۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/حکومت اور مقامی و غیر مقامی این جی اوز کی طرف سے قیمتی فصلوں کی کاشت کاری کے بارے میں کوٸی خاص اہتمام نہیں۔بس ساری توجہ موسیقی و ناچ گانے کی طرف ہے اور وہ بھی ثقافت کے نام پر۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی گلگت بلتستان پر مسلط ثقافتی یلغار اور راہ حل پر گفتگو کرنے سے پہلے ارض بلتستان اور تاریخ بلتستان کا ایک اجمالی تعارف کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ مطلوبہ موضوع پر جغرافیاٸی، علاقاٸی و دینی تقاضوں کے مطابق ثقافتی و تہذیبی خدو خال پر منصفانہ گفتگو کی جاسکے۔بقول پروفیسر حشمت کمال الہامی کے!
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیج میں ہم ہیں
مثال گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
ارض بلتستان زمین کا وہ خوبصورت و سرد ترین قطعہ ہے جو کوہ قراقرم و کوہ ہمالیہ کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں کے درمیان سطح سمندر سے تقریبا آٹھ ہزار میٹر کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ یہ خطہ تقریبا دس ہزار ایک سو اٹھارہ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔جس میں جہاں چاروں طرف سلسلہ کوہ قراقرم و سلسلہ کوہ ہمالیہ کے بلند ترین برف پوش پہاڑی سلسلے اور دنیاکی دوسری بلند ترین پہاڑی کے ٹو اور کٸی مشہور و معروف گلیشیٸرز کی بلند چوٹیاں ہیں تو وہیں پر گمبہ سکردو اور سرفہ رنگا و کواردو کے مشہور ”ریگستان“ اور دیوساٸی کا وسیع و عریض گلستان بھی ہیں۔اگر سدپارہ ، شنگریلا،کچورا جھیل قابل ذکر ہیں تو”منٹھوکھا“و”خاموش آبشار“و”چھوگومس“جیسے خوبصورت دلکش آبشار بھی ہیں۔جہاں صاف و شفاف چشمے کی نہریں ہیں تو دریا سے نکالے گٸے تاریخی کول بھی ہیں۔گاٶں گاٶں میں خوبصورت امام بارگاہیں و مسجدیں ہیں تو بزرگان دین کے قدیم مقبرے بھی ہیں۔یہاں بسنے والے لوگ گوہر نایاب سے بھی نایاب و قیمتی انسانی جذبوں و اقدار سے مالامال ہیں یعنی انتہاٸی دین دار ،ایمان دار ، محنت کش ، مہمان نواز اور شریف النفس لوگ ہیں۔قدیم تاریخ کے سینے میں اس خطے کی تاریخ پانچ سو عیسوی سے ملتی ہے۔معروف تاریخ دان محترم یوسف حسین آبادی کے مطابق پانچ سو عیسوی میں یہاں”پولولو“کے نام سے ایک عظیم حکومت قاٸم تھی۔سات سوبیس عیسوی کے بعد تبتوں کے حملے میں اس سلطنت کا خاتمہ ہوا۔پھر آٹھ سو اڑتیس عیسوی تک اس علاقے پر ”تبتوں“کی حکومت رہی۔پھر مرکز میں تبتوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہر علاقہ ایک مستقل حکومت کی شکل اختیار کر گیا ،یوں یہ علاقہ بھی ایک الگ آزاد ریاست کی شکل میں نمودار ہوا۔لیکن اس زمانے تک یہ علاقہ بلتی یول یا تبت خورد کے نام سے جانا جاتا تھا۔

پولولو،بلتی یول،تبت خورد سے بلتستان تک کا سفر:

تقریبا آٹھویں صدی ہجری میں یہاں اسلام پہنچا۔اسلام سے پہلے یہاں”بون چھوس“پھر ”بدھ مت“تھا۔لیکن یہ زمین کا وہ خطہ ہے جہاں اسلام کسی لشکر کشی،جنگ و جدال یا کسی سپہ سالار کی شجاعت و دلیری یا ظلم و جور و زور زبردستی سے نہیں پہنچا،بلکہ یہاں اسلام عراق و ایران سے خالی ہاتھ آۓ ہوۓ تھکے ہارے، سیدھے سادھے،غریب الوطن مبلغین کے ذریعے پہنچا ہے۔جن کا نہ صرف اپنا کوٸی ٹھکانا نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ لوگ خالی ہاتھ و بےسروسامان بھی ہوتے تھے۔مگر ان کا سینہ نور اسلام سے لبریز،ان کا کردار سیرت مُحَمَّد و آل مُحَمَّد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مزین اور ان کے افکار میں تبلیغ دین کی موجیں اور زباں پر خلوص دعوت سے لبریز تھی۔یوں نہ فقط یہاں کے باشندے اسلام کے آفاقی احکامات اور مبلغین کے طرز اخلاق و سیرت سے متاثر ہوکر داٸرہ اسلام میں داخل ہونے لگے بلکہ آزاد و مضبوط راجاٶں نے بھی بغیر کسی دباٶ کے اسلام قبول کرنا شروع کیا۔راجہ ”علی شیر خان انچن“ اس علاقے کے مشہور ترین راجہ گزرے ہیں جن کی بلتستان سے لے کر چلاس تک ایک حکومت تھی۔تقریباً بارہ سو چھپن ہجری کو بلتستان کا آخری راجہ احمد خان نے ڈوگروں کے ہاتھوں شکست کھاٸی یوں یہ علاقہ ڈوگروں کے زیر تسلط جاکر زبردستی کشمیر کے ساتھ ملحق ہوگیا۔بارہ سو تریسٹھ ہجری میں امرتسر کی قرارداد کے تحت لداخ میں شامل کیا۔
برصغیر میں 1947 کی جنگ آزادی کے بعد جموں و کشمیر کے مہاراجا نے اس علاقے کو پھر زبردستی ہندوستان کے ساتھ ملحق کردیا۔
یکم نومبر 1947 ٕ کو گلگت جب آزاد ہوا تو اس کے ٹھیک ساڑھے نو ماہ بعد یعنی 14 اگست 1948 کو ہمارے آبا واجداد ، شہدا ٕ و مجاہدین نے بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزاد کر کے پاکستان کے ساتھ مخلصانہ الحاق کیا۔اب یہ علاقہ ”بلتستان“ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔جس کی اصلی تہذیب و ثقافت کو درپیش مشکلات اور راہ حل کے بارے میں ہم مدلل بحث کریں گے۔

ثقافت کے اسباب و عوامل:

کسی بھی علاقے کے رہنے والے تمام لوگوں کے جذبات،خیالات، نظریات،فنون،ادب،دینی و اخلاقی اقدار،جن میں محبوبیت عمومی مشترک ہو اسے”ثقافت“ کہا جاتا ہے۔پس ثقافت کو وجود میں لانے کے لٸے اجتماعی عقاٸد و نظریات یعنی”دین“ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ پس یہ خطہ جو کبھی”پولولو“ ”بلتی یول“ یا ”تبت خورد“ تھا اب ”بلتستان“ کے نام سے معروف ہے۔ ایران سے اسلام کے مبلغین کے آنے کے بعد لوگوں کے نظریات،عقاٸد،رہن سہن اور معاشرتی اقدار بدل گئیں۔لوگوں نے خالی ہاتھ آئے مبلغین کی سیرت اور اسلام کے آفاقی اصولوں سے متاثر ہوکر شعوری کیفیت میں یوں اسلام قبول کرنا شروع کیا کہ آج دین داری و ایمانداری ہماری خمیر میں رچ بس گٸی ہے۔آج اگر دنیا میں من حیث القوم کسی قوم کو دیندار و ایماندار کہا جاتا ہے تو یہ شرف اہل بلتستان کو حاصل ہے۔یہاں رفتہ رفتہ اسلام اور زبان فارسی کے اثرات مقامی زبان،رسم الخط،ناموں اور طرز تعمیر و طرز معاشرت پر بھی پڑا۔محترم پروفیسر نذیر بیسپہ صاحب کے بقول ”ستان“ کا لاحقہ زبان فارسی کے اثرات میں سے ایک اثر ہے،جیسے پاکستان، افغانستان،ہندوستان،ازبکستان،ترکمانستان لہذا فارسی زبان کے اس قاعدے کے مطابق ”بلتی“ سے ”بلتستان“ بنا ہے۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت نے بہترین انسانی تہذیب و تمدن کی شکل اختیار کی۔بقول معروف محقق سید عباس کاظمی صاحب کے ”بلتستان ایک اچھے اور ترقی یافتہ معاشرے کا نمونہ اور غنی ثقافت و تمدن کا حامل ہے“ معروف ادیب و محقق جناب حسن حسرت صاحب کے بقول ”بلتی ثقافت میں کچھ بھی اسلام کے مخالف نہیں ہے اگر ہیں تو علماۓ کرام کو چاہٸے کہ ان کی نشاندہی کریں تو عوام یقیناً انہیں ترک کریں گے“ واقعتاً اگر آپ تاریخی اعتبار سے پولولو،بلتی یول یا تبت خورد کے زمانے کی ثقافت کو دیکھیں گے تو یقیناً وہ قبل از اسلام ہونے کے سبب اسلام سے متصادم ہی ہو گی۔لیکن بعد از اسلام کے ”بلتستان“ کی ثقافت کا جاٸزہ لیں گے تو بلتستان کی ثقافت یا تو اسلام کے مطابق ہے یا پھر کم از کم اسلام سے متصادم نہیں ہے۔بلتستان کے اندر ثقافت اور تہذیب و تمدن کو اسلامی کرنے میں مبلغین اسلام حضرت میر سید علی ہمدانی،1373 تا 1383ء سے میر شمس الدین عراقی 906 ھ سے 907 ھ تک۔سید محمد نوربخش سے لے کر میردانیال تک۔سید علی طوسی و برادران سے لے کر شاہ محسن و میر سید علی رضوی کی شب و روز کی مخلصانہ کوششوں سے لے کر نجف و قم کے بزرگ علماۓ کرام کی محنتیں شامل ہیں۔ کسی بھی علاقے کے بسنے والوں کی مشترکہ پسندیدہ روشوں سے جو چیز وجود میں آتی ہے پھر کئی نسلیں اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد وہ مقبولیت عام حاصل کرتی ہے تب جاکر وہ ثقافت تہذیب و تمدن کہلاتی ہے۔ مگر آج کل کسی بھی علاقے کی ثقافت و تہذیب کو ایک عالمی یوم،ایک بندے کی چاہت یا پھر کسی خاص گروہ کے خاص مقصد کے لٸے زور زبردستی مسخ کرنے یا سب کچھ ختم کر کے تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بالخصوص ہماری اصل ثقافت کی جگہ بےہنگم ناچ گانوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا ”بلتستان“ کی ثقافت سے دور کا بھی کوٸی تعلق نہیں۔البتہ عین ممکن ہے کہ اس ناچ گانے کو آپ پولولو،بلتی یول یا تبت خورد کی ثقافت ثابت کرسکے مگر بلتستان کی ثقافت میں اسے ثابت کرنا فقط زور زبردستی کی بات ہے۔لہذا صدیوں کےسفر اور اجتماعی مقبولیت کو کسی خاص گروہ کے ذریعے ایک خاص دن میں زبردستی عوض کرنا انتہاٸی ظلم و ذیادتی ہے۔اس جدید، آزادی پسند اور جمہوری دور میں اس طرح کی کوششیں قابل مذمت ہیں۔

بلتستان اور ناچ گانے کی محافل:

پولولو،بلتی یول،تبت خورد سے بلتستان معروف ہونے کے بعد بلتستان میں ناچ گانے کی محفلیں ناپسند عمل میں تبدیل ہوگئیں۔ناچ گانے عوامی اجتماعات سے نکل کر راجاٶں کے محل تک محدود ہوگٸے۔راجاٶں کے محل میں ناچنے گانے والے مردوں کے ساتھ دیگر درباری خدمت گار و محل کے خدمت گار مشخص تھے اور سب اپنی خدمات پہ فخر کیا کرتے تھے۔مگر آج بھی کوٸی اس بات پہ فخر نہیں کرتا کہ ہمارے آبا و اجداد محل کے گانے یا ناچنے والے تھے۔البتہ شرعی نقطہ نظر سے موسیقی کے ہر سُر و تال اور ہر آلے کا استعمال مکمل ناجاٸز بھی نہیں۔”لوک گیت،ملی نغمات،ترانے اور جنگی و دیگر رموزی سُر جو طرب آور نہ ہوں انہیں اکثر مفتیان و فقہإ نے حرام موسیقی سے خارج کیا ہیں“۔مگر ناچنے کے حرام ہونے پر سب متفق ہیں۔مگر افسوس کہ قراقرم یونیورسٹی و بلتستان یونیورسٹی سے لے کر بعض اسکول انتظامیہ طلبہ و طالبات و معصوم بچوں اور بچیوں کو ”نیو ورلڈ آڈر“ کے تحت ناچ گانے کی تربیت بلتستان کی ثقافت کے نام پر دینے میں مصروف عمل ہیں۔یہ ناچ گانے بلتی اقدار میں کثافت تو ہوسکتی ہے لیکن ثقافت نہیں۔ثقافت و تمدن کی عالمی تعریف کی روشنی میں شنگریلا ہوٹل کا مخصوص شیب دیدہ زیب ہونے کے باوجود بلتی طرز تعمیر یا تمدن نہیں ہوسکتا۔اسی طرح کسی کو شراب پسند ہے تو شراب پینا پوری قوم کی ثقافت نہیں بن سکتی بلکل اسی طرح کسی کو اس کام کے لٸے فنڈ ملتا ہے یا اسے پسند ہے تو ناچ گانا پورے گلگت بلتستان کی ثقافت نہیں ہوسکتا افراد کی پسند و ناپسند کو قومی ثقافت قرار دینا اصل قومی ثقافت سے خیانت کے مترادف ہے۔لہذا تعلیم کے اعلٰی اداروں سے لےکر چھوٹے اسکولوں تک ناچ گانے کے بجاۓ طلبہ و طالبات کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور اصل ثقافت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس وقت بدلتی ہوئی دنیا کے بدلتے ہوۓ زمانے میں ہم پر جو ثقافتی یلغار اور جو راہ حل ہیں انہیں ہم درج ذیل عناوین کے ذیل میں ایک ساتھ بیان کرتے ہیں۔

سیاحتی میدان:

سیاحت کسی بھی علاقے کی معیشت کی مضبوطی کا سبب بنتی ہے۔جب بات گلگت بلتستان جیسے سیاحتی علاقے کی ہو جہاں دریاۓ سندھ کی روانی عرض میں اور کے ٹو کی بلندی طول میں ہو۔ سلسلہ کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کی انگوٹھی ہو جس میں دیوساٸی،سدپارہ، شنگریلا،اپر کچورا کی جھیلیں نگینے کی مانند جڑی ہوں تو سیاح یہاں کھنچ کر چلے آتے ہیں۔سکردو میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ بننے کے ساتھ خستہ حال سڑکوں کو بہتر کرنے کے بعد سیاحوں کی آمدورفت میں نہ فقط اضافہ ہوگا بلکہ سیاحت کا دورانیہ اب مخصوص مہینوں سے بڑھ کر پورے سال پر محیط ہوگا۔اب تو سردیوں میں بلتستان سے باہر جانے والوں کی طرح سردی اور برف باری کا مشاہدہ کرنے اور انجواۓ کرنے کےلٸے آنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تمام سیاحوں کے لٸے عالمی دستور یہ ہے کہ ہر ملک اپنے شہریوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ دوسرے ملک کی سیاحت پہ جاٸیں تو مقامی ثقافت و رسومات کا احترام کریں۔بلتستان آنے والے اکثر غیر ملکی سیاح اس اصول کی اکثر پاسداری کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔مگر بدقسمتی سے اندرون ملک سے آنے والے سیاح و کاروباری افراد میں سے بعض مقامی رسومات و ثقافت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔حالیہ چند سالوں میں اس خلاف ورزی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔مقامی انتظامیہ کو چاہٸے کہ مقامی و غیر مقامی سیاحوں و کاروباری شخصیات کو اس چیز کا پابند کریں کہ وہ مقامی رسومات و ثقافت کے منافی کوٸی عمل انجام نہ دیں۔اس حوالے سے سیمینارز،بروشرز،پینافلیکس وغیرہ کے ذریعے بھر پور مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ جب کہ سیاحوں کے ساتھ مقامی افراد کا برتاو ہمیشہ اچھا رہا ہے البتہ اس میں مذید بہتری کی گنجاٸش بھی ہے۔اس حوالے سے ہوٹل مالکان ٹورسٹ کمپنیوں کو بھی علاقاٸی و اخلاقی اصول و قواعد کا پابند کرنا بہت ضروری ہے۔

تعلیمی ادارے:

تعلیمی ادارے کسی بھی علاقے کی ثقافت و تہذیب کا امین ہوتے ہیں۔مگر بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں صورت حال اس کے بلکل برعکس ہوتی جارہی ہے۔مشکل سے یہاں دو یونیورسٹیاں بنی ہیں مگر انتظامیہ جان بوجھ کر گلگت جیسے مذہبی علاقے کی یونیوسٹی میں مذہبی پروگرامات منعقد کرنے نہیں دیتی ۔جبکہ علاقاٸی ثقافت و رسومات کے منافی، ناچ گانے کی محفلوں کے لٸے کھلی چھٹی دی ہوٸی ہے۔ اسی طرح بلتستان یونیورسٹی کے وی سی محترم نے علاقہ کواردو میں موجود قدیم ” فلی“ کو ایک ہی نظر میں مقدس صلیب قرار دے کر ہماری ہزار سالہ قدیمی ”سنگ تراشی“ و ”فلی سازی“ کو چشم زدن میں منہدم کر کے نہ فقط ہمارے ”اسلامی تمدن“ کو مٹانے کی کوشش کی ہے بلکہ تاریخ بلتستان کا بھی مذاق اڑانے کے ساتھ غیر تحقیقی و غیر علمی دعوای کیا ہے۔ باقی اسکولوں کی سطح پر بھی بعض اسکول بہتر تعلیمی و ثقافتی تربیت کی بجاۓ ثقافت بلتستان کے نام پر ناچ گانے کی ترغیب و تربیت دیتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ایسے میں علاقے کے بزرگان، علماۓ کرام و اخوند حضرات کو چاہٸے کہ وہ یونیورسٹی کی سطح پر نہیں تو کم از کم اسکولوں کی سطح پر اس روش کو روکیں۔والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ بچوں، بالخصوص بچیوں کو ایسے اسکولوں میں بھیجیں جہاں تعلیم کے ساتھ بچیوں کی بہترین تربیت کا سلسلہ بھی موجود ہو۔یوں ہم اپنی نٸی نسل کو موجودہ ثقافتی یلغار سے بچا کر بہترین تربیت کے ذریعے ہماری اصل ثقافت و تہذیب کا امین بنا سکتے ہیں۔

این جی اوز:

جدید دور میں فلاحی تنظیموں کی تاریخ پہلی جنگ عظیم کے بعد ملتی ہے۔ 1961 میں سرجان کینڈی نے اپنی چھوٹی فلاحی تنظیموں کو ضم کر کے بنایا۔جو اس وقت ایک سوتیٸیس ممالک میں کام کر رہی ہے ۔امریکی مفادات کی مثلث میں پارلیمنٹ ، سی آٸی اے ، اور یو-ایس - ایڈ یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔کیوبا سمیت کٸی ملکوں سے اس تنظیم کو جاسوسی کے الزام میں ملک سے نکالا جاچکا ہے۔2001 میں یہ تنظیم بلتستان میں داخل ہوٸی۔اس کے تھرو پینتیس این جی اوز بلتستان میں کام کر رہی ہیں۔جن میں سے سننے میں آیا ہے کہ چھے این جی اوز امریکن ایم بی سی سے ڈاٸریکٹ مربوط ہیں۔مشرف کا دور یو-ایس- ایڈ اور بلیک واٹر کے لٸے کافی سنہرا دور رہا۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف بلتستان میں تین سو کے قریب مقامی و غیر مقامی این جی اوز مختلف مقاصد کے لٸے مصروف عمل ہیں۔ پورے بلتستان میں فعال ایک اور اہم تنظیم AKRSP ہے۔ان کی رساٸی بھی گھر گھر تک ہے اور ان کی خدمات بھی کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔اگر یہ تنظیم آغاخان ٹرسٹ کے زیر اہتمام گلگت یا بلتستان میں کوٸی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی یا اعلٰی ہسپتال بناتی تو ان کے لٸے یہ کوٸی مشکل کام نہیں تھا۔ممکن ہے پھر ہزاروں طلبا و طالبات گھروں میں رہنے کی بجاۓ یا ماہانہ ہزاروں روپٸے خرچ کر کے دوسرے شہروں کی طرف جانے کی بجاۓ اپنے ہی علاقے میں اعلٰی تعلیم حاصل کر سکتے۔مگر افسوس یہ تنظیم بھی بلتستان کے گھر گھر تک رساٸی رکھنے کے باوجود اس طرح کا کوٸی عملی کام نہیں کرتی۔ یہاں تعلیم اور عورت کی آزادی کے نام پہ مشغول این جی اوز سواۓ نعروں کے اس طرح کے عملی اقدامات کرتے ہوئے نظر نہیں آتی ہیں۔ ہرایک خوبصورت نعروں اور مسحورکن وعدوں کے ساۓ میں اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لٸے مصروف عمل ہے ۔واضح رہے کہ پاکستانی حکومت اور پارلیمنٹ نے بعض مغربی این جی اوز پہ غیر اخلاقی اہداف اور حساس مقامات کی جاسوسی کے الزامات میں پابندی بھی لگاٸی ہے جن میں ”سیو دی چلڈرن“ کے ساتھ بلتستان میں تعلیمی میدان میں کام کرنے والے ”مسٹر گریٹ ماٹر سن“ کی تنظیم سمیت سینکڑوں دیگر این جی اوز بھی شامل ہیں۔ پچھلے سالوں میں ان میں سے بعض مغرب نواز این جی اوز کی ہماری ثقافت و تہذیب کے منافی مصروفیات و کارنامے سوشل میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔ یہ این جی اوز علاقے کے معروف و بااثر شخصیات کے ذریعے گھر گھر سرایت کرتی جارہی ہیں۔اس کے لٸے یہ لوگ علماۓ کرام کی سادگی سے بھی فاٸدہ اٹھاتے ہوۓ انہیں نہ فقط استعمال کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑا کرتے ہیں۔
اس پر ثبوت کے لٸے گریک ماٹرسن کی کتاب”three cup “of tea.یا فارسی ترجمہ ”سہ فنجان چاۓ“کا ضرور مطالعہ کیجٸے گا۔جس میں وہ خود لکھتا ہے کہ شگر باشہ میں جب ایک مقامی عالم دین نے ان کے لٸے مشکلات کھڑی کی تو اس کے ایک خاص کارندے نے سکردو میں اس وقت کے ایک سیاسی مذہبی رہنما سے پورے بلتستان میں کام کرنے کی تحریری اجازت لی۔“ واضح رہے کہ اب گریک ماٹرسن پاکستان میں نہیں آسکتا۔اس کی تنظیم اگر چہ ٹرسٹ کے نام پر نام بدل کے کام کر رہی ہے پھر بھی حکومت کی طرف سے پابندیوں کا شکار ہے۔ پس حکومت،علماۓ کرام،مقامی عمائدین اور سیاسی مذہبی تنظیموں کو چاہٸے کہ وہ ہر این جی او پہ اندھا دھند اعتماد و حمایت کرتے ہوئے ان کے لٸے کاندھا پیش نہ کریں۔مقامی سطح پر اپنی فلاحی تنظیمیں بناٸیں اور ان کی نگرانی کرتے ہوۓ ان سے قواعد و ضوابط کے تحت کام لیں۔اگر ایسا کیا تو ہم علاقے میں مختلف مقاصد کے ساتھ مصروف عمل این جی اوز کا راستہ روک سکتے ہیں۔پھر علاقاٸی این جی اوز کے ذریعے علاقے میں مثبت کارکردگی کے ساتھ ہماری اصل ثقافت و تمدن کو بچاسکتے ہیں۔

قومی،ملی اور مذہبی تنظیموں کا عدم احساس:

گلگت بلتستان پر مسلط ثقافتی یلغار میں وفاقی سیاسی تنظیمیں ہمیں بہت آگے نظر آتی ہیں،یہ تنظیمیں کہیں پر علاقاٸی ثقافت و تہذیب کی رعایت کرتے ہوۓ نظر نہیں آتیں۔ان سے کوٸی امید رکھنا بھی بےجا ہوگا۔البتہ مذھبی سیاسی تنظیمیں بھی اگر شعوری یا لا شعوری طور پر کہیں ایسا کرتے ہوۓ نظر آٸیں تو اس پہ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ماضی میں مذہبی سیاسی تنظیموں کے چند نماٸندے غیر مذہبی محافل میں بھی نظر آۓ ہیں۔البتہ الیکشن کے دوران مذہبی سیاسی تنظیموں کے جلسے جلوسوں میں مقامی ثقافت و تہذیب کا بھر پور خیال رکھنا بھی ان کے لٸے بہت ضروری ہے۔بالخصوص ہماری ثقافت و تہذیب میں علماۓ کرام کا ایک خاص مقام ہے الیکشن کےدوران اس مقام و مرتبے کی رعایت خود علمائے کرام اور ان تنظیموں کی طرف سے نہایت ضروری ہے۔اس کے علاوہ ہماری مذہبی سیاسی تنظیموں کو چاہٸے کہ سیاحتی و ثقافتی معاملات میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ علاقائی ثقافت کی نگہداری کا خاص اہتمام کریں۔غیر مقامی و غیر ملکی این جی اوز کے مقابل میں علاقاٸی سطح پر فلاحی تنظیمیں بناٸیں تاکہ بہتر فلاحی کام کرتے ہوۓ عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ ملک دشمن اور ثقافت دشمن این جی اوز کا راستہ روک سکیں۔اگر یہ مذہبی تنظیمیں بھی حسب سابق مغربی این جی اوز کی سہولت کار بن جاٸیں تو پھر ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

بلتستان کی معدوم ہوتی ہوئی اصل ثقافت و تمدن:

1.مقامی طرز تعمیر و صنعت جیسے اون سے بنے لباس،چھرا، قار،پتھر و لکڑی کے بنے مقامی برتن وغیرہ اب ان کے بنانے والے فن کار بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ یہ ہماری معیشت کی مضبوطی کے ساتھ ہمیں صنعتی میدان میں خود کفیل و خود مختار بنا سکتے تھے،لیکن حکومت اور این جی اوز کی نظر میں صرف ناچنا اور گانا ہی فن اور اس فن کے ماہرین ہی فنکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری توجہ ناچ گانے کے فن اور فن کاروں کی طرف ہے۔اس وجہ سے ہمارا اصل فن و فن کار،تمدن و ثقافت ناپید ہوتی جارہی ہے۔

2.ہماری دم توڑتی چند علاقاٸی رسومات:
ستروب بلے:جب سب اپنی اپنی زمینیں کاشت کرتے تھے تو جو کی فصل کے خوشے میں جب دانے بھرنے شروع ہوتے اور نیم پکا ہوتے تھے تو خاص مقدار میں خوشے چن کر دانے نکال کر صاف کر کے ایک ڈش بناٸی جاتی تھی اسے”ستروب بلے“کہا جاتا تھا۔اس رسم کو پہلے اجتماعی شکل میں کسی مسجد کے سامنے انجام دیا جاتا تھا جو اہل محلہ کی محبتوں اور شفقتوں میں اضافے کا سبب بنتا تھا۔اب یہ بہترین رسم معدوم ہوتی جارہی ہے۔

اونگ دق:

پہلے گندم کی فصل کی کاشت ختم ہونے کے بعد غلہ جات جمع کرنے کے حوالے سے ایک بہترین تہوار ہوا کرتا تھا جو ہمیں اپنا کھانا اپنی محنت سے مقامی طور پر تیار کر کے خودمختار بنانے کا سبب بنتا تھا۔اب نہ وہ تہوار ہے نہ وہ محنت کش کسان ہیں۔اب امیر ہوکہ غریب،کسان ہو کہ آفیسر سب کی نظریں وفاق کی طرف سے آنے والی گندم کی طرف ہیں۔جو فصل گیہوں (چھا،ژیژے،بڑو وغیرہ) تین سے چار سو کلو میں بکتی ہیں ان فصلوں کی کاشت کاری چھوڑ کر بیرونی خراب گندم پہ منحصر ہو کر رہ گئےہیں۔
حکومت اور مقامی و غیر مقامی این جی اوز کی طرف سے قیمتی فصلوں کی کاشت کاری کے بارے میں کوٸی خاص اہتمام نہیں۔بس ساری توجہ موسیقی و ناچ گانے کی طرف ہے اور وہ بھی ثقافت کے نام پر۔

نور کھیر:

بہار کی آمد کے ساتھ جانوروں کو جمع کر کے اجتماعی شکل میں پہاڑی نالوں میں لے جاتے تھے اور اس عمل سے پہلے خاص مذہبی رنگ سے بھر پور اعمال انجام دٸے جاتے تھے۔ اب تو بہت سے گھروں میں بچوں کو بہلانے اور ان کی دل جوٸی کے لٸے بھی کوٸی پالتو جانور نظر نہیں آتا۔ شہری دائرے میں داخل علاقوں میں اب پالتو جانوروں کے بجاۓ کتے پالنے کا رواج کہیں کہیں دیکھنے میں آرہا ہے جوکہ افسوس ناک عمل ہے۔

نور پھپ:

گاٶں میں دو یا تین فصل کاشت کرنے کے بعد موسم خزاں کی آمد سے پہلے پہلے جانوروں کو واپس گاٶں لانے کا ایک خاص تہواری شکل کا عمل ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ تہواریں ہیں جو ہمیں جانور پالنے سے لے کر،اپنی ضرورت کی چیزیں مقامی طور پہ تیار کرنے اور مسلسل محنت کرکے خود مختار و خود کفیل بنانے کے اسباب تھے ۔اب یہ سب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ سواۓ جشن نوروز اور چودہ اگست کے کوئی تہوار بھر پور انداز میں منعقد نہیں کرتے۔جوانوں کی دل جوٸی اور مثبت تربیت کے لٸے نئے اور قدیمی کھیلوں کا اہتمام بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔میدانی و ریگستانی علاقے بھی ہونے کے باوجود جوانوں کی ورزش کے لٸے حکومتی سطح پر بھی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔البتہ چند سالوں سے جشن مے فنگ کے نام سے کچھ غیر ضروری چیزوں کو مختلف این جی اوز اچھالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔جبکہ پہلے اس جشن مےفنگ کو مقامی زبان میں ”دعوت“ کہہ کر منایا جاتا تھا جس میں باہمی دعوتوں کے ذریعے صلہ رحمی کے تقاضوں کو پورا کیا جاتا تھا۔اسی لٸے اسے”دعوت“ بھی کہا جاتا تھا۔ اب بھی مختلف این جی اوز ہمیں اپنی اصل ثقافت و تہواروں،مقامی لباس و برتنوں اور فصلوں پہ توجہ دلانے کے بجاۓ صرف ناچ گانے کو فروغ دینے کی کوششوں میں اور اس کے علاوہ ہماری دینداری، ایمانداری و حب الوطنی،مہمان نوازی احترام و دوستی اور شرم و حیا ٕجیسی ثقافت و تمدن کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔خدا ہمیں اپنی اصلی ثقافت کو پہچاننے اور بچانے کی توفیق عطا فرماۓ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .