۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
تصاویر/ بازدید حجت الاسلام والمسلمین  نقوی از خطبای بارز پاکستان از خبرگزاری حوزه

حوزہ/ معروف اور شہرۂ آفاق خطیب جناب حجۃ الاسلام والمسلمین سید شہنشاہ حسین نقوی حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر تشریف لائے اور اپنے انٹرویو میں مختلف موضوعات پر کھل کر اپنی بات رکھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ نیوز کے نامہ نگار نے ایامِ فاطمیہ سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں قم المقدسہ تشریف لائے معروف اور شہرہ آفاق خطیب جناب حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شہنشاہ حسین نقوی سے آپ کی دینی سرگرمیوں اور حالات حاضرہ کے موضوع پر ایک انٹرویو لیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:

حوزہ: انقلابِ اسلامی کے دنیا بھر میں ایامِ فاطمیہ سلام اللہ علیہا کے انعقاد میں تاثیر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے تو مجھے حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر آنے اور اس کی فعالیت کو نزدیک سے دیکھنے پر بڑی خوشی ہوئی اور آپ سب احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ایامِ فاطمیہ سلام اللہ علیہا احیاءِ امرِ امامت کا ایک حصہ ہے اور احیاءِ امرِ امامت ہماری شرعی، اخلاقی، دینی، عقلی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ جتنا ہم احیاءِ امرِ امامت کے لئے کوشش کریں گے اتنا ہم اللہ سے قریب تر ہوں گے اور جتنا ہم اللہ سے قریب تر ہوں گے اتنا ہم کمال کی منزلیں طے کر پائیں گے۔

خطباء و ذاکرین قرآن اور اہل بیت (ع) کی سیرت و فضائل اور نہج البلاغہ کو اپنی گفتگو کا محور بنائیں

ایامِ فاطمیہ سلام اللہ علیہا پوری دنیا بھر میں بھرپور انداز سے منایا جا رہا ہے۔ اب سے چند سال پہلے ہمیں یاد ہے کہ جب ان ایام میں ایک یا دو مجالس ہی ہوا کرتی تھیں۔ تو یہ ایام نعمت ہیں، غنیمت ہیں کہ اتنے بڑے اجتماعات میں آیتِ قرآن پڑھی جاتی ہیں، اس کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی جاتی ہے، دین کی بات ہوتی ہے، اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بات ہوتی ہے، اخلاقیات کی بات ہوتی ہے اور اہلبیت علیہم السلام سے جڑنا تمام خوبیوں سے جڑنا ہے۔ ان مجالس میں اہلبیت علیہم السلام سے جوڑا جا رہا ہوتا ہے یعنی علم سے، شجاعت سے، تقویٰ سے، عزت سے، غیرت سے ہمیں جوڑا جا رہا ہوتا ہے تو جتنی کمالاتِ انسانیہ ہیں وہ ہمیں اہلبیت علیہم السلام کے توسل سے ہی نصیب ہوتی ہیں اور محرم و صفر کے علاوہ ایامِ فاطمیہ ہی وہ ایام ہیں جو ہمیں یہ سعادت اور فرصت مہیا کرتے ہیں۔

حوزہ: جیسا کہ آج کا دور میڈیا اور سائبر اسپیس کا دور ہے تو اس بنا پر حوزہ نیوز کے تعلق سے آپ کیا کہیں گے؟

حوزہ نیوز اور اس سے وابستہ مجلہ "صدائے حوزہ" میری نظر میں انتہائی ضروری کاموں میں سے ایک کام تھا چونکہ حوزہ سے ارتباط جہاں عوام کے لئے ضروری اور مفید ہے وہاں اس سے زیادہ علماء کرام اور دینی طلبہ کے لئے ضروری ہے۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں مصروف ہیں تو ہمیں حوزہ علمیہ قم اور نجف کی معلومات نہیں ہوتیں کہ وہاں کیا گزر رہی ہے، خاص طور پر حوزہ علمیہ قم جو کہ دینی علوم کا مرکز ہے تو اگر حوزہ نیوز یا صدائے حوزہ ہم تک پہنچتی ہے تو اب اپنے ملک کے کسی شہر میں بھی بیٹھ کر قم اور حوزہ کے ساتھ جڑے ہوں گے۔ اخبار اور یہاں کے مسائل سے آگاہی حاصل ہو گی، قرب بڑھے گا، معلومات میں اضافہ ہو گا تو اس مرکز کو اس طرح منظم انداز سے کام کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے واقعا بہت خوشی ہو رہی ہے۔

خطباء و ذاکرین قرآن اور اہل بیت (ع) کی سیرت و فضائل اور نہج البلاغہ کو اپنی گفتگو کا محور بنائیں

حوزہ: ملتِ تشیع کو درپیش چیلنجز کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

دنیا کو ملتِ تشیع سے سب سے بڑا مسئلہ ان کے وجود کا ہے۔ عالمی استکبار اور استکبار زدہ حکومتیں شیعہ کو برداشت نہیں کرتیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چونکہ شیعہ طولِ تاریخ میں ظلم سے ٹکرانے والا اور مظلوم کی حمایت کرنے والے نظریہ کا نام ہے، تشیع ایک تہذیب ہے، تشیع ایک ثقافت ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی مثال میں تاریخ سے دونگا کہ جب متوکل نے چن چن کر شیعہ قتل کروائے اور اس کے کارندوں نے آ کر کہا کہ ہم نے زندہ آبادیاں جلا دیں گویا ہم نے شیعہ ختم کر دئے۔ تو متوکل نے کہا کہ "شیعہ ایسے ختم نہیں ہو سکتے چونکہ ان کے امام بہتر جانتے ہیں اور ان کو طریقہ آتا ہے اپنے شیعوں کو بچانے کا"۔ کارندوں نے پھر کہا کہ "ہم نے تمام شیعہ قتل کر دئے" تو متوکل نے کہا کہ "بھرے بازار میں کسی پر بے جا ظلم کرو تو اگر کوئی اس کو بچانے نکلے تو سمجھ جانا یہ شیعہ ہے" تو اس ذریعہ سے کئی ایک افراد انہوں نے پکڑے چونکہ شیعہ کسی پر ظلم کو برداشت نہیں کرتا۔ اب دیکھ لیں فلسطین میں کتنے گھر شیعہ کے ہیں؟! لیکن سب سے زیادہ فلسطینیوں کی حمایت شیعہ کرتا ہے۔اسی طرح یمن ہو یا کشمیر، دنیا بھر میں جہاں بھی ظلم ہو جیسا کہ ابھی پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں تازہ ظالمانہ واقعہ میں اس مسیحی مظلوم کو بچانے والا بھی ایک شیعہ تھا کہ جسے پاکستان حکومت نے ہیرو قرار دیا اور اسے امتیاز سے بھی نوازا ہے۔ تو اس سے ہماری عزت میں اضافہ ہوا۔ چونکہ ہمیں نہیں پتا کہ اس بیچارے کو مارنے والے کون تھے لیکن ہمیں یہ پتا ہے کہ اسے بچانے والا "شیعہ" تھا لہذا شیعہ کا یہ چہرہ کسی بھی ظالم حکومت کو نہیں بھاتا اور ظالم طاقتیں شیعوں کو برداشت نہیں کرتیں اور وہ ہمیشہ اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جیسا کہ مقامِ معظم رہبری نے فرمایا کہ "یہ صدی تشیع کی صدی ہے" تو دنیا چاہے جتنا بھی ظلم کیوں نہ کر لے تو دیکھ لیں کہ اس صدی میں تشیع جتنی پھل پھول کر سامنے آئی ہے، حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے انقلابِ اسلامی کی صورت میں ہو یا دنیا بھر میں تشیع کی بیداری کی صورت میں تو ہم ہر صدی سے زیادہ اس صدی میں مضبوط ہوئے ہیں اور ایسا نظریہ کی بنیاد پر ہوا ہے۔ تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہمارا حق کی طرفداری کرنا اور مظلوم کی حمایت کرنا ہے جو دنیا بھر کے آمروں کو نہیں بھاتا ہے۔

خطباء و ذاکرین قرآن اور اہل بیت (ع) کی سیرت و فضائل اور نہج البلاغہ کو اپنی گفتگو کا محور بنائیں

حوزہ: دنیا بھر میں شیعہ کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

دیکھیں! اقتصاد مضبوط نہیں ہو گا تو آپ نہ صرف اچھی زندگی نہیں گزار سکیں گے بلکہ آپ بچوں کو اچھا پڑھا نہیں سکیں گے، آپ معاشرے میں نافذ الکلمہ نہیں ہو پائیں گے، آپ کچھ لوگ کے ساتھ بیٹھ نہیں پائیں گے تو جیسا کہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں " بارِکْ لَنا فِی الْخُبْزِ وَلا تَفَرَّقَ بَیْنَنا وَبَیْنَه" (کافی، کلینی، ج 5، ص 73)۔ یعنی اے اللہ ہماری روٹی میں برکت عطا فرما اور اس میں ہمارے درمیان جدائی مت ڈالنا"۔ اور اسی طرح " من لا معاش له لا معاد له" بھی ملتا ہے۔ تو ایسا ہی ہے جب مجرموں کو دیکھا جائے تو ان میں اکثر فقر و افلاس کی وجہ سے اس جرم کا مرتکب ہوتے ہیں لہذا معاش کی مضبوطی دین میں بھی انتہائی اساسی اور بنیادی بات ہے۔ شیعہ معاشی دنیا میں، تجارتی دنیا میں اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی برکت کی وجہ سے کسی سے کم اور کمزور نہیں ہے۔ جیسا کہ پاکستان کی تشکیل کے بعد اس کی معیشت کو سہارا دینے میں جس بینک نے اپنا کردار ادا کیا وہ حبیب بینک تھا جس کے مالکان الحمد للہ شیعہ ہیں اور اب بھی ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں وغیرہ۔ البتہ میری نظر میں محرومیاں بھی اگر انہیں مثبت نگاہ سے دیکھا جائے تو اللہ کی نعمت ہوا کرتی ہیں جیسا کہ ایران کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اس میں پابندیوں کے مقابلے میں اپنا پاؤں پر کھڑا ہونے سے لے کر دشمنوں کے ڈرون گرانے تک کے واقعات اور دفاعی صلاحتیں وغیرہ۔ شاید اگر اس پر پابندیاں نہ ہوتیں تو اتنی ترقی نہ کر پاتا بہرحال اگر ہم معاش میں مضبوط ہوں گے تو پوری دنیا پر اپنی خدمات اور انسانی تہذیب کو پیش کر سکتے ہیں۔

معاشی اور اقتصادی مسائل کا حل تجارت ہے!

معروف خطیب حجۃ الاسلام والمسلمین سید شہنشاہ نقوی نے حوزہ نیوز کے سوال کے جواب میں کہ "ہم ان اقتصادی مسائل کو کس طرح حل کر سکتے ہیں؟"، کہا: "میں آپ کے توسط سے دنیا بھر کے مومنین کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ لوگوں کو تجارت کی طرف راغب کریں۔ البتہ میری مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ آپ اپنے بچے کو کسی سرکاری عہدہ پر نہ لگائیں، نہیں، چونکہ ہمیں اکثریت کو دیکھتے ہوئے اپنی پالیسی بھی اسی کے مطابق بنانی ہے تو اب اگر ہماری اکثریت ان معیارات کی حامل نہیں ہے تو ہمیں اللہ تعالی نے تجارت میں معاش کو تلاش کرنے کا حکم دیا ہے تو اس لئے ہمارے لوگوں کو چاہئے کہ وہ چھوٹی سی چیز سے ہی کیوں نہ سہی، کاروبار کریں۔ کاروبار کی طرف بڑھیں گے تو آپ کے ہاتھ میں فیکٹریاں ہوں گی، آپ کے ہاتھ میں انڈٹسٹریز ہوں گی تو آپ دو ہزار مزید آدمیوں کو نوکری دے سکیں گے اور اس طرح آپ لوگوں کے گھروں میں معاش اور روٹی پہنچائیں گے۔

حوزہ: حکومتوں کی طرف سے عزاداری پر پابندیاں اور رہبرانِ دینی کی طرف سے آزادانہ عزاداری کے لئے اقدامات کو دیکھتے ہوئے آپ کیا کہیں گے؟

جب مومنین عزاداری کرتے ہیں تو وہ قرآن کی رو سے اپنا فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے " لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ" یعنی "اللہ کو اونچی آواز میں کوئی ایسی بات جو کسی کو ناگوار گزرے پسند نہیں ہے مگر جس پر ظلم ہوا ہے" تو یہاں اس کا مفہومِ منطوق یہ بنے گا کہ یعنی "جس پر ظلم ہوا ہے وہ اونچی آواز میں بات کرے تو بھلے وہ کسی کو ناگوار گزرے" تو ہم دنیا میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے بڑھ کر کسی کو مظلوم نہیں پاتے تو اب سب سے بڑے مظلوم کی حمایت کے ساتھ دنیا کے سارے مظلوموں کی حمایت شروع ہو جائے گی اور تاریخ میں ظالموں کو اپنے معاشرے سے نکال پھینکنے کا جذبہ امام حسین علیہ السلام کے ذکر سے ہی جاری ہو گا لہذا یہ قرآن اور عقل کے مطابق ہمارا ایک عمل ہے۔ تو اب اگر ہم دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک تو وہ شخص امام حسین علیہ السلام کے ذکر سے پریشان ہوتا ہے جس کی کوئی قاتلانِ امام حسین علیہ السلام سے رشتہ داری بنتی ہے اور دوسرا وہ پریشان ہوتا ہے جو نہ امام حسین علیہ السلام کو جاننا چاہتا ہے اور نہ ہی یزید کو جسے آج کی زبان میں "بے دین" کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا ہمیں لوگوں کی بات کو ماننا ہے یا اللہ کی بات کو ماننا ہے چونکہ عزاداری ہمیں اللہ کے حکم پر عمل کرنے کا موقع دیتی ہے۔

خطباء و ذاکرین قرآن اور اہل بیت (ع) کی سیرت و فضائل اور نہج البلاغہ کو اپنی گفتگو کا محور بنائیں

حوزہ: حکومتی ڈھانچوں میں اہلِ تشیع کی شمولیت سے اہلِ بیت علیہم السلام کی کس طرح پاسداری کی جا سکتی ہے؟

دیکھیں! میری نظر میں پاکستان جیسے ملک میں مذہب کی بنا پر الیکشن میں شمولیت فرقہ واریت کا سبب بنتی ہے۔ مثلا پاکستانی شیعہ حکومتی تشکیل میں اپنی ہماہنگی اور تعاون کے ساتھ اپنی خدمات اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکتے ہیں، ہم پاکستانی شہری ہیں جہاں ہر کسی کو وزیر اور گورنر بننے کا حق ہے، ہم اس ملک کے آئین اور قانون کے مطابق اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو میری نظر میں ہمیں اپنی شناخت اور تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف مسالک اور مختلف سیاسی جماعتوں کے تعاون سے ملکی سیاست میں حصہ لینا ہو گا جس سے ہم اہلِ بیت علیہم السلام کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔

حوزہ: بچوں کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ہمارے علماء کرام کی کیا کاوشیں ہیں؟

اسکول کی تعمیر ایک بہترین کام ہے، جہاں تک ممکن ہو اسکول بنائے جائیں- الحمد للہ میں خود دو اسکولز چلا رہا ہوں اور مزید دو اسکولز کی تعمیرات ہو رہی ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ اس میں اضافہ ہو۔ ہمیں اسکولز کی تعداد بڑھا کر اور اس میں بچوں کی صحیح دینی تربیت کر کے ایک اچھا، تعلیم یافتہ اور ماڈرن شہری بنانا ہے جو زمانہ کے ساتھ چل سکے اور کہیں کسی بند گلی میں نہ پہنچے تو اس کا ایک بہترین رستہ اسکول ہے۔

حوزہ: جیسا کہ رہبرِ معظم کی مدبرانہ سوچ کے نتیجے میں پوری دنیا میں اتحاد بین المسلمین میں اضافہ ہو رہا ہے تو براہِ کرم! پاکستان میں اس کے بارے میں صورتحال کی وضاحت کریں۔

پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بہت عمدہ منظر ہے۔ وہاں ایک سرکاری ادارہ "اسلامی نظریاتی کونسل" ہے جہاں تمام مسالک کے علماء کو بٹھایا جاتا ہے۔یہ ادارہ باقاعدہ ایک "پارلیمان" کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک ادارہ اٹھائیس مذہبی جماعتوں نے مل کر بنایا ہے وہ ہے "ملی یکجہتی کونسل"۔ اس کی پانچ سے چھ بڑی شخصیات ہیں جن میں ہماری بڑی شخصیت قائد ملتِ جعفریہ حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس صاحب، علامہ امین شہیدی صاحب اور اسی طرح اور شخصیات بھی ہیں۔ وہ ملی یکجہتی کونسل کے ممبر ہیں بلکہ سربراہی کرتے ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ ملی یکجہتی کونسل کی بنیاد اگر رکھی ہے تو وہ ایک شیعہ شخصیت نے رکھی ہے جن کا نام "علامہ سید ساجد علی نقوی" ہے اور اسی طرح مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد مرحوم، مولانا فضل الرحمن، مولانا ساجد میر وغیرہ جیسے بزرگان۔ اس وقت ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ صاحبزادہ عبدالخیر زبیر ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اور غیر سیاسی ادارہ ہے۔ اس کا کام باہمی ہماہنگی کا قیام ہے۔

ملی یکجہتی کونسل پاکستان اتحاد بین المسلمین کا ایک بہت بڑا اور غیر سیاسی ادارہ ہے

اسی طرح مولانا طارق جمیل صاحب کا اپنا ایک نام اور مقام ہے۔ انہوں نے اپنی حالیہ کتاب "گلدستۂ اہل بیت" سمیت اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں بھی بہت سارے کام انجام دئے ہیں۔ ہماری بھی ان سے محبت بھری ملاقاتیں ہوتی ہیں جو کہ معاشرہ میں اتحاد بین المسلمین کی بہترین مثالیں ہیں۔

حوزہ: خطباء و ذاکرین کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

خطباء و ذاکرین اور واعظین و مبلغین حضرات کی خدمت میں عرض کروں گا کہ قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی سیرت اور فضائل اور نہج البلاغہ کو اپنی گفتگو کا محور بنائیں۔ منبر کی سنگینی بڑھائیں اور مضبوط گفتگو کریں خاص طور پر فضائل کے باب میں اور جو ائمہ علیہم السلام کے اخلاقی کمالات ہیں ان کو بیان کریں، مجالس میں انتہائی خلوص اور سچائی کے ساتھ شرکت کریں، مادی دوڑ سے اپنے آپ کو بچائیں اور کبھی بھی مادیت کو خطابت سے نہ جوڑیں۔

خطباء و ذاکرین قرآن اور اہل بیت (ع) کی سیرت و فضائل اور نہج البلاغہ کو اپنی گفتگو کا محور بنائیں

حوزہ: ایک کامیاب انسان بننے کے لئے آپ کی نظر میں کیا چیز ضروری ہے؟

سب سے پہلے تو اپنے کام سے عشق ہونا چاہئے مثلا میں ایک خطیب ہوں تو میری سب سے بڑی اولویت میری خطابت اور اس کے لئے مطالعہ اور ٹائم نکال کر تیاری کرنا ہے، ہمیشہ خیال رہے کہ کہیں اس سے ناانصافی نہ ہو۔اگر اس کے سبب میں نے کئی دوسرے کام مثلا ہاسپٹل یا اسکول وغیرہ بنا لئے تو اس کی وجہ سے اپنے کام کو کم اہمیت نہ ہونے دوں وغیرہ۔ اور اسی طرح ہمیشہ احترامِ متقابل، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کا احترام اور ان کی تشویق۔کوشش کریں کہ اپنے اندر عاجزی، خاکساری، انکساری، تواضع اور حلم برقرار رہے، اپنی ذات کی نفی اور دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو متواضع سمجھنا وغیرہ میری نظر میں ایک انسان کی کامیابی کی دلیل ہیں۔

تصویری جھلکیاں: معروف خطیب حجۃ الاسلام و المسلمین شہنشاہ حسین نقوی کا حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ

آخر میں حوزہ نیوز کی طرف سے اس انٹرویو کے لئے وقت دینے پر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شہنشاہ حسین نقوی صاحب کا شکریہ ادا کیا گیا اور ان کی مزید کامیابی کے لئے دعا کی گئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .