۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

حوزہ/25 دسمبر 2021ء تا 6 جنوری 2022ء پاکستان میں بین المسالک ہماہنگی کے حوالے سے نہایت مفید اور بابرکت عشرہ ثابت ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے بتایا کہ مجمع جہانی برائے تقریب مذاہب اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حمید شہریاری نے ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی دعوت پر ایک وفد کے ساتھ 25 دسمبر 2021ء تا 6 جنوری 2022ء پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد میں ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان سے منتخب مجلس خبرگان رہبری کے اہل سنت رکن مولوی نذیر احمد سلامی بھی شامل تھے۔

اس دوران ڈاکٹر شہریاری نے اپنے وفد سمیت اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا خصوصی دورہ کیا۔ ان شہروں میں مختلف مسالک کے علماء کرام اور اسکالرز کے ساتھ انہوں نے اہم ملاقاتیں کیں اور ملی یکجہتی کونسل اور مختلف مسالک کی مذہبی جماعتوں کی جانب سے منعقدہ اتحاد امت پر مشتمل کانفرنسز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کی اور خطاب کیا۔ اس دوران وفد نے مختلف مسالک کے دینی مدارس کا دورہ بھی کیا اور وہاں کے مہتممین، اساتذہ کرام اور طلاب کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں بھی کیں اور اتحاد اور وحدت کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت کو مسلمانوں کے متفقہ موقف کے طور پر دہرایا۔

مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کے سربراہ نے دورۂ پاکستان کے دوران جن اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں ان میں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد علی نقوی، علامہ راجہ ناصر عباس، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، پیر نور الحق قادری، ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا عبد الخبیر آزاد، صاحبزادہ ابو الخیر زبیر، سراج الحق، لیاقت بلوچ، اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر ضیاء اللہ بخاری، مفتی راغب نعیمی، مفتی نذیر جان مجددی، اور دیگر علماء و مشایخ شامل تھے۔

کراچی کے کچھ پروگراموں میں مجھے خود بھی شرکت کا موقع ملا اس دوران مختلف مسالک کے علمائے کرام کے مابین احترام کا رویہ دیکھا، اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کا مشاہدہ کیا۔ اس دوران 3 جنوری کو شہید قاسم سلیمانی کی دوسری برسی بھی تھی، تو اس مناسبت سے اہل سنت کے ممتاز علمائے کرام اور دانشوروں کو بھی شہید قاسم سلیمانی کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے دیکھا۔ کراچی میں ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی صدر اور جمعیت علمائے اہل سنت پاکستان کے سربراہ جناب صاحبزادہ ابوالخیر زبیر، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر جناب اسد اللہ بھٹو، جمعیت علمائے اہل سنت کے مرکزی رہنما جناب قاضی احمد نورانی اور دیگر دانشوروں کو شہید قاسم سلیمانی کی جانب سے دہشتگرد تنظیم داعش کو شکست دے کر مسلمانوں کو ان کے شر سے بچانے پر خراج تحسین پیش کرتے دیکھا۔اس دورے سے یقینا ملک میں بین المسالک رواداری کو بہت فروغ ملا ہے۔

اگرچہ انہی دنوں ایک دائم الفساد مخصوص شرپسند ٹولے نے اپنے چند حواریوں کے ساتھ اسلام آباد میں قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رواداری کی ملکی فضا کو خراب کرنے کی شرانگیز کوشش بھی کی لیکن شیعہ سنی علما اور دانشوروں کے برادرانہ میل جول اور بصیرت نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ البتہ یہاں بر سبیل تذکُّر دوستوں کے سامنے ایک مسئلے کا بیان ضروری ہے کہ بعض رفقاء؛ خائفاً یا آگاہی کی خاطر اس دوران شرپسند ٹولے کی شرارت آمیز حرکتوں اور بیانات پر مشتمل پوسٹس اور کلپس پھیلانے میں سرگرم رہے جس سے غیر ضروری طور پر اس متروک ٹولے کے تخریبی خیالات اور افکار کی پبلسٹی ہوتی رہی! یہ بات تو واضح ہے کہ سوشل میڈیا کی ترقی کے موجودہ دور میں جس قسم کی سوچ، فکر اور ماحول کو معاشرے میں پھیلانا چاہیں آسانی کے ساتھ ممکن ہے اور اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر گنتی کے چند افراد کی شمولیت پر مشتمل کسی احتجاج اور مظاہرے کو بھی بڑے وسیع پیمانے پر سوشل میڈیا پر پھیلایا جائے تو افکار و اذہان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے! لہذا نفرت، شرانگیزی اور تفرقہ پھیلانے والے شدت پسندوں کی شریر حرکتوں کو وسیع پیمانے پر سوشل میڈیا پر پھیلا کر نادانستہ ان کے معاون بننے کے بجائے اسی سوشل میڈیا پر رواداری، محبت، اخوت اور اسلامی بھائی چارگی پر مشتمل خبروں اور پوسٹس کو وسیع پیمانے پر پھیلائیں تو اس سے ملک میں رواداری اور اتحاد کی فضا کو فروغ ملے گا۔

لیکن گزشتہ عشرے (25 دسمبر تا 6 جنوری) کے دوران مشاہدہ یہ رہا کہ "عالمی ادارہ برائے بین المسالک یکجہتی" کے شیعہ سنی علماء پر مشتمل وفد کے دورہ پاکستان کی وجہ سے پیدا شدہ اتحاد و وحدت کی خوبصورت فضا اور ملک پر اس کے مثبت اثرات کے مثالی ہونے کے باوجود اس کی خبروں کو سوشل میڈیا پر سرگرم دوستوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر نہیں پھیلایا گیا۔ اگرچہ پروگراموں کی میزبانی کرنے والوں نے اپنے اپنے سرکل میں کسی حد تک خبریں نشر کیں لیکن عمومی طور پر اسے سوشل میڈیا پر نشر کرنے کی اتنی بھی کوشش نظر نہیں آئی جتنی چند افراد پر مشتمل متروک الخواص شرپسند ٹولے کی حرکتوں کو نشر کرنے کی کوشش سامنے آئی! جس کی وجہ سے اتحاد بین المسلمین کا یہ خوبصورت پیغام عام پاکستانی عوام تک نہیں پہنچ سکا۔ اگر یہ پیغام اور شیعہ سنی علماء کی باہمی رفاقت اور محبت پر مشتمل مناظر عام عوام تک صحیح معنوں میں پہنچ جاتے تو اس کے مثبت اثرات بھی وسیع پیمانے پر پھیل جاتے اور ملک میں تفرقہ اور شرانگیزی پھیلانے والوں کو مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .