۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
تصاویر/ ارتباط تصویری رهبر معظم انقلاب با جمعی از مردم قم

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی نے شہید سلیمانی کے عظیم جلوس جنازہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تہران میں جلوس جنازہ، کرمان میں جلوس جنازہ، تبریز میں جلوس جنازہ اور مختلف شہروں میں جلوس جنازہ! عراق میں وہ عظیم الشان جلوس جنازہ اور اگر اس شہید کے مقدس جنازے کو شام اور لبنان لے جایا جاتا تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتا۔ اگر پاکستان لے جاتے تو وہاں بھی یہی ہوتا۔ یعنی مسلمان قوم کے اس عظیم کارنامے نے یہ دکھا دیا کہ یہ واقعہ، بڑا عظیم واقعہ تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انیس دی 1356 مطابق،نو جنوری 1978 کو اہل قم کے تاریخی قیام کی برسی پر رہبر انقلاب اسلامی سے قم کے عوام کی ملاقات وڈیو لنک کے ذریعے انجام پائی۔ اس موقع پر رہبر انقلاب کا خطاب ریڈیو اور ٹی وی کے چینلوں سے براہ راست نشر کیا گيا۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں گہرے مفاہیم کے حامل اور آئندہ نسلوں تک اعلی پیغام پہنچانے والے تاریخی واقعات کو زندہ رکھے جانے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، 9 جنوری کے واقعے کو اسی قسم کا ایک واقعہ قرار دیا۔

انھوں نے اس واقعے کو عوام کے محکم دینی عقائد کی علامت بتاتے ہوئے کہا: اگر اس واقعے کے مرکز میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نہ ہوتے تو اس واقعے سے کوئي خاص اثر نہیں پڑتا۔ کوئي بھی شخص یا تنظیم ایک شہر میں اس طرح کی حالت پیدا نہیں کر سکتا تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ڈیڑھ سو سال میں رونما ہونے والے اہم سماجی واقعات اور عوام کے ہاتھوں سامنے آنے والے انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ان واقعات کا سرچشمہ سیاست کی گہری بصیرت رکھنے والے مراجع کرام اور علمائے دین کو قرار دیا اور میرزا شیرازی کے تمباکو کو حرام قرار دینے کے واقعے، آقا محسن قمی کے مسجد گوہر شاد کے واقعے اور امام خمینی کے پندرہ خرداد (پانچ جون) کے واقعے کو نمونے کے طور پر پیش کیا۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ان واقعات کو دینی و سیاسی علماء سے سامراجی طاقتوں کی کھلی دشمنی اور اسی طرح سیاسی دین اور سیاسی فقہ سے ان کے عدم اتفاق کی وجہ قرار دیا۔ انھوں نے ان اہم واقعات میں عوام کی دینی حمیت کی تاثیر کی اہمیت کو بصیرت کا اور بصیرت کو معقولیت اور گہری دینداری کا نتیجہ بتایا اور امام خمینی اور آيۃ اللہ مصباح یزدی کو ایسے لوگوں کے دو نمونوں کے طور پر پیش کیا جو دینداری کے ساتھ عقلانیت کی چوٹی پر پہنچے ہوئے تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انیس دی (نو جنوری) کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ایران کے بارے میں کارٹر کی تقریر اور ایران کو ثبات و استحکام کا جزیرہ بتانے کے سلسلے میں ان کے اندازے کی غلطی کی طرف اشارہ کیا اور قم کے عوام کے اقدام کو، پہلوی حکومت اور امریکا کے اندازوں پر پانی پھیرنے والا بتایا۔ انھوں نے کہا: امریکا کی اندازے کی یہ غلطیاں اب بھی جاری ہیں اور اس کا نمونہ شہید سلیمانی کی شہادت ہے؛ امریکی سوچ رہے تھے کہ اس شہید کو راستے سے ہٹانے سے یہ عظیم تحریک رک جائے گي لیکن ہم نے دیکھا کہ اس سال اس شہید کی دوسری برسی پر عوام نے کتنا شاندار کارنامہ انجام دیا۔ صرف اور صرف اللہ کی قدرت سے یہ عظیم کارنامہ اور شہید سے محبت کے اظہار کے وسائل تیار ہوئے۔ بلاشبہ دشمن کے اندازہ لگانے والے ادارے پوری طرح سے غافل ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی انقلاب کی تحریک کے حقیقی فتح تک پہنچنے کا راستہ اپنی ذمہ داریوں اور اگلے قدموں کی صحیح شناخت اور ان کی جانب بڑھنے کے لیے آئندہ اقدامات کا تعین اور مضبوط پیش قدمی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے دینی غیرت کے تحفظ پر زور دیا اور اسے مختلف اہم مواقع پر ملک کی نجات کا ذریعہ بتاتے ہوئے کہا: دینی غیرت ہی ہے جو خطروں کو موقعوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اس کی مثال مسلط کردہ جنگ اور آٹھ سالہ دفاع ہے جس کے دوران نوجوانوں، والدین، بہنوں اور بیویوں کی دینی غیرت اس بات کا سبب بنی کہ نوجوان، محاذ جنگ پر جائيں اور اس عالمی جنگ میں ایران کو فتح حاصل ہو، جس میں سبھی طاقتوں نے امام خمینی اور تحریک کو شکست دینے کے لیے ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ کر رکھا تھا۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا: حالیہ زمانے میں بھی شہید سلیمانی کی شہادت واقعی ایک تاریخی اور حیرت انگیز واقعہ بن گئي۔ کوئي سوچ نہیں سکتا تھا اور دوست بھی نہیں سوچتے تھے کہ یہ واقعہ اس طرح سے عظمت حاصل کر لے گا، خداوند متعال اسے ایسی عظمت عطا کرے گا اور عوام کے حقیقی تشخص کو سبھی کی نظروں کے سامنے لے آئے گا؛ ایرانی قوم نے شہید سلیمانی کے تابوت کے زیر سایہ اپنے تشخص اور اتحاد کا مظاہرہ کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شہید سلیمانی کے عظیم جلوس جنازہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تہران میں جلوس جنازہ، کرمان میں جلوس جنازہ، تبریز میں جلوس جنازہ اور مختلف شہروں میں جلوس جنازہ! عراق میں وہ عظیم الشان جلوس جنازہ اور اگر اس شہید کے مقدس جنازے کو شام اور لبنان لے جایا جاتا تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتا۔ اگر پاکستان لے جاتے تو وہاں بھی یہی ہوتا۔ یعنی مسلمان قوم کے اس عظیم کارنامے نے یہ دکھا دیا کہ یہ واقعہ، بڑا عظیم واقعہ تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے اصولوں اور بنیادی تعلیمات کے سلسلے میں پائي جانے والی حساسیت کو ختم کرنے کے لیے دشمن کی چال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب، دین خدا کی حکمرانی کے لیے تشکیل پائے ہیں۔ لوگوں نے اس لیے جان دی اور اس لیے اپنا خون بہایا کہ یہ کام ہو جائے، یہ انقلاب کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اور دشمن اسی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے اسی طرح کہا: ہم دشمن سے مذاکرات کریں اور لین دین کریں، یہ ایک الگ بات ہے لیکن دشمن کی منہ زوری اور اس کی باتوں کے سامنے ہم کبھی نہیں جھکے ہیں اور کبھی نہیں جھکیں گے۔ وہ اس جذبے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور اس نمایاں اصول کو غیر اہم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دشمن کی ہمہ گیر اور مختلف النوع سافٹ وار کا ایک حصہ ہے جس پر وہ مسلسل کام کر رہا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ پچھلے تینتالیس سال میں جہاں بھی کامیابی حاصل ہوئي، وہ انقلابی جذبہ رکھنے والے افراد پر بھروسہ کر کے ہی حاصل ہوئي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سیاسی، سائنسی اور سماجی ترقی و پیشرفت کو اہم امور میں مومن و انقلابی افراد کے تعاون سے مشروط بتایا اور بدعنوانی، تعیش پسندی اور غیر انقلابی نظریات کو کامیابی حاصل نہ ہونے کا موجب بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں اقوام کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے دشمنوں کے طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمیں اپنے ملک میں یہ چیزیں ہونے یا بڑھنے نہیں دینا چاہیے۔ ہمارے ملک میں صدیوں سے شیعہ اور سنی ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، برسوں سے انھوں نے ساتھ زندگي گزاری ہے اور کوئي بھی دشواری پیش نہیں آئي ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف اقوام میں اختلافات رہے ہیں، مختلف قومیتوں کے لوگوں میں ٹکراؤ بھی رہا ہے لیکن شیعہ اور سنی کے درمیان ٹکراؤ اور اختلاف کبھی نہیں رہا ہے۔

انھوں نے اس بات کے اثبات کے لیے کہا: اسلامی جمہوری حکومت ایک اسلامی حکومت ہے اور اس کا پرچم، تشیع کا پرچم ہے، لیکن جن ملکوں میں اہلسنت رہتے ہیں، ان میں اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں کبھی کبھی شدید محبت و الفت، تعاون، سہارے اور گہری دوستی کا اظہار دیکھا جاتا ہے۔ مشرقی ایشیا سے لے کر مغربی افریقا تک متعدد ملکوں میں ایسے لوگ ہیں جو اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں اور وہ شیعہ بھی نہیں ہیں، بنابریں عالم اسلام میں آج اسلامی جمہوریہ، امت اسلامی کا مظہر ہے۔انھوں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں شہید سلیمانی کی شہادت کی برسی پر عوام کی جانب سے منعقد کیے جانے والے پروگراموں کو اسی حقیقت کی عکاسی بتایا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .