی ثقافت ہے۔ ساتھ ہی مردوں کو بتایا کہ اپنی نظروں کو جھکا کے رکھنا، اپنی ناموس کی حفاظت کرنا، دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر حق کو حق کہنا اور باطل کے سر کو کچل ڈالنا کربلائی ثقافت ہے۔

آج ہم میں سے ہر ایک پر فرض ہے کہ اس ثقافت کی دفاع کرئے۔ دشمن کو اس پر غلبہ حاصل کرنے نہ دے، کیونکہ یہ ثقافت انسانیت کی نجات کا ضامن ہے۔ ہمارے معاشرے کو اس وقت سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ کربلائی ثقافت کی محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ تفصیل و تشریح و تفسیر کی ضرورت ہے۔

خدا کے فضل و کرم سے انقلاب اسلامی کے بعد جو تیزی اس ثقافت کے پھیلنے میں آئی وہ قابل تعریف ہے۔ معروف انقلابی اسکالر شہید مرتضی مطہری کی زبان سے بیان شدہ محرم اور عاشورہ کی تعلیمات اور کربلائی ثقافت نے انسان کے اندر انقلابی سوچ پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انقلاب اسلامی خود عاشورایی ثقافت کا نتیجہ ہے۔ اس معرکے میں نئی نسل میں جذبہ و شوق شہادت پیدا کئے۔ دفاع مقدس اور مدافعین حرم اہلبیت اس کی بہترین اور تازہ مثال ہے۔ ولی فقیہ کے حکم پر اپنی جانیں قربان کرنا، دن رات ایک کر کے اسلام کی سر بلندی کے لئے جد وجہد کرنا اور آخری حجت کی ظہور کےلئے زمینہ سازی کرنا، دشمن کو یہ بات سمجھانا کہ ہماری تربیت کربلا سے ہوئی ہے۔ ہمارے خون میں عشق کربلا بسا ہوا ہے۔

عاشورا و اربعین کے ذریعے معرض وجود میں آنے والا یہ کربلائی ثقافت؛ معاشرے اسلامی تہذیب و تمدن کی طرف دوبارہ بلا رہا ہے۔ یہ ثقافت انسانی نجات، بھائی چارے، محبت، ایثار، خدمت اور باہمی احترام پر استوار ہے۔ آج جہاں عالمی استعماری قوتیں دین مبین اسلام کے خلاف شیطانی سازشوں میں مصروف ہیں اور داعش جیسے وحشی گروہ تشکیل دے کر اور انہیں اسلامی لبادہ اوڑھا کر اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کر کے پیش کرنے کیلئے کوشش کی اور کر رہا ہے۔ وہاں دوسری طرف اربعین کا عظیم اجتماع اسلام کا حقیقی چہرہ آشکار کر رہا ہے۔ جس کی بنیاد حب الحسین یجمعنا ہے۔ جو حریت پسندوں کا شعار ہے۔

استعماری قوتیں دنیا میں دین مبین اسلام کی جانب تیزی سے بڑھتی ہوئی رجحانات سے شدید خوفزدہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا عاشورا اور اربعین کے موقع پر کربلا میں برپا ہونے والے عظیم اجتماعات کا مکمل بائیکاٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو چھپانے سے چھپتی نہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو جاتی۔ انشاءاللہ بہت جلد اربعینی اور عاشورائی ثقافت طاغوتی تہذیب و تمدن کے پرخچے اڑائیں گے اور ان کو اپنے سیلاب میں بہا لے جائے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .